Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
147 - 151
مسئلہ۱۴۵: از ریاست رامپور جولوں والی املی مسئولہ سید محمد شاہ صاحب سپر نٹنڈنٹ ڈاکٹر ان اسپ در بریلی غرہ شعبان ۱۳۳۰ھ

علمائے کرام سے سوال ہے کہ جو اقرار نسبت بیع کسی شے کے محکمہ رجسٹری میں رو برو ایسے رجسٹرار کے جو فقیہ متقی اورقاضی شہر بھی ہو بمعہ گواہان حسب قا عدہ کرکے تصدیق کرادے، اس کے خلاف بعد اس کے انتقال کے اس کے ورثہ شرعاً یہ کہنے کےمجاز ہیں کہ وہ اقرار غیر صحیح اور فرضی تھا یا نہیں، اور ان کا یہ قول شرعاً معتبر ہوگا یاکیا؟بینواتوجروا۔
الجواب : صورت مستفسرہ میں ان کا قول معتبر نہیں بلکہ مشتری کہ بیع فرضی ہونے کا منکر ہے اس کا قول معتبر ہے، وارثان بائع کو گواہان شرعی عادل ثقہ سے ثبوت دیناہوگا کہ بیع فرضی تھی اگر ثبوت دے دیں فبہا ورنہ مشتری سے حلف چاہیں تو اس سے قسم لی جائے اگر وہ قسم کھالے کہ بیع فرضی نہ تھی تو ورثاء کا دعوٰی فرضیت رد کردیا جائیگا اور بیع ثابت رہے گی، اور اگر مشتری قسم کھانے سے انکار کردے تو بیع فرضی ثابت ہوگی اور مشتری کو مبیع پر دعوٰی نہ رہے گا ۔
جامع الفصولین و طحطاوی و ردالمحتار میں ہے:
اقرومات فقال ورثتہ انہ اقر تلجئۃ حلف المقرلہ باﷲ لقد اقرلک اقرارا صحیحا۲؎۔
اقر ار کرکے فوت ہوگیا تو اس کے وارثوں نے کہا کہ میت کا یہ اقرار فرضی تھا اس صورت میں مقرلہ یعنی جس کے حق میں اقرار ہے سے قاضی حلف لے کہ کیا تیرے حق میں اسکا اقرار صحیح تھا۔(ت)
(۲؎ ردالمحتار   کتاب الاقرار     داراحیاء التراث العربی بیروت   ۴/ ۴۵۸)
پھر ورثاء بائع اگر صرف اس مضمون کی گواہی دیں کہ قبل بیع بائع و مشتری میں قرار داد ہولیا تھا کہ ہم فرضی بیع کرینگے تو یہ شہادت کافی نہیں کہ ممکن کہ اس قرار داد کے بعد پھر بیع قطعی پر راضی ہولئے ہوں، تو جب تک بعد بیع فریقین متفق نہ ہوں کہ بیع اسی قرار داد فرضی پر ہوئی صرف ایک فریق کے کہنے سے فرضی نہ مانی جائے گی۔ یونہی اگر یہ گواہی دیں کہ بعد بیع بائع نے کہا تھا کہ میں نے بیع فرضی کی تویہ بھی کافی نہیں کہ خود بائع اگر موجود ہوتا اور یہ ادعا کرتا مسموع نہ ہوتا جب کہ مشتری اسے تسلیم نہ کرتا خصوصاً جب کہ پیش ازبیع قرار داد فرضی کا ثبوت نہیں، ہاں اگر بعد بیع مشتری کے اقرار فرضیت کو گواہان ثقہ عادل سے ثابت کریں تو مشتری پر حجت ہوگا۔
درمختار میں ہے:
لو ادعی احدھما بیع التلجئۃ وانکر الاٰخر فالقول لمدعی الجد بیمینہ ولو برھن احدھما قبل ولو برھن فالتلجئۃ ۱؎،
اگر ایک نے فرضی بیع کا دعوٰی کیا اوردوسرے نے فرض ہونے کا انکار کیا تو صحیح بیع کہنے والے کی بات اس سے قسم لے کر تسلیم کی جائے گی، اور اگر دونوں میں سے ایک نے گواہی پیش کی تو قبول ہوگی اور اگر دونوں نے گواہی پیش کی تو پھر فرض کہنے والے کی گواہی معتبر ہوگی۔(ت)
