فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
151 - 151
مسئلہ ۱۵۱: ازشہر کہنہ بریلی ۱۸محرم الحرام ۱۳۲۲ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید کے مکان کے سمت جنوب زیر دیوار خام پشتہ عرض میں ۱۴ گرہ قدیم الایام سے واسطے حفاظت دیوار کے بنا ہوا ہے اور اسی دیوار میں ایک سمت کو بدر و کہ جس میں ہمیشہ سے پانی پاخانے اور بارش مکان خود و مکان برادر خود کا نکلتا ہے۔ یہ امر ملحوظ خاطر رہے کہ متصل پشتہ دیوار قدیم مذکورہ بالا کے اراضی افتادہ ہے جس پر ہمیشہ یہ گزر گاہ عام تھی عمرو نے اس کو اپنا مقبوضہ کرکے باغیچہ لگایا ہے اب عمرو نے تھوڑا حصہ پشتہ مذکور کا غیبت میں زید کے کاٹ ڈالا اور بقیہ پشتہ موجود ہے اس میں ایک درخت ناشپاتی کا عمرو نے پشتہ مذکور کھود کر نصب کیا ہے۔ صرف غرض عمرو کی ان تصرفات سے یہ ہے کہ پشتہ مذکور کھود کر بدرو مذکور بند کرکے ایک مکان دیوار زید سے ملا کر بنایا جائے، آیا یہ تصرفات مذکورہ عمرو کے جائز ہیں یا ناجائز،حق ہیں یاناحق؟ اور پشتہ ملکیت زید میں داخل ہے یانہیں؟ اور آب جاری بدروکو عمرو بند کرسکتا ہے یانہیں؟بینواتوجروا۔
الجواب : پشتہ قبضہ ہے اور قبضہ دلیل ملک، عمرو جب تک گواہان عادل شرعی ثابت نہ کرے کہ زمین پشتہ اس کی ملک ہے اسے اس کا کھود ناجائز نہیں، اور جب کہ بدر و قدیم سے ہے اور مکان کا ڈھال اس طرف ہمیشہ سے، تو زید کےلئے اس زمین میں پانی بہانے کا حق حاصل ہے، عمرو کو ہرگز جائز نہیں کہ دیوار بنا کر بد رو بند کردے اور کسی طرح اسے پاٹ دے یا اجرائے آب سے منع کرے اس کے یہ سب تصرفات ناحق ہوں گے۔
فی الھندیۃ عن محیط الامام شمس الائمۃ السرخسی عن الامام الفقیۃ ابی اللیث عن مشائخنا قدست اسرارھم انہم استحسنوا ان المیزاب اذاکان قدیما وکان تصویب السطح الی دارہ وعلم ان التصویب قدیم ولیس بمحدث ان یجعل لہ حق التسییل ۱؎اھ وفیہا عن البدائع لواراداھل الداران یبنواحائطا لیسدوا مسیلہ اوارادوا ان ینقلو المیزاب من موضعہ او یر فعوہ او یسفلوہ لم یکن لھم ذلک ولو بنی اھل الدار بنا لیسیل میزابہ علی ظھرہ لھم ذٰلک ۱؎۔ واﷲتعالٰی اعلم۔
ہندیہ میں امام شمس الائمہ سرخسی سے انہوں نے امام فقیہ ابواللیث سے انہوں نے ہمارے مشائخ قدست اسرارھم سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے قدیم پرنالہ جس کا پانی دوسرے کی حویلی کی چھت پر گرتا ہے، اور واضح طور پر معلوم ہو کہ یہ پرنالہ قدیم ہے جدید نہیں ہےکے متعلق استحسان کے طور پر فرمایا کہ اس پرنالہ والے کو حق ہے کہ وہ اس کو بہاؤ کے لئے قائم رکھے اھ، اور اس میں بدائع سے منقول ہے کہ اگر حویلی والےاس پرنالہ کاپانی روکنے کے لیے دیوار بنانا چاہیں یا اس پرنالہ کو وہاں سے ہٹانا چاہیں یا اونچا نیچا کرنا چاہیں تو ان کو یہ اختیار نہیں ہوگا ہاں اگر حویلی والے کوئی ایسی عمارت بنائیں جس کا پرنالہ اس کی چھت پر گرے تو ان کو جائز ہوگا۔واﷲتعالٰی اعلم (ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب الدعوٰی الباب الحادی عشر نورانی کتب خانہ پشاور ۴/ ۱۰۴)
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب الدعوٰی الباب الحادی عشر نورانی کتب خانہ پشاور ۴/ ۱۰۶)
مسئلہ۱۵۲: ازریاست رامپور محلہ شاہ شور مرسلہ جناب مولٰنا مولوی محمد سلامت اﷲصاحب ۲۳/ صفر ۱۳۲۲ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے ایک مکان مع چند دکاکین منجملہ مکانات اپنے کے بتعیین ہر چہار حدود جس کے سمت شرق و سمت شمال میں دیگر مکانات واقف تحریر ہیں وقف کیا اور متولی اس کا بکر کو کردیا، بکر کی جانب سے کرایہ دار موقوفہ میں کرایہ پر رہتے ہیں اور بکر بوصولی زر کرایہ مصرف خیرکرتا ہے ایک جزو مکان منجملہ موقوفہ کے کرایہ پر عمرو کو بکر متولی نے بوساطت خالد کے دیا اس نے سات مہینے کا کرایہ ادا نہ کیا تو بکر نے دعوٰی تخلیہ کاکیا، عمر ومنکر ہو ا او ر ظاہر کیا کہ زینب و کلثوم سے کرایہ پر لیا ہے، عدالت نے حکماً زینب وکلثوم کو بھی بکر متولی سے مدعا علیہما بنوایا۔ زینب وکلثوم کا بیان یہ ہے کہ یہ مکان متنازعہ متروکہ محسن پدر واقف کا ہے، بعد فوت محسن مذکور کے ایک زید او دوسرا حسن پدر مایاں دوابن اور مسماۃ ہندہ زوجہ سہ کس وارث مع الحصرر ہے، اول حسن فوت ہوا اسکے وارث زید اخ، اور ہندہ ام و مایاں دو بنات پھر ہندہ فوت ہوئی زید پسر اس کا وارث رہا، شیئ متروکہ وقف مشاع ہوا کہ وہ کسی طرح جائز نہیں، اورعمرو ہمارا کرایہ دار ہے، بجواب اس کے متولی نے لکھا کہ مورث مدعا علیہما مقربر ملکیت واقف رہا ہے اور مدعا علیہما کو بھی وقف اور دیگر مکانات واقف تسلیم ہیں، زینب و کلثوم سے ثبوت طلب ہوا مدعا علیہما نے ایک بیعنامہ اسمی محسن پیش کیا جو مدعی کو تسلیم نہیں ہے اور جو گواہ پیش کئے ہیں وہ سماعی ہیں،۔ مدعی نے ثبوت تسلیم وقف وملکیت وقف جو مکانات جانب شرق و شمال بعد فوت واقف کے و عزیز عم و وارث بالحصر واقف سے مدعا علیہما نے خرید ی ہیں جس کے بیع نامہ کے حد غرب میں مکان موقوفہ تحریر ہے پیش کیا اور گواہ جن کو عدالت نے بھی ثقات تسلیم کیا ہے بر ثبوت دادن مکان متنازعہ پر کرایہ بہ عمرو واقرار حسن پدر مدعا علیہما بملکیت واقف قبل از وقف سماعت کرائے ہیں جس کے بیان سے ثبوت بخوبی ہے جب کہ مکانات ملحقہ موقوفہ مدعا علیہما نے بہ تسلیم ملک واقف و تسلیم وقف حسب صراحت صدر خریدے ہیں جن کابیع نامہ متولی نے پیش کیا ہے اور گواہان متولی سے کرایہ پر دینا اور اقرار پدر مدعا علیہما بملک وقف ثابت ہے اور کاغذ وقف جو مسلمہ مدعا علیہما ہے وہ بھی موجود ہے ایسی حالت میں عدالت بموجب مسائل شرعی بجواز تخلیہ مکان کا کرایہ دار سے کرائے گی یا نہیں؟ بینواتوجروا۔
الجواب : صورت مستفسرہ میں عمرو ومستاجر کی بدنیتی اور اس سے وقف کوضرر پہنچنے کا اندیشہ صاف ظاہر ہے یہاں تک کہ اس نے اپنے بیان سے یہ چاہا کہ سرے سے وقف ہی کو معدوم کرے، لاجرم حاکم پر فرض قطعی ہے کہ فوراً فوراً بلا توقف مکان اس سے خالی کراکر متوفی کو سپرد کرے اگرچہ ہنوز مدت اجارہ کتنی ہی باقی ہو کہ ایسی صورت میں فسخ اجارہ لازم ہے۔
الاسعاف فی احکام الاوقاف میں ہے:
لوتبین ان المستاجر یخاف منہ علی رقبۃ الوقف یفسخ القاضی الاجارۃ ویخرجہ من یدہ ۱؎۔
