Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
149 - 151
(۳) شاہنواز خاں نے بیعنامہ فرضی ہونے کی گواہی دی مگر اس طرح کہ مظہر سے صادق شاہ نے خود اقرار فرضی ہونے کا کیا تھا، اس سے ہر گز فرضی ہونا ثابت نہیں ہوتا، یہ تواقرار بائع کا گواہ ہے، اگر خود صادق شاہ بعد تحریر و تصدیق بیعنامہ دعوی کرتا کہ میں نے تو محض فرضی بیع نامہ کردیا ہے کیا قابل سماعت ہوتا، ورنہ ہر شخص بیع کرکے پھر جائے ا ور اس کے فرضی کہہ دینے سے بیع فرضی ٹھہر جائے یہاں اقرار مشتری کا درکار تھا بائع کا اقرار اقرار نہیں بلکہ دعوٰی ہے کہ بے گواہان ہر گز مقبول نہیں بلکہ اکثر صورتوں میں اس کے گواہ بھی مسموع نہیں کہ بیع کرکے فرضیت کا ادعا تناقض ہے اور تناقض والے کا دعوٰی سنا نہیں جاتا۔
درمختار میں ہے:
لاعذر لمن اقر۱؎
(اقرار کرنے والے کا عذر معتبر نہیں۔ت)
 (۱؎ درمختار    کتاب الاقرار     فصل فی مسائل شتی مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۱۴۰)
اشباہ وغیرہ میں ہے:
من سعی فی نقض ماتم من جہتہ فسعیہ مردود علیہ۲؎۔
جو شخص ایسی کا رروائی کو ختم کرنے کی کوشش کرے جو اس کی طرف سے تام ہوئی ہے تو اس کی یہ کوشش مردود ہوگی۔(ت)
(۲؎ الاشباہ والنظائر     کتاب القضاء والشہادات والدعاوی     ادارۃ القرآن کراچی    ۱/ ۳۷۰)
لہذا یہ شہادت بھی ساقط محض ہے۔
(۴) اب رہے تین مرد اور دو عورتیں جن کے بیان میں فاطمہ بیگم کی طرف سے فرضی کا لفظ آیا ہے اگرچہ محض بے علاقہ اس کا حال یہ ہے کہ ا ن میں عورتوں کی گواہی توصرف ہوا پر ہے جسے انہوں نے محل تنازع سے اصلاً متعلق نہ کیا، پہلے اتنا تو کہا کہ یہ مکان صادق شاہ کا ہے اس کا حال اوپر سن چکے کہ یہ شہادت باطلہ بلکہ کاذبہ ہے اور قرینہ کی ہوتی جب بھی نامسموع تھی، آگے چل کر انہوں نے میاں بی بی اور ساس داماد کا جھگڑا بیان کرکے صرف اتنا کہا کہ صادق شاہ نے آکر فرضی کاغذاپنی بھاوج فاطمہ بیگم کے نام کردیا، کس چیز کاکاغذ کردیا، کیا کاغذ کردیا، مکان یا دکان یا کچھ اسباب، یا کیا، فرضی بیع کردیا یا ہبہ یا رہن یا اجارہ یا کیا، اس کا کچھ پتا نہیں، پھر کہتی ہیں ہم نے فاطمہ بیگم سے پوچھا تو اس نے کہا کہ بوجہ اپنی بی بی کے ہمارے نام فرضی بیعنامہ کردیا ہے بیچا نہیں ہے یہاں سوال دوم کا جواب تو کھلا ہے کہ ہبہ رہن اجارہ نہیں بلکہ بیعنامہ کیا مگر سوال اول کا جواب اب بھی محض غائب، کچھ نہ کہا کہ مکان کا بیعنامہ کیا ہے یادکان کا یا اسباب یا کا ہے کا، ایسی گول ناصاف، مجمل،مہمل باتیں گواہی میں سن لینا کس شریعت کا حکم ہے حاشا وکلا۔ اس کے جواب میں اگر فاطمہ بیگم کہے کہ صغیر ی و عجوبہ سچ کہتی ہیں صادق شاہ نے ایک گھوڑے کا بیعنامہ فرضی میرے نام کردیا تھا بیچانہ تھامیں عورت ذات گھوڑا لے کر کیا کرتی میں نے اس بیعنامہ کا ان سے ذکر کیا تھا، تو یہ گواہ یا انہیں پیش کرنے والے ورثاء یا انہیں قبول فرمانے والے اس کا کیا جواب دے سکتے ہیں۔
