فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی) |
مسئلہ ۱۴۶ تا ۱۴۹: ازریاست رامپور مرسلہ سید صاحب موصوف غرہ شعبان ۱۳۳۰ھ استفتاء بخدمت فضائل منزلت اعلٰیحضرت مولانا المولوی حافظ حاجی احمد رضاخاں صاحب عم فیضہم ! ہندہ نے بنام سعید النساء وغیرہ پانچ کس ورثاء زیددخلیابی مکان کویوں دعوٰی کیا کہ ہندہ نے مکان متنازعہ زید سے خریدا ہے زید فوت ہوگیا ہے ورثاء زید مکان پر قابض ہیں، دخل دلایاجائے، مدعا علیہم کو بیعنامہ مکان مذکور کا تصدیق کرادینا تسلیم ہے مگر کہتے ہیں کہ بیع فرضی ہوئی تھی، زید نے سعید النساء اپنی زوجہ کے دین مہر اور نان نفقہ کے خوف سے بیعنامہ فرضی کردیا تھا زر ثمن کا دادوستد نہیں ہوا نہ مدعیہ کا قبضہ مکان متنازعہ پر ہوا، مدعیہ کی جانب سے پانچ مرد اور چار عورتوں نے قطعیت بیع اور زر ثمن ادا کرنے کی بابت شہادت دی ہے، مگر عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ صرف دو گواہ مدعیہ کی طرف سے پیش ہوئے ہیں ان کی شہادت خلاف قیاس ہے اور مستور ہونے کے سبب ناقابل التفات خلاف قیاس ہونے کی اور بھی وجوہ لکھی ہیں جو نقل فیصلہ میں مذکور ہیں یہ نقل فیصلہ ملاحظہ کے لئے پیش کیاجاتا ہے اب سوال یہ ہے: (۱) بیع فرضی ہونے کے لئے شرعاً کچھ شرائط ہیں، محض اس قدر شہادت دلوادینے سے کہ عاقدین نے بیع کے بعد اقرار فرضی ہونے کا کیا تھا بیع فرضی ثابت ہوجائیگی، جن جن گواہوں نے یہ شہادت دی ہے ان کو عدالت نے خود مستور الحال لکھا ہے لیکن بعض ان میں سے ایسے بھی ہیں جن کو اپنی سزا یابی سابقہ اور بالفعل اپنی داڑھی منڈوانا تسلیم ہے۔ (۲) جو وجوہ شہادت مدعیہ کی نسبت عدالت نے خلاف قیاس ہونے کے لکھے ہیں کیا وہ شرعاً ایسے ہیں جن سے شہادت ناقابل تسلیم ہوجائے۔ (۳) کیا قاضی کا یہ فعل اس کے فیصلہ پر مؤثر ہوگا کہ بجائے چھ مرد اور چار عورتوں کے صرف دو کا پیش ہونا اپنے فیصلہ میں ظاہر کرے حالانکہ مسل میں سب کے بیان موجود ہیں۔ (۴) کیا ایسا فیصلہ حاکم مرافعہ کی عدالت میں شرعاً قابل بحالی ہوسکتا ہے؟ نقل فیصلہ اور نقول بیانات گواہان فریقین عدالت سے باقاعدہ حاصل کرکے پیش کئے جاتے ہیں جواب مرحمت ہو۔والاجر عنداﷲ۔
الجواب :جواب سوا ل اول فیصلہ واظہارات فریقین تمام وکمال ملاحظہ ہوئے تنقیحات فقہیہ کے اعتبا ر سے تو یہاں بہت کہنا ہے مگر بتوفیقہ تعالٰی چند مختصر افادات پر اقتصار کریں کہ بعونہ تعالٰی اظہار صواب وایضاح جواب کےلئے اسی قدر بس ہے۔ (۱) اس مقدمہ میں فریقین کو اتفاق ہے کہ زید یعنی سید صادق شاہ نے مکان متنازع فیہ کا بیع نامہ اپنی بھاوج ہندہ یعنی فاطمہ بیگم کے نام کیا اور اس کی رجسٹری کرادی، حاکم شہر قاضی مفتی فقیہ متقی نے اسکی تصدیق فرمائی اختلاف جدو ہزل میں ہے یعنی آیا یہ بیع صحیح قطعی تھی یا محض نمائش فرضی، سعیدہ بیگم زوجہ وغیرہا پانچ کس ورثائے سید صادق شاہ فرضی بتاتے ہیں اور فاطمہ بیگم مشتریہ قطعیہ اس صورت میں شرعاً سعیدہ بیگم وغیرہا مدعی ہیں کہ ایک امر ظاہر الثبوت کامٹانا چاہتے ہیں اور فاطمہ بیگم مدعا علیہا کہ اس کا بیان موافق ظاہر ہے لہذا بار ثبوت سعیدہ بیگم وغیرہا پر ہے فاطمہ کو اصلاً کسی گواہ کی حاجت نہیں اس کا صرف زبانی بیان قسم کے ساتھ معتبر ہے۔
درمختار میں ہے:
لو ادعی احدھما بیع التلجئۃ وانکر الاخر فالقول لمدعی الجدبیمینہ ۱؎۔
ایک فریق کا دعوٰی ہے کہ بیع فرضی ہے دوسرا منکر ہے تو صحیح بیع کے مدعی کی بات قسم کے ساتھ معتبر ہوگی (ت)
(۱؎ درمختار کتاب البیوع باب الصرف مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۵۷)
ردالمحتارمیں ہے:
مدعی الجد لایحتاج الی برھان لان البرھان یثبت خلاف الظاہر۲؎۔
قطعی ہونے کی مدعی کو دلیل کی ضرورت نہیں کیونکہ دلیل خلاف ظاہر کو ثابت کرتی ہے۔(ت)
(۲؎ ردالمحتار کتاب البیوع باب الصرف داراحیاء التراث العربی بیروت ۴/ ۲۴۵)
تو فاطمہ بیگم پر بار ثبوت رکھنا اور اس کے گواہوں سے بحث اور ان پر اعتراض سب بلاوجہ وبیکار وخلاف ضابطہ فقہیہ ہے۔
(۲) ورثائے صادق شاہ کو بیع فرضی ثابت کرنے کے لئے صرف دو گواہ ثقہ متقی عادل شرعی اس مضمون کے دینا کافی کہ بعد بیع نامہ فاطمہ بیگم نے ہمارے سامنے اقرار کیا کہ یہ بیع میرے نام فرضی ہوئی ہے، اس کے سوانہ اور کچھ شرائط درکار، نہ اور کسی بیان سے ان کو نفع۔
اب ہم گواہان ورثہ پر نظرکرتے ہیں ان کی طرف سے بانکے میاں، چھٹن میاں، سید مجیب شاہ، حاجی محمد رضاخاں، شاہنواز خاں، نیاز احمد خاں، محمد یوسف خاں، بنا خاں، سید محمد شاہ نومرد اور صغری وعجوبہ دو عورتیں، جملہ گیارہ گواہ پیش ہوئے، ان میں یوسف خاں کا بیان تو اتنا ہے کہ یہ مکان میاں صادق شاہ کا تھا وہ اس میں مرتے دم تک رہے، پچھلے فقرہ سے اگر ثابت ہے تو اتنا کہ فاطمہ بیگم کا قبضہ نہ ہوا، پھر بیع کے لئے قبضہ کیاضرور، بیع ہبہ نہیں کہ بے قبضہ تمام نہ ہو، اور پہلے فقرہ سے فاطمہ بیگم کو بھی انکار نہیں جب وہ صادق شاہ سے خریدنا بتاتی ہے تو خود مقر ہے کہ مکان صادق شاہ کا تھا پھر اس سے کیا ثابت ہوا، اس گواہ نے یہ بھی کہا ہے کہ سننے میں آیا کہ انہوں نے بھاوج کے نام مکان کردیا یہ اگر سماع نہ ہوتا تو فاطمہ بیگم کا کچھ مؤید ہوتا، مشہود لہم یعنی ورثٖہ کو اس سے کچھ فائدہ نہیں، بنا خاں اور سید محمد شاہ کی گواہیاں یہ ہیں کہ مکان متنازعہ میاں صادق شاہ کا ہے یہ صریح غلط و باطل ہے، سید صادق شاہ کا انتقال ہوگیا اور میت کسی شے کا مالک نہیں تو اب مکان ان کا کسی طرح نہیں، غرض''ہے'' کہنا تو یوں باطل ہے اور ''تھا'' کہنے سے دم مرگ تک ان کی ملک رہنا ثابت نہیں کہ انتقال بیع کا منافی ہو، لہذا یہ تینوں شہادتیں محض مہمل ہیں بلکہ بالفرض اگر ان کے بیان یوں ہوتے کہ یہ مکان سید صادق شاہ کا تھا دم مرگ تک وہی اس کے مالک رہے اور وقت انتقال اسے اپنے وارثوں کے لئے میراث چھوڑا جب بھی مفید نہ ہوتے کہ اس شہادت کا مبنی استصحاب ہوتا یعنی ان کی ملک معلوم تھی اور انتقال تک بیع پر علم نہ ہوا لہذا اپنے علم کی بنا پر تادم مرگ ان کی ملک کہا مشتریہ نے جب کہ بیع تامہ مصدقہ و مسلمہ فریقین سے انتقال ثابت کر دیا وہ گواہیاں بے سود ہوگئیں۔
جامع الفصولین میں ہے:
ادعی دارا انی اشتریتہ من ابیک و برھن ذوالید انہ ملک ابیہ الی یوم موتہ و مات و ترکہ میراثا لاتقبل بینتہ لانھم شھدوا باستصحاب الحال والمدعی اثبت الزوال۱؎۔
ایک شخص نے یہ دعوٰی کیا کہ یہ مکان میں نے تیرے والد سے خریدا ہے اور قابض نے گواہ پیش کردئے کہ یہ مکان میرے والد کی موت تک اس کی ملک رہا ہے اور اس نے اپنی موت پر اس کو بطور میراث چھوڑا ہے تو قابض کی طرف سے یہ گواہی قبول نہ کی جائے گی کیونکہ گواہوں کی یہ شہادت استصحاب حال کی بنا پر ہے جبکہ مدعی اس سابقہ ملکیت کے زوال کو ثابت کررہا ہے۔(ت)
(۱؎ جامع الفصولین الفصل العاشر اسلامی کتب خانہ کراچی ۱/ ۵۰)
نیاز احمد خاں فقط اتنا کہتا ہے اور وہ بھی اہل محلہ سے سنا ہوا کہ صادق شاہ اور ان کی بی بی میں نااتفاقی تھی پھر اس سے کیا ہوا۔ حاجی محمد رضاخاں بھی نااتفاقی کا گواہ ہے اور یہ کہ جب بی بی کا نان نفقہ مقرر ہوا صادق شاہ نے نوکری چھوڑ دی پھراس سے بیع کیونکر فرض ہوگئی دنیا میں لاکھوں آدمی اپنی عورتوں سے ناراض ہوتے ہیں کیا اس سے ان کے تمام انتقالات فرضی ٹھہرجاتے ہیں۔ یہ پانچوں فیصلہ میں اصلاً قابل ذکر بھی نہ تھیں ہاں مذکور ہوتیں تو اس طرح کہ فلان فلاں اظہار محض مہمل و بیکار ہیں۔