اگر مستاجر سے یہ خطرہ واضح ہو کہ وہ وقف جائداد کو نقصان پہنچائے گا تو قاضی اس اجارہ کو فسخ کردے اور اس کے قبضہ کو ختم کردے۔(ت)
(۱؎ الاسعاف فی احکام الاوقاف)
بلکہ علماء نے تصریح فرمائی ہے کہ اگر اجرت مثل زائد ہوجائے اور مستاجر کرایہ بڑھانے سے انکار کرے تو اجارہ فسخ کردیا جائیگا نہ کہ جب اصلاً کرایہ دینا ہی نہ چاہے۔
درمختار میں قبیل مایجوز من الاجارۃ ہے:
وان کانت لزیادۃ اجر المثل فالمختار قبولھا فیفسخھا المتوفی فان امتنع فالقاضی ثم یؤجرھا ممن یزاد۲؎۔
اگر زائد کرایہ ملتا ہو تو دوسرے کو کرایہ پر دینا جائز اور مختار ہے، متولی پہلے اجارہ کو فسخ کردے اگر وہ نہ کرے تو قاضی فسخ کرکے زائد دینے والے کو اجارہ پر دے۔(ت)
(درمختار کتاب الاجارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۱۷۱)
غرض یہاں حکم اس قدر تھا کہ اجارہ فسخ اور تخلیہ لازم، اس سے زائد جو کارروائیاں اس مقدمے میں ہوئیں کہ عمرو کے مجرد بیان پر زینب و کلثوم کو اس دعوٰی کا مدعا علیہ بنوایا گیا ان کا جواب داخل ہوا متولی سے اس کا رد لیا گیا سب محض لغو وفضول و بے معنی ہیں ان کی طرف توجہ اصلا روانہ تھی، نہ ان کے سبب متولی کو ڈگری دینے میں ایک منٹ کی تاخیر حلال تھی، نہ ہے۔ مدعا علیہ کا صرف زبانی بیان کہ میں نے فلاں سے اجارہ لیا ہے اصلاً قابل سماعت نہیں ہوتا، نہ اس کے سبب خصومت اس سے چھوڑ کر فلاں کی طرف متعدی ہوسکتی ہے بلکہ وہی مدعا علیہ رہتا ہے اور جب مدعی اس پراقامت بینہ کردے جیساکہ یہاں واقع ہوا فوراً مقدمہ اپنی نہایت کو پہنچتا اور حاکم پر فرض ہوتا ہے کہ مدعی کو ڈگری دے۔
درمختار میں ہے:
قال ذوالید ھذا المدعی بہ منقولا کان او عقار ااودعنیہ او اعارنیہ او اٰجر نیہ او رھننیہ زیدالغائب وبرھن علی ماذکر، دفعت خصومۃ المدعی للملک المطلق۱؎۔ (ملخصاً)
قابض نے کہا کہ مدعی جس چیز کا دعوٰی کر رہا ہے اس کو میرے پاس زید نے جو غیر حاضر ہے نے امانت رکھا یا کہے اس نے عاریتاً یا اجرت پر دیا یا رہن رکھا ہے وہ چیز منقولہ ہو یا غیر منقولہ، او مدعی نے گواہی پیش کی ہو تو اس چیزمیں مدعی کا دعوٰی ملک مطلق کے طور پر ثابت رہے گا (ملخصاً)۔(ت)
(۱؎ درمختار کتاب الدعوٰی فصل فی دفع الدعوٰی مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۱۲۳)
ہندیہ میں ہے:
وان لم یقم البینۃ فھو خصم فی ظاہر الروایۃ عن اصحابنا رحمھم اﷲ تعالٰی کذافی المحیط ۲؎۔
اگرچہ مدعی گواہی پیش نہ کرے تب بھی ظاہر روایت کے مطابق وہ فریق ہوگا جیسا کہ ہمارے اصحاب سے مروی ہے، محیط میں یوں ہے(ت)
(۲؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب الدعوٰی الباب السادس نورانی کتب خانہ پشاور ۴/ ۴۴)
اس فلاں کو (کہ زینب وکلثوم ہیں) مدعا علیہ بنانا اور اس کے لئے مقدمے کو روکنا صراحۃً شرع مطہر کے خلاف و گناہ ہوا۔
غمز العیون میں ہے:
یجب علی القاضی الحکم بمقتضی الدعوی عند قیام البینۃ علی سبیل الفور فلو اخر اثم لترکہ الواجب وھو قضاؤہ بھا ویعزل ویعزر کما فی جامع الفصولین ۳؎۔
دعوٰی پر جب گواہی ہوگئی تو قاضی پر لازم ہے کہ وہ فوراً دعوٰی کے مطابق فیصلہ دے اگر وہ تاخیر کرے تو گنہگار ہوگا او وہ قابل معزول و تعزیر ہوگا جیسا کہ جامع الفصولین میں ہے۔(ت)