 (۵) اب باقی مردوں کی سنئے ان میں چھٹن میاں علاوہ اور وجوہ کے خود کہتا ہے کہ جب سے ہوش سنبھالا ہے جب سے داڑھی منڈاتا ہوں کبھی کھونٹی بھی آنے ہی نہیں دی تو باقرار خود فاسق معلن بلکہ فسق بالاعلان پر مصر ہے ایسے شخص کی گواہی اگر ایک کوڑی کے معاملہ پر ہو مردود ہے پھر اس کا بیان بھی ساختہ ہونے کا شبہہ دلاتا ہے جیساکہ ملاحظہ ظاہر سے واضح ہے۔
(۶) رہ گئے بانکے میان اور سید مجیب شاہ،ان دونوں نے اگرچہ بیعنامہ مکان فرضی ہونے نسبت فاطمہ بیگم کا اقرار بیان کیا مگر اول سے آخر تک سارے اظہار میں کچھ پتہ نہیں کہ کس کا گھر یہاں تک کہ مکان متنازعہ کابھی کہیں لفظ نہیں، ہاں بانکے میاں نے اتنا کہا ہے کہ نشاندہی محلہ پر کرادونگا اور سید مجیب شاہ نے یہ کہ مکان بنادوں گا، دونوں نے بتایا یا نہیں، او ربتایا تو کیا بتایا، کیالفظ کہے، وہ کہاں تک کافی تھے پھر ان دونوں گواہوں کو بھی ذ ی علم مجوز نے مستور لکھا ہے اور وہ فاسق معلن مصر کو بھی مستور لکھتے ہیں معلوم نہیں کہ یہ مستور کس معنی پر ہیں اگر ویسے ہی مستور ہوئے جب تو ظاہر ہے اور اگر حقیقۃً مستور الحال ہوئے تو مستو ر کی گواہی بھی مردود ہے مگر یہ کہ دلائل واضحہ سے اس کے صدق پر غلبہ ظن حاصل ہو اور یہاں انکے صدق پر کوئی دلیل مفید ظن بھی نہیں غلبہ ظن تو بڑی چیز ہے تجویز میں ان پر اعتماد کرنا تھا تو واجب ہوتا کہ ان کے صدق کے غلبہ ظن پر واضح دلائل قائم فرماتے مگر کوئی دلیل نہ دی محض ان کے بیان کا حوالہ دیا کہ ان کی شہادتوں سے فرضی ہونا بخوبی ثابت ہے یہ ہر گز قابل قبول نہیں بلکہ دلائل صدق درکنار ذی علم مجوز نے جو دلائل رد گواہان فاطمہ بیگم کے لئے تحریر فرمائے بعینہا ان گواہوں میں جاری ہیں، جیسا کہ عنقریب واضح ہوگا تو غایت یہ کہ دونوں شقیں محتمل ہوکر صدق وکذب مساوی رہے اور اس صورت میں شہادت مستور ین ہر گز مقبول نہیں۔
ردالمحتار میں ہے:
فان لم یغلب علی ظن القاضی صدقہ بان غلب کذب عنہ او تساویا فلا یقبلھا ای لایصح قبولھا اصلا۱؎۔
اگر قاضی کو اس کی سچائی کا ظن غالب نہ ہو بلکہ اس کے کذب کا ظن ہو یا دونوں پہلو مساوی جانتا ہو تو اس کی شہادت کو قبول نہ کرے یعنی اس کا قبول کرنا ہر گز صحیح نہیں ہے۔(ت)
(۱؎ ردالمحتار)
لاجرم ظاہر ہوا کہ ورثائے بائع بیع فرضی ثابت نہ کرسکے او را س مقدمہ میں صرف اتنا ہی دیکھنا تھا اس کے علاوہ باقی سب بحثیں زائد و دور از کار ہیں۔
جواب سوال دوم 

(۱) ہم اوپر ثابت کرآئے فاطمہ بیگم اس مقدمہ میں اصلاً محتاج گواہان نہیں، نہ اس کے گواہوں سے بحث کی حاجت خلاف قیاس درکنار اگر ان کی گواہیاں بدیہی البطلان ہوتیں مثلاً کہتے سو برس ہوئے یہ بیع ہوگئی یاکل ہوئی تھی جب بھی فاطمہ بیگم کو اس سے نقصان نہ تھا کہ اس کا دعوٰی بیعنامہ مصدقہ مسلمہ فریقین سے آپ ہی ثابت ہے۔

(۲) ذی علم مجوز نے ان کی شہادتیں قابل لحاظ نہ ہونے کی چھ وجہیں ذکر فرمائیں:

(۱) وہ مستور الحال ہیں

(۲)کل زر ثمن ایک مفلس کو قبل تحریر و تصدیق بیعنامہ گھر میں بیٹھ کر دیا گیا۔

(۳) مقر نے دستاویز اپنے نام چھڑائی۔

(۴) وصول ثمن کا اقرار کیا رجسٹرار کے سامنے نہ دیا گیا۔

(۵) فاطمہ بیگم کا قبضہ نہ ہوا۔

(۶) مکان دونی قیمت کو بیچنا لکھا۔

ان میں کوئی وجہ بھی ایسی نہیں جس سے شہادتیں قابل لحاظ نہ ہوں یا حسب بیان فیصلہ بطلان دعوٰی مدعیہ بتائیں وجہ اول تو خود کوئی چیز نہیں، مستو رالحال کی گواہی مطلقاً مردود ہے یا جب خلاف قیاس ہو بر تقدیر اول سعیدہ بیگم وغیرہ کے گواہوں کو بھی فیصلہ میں مستور فرمایا ہے ان کی گواہی کیوں نہ مردود ہوئی، اور بر تقدیر ثانی اس کے لئے وہ وجوہ درکار ہیں جس سے شہادت کاخلاف قیاس ہونا ثابت ہو تو وجوہ آئندہ پر مدار کا ررہا اور وجہ اول نے کچھ فائدہ نہ دیا، ہاں یہ کہ وہ ان کی متمم یعنی عادل کی گواہی اگرچہ خلا ف قیاس ہو مقبول ہے نہ مستور کی تو مدار اسی خلاف قیاس ہونے کے ثبوت پررہا اور وہ ثابت نہیں۔
 (۳) وجہ ششم اگر قرینہ ہے تو ثمن مقدار واقعی سے زیادہ لکھنے کا نہ اس کا کہ اصل بیع ہی فرضی ہے، زوجہ کے خوف سے بیع فرضی کرنے کو قیمت بڑھا کر لکھنا کیا ضرور تھا کیا اگر سو کا مال سو کو بیچنا لکھتا تو اس کا مقصود حاصل نہ ہوتا، ہاں اگر کسی شفیع کا خوف ہوتا تو اس کے سبب زیادہ قیمت لکھی جاتی ایسا زیادہ لکھنا رات دن حقیقی قطعی بیعوں میں ہوتا رہتا ہے تو یہ فرضیت بیع کا کیا قرینہ ہوئی۔

(۴) وجہ دوم عجیب ہے زر ثمن گواہوں کو بلا کر ان کے سامنے دیا جانا بیان ہوا ہے نہ کہ تنہائی میں، پھر اس سے کیا شبہہ پڑسکتا ہے ان کو بناوٹ منظور ہوتی تو رجسٹرار کے سامنے دیتا اور زیادہ ان کے مقصود کا مؤید ہوتا نہ کہ گھر میں بیٹھ کر دینا، بیع فرضی والے چالاک اکثر یہی طریقہ پسند کرتے ہیں کہ رجسٹری میں دیا اور گھر جاکر وپس لے لیا۔