 (۱؎ درمختار     کتاب البیوع    باب الصرف        مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۵۷)
ردالمحتار میں ہے:
قولہ لو برھن احدھما الاظہر قول الخانیۃ لو برھن مدعی التلجئۃ قبل لان مدعی الجد لایحتاج الی برھان لان البرھان یثبت خلاف الظاہر۲؎۔
اس کا قول کہ ''اگر ایک گواہی پیش کرے تو قبول ہوگی'' کا مطلب بقول خانیہ اظہریہ ہے کہ وہ گواہی والا فرضی بیع کا مدعی ہو تو قبول ہوگی کیونکہ صحیح بیع کے مدعی کو دلیل کی ضرورت نہیں اس لئے کہ دلیل سے خلاف ظاہر کو ثابت کیا جاتا ہے۔(ت)
(۲؎ ردالمحتار    کتاب البیوع    باب الصرف    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴/ ۲۴۵)
اسی میں ہے:
فی المنار فان تواضعاعلی الہزل باصل البیع واتفقاعلی بناء العقد علی المواضعۃ یفسد البیع فلا یملک بالقبض وان اتفقا علی الاعراض بان قالا بعد البیع اعرضنا وقت البیع عن الھزل الی الجد فالبیع  صحیح والھزل باطل وان اختلف فی البناء علی المواضعۃ والاعراض عنہا فالعقد صحیح عندہ خلافا لھما فجعل صحۃ الایجاب اولٰی لانھا الاصل وھما اعتبر المواضعۃ الاان یوجد ماینا قضھا کما اذااتفقاعلی البناء ۱؎انتہی مختصرا، اقول: ولا یذھب عنک ان قولھما فی ماعلم تقدم تواضھعما علی الھزل فالمواضعۃ الثابتۃ باتفاقھما لاتزول بادعاء احدھما الاعراض عندھما وھو الذی رجحہ المحقق فی التحریر بخلاف مااذا عقدا عقدا ثم ادعی احدھما المواضعۃ فلا تقبل اتفاقا مالم یبرھن لانہ یسعی فی نقض ماتم من جھتہ۲؎ اھ من حاشیتنا علی ردالمحتار۔
منار میں ہے کہ دونوں فریق اصل بیع کے فرضی ہونے پر متفق ہوئے اور دونوں سودے کے وقت بھی اسی فرض ہونے پر متفق رہے تو بیع فاسد ہوگی اور قبضہ کے باوجود مالک نہ ہوں گے اور اگر انہوں نے اپنے طے شدہ سے اعراض کرتے ہوئے سودے کے صحیح بیع کا ارادہ کرلیا اور دونوں نے بیع کے بعد کہا کہ ہم نے سودے کے وقت طے شدہ فرضی کے بجائے قطعی بیع کرلی تھی تو بیع صحیح ہوگی اور فرض و مذاق باطل قرار پائیگا، اور اگر اس معاملہ میں اختلاف ہوجائے کہ طے شدہ کی بجائے صحیح او ر قطعی بیع کا ارادہ کیا تھا یا نہیں تو امام اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے نزدیک بیع صحیح قرار دی جائے گی، صاحبین کا اس میں خلاف ہے، امام صاحب رضی اﷲ تعالی عنہ نے بیع کی صحت کو ترجیح دی کیونکہ بیع میں اصل صحت ہے، او رصاحبین رحمہما اﷲ تعالٰی نے دونوں کے طے کردہ کو اس وقت تک معتبر قرار دیا جب تک اس کا منا قض نہ پایا جائے جس طرح کہ طے کردہ پر بنا کر نا پایا گیا ہے اھ مختصراً، میں کہتا ہوں یہ بات پیش نظر رہے کہ صاحبین رحمہم اﷲ تعالٰی کے نزدیک دونوں کا باتