Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
15 - 151
الجواب

دعوی مدعیان ہر گز قابل سماعت نہیں، نہ کوئی ٹکڑا جائداد کا موصی لہا سے انہیں دلایا جائے نہ اب اس وصیت کے نفاذ ولزوم میں کلام ہوسکے، ہندہ اور ورثائے ہندہ کا اس مدت مدید تک سکوت اور باوصف ان واقعات مختلفہ وگیروداد و کشمکش سالہاسال وتصرفات وبیع وانتقال کے مطلق تعرض نہ کرنا وقرینہ واضحہ ہے کہ یہ دعوٰی ان کا محض مکروتزویروتلبیس وفریب ہے، ہمارے ائمہ اصحاب متون وشروح و فتاوی تصریح فرماتے ہیں کہ جب ایک جائداد میں کوئی شخص ایک مدت تک خود تصرف مالکانہ کرتے رہے یا وہ بیع خواہ ہبہ خواہ اور طرح سے دوسرے کو تملیک کردے اور وہ دوسرا ایک زمانہ تک اس میں متصرف رہے پھر ایک مدعی عاقل بالغ جو اسی شہر میں موجود اور ان حالات پر مطلع ہوا ور اب تک ارجاع دعوی سے کوئی عذر معقول قابل قبول اسے مانع نہ ہو، دعوٰی کرنے لگے یہ جائداد میری ملک ہے اب وہ دعوٰی بجہت میراث ہو خواہ کسی دوسرے سبب سے ہرگز نہ سناجائے گا اور اس کا ان تصرفات کے وقت خاموش رہنا اپنی جہت اور متصرف کے مالکیت کا صریح اقرار قرار پائے گا۔
فی فتاوی العلامۃ المرحوم سیدی محمد بن عبداﷲ الغزی التمر تاشی مصنف تنویر الابصار سئل عن رجل لہ بیت فی دار یسکنہ مدۃ مزیدۃ علی ثلث سنوات ولہ جار بجانبہ والرجل المذکور یتصرف فی البیت المزبورۃ ھدما وعمارۃ مع اطلاع جارہ علی تصرفہ فی المدۃ المذکورۃ فھل اذا ادعی البیت اوبعضہ بعد ماذکر من تصرف الرجل المذکور فی البیت ھدماوبناء فی المدۃ المذکورۃ تسمع دعواہ ام لا،اجاب لاتسمع دعواہ علی ماعلیہ الفتوی انتہی۱؎،
سیدی محمد بن عبداﷲ الغزی مرحوم مصنف تنویر الابصار کے فتوٰی میں ہے آپ سے ایسے شخص کے متعلق سوال ہو ا جس کا ایک حویلی میں مکان ہے وہ اس میں تین سال سے زائد مدت سے رہائش پذیر چلا آرہا ہے اور وہ پڑوس والے کے علم اور اطلاع کے باوجود اس مکان میں گرانے بنانے کے تصرفات مدت مذکورہ میں کرتا چلا آرہا ہے، تو مدت مذکورہ میں تصرفات مذکورہ کے باوجود پڑوسی اس کے کل یا بعض مکان پر بعد میں دعوی کرے تو کیا یہ دعوی مسموع ہوگا یانہیں، تو انہوں نے جواب میں فرمایا نہیں سنا جائے گا، اسی پرفتوی ہے اھ،
 (۱؎ العقود الدریۃ     بحوالہ فتاوٰی غزی     کتاب الدعوٰی     ارگ بازار قندھار افغانستان    ۲ /۴)
وفی فتاوی الفاضل المحقق خیر الملۃ والدین الرملی رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ سئل فی رجل اشتری من اٰخر ستۃ اذرع من ارض بیدالبائع وبنی بہا بناء و تصرف فیہ ثم بعدہ ادعی رجل علی البانی المذکوران لہ ثلثۃ قراریط ونصف قیراط فی المبیع المذکور ارثا عن امہ ویریدھدمہ والحال ان امہ تنظرہ یتصرف بالبناء والا نتفاع المذکورین ھل لہ ذٰلک ام لا وھل تسمع دعواہ مع تصرف المشتری و رؤیۃ امہ لہ واطلاعہا علی الشراء المذکوروالتصرف المزبور مدۃ مدیدۃ ام لا، اجاب لاتسمع دعواہ والحال مانص اعلاہ لان علمائنا نصوافی متونہم وشروحھم وفتاوھٰم ان تصرف المشتری فی المبیع مع اطلاع الخصم ولو کان اجنبیا بنحوالبناء والغرس والزرع یمنعہ من سماع الدعوی قال صاحب المنظومۃ اتفق اساتیذنا علی انہ لاتسمع دعواہ ویجعل سکوتہ رضی للبیع قطعا للتزویر والاطماع والحیل والتلبیس وجعل الحضور وترک المنازعۃ اقرار بانہ ملک البائع، وقال فی جامع الفتاوٰی وذکر فی منیۃ الفقہاء رای غیرہ یبیع عروضا فقبضہا المشتری وھو ساکت وترک منازعۃ، فہو اقرارمنہ بانہ ملک البائع انتہی۱؎، وفیہا سئل فی رجل تلقی بیتا عن والدہ وتصرف فیہ کما کان والدہ من غیرمنازع ولامدافع مدۃ تنوف عن خمسین سنۃ والاٰن برزجماعۃ یدعون البیت لجدھم الاعلٰی، فہل تسمع دعوٰھم مع اطلاعھم علی التصرف المذکور واطلاع اٰبائھم وعدم مانع یمنعھم عن الدعوی،اجاب لاتسمع ھذہ الدعوی، وفیہا عن البزازیۃ علیہ الفتوی قطعا للاطماع الفاسدۃ۱؎
فاضل محقق الملۃ والدین الرملی رحمۃ اﷲتعالٰی علیہ کے فتاوٰی میں ہے کہ ان سے ایسے شخص کے متعلق سوال ہوا جس نے دوسرے شخص کی مقبوضہ زمین میں سے چھ گز زمین خریدی اور وہاں تعمیر کی اور تصرفات کئے پھر اس کے بعد ایک اور شخص نے اس خرید کردہ زمین میں سے ساڑھے تین قیراط پر دعوٰی کردیا کہ یہ حصہ مجھے میری ماں سے میراث میں ملا ہے اور وہ اس تعمیر کو گرانا چاہتا ہے حالانکہ اس کی ماں خریدار کی تعمیر اور تصرفات کو زندگی میں دیکھتی رہی ہے تو کیا اس دعوٰی کا اس کو حق ہے یانہیں _______حالانکہ ماں کو اس زمین کی خرید و فروخت اور اس پر خریدار کے تصرفات کی اطلاع مدت بھر رہی، کیا یہ دعوی مسموع ہوگا،تو انہوں نے جواب میں فرمایا کہ یہ دعوٰی مسموع نہ ہوگا جب کہ مذکورہ بالاحالات تھے، کیونکہ ہمارے علماء نے اپنے متون، شروح اور فتاوٰی میں تصریح کی ہے کہ خریدار کا مبیع چیز پر، فریق مخالف اگرچہ اجنبی ہو، کی اطلاع کی موجودگی میں، تعمیر، زراعت اور پودوں کی کاشت جیسے تصرفات کرنا اس فریق کے دعوٰی کے مسموع ہونے کے لئے مائع ہے، اور صاحب منظوم نے فرمایا کہ ہمارے اساتذہ ایسے دعوٰی کے نامسموع ہونے پر متفق ہیں اور جھوٹ، لالچ، حیلہ سازی اور تلبیس کے خاتمہ کے لئے مخالف فریق کے سکوت کو بیع پر رضامندی اور اس کی موجودگی اور عدم تنازع کو یہ اقرار تصور کیا جائے گا کہ زمین فروخت کرنیوالے کی ملکیت تھی، اور جامع الفتاوٰی میں فرمایا منیۃ الفقہاء میں مذکور ہے کہ دوسرے کو سامان فروخت کرتے ہوئے دیکھا اور خریدار نے قبضہ کیا تو بھی خاموش رہا اور کوئی اعتراض نہ کیا تو یہ اس کا اقرار متصور ہوگا کہ یہ سامان فروخت کرنیوالے کی ملک ہے اھ، اور اس میں ہے کہ ایک شخص نے اپنے والد سے مکان حاصل کیا اور اس میں اسی طرح تصرف کرتا رہا جس طرح اس کا والد اس میں بغیر روک ٹوک پچاس سال سے زائد تک تصرف کرتا رہااور اب ایک گروہ نے اپنا دعوٰی کرنا شروع کردیا کہ یہ مکان اس کے جداعلٰی کی ملک ہے تو کیا ان کی تصرفات مذکورہ پر اطلاع اور ان کے باپ کو اطلاع اور دعوٰی سے کوئی مانع نہ ہونے کی باوجود اب ان کا یہ دعوٰی مسموع ہوگا، تو جواب میں فرمایا کہ یہ دعوی مسموع نہ ہوگا، اسی میں ہے بزازیہ کے حوالہ سے کہ اسی پر فتوٰی ہے تاکہ فاسد لالچ وغیرہ کا خاتمہ ہوسکے،
 (۱؎ فتاوٰی خیریہ     کتاب الدعوی    دارالمعرفۃ بیروت    ۲ /۸۸۔۸۷)

(۲؎فتاوٰی خیریہ     کتاب الدعوی    دارالمعرفۃ بیروت   ۲/ ۵۵)

(۱؎ فتاوٰی خیریہ    کتاب الدعوٰی    دارالمعرفۃ بیروت    ۲ /۵۹)
وفی الولوالجیۃ ثم الخیریۃ والحامدیۃ وغیرہما رجل تصرف زمانا فی ارض ورجل اخر رای الارض والتصرف ولم یدع ومات علی ذٰلک لم تسمع بعد ذٰلک دعوی ولدہ فتترک علی یدالمتصرف لان الحال شاہد۲؎انتہی، وفی الخیریۃ وبہ افتی شیخ الاسلام شھاب الدین احمد الحلبی المصری ۳؂،
ولوالجیہ، پھر خیریہ اور حامدیہ وغیرہ میں ہے کہ ایک شخص زمانہ بھر زمین میں تصرف کرتا رہا اور دوسرا شخص اس زمین اور اس میں ان تصرفات کو دیکھتا رہا اور کوئی دعوٰی نہ کیا اور فوت ہوگیا تو اس کے بعد اس کی اولاد کا اس زمین پر دعوٰی مسموع نہ ہوگا تو اس زمین کو قابض کے تصرف میں باقی رکھاجائیگا کیونکہ حال اس کاشاہد ہے، اور خیریہ میں ہے کہ اسی پر شیخ الاسلام شہاب الدین احمد حلبی مصری نے فتوٰی دیا ہے،
 (۲؎فتاوٰی خیریہ    کتاب الدعوٰی    دارالمعرفۃ بیروت   ۲/ ۵۵)

(۳؎فتاوٰی خیریہ    کتاب الدعوٰی    دارالمعرفۃ بیروت   ۲ /۵۹)
وفی الدر  المختار اذاسکت الجار وقت البیع التسلیم وتصرف المشتری فیہ زرعًا وبناءً فحینئذ لاتسمع دعواہ علی ماعلیہ الفتوی قطعا للاطماع الفاسدۃ۳؎انتہی،
درمختار میں ہے جب پڑوسی خرید وفروخت اور قبضہ دینے اور خریدار کے تعمیر وزراعت کے تصرفات کو دیکھتے ہوئے خاموش رہے تو مفتی بہ قول کے مطابق اب اس کا دعوٰی مسموع نہ ہوگا تاکہ فساد طمع کو ختم کیاجاسکے اھ،
 (۴؎ درمختار        مسائل شتی        مطبع مجتبائی دہلی     ۲ /۳۴۷)
قال خاتمۃ المحققین مولانا السید محمد عابدین رحمۃ اﷲتعالٰی علیہ فی الحاشیۃ قولہ اذاسکت الجار وغیرہ من الاجانب بالاولٰی فتخصیص الجار بالذکر لانہ مظنۃ انہ فی حکم القریب والزوجۃ، قولہ وقت البیع والتسلیم ای وقت علمہ بھما کما افادہ کلام الرملی السابق وقد علمت ان البیع غیر قید بل مجرد السکوت عند الاطلاع علی التصرف مانع من الدعوی، قولہ زرعا وبناء المراد بہ کل تصرف لایطلق الاللمالک فہما من قبل التمثیل، قولہ لاتسمع دعواہ ای دعوی الاجنبی ولوجارا، رملی۱؎
حاشیہ میں خاتم المحققین مولاناسیدمحمد عابدین رحمہ اﷲ تعالٰی علیہ نے فرمایا: ماتن کا قول جب پڑوسی خاموش رہے، تو دوسرے اجنبی لوگ بالاولٰی، پڑوسی کا ذکر خاص طور پر اس لئے کیا کہ قرب والصاق کی وجہ سے گمان دعوٰی کا مقام ہے، اس کا قول''قبضہ اور بیع کے وقت'' یعنی جب ان چیزوں کا پڑوسی کو علم ہوجائے جیساکہ رملی کے کلام سے معلوم ہوا، آپ کو معلوم ہے کہ بیع کاذکر بطور قید نہیں بلکہ مشتری کے تصرفات پر اطلاع سے خاموشی اس کے دعوٰی سے مانع ہے، اس کا قول''زراعت وتعمیر''تو اس سے مراد ہر وہ تصرف جو صرف مالک ہی کرسکتا ہے ان دونوں کا ذکر بطور تمثیل ہے۔ اس کا قول''اس کا دعوٰی غیر مسموع ہوگا'' سے مراد یہ ہے ہر اجنبی خواہ پڑوسی ہو، کادعوٰی غیر مسموع ہوگا، بحوالہ رملی،
 (۱؎ ردالمحتار    مسائل شتی    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۵ /۴۷۴)
Flag Counter