(۵) وجہ چہارم بھی اسی دوم پر مبنی ہے جب روپیہ گواہوں کے سامنے پہلے مل چکا تو رجسڑار کے سامنے اقرار کے سوا کیا ہوتا، نمائشی بناوٹ چاہتے تو رجسٹرار کے سامنے ہی دینے میں زیادہ تھی نہ کہ گھر میں۔ نمائش والا وہ طریقہ اختیار کرتا ہے جس میں اعلان زیادہ ہو یا وہ جس میں کم ہو۔

(۶) وجہ سوم کی نسبت گزارش کہ دستاویز فاطمہ بیگم نے پیش کی ہے تو صادق شاہ نے چھڑا کو ضرور اسے سپرد کردی پھر اپنے نام چھڑانے نے فرضیت کا کیاثبوت دیا، بلکہ انصافاً واقعیت کا پتہ دیا کہ فرضی نمائشی کارروائی تو رجسٹری تک ختم ہوگئی تھی اگر واقع میں بیع نہ ہوئی تھی تو دستاویز خود اپنے نام چھڑا کر فاطمہ بیگم کو دینے کی کیا حاجت تھی، فاطمہ بیگم ایک پردہ نشین شریف زادی بیوہ اور صادق شاہ کی بھاوج ہے بھائیوں میں اتحاد کی حالت میں ان کی زندگی میں ان کی زوجات کے ایسے کام جیٹھ دیور کردیا کرتے ہیں نہ کہ بعد بیوگی۔ 

(۷) وجہ پنجم اجنبی اشخاص میں کچھ شبہہ ڈالتی باہم اتحاد کی حالت میں بارہا ایسا ہوتا ہے کہ زید کو روپیہ درکار ہے بیع ہوگئی تصدیق وغیرہ سے تکمیل ہوگئی اطمینان کا فی ہولیا بائع کو مکان کی حاجت ہے مشتری اور مکان میں رہتا ہے تبرعاً خالی نہ کرایا پھر بیع و موت بائع میں ایسا کوئی طویل فاصلہ بھی نہیں، قبضہ لینا چاہا، اس نے فکر مکان میں آج کل کیا اتنے میں وہ بیمار ہوگیا انتقال کرگیا، اس میں پانچ چھ مہینے گزرجانا کیا دو راز قیاس ہے جس کی بناء پر شہادت باطل کردی جائے اور بیعنامہ مصدقہ مسلمہ فریقین غلط قرار پائے۔

(۸) اب ہم ایک تقریر جامع بیان کرتے ہیں کہ سب وجوہ کو شامل ہو۔ وجہ ششم کو تو معلوم کرچکے کہ وہ وجوہ فرضیت میں نام لئے جانے کے بھی قابل نہیں، اور وجہ اول نہ خود وجہ ہے نہ گواہان فاطمہ بیگم کے ساتھ 