(۳؎ غمز عیون البصائر مع الاشباہ والنظائر الفن الثانی کتاب القضاء ادارۃ القرآن کراچی ۱/ ۳۶۰)
طرہ یہ کہ زینب وکلثوم اس دعوٰی تخلیہ کی مدعا علیہ بن نہیں سکتیں کہ مکان ان کے قبضہ میں نہیں، غیر قابض سے تخلیہ چاہنا کیا معنی، نہ غیر ذی الید پر غیر فعل کا دعوٰی ہوسکے۔
اشباہ میں ہے:
الدعوی علی غیر ذی الید لا تسمع الا فی دعوٰی الغصب فی المنقول واما فی الدور والعقار فلا فرق کما فی الیتیمیۃ ۱؎۔
غیر قابض پر دعوٰی قابل سماعت نہ ہوگا الایہ کہ دعوٰی منقولہ چیز کے غصب کا ہو، لیکن مکانات اور پراپرٹی میں کسی طرح بھی قابل سماعت نہ ہوگا جیسا کہ یتیمیہ میں ہے۔(ت)
(۱؎ الاشباہ والنظائر الفن الثانی کتاب القضاء ادارۃ القرآن کراچی ۱/ ۳۸۹)
اور جب سرے سے زینب و کلثوم اس دعوٰی کے احاطے میں آہی نہ سکیں تو ان کا جواب ان کی گواہیاں اور جو کچھ کارروائیاں اس پر ہوئیں اس وجہ پر سب محض مہمل و پادر ہوا ہیں کہ دفع دعوٰی صحیحہ پر مرتب ہوتا ہے جب دعوٰی مفقود تودفع مردود،
وھذاکلہ ظاہر غیر مستنکر ولا محجود
(یہ تمام بیان ظاہر ہے جس کا انکار نہیں ہوسکتا۔ (ت) اس کے بعد ان خللوں پر بحث کی حاجت نہیں جو زینب و کلثوم کے لئے بے حاصل ثبوتوں میں واضح طور پر موجود ہیں اور اگر کچھ نہ ہوتا تو شہادت ملک کا سماعی ہوتا اور محض کاغذ بیع نامہ بے شہادت کافیہ سے استدلال کرنا ہی ان کے رد مزعومات کو بس تھا خصوصاً جبکہ انکے مورث کا اقرا رثابت ہے کہ مکان مذکور پیش از وقف ملک واقف نہ تھا،
درمختار میں ہے:
لایشھد احدبما لم یعانیہ بالاجماع الافی عشرۃ ۲؎الخ ولیس ھذامنھا۔
بالاجماع بغیر دیکھے کوئی بھی شہادت نہیں دے سکتا ماسوائے دس چیزوں کے الخ۔ اور یہ ان میں سے نہیں ہے۔(ت)
(۲؎ درمختار کتاب الشہادات مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۹۲)
قاضی صرف حجت کی بناء پر فیصلہ دے گا اور حجت صرف شہادت، اقرار اور قسم سے انکار ہے لیکن رسید تو وہ حجت بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔(ت)
(۳؎ العقود الدریۃ کتاب الدعوٰی ارگ بازار قندھار افغانستان ۲/ ۱۹ )
(فتاوی خیریہ باب خلل المحاضر والسجلات دارالمعرفۃ بیروت ۲/ ۱۹و۲۳ )
(الاشباہ والنظائر الفن الثانی کتاب القضاء والشہادات ادارۃ القرآن کراچی ۱/ ۳۳۸)
(فتاوٰی قاضیخاں کتاب الوقف فصل فی دعوٰی الوقف الخ نولکشور لکھنؤ ۴/ ۷۴۲)
جامع الفصولین فصل عاشر میں ہے:
ادعی ارثافبر ھن المدعی علیہ ان مورثہ اقر ان المدعی لیس لہ او ھو ملک المدعی علیہ کان دفعا۱؎۔
ایک نے وراثت کا دعوٰی کیا تو مدعا علیہ نے گواہی پیش کردی کہ اس شخص کے مورث نے اقرار کیا تھا کہ یہ چیز میری نہیں ہے یایہ کہ یہ چیز مدعا علیہ کی ملکیت ہے تو اس شہادت سے دعوٰی کا دفاع ہوجائےگا۔(ت)
(۱؎ جامع الفصولین الفصل العاشر اسلامی کتب خانہ کراچی ۱/ ۱۵۰)
کلام یہاں تطویل ہے اور اسی قدر میں کفایت۔ واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم وحکمہ عزشانہ احکم۔
نوٹ
اٹھارہویں جلد کتاب القضاء والدعوی پر ختم ہوئی
انیسویں جلد کاآغاز کتاب الوکالۃ سے ہوگا۔