Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
150 - 151
مسئلہ۱۵۰: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ لطافت حسین نے شمس النساء سے ایک لاکھ اسی ہزار ٹکے کا دینار سرخ پر جس کے سکہ وقت سے پانچ ہزار چھ سو بیس روپے ہوتے ہیں نکاح کیا، ۲۳ سال کے بعد اپنی ہمشیرہ مصاحب جان کے پاس ایک جزو مکان رہن رکھ کر دو ہزار دو سواکتالیس روپے قرض لئے ارو رہن نامہ میں لکھا کہ مکان اپنے قبضہ سے نکال کر قبضہ مرتہنہ میں دیا حالانکہ مکان ایک لمحہ کو بھی خالی نہ کیا، دو سال کے بعد لطافت حسین نے نومبر ۷۷ ؁ء میں دو سو کے قرضے اپنے ذمے چھوڑ کر وفات پائی، جائداد حسب رواج برادری کے متوفی کی اولاد ذکور نہ ہوتو زوجہ قابض و متصرف ہوتی ہے قبضہ شمس النساء میں آئی، اب مصاحب جان اپنے دین کے مدعی ہے اور زوجہ دین مہر کے مطالبہ میں اپنے قبضہ ورواج مذکور سے استناد کرتی ہے، اس صورت میں کس کا دین شرعاً مقدم رہے گا ارو دین مہر کو دیگر دیون پر ترجیح ہے یانہیں اور شمس النساء کے بر بنائے رواج مذکور قبض وتصرف ہونا یا اس کا دین دین مصاحب جان سے پیشتر کا ہونا دعوٰی مصاحب جان کا مانع سماعت ہے یانہیں؟بینواتوجروا۔
الجواب: اگر مصاحب جان نے رہن مع القبض کا دعوٰی کیا یعنی دعوی اس بیان سے واقع ہواکہ وہ جز و مکان لطافت حسین نے میرے پاس رہن رکہا اور مجھے قبضہ دلادیا تھا پھر ثبوت میں لطافت حسین کے اس اقرار قبضہ پر جو رہن نامہ مذکور ہے گواہ شرعی دے دے اگرچہ خاص قبضہ کا ثبوت  نہ دے سکے تو اس کا دعوٰی بیشک ثابت ہے، رہن صحیح وتام و نافذ مانا جائے گا اور مکان پر اس کا قبضہ رہنا مرتہنہ کی طرف سے بطور عاریت خیال کریں گے۔
علامہ شامی قد س سرہ السامی عقود الدریہ فی تنقیح الفتاوٰی الحامدیہ میں فرماتے ہیں:
رہن دارہ واعترف بالقبض الاانہ لم یتصل بہ القبض فاذا تصادقا علی القبض والا قباض یؤخذ باقرارہ من رہن جواہر الفتاوی وفیہا من الباب الخامس رجل رھن دارہ والراھن متصرف فیہ حتی مات ثم اختلاف المرتھن وورثہ الراہن انہ کان مقبوضا ام لافان اقام المرتہن البینۃ علی اقرار الراہن بالرھن والتسلیم یحکم بصحۃ الرھن ودعوی فک الرھن لا تقبل بظاھر ماکان فی یدالراہن لانہ لما ھکم علیہ باقرارہ بالرھن حمل علی ان الید کانت یدالعاریۃ اھ ۱؎۔
مکان رہن رکھا اور قبضہ دینے کا اعتراف کیا مگر عملاً قبضہ نہ ہوا توجب دونوں فریق قبضہ لینے اور دینے پر متفق ہیں تو راہن کے اقرار کو لیا جائے گا، ایک شخص نے مکان رہن رکھا اور خود راہن ہی اس میں اپنی موت تک تصرف کرتا رہا پھر مرتہن اور راہن کے ورثاء میں قبضہ کے متعلق اختلاف ہوکہ مرتہن کا قبضہ تھا یا نہیں، اگر مرتہن نے راہن کے اس اقرار کہ اس نے رہن رکھا اور قبضہ دے دیا پر گواہ پیش کردئے تو اس رہن کی صحت کا حکم کیا جائیگا اور رہن کے قبضہ کی بنا پر فساد رہن کا دعوٰی درست نہ ہوگا کیونکہ جب اس کے اقرار کی بنا پر فیصلہ ہوا ہے تو اس کے قبضہ کو عاریتاً متصور کیا جائیگا اھ (ت)
(۱؎ العقود الدریہ     کتاب الراہن     ارگ بازار قندھار افغانستان    ۲/ ۲۵۹)
پس رہن مرہون میں مصاحب جان کا استحقاق شمس النساء وغیرہا سب قرضخواہوں پر مقدم ہے پہلے اسی کا قرض اس سے ادا کریں گے اگر کچھ بچا مہر وغیرہ دیون کی طرف مصروف ہوگا ورنہ نہیں۔
عالمگیریہ میں ہے:
اذا مات الراہن وعلیہ دیون کثیرۃ کان المرتھن احق بالرہن کذافی المحیط۲؎۔
راہن نے اپنی موت پر اپنے ذمہ کثیر دیون (قرضے) چھوڑے تو مرتہن اس رہن کا حقدار ہوگا جیساکہ محیط میں ہے(ت)
(۲؎ فتاوٰی ہندیہ     کتاب الرہن     الباب الخامس     نورانی کتب خانہ پشاور    ۵/ ۴۵۶)
اسی میں ہے کہ:
فلیستوفی منہ دینہ فما فضل یکون لسائر الغرماء والورثۃ۳؎۔
مرتہن اپنی رقوم وصول کرلے باقی زائد دوسرے حق داروں اور ورثاء کا ہوگا۔(ت)
 (۳؎ فتاوٰی ہندیہ   کتاب الرہن   الباب الاول     الفصل الاول     نورانی کتب خانہ پشاور    ۴/ ۴۳۳)
اور یہاں مرہون کا مشاع یعنی جزء غیر منقسم ہونا اس حکم کا مانع نہ ہوگا کہ رہن مشاع مذہب صحیح پر فاسد ہے اور رہن میں فاسد و صحیح کا حکم واحدہے۔
درمختار میں ہے:
لایصح رھن مشاع لعدم کونہ ممیزا ثم الصحیح انہ فاسد۱؎۔
غیر منقسم چیز کا رہن صحیح نہیں کیونکہ رہن ممتاز نہیں ہے پھر صحیح قول پر یہ رہن فاسد ہے۔(ت)
 (۱؎ درمختار     کتاب الرھن     باب مایجوز ارتہانہ الخ    مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۲۶۸)
اسی میں ہے:
کل حکم عرف فی الرھن الصحیح فھو الحکم فی الرھن الفاسد کما فی العمادیۃ وفی کل موضع کان الرھن مالا والمقابل بہ مضمونا الاانہ فقد بعض شرائط الجواز کرھن المشاع ینعقد الرھن لوجود شرط الانعقاد، ولکن بصفۃ الفساد کالفاسد من البیوع فمن مات ولہ غرماء فالمرتھن احق بہ کما فی الرھن الصحیح ۲؎اھ ملخصین۔
جو حکم صحیح رہن میں معلوم ہواوہی حکم فاسد رہن میں جاری ہوگا جیساکہ عمادیہ میں ہے اور ہر وہ صورت جس میں رہن مال ہو اور اس کا مقابل مضمون چیز ہو مگر وہاں جوا ز کے بعض شرائط مفقود ہوں جیسے غیر منقسم کا جزء کا رہن رکھا جائے تو رہن منعقد ہوجائےگا کیونکہ انعقاد کی شرط پائی گئی ہے لیکن فاسد صفت کی وجہ سے بیع فاسد کی طرح ہوگی تو راہن اگر فوت ہوجائے اور کئی قرض خواہ ہوں تو مرتہن اس رہن کا زیادہ حقدار ہوگا جیساکہ صحیح رہن میں ہوتا ہے اھ دونوں عبارتیں ملخص ہیں۔(ت)
 (۲؎ درمختار     کتاب الرھن    فصل فی مسائل متفرقۃ   مطبع مجتبائی دہلی    ۲/ ۲۷۹)
اور اگر مصاحب جان نے صرف رہن کا دعوٰی کیا، نہ قبضہ پانے کا، تو دعوٰی رہن اصلاً مسموع نہ ہوگا اگرچہ اس کے گواہوں نے لطافت حسین کے اقرارمذکور بلکہ خود معاینہ قبضہ پر گواہی دی ہو۔
عقود الدریہ میں ہے:
ان ادعی المرتھن الرھن مع القبض یقبل برھانہ علیہما وان ادعی الرھن فقط لایقبل لان مجرد العقد لیس بلازم ولا تسمع البینۃ اذا اشھد وابمعاینۃ القبض او اقرار الراھن بہ لانہم شھدوابشیئ زائد علی الدعوی لان فرض المسئلۃ ان المرتہن لم یذکر القبض فی دعواہ وایضا فان الصحۃ الدعوی شرط صحۃ الشھادۃ اھ ۱؎ ملخصاً۔
مرتہن اگر رہن بمع قبضہ کا دعوٰی کرے تو ا س پر شہادت قبول کی جائے گی، اورا گر صرف رہن کا دعوی کرے تو اس پر شہادت مقبول نہ ہوگی کیونکہ محض عقد لازم نہیں ہوتا اور اگر گواہوں نے قبضہ کے معاینہ  کی شہادت دی یا رہن کے اقرار کی کہ میں نے دیا ہے، کی شہادت دی تو یہ گواہی قابل قبول نہ ہوگی کیونکہ یہ زائد چیز کی شہادت ہےاس لئے کہ صورت مسئلہ یہ ہے کہ مرتہن نے اپنے دعوٰی میں قبضہ کو ذکر نہ کیا ہو اور نیز اس لئے کہ دعوٰی کا صحیح ہونا شہادت کی صحت کےلئے شرط ہے اھ ملخصا۔(ت)
(۱؎ العقود الدریۃ     کتاب الرہن     ارگ بازار قندھار افغانستان     ۲/ ۲۵۹)
اور اگر دعوٰی میں قبضہ پالینے کا ذکر تو کیا مگر حصول قبض یا لطافت حسین کے اقرارمذکور پر گواہ نہ دے سکے تو بھی اس کا استحقاق مرتہنانہ نہ ثابت ہوگا اور اب مکان کا خالی نہ کیا جانا بیشک اس کے دعوٰی رہن پر ضرر کا اثر ڈالے گا کہ رہن بے قبضہ تمام نہیں ہوتا۔
ردالمحتار میں عنایہ سے ہے:
القبض شرط تمام العقد۲؎
 (رہن میں قبضہ عقد کے تمام ہونے کے لئے شرط ہے۔ت) تو قبل قبضہ مرتہن کا حق مرہون میں حاصل نہ ہوا۔
 (۲؎ ردالمحتار بحوالہ العنایۃ     کتاب الرہن    باب مایجوز ارتہانہ الخ     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۵/ ۳۱۵)
عالمگیریہ میں ہے:
مالم یقبضہ المرتہن لایثبت حکم ید الرھن لہ ۳؎۔
جب تک مرتہن اس پر قبضہ نہ کر لے اس وقت تک رہن کو اس کا مقبوض نہیں قرار دیا جاسکتا (ت)
 (۳؎ فتاوٰی ہندیہ     کتاب الرہن     الباب الثانی عشر    نورانی کتب خانہ پشاور    ۵/ ۴۹۲)
ولہذا راہن کو قبل تسلیم اختیار رہتا ہے کہ رہن سے رجوع کرجائے اور مرتہن کو مرہون پر قبضہ نہ دے۔
درمختار میں ہے:
ینعقد بایجاب و قبول حال کونہ غیر لازم فللراھن تسلیمہ والرجوع عنہ کما فی الھبۃ ۴؎۔
رہن کا انعقاد ایجاب و قبول سے ہوتا ہے جب کہ وہ ابھی غیر لازم ہوتا ہے تو راہن کو ابھی حق ہے کہ وہ مرتہن کو سونپ دے یا رجوع کرلے جیسا کہ ہبہ کا حکم ہے۔(ت)
(۴؎ درمختار     کتاب الرہن   مطبع مجتبائی دہلی  ۲/ ۲۶۵)
اور صرف دستاویز میں لطافت حسین کا اقرار مزبور لکھا ہونا ثبوت کےلئے کافی نہ ہوگا جب تک اس اقرار پر گواہان شرعی نہ پیش کرے۔
فتاوٰی خیریہ میں ہے:
سئل فی رجل مات مدیونا لغرماء متعدد ین وقد کان رہن بدین احدھم مشاعا واظہر المرتھن محضرا وفیہ الحکم بصحتہ ولزومہ ھل یختص المرتھن بہ فی وفاء دینہ ام لااجاب المقر  عند علماء الحنفیۃ انہ لا اعتبار بمجرد الخط ولا التفات الیہ اذحجج الشرعیۃ ثلثۃ وھی البینۃ والاقرار والنکول کما صرح بہ فی اقرار الخانیۃ فلا اعتبار بمجرد المحضر المذکور ولا التفات الیہ الا اذا ثبت مضمونہ بالوجہ الشرعی اعنی باحدی الحجج الشرعیۃ المشار الیہا۱؎(ملتقطا)
ایک ایسے شخص کے متعلق سوال کیا گیا جومقروض تھا اس کے متعدد لوگ قرض خو رتھے جبکہ ان میں سے ایک کا قرض غیر منقسم رہن کے بدلے میں تھا تو اس مرتہن نے محضر نامہ دکھایا جس میں رہن کی صحت اور اس کے لزوم کا حکم تھا تو کیا اس مرتہن کو حق ہے کہ رہن کو اپنے قرض کے عوض اپنے لئے مختص کرلے یا اس کو یہ حق نہیں، تو جواب دیا کہ علمائے احناف کے ہاں یہ بات طے شدہ ہے کہ محض خط قابل اعتبار اور قابل التفات نہیں ہے کیونکہ شرعی حجت تین چیزیں ہیں: گواہی، اقرار اور قسم سے انکار جیسا کہ خانیہ میں اقرار کی بحث میں تصریح ہے لہذا مذکور محضر نامہ اعتبار والتفات کے قابل نہیں جب تک اس کے مضمون کو کسی شرعی دلیل سے ثابت نہ کردیا جائے (ملتقطا)۔(ت)
(۱؎ فتاوٰی خیریہ     کتاب ادب القاضی    دارالمعرفۃ بیروت    ۲/ ۱۲)
ان دونوں صورتوں میں مصاحب جان کا دین مثل باقی دیون کے سمجھا جائے گا اور اس کو استحقاق تقدم شمس النساء پر نہ ہوگا کہ ذریعہ تقدم استحقاق مرتہن ہی تھا اور وہ پایہ ثبوت کو نہ پہنچا ، مگر جس طرح شمس النساء پر ترجیح نہیں شمس النساء کو بھی اس پر کوئی تفصیل نہیں کہ آخر جائداد و مہر میں بھی رہن نہ تھی اور مصاحب جان کا دین بھی دین صحت سے ہے اور مہر کو کسی دین صحت پر تقدم نہیں کہ وہ بھی مثل سائردیون کے ایک دین ہے، 

درمختارکے باب نکاح الرقیق میں ہے:
وساوت المرأۃ الغرماء فی مھر مثلھا۲؎۔
 بیوی اپنے مہر مثل کی حد تک دیگر قرضخواہوں کے مساوی ہے۔(ت)
(۲؎ درمختار     کتاب النکاح الرقیق    مطبع مجتبائی دہلی     ۱/ ۲۰۵)
ردالمحتار میں ہے:
فیہ تصریح بان المھر کسائرالدیون۱؎۔
اس میں یہ تصریح ہے کہ مہر بھی دوسرے قرضوں کی طرح ہے۔(ت)
 (۱؎ ردالمحتار     باب النکاح الرقیق     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۲/ ۳۷۵)
مغنی المستفتی عن سوال المفتی میں ہے:
سئل فی رجل مات عن زوجتہ وعلیہ دیون لجماعۃ استدان فی صحتہ  فھل تکون ھی اسوۃ الغرماء اجاب نعم ۲؎اھ ملخصاً۔
ایسے شخص کے متعلق سوال کیا گیا جس نے متعدد قرضخواہ چھوڑے اور فوت ہونے پر بیوی کا مہر بھی اسکے ذمہ تھا جبکہ دیگر قرضے اس نے زندگی اور صحت میں لئے تھے تو بیوی دیگر قرضخواہوں کے مساوی ہوگی یانہیں، تو انہوں نے جواب دیا کہ ہاں مساوی ہوگی اھ ملخصا(ت)
(۲؎ مغنی المستفتی عن سوال المفتی)
نہ کسی دین کا پہلے ہونا دوسرے پر باعث رجحان ہوسکے، نہ ایک قرضخواہ کے بطور خود جائداد مدیون پر قبضہ کرلینا دوسرے دائنوں کا حق ساقط کرسکے، نہ برادری کا وہ اختراعی رواج حقوق شرعیہ کا مزاحم بن سکے۔ یہ سب امور واضحات جلیلہ ہیں جنہیں ادنی فہم وتمیز رکھنے والا آفتاب کے مثل ظاہر وروشن جانتا ہے۔ پس اس تقدیر پر تمام متروکہ سے بعد صرف تجہیز وتکفین مصاحب جان کا قرض اور شمس النساء کامہر اور ان کے سوا اور جو دین ذمہ لطافت حسین ہو سب ایک ساتھ حصہ رسد ادا کئے جائیں گے ایک کو دوسرے پرترجیح ہو گی مثلا قرض کے لطافت حسین پر بس یہی دو دین ہیں اور جائداد ان کو کافی خواہ ان سے زائد ہے تو دونوں دائنہ پورا پورا اپنااپنا دین وصول کرلیں ورنہ قیمت ترکہ کو ۷۸۶۱ سہام پر منقسم کرکے ۵۶۲۰سہام شمس النساء اور ۲۲۴۱ سہام مصاحب جان کو دیں کہ دونوں اس نسبت سے اپنے اپنے حق کو پہنچیں۔ بالجملہ حق شمس النساء کو بجہت مہریت خواہ تقدم و قوع خواہ رواج برادری، اصلاً تقدم نہیں ہوسکتا۔ واﷲتعالٰی اعلم۔
Flag Counter