خاص بلکہ وہی علت مستوری گواہان سعیدہ بیگم میں بھی موجود۔ بیچ کی چار وجہیں۔نہیں بلکہ تین ہی کہ چہارم خود دوم پر مبنی ہے اب وجہ شبہہ اتنی رہی کہ روپیہ گھر میں بیٹھ کردیا او دستاویز مقر کے نام و اگزاشت ہوئی اورمشتریہ نے قبضہ نہ لیا ہم پوچھتے ہیں کہ یہاں عاقدین میں باہم ایسا اتحاد مانئے گا کہ ایک کو دوسرے پر کافی اطمینان ہے یا اجنبیت کہ ایک دوسرے پر مطمئن نہیں۔ شق ثانی خود گواہان سعید ہ بیگم وخود فیصلہ مجوز سے صریح البطلان ہے جب یہ ٹھہراتے ہو کہ واقع میں نہ بیع تھی نہ ثمن ملا، یونہی فرضی بیعنامہ اس کے نام لکھ دیا اس پر گواہیان کرادیں اسے رجسٹری کراکرپکا کردیا رجسٹرار کے سامنے روپیہ ملنے کا اقرار کر دیا ہر طرح بائع نے اپنے ہاتھ کاٹ لئے تو کیا یہ معاملہ بے اطمینان اجنبی کے ساتھ ہوسکتا ہے حاشا بلکہ اعلٰی درجہ کا باہم اطمینان واتحاد چاہئے اور جب اس نہایت درجہ کا ان میں اتحاد مجوز و گواہان سعیدہ وسعیدہ وغیرہ سب کو خود مسلم ہے تو گھر میں بیٹھ کر روپیہ دینا یا دستاویز مقر کو ملنا یا مشتریہ کا قبضہ نہ لینا اس اعلی اتحاد کی حالت میں کیا بعید از قیاس ہے۔ بالجملہ اتحاد ہو تو یہ کچھ بھی بعید از قیاس نہیں، اور بے اطمینانی ہو تو ایسے کے ہاتھ فرضی بیع کرکے رجسٹری کرادینا اور وصول ثمن کہہ دینا اور بھی زیادہ بعید از قیاس ہے اور اس کے گواہ بھی مستور ہی ہیں توان وجوہ سے انہیں کیوں نہیں رد کیا جاتا۔
جواب سوال سوم

نظر ظاہر میں یہ اعتراض ہوسکتا کہ فیصلہ میں سعیدہ بیگم وغیرہا کے سب گواہوں کے بیان کا خلاصہ فرمایا گیا یہاں تک کہ وہ بھی جو محض بے علاقہ تھے اور فاطمہ بیگم کے اتنے گواہوں میں سے صرف دو کا ذکر کیا بلکہ صراحۃً تحریر فرمادیا کہ مدعیہ کی جانب سے صرف دو گواہ پیش ہوئے ہیں مگر نظر دقیق میں اس کی توجیہ قریب ممکن ہے، فاطمہ بی بی کی طرف سے دس گواہ پیش ہوئے چھ مرد ضامن شاہ غلام ناصر خاں قاسم خاں، محمد علی خاں، احمد شاہ خاں، عنبر شاہ خاں، اور چار عوتیں، اشرف بیگم، نازنین بیگم، آبادی انتظام بیگم۔ ان میں قاسم خاں تو محض اپنی ناواقفی بیان کرتا ہے او کچھ شہادت نہ دی محمد علی خاں نے لوگوں کی زبانی سننا بتایا اور وہ بھی یوں کہ پہلے کہا بہن کے ہاتھ بیچ ڈالا، پھر کہا بیگم کے ہاتھ۔ احمد شاہ خاں کا اتنا بیان ہے کہ بھاوج کے نام بیعنامہ لکھ دیا اس سے کسے انکار ہے، یونہی عنبر شاہ خاں نے بائع کی زبانی سننا بیان کیا کہ میں نے یہ مکان بیگم سیدانی کے ہاتھ دوسوروپے کو بیچ ڈالا جس نے بیعنامہ رجسٹری کرادیا اس نے اگر اس گواہ  کے سامنے اتناکہا تو اس سے بیع کی قطعیت نہیں سمجھی جاتی، لہذا چاروں گواہ بیکار تھے صرف دو مرد اور چار عورتیں باقی رہیں ان کی گواہی ضرور عام مروج طور پر مفید فاطمہ بیگم واقع ہوئی ہے، ذی علم مجوزکی رائے میں دونوں مردوں کی گواہی مخدوش تھی تو باقی سب عورتیں رہ جائیں گی اور تنہا عورت کی شہادت مقبول نہیں، لہذا ان کے ذکر کی حاجت نہ جانی اور صرف دو کے بیان پر اقتصار فرمایا ایسی کمی سے فیصلہ پر کوئی اثر نہیں پڑسکتا۔
جواب سوال چہارم

فیصلہ قابل منسوخی ہے۔ واﷲتعالٰی اعلم
Flag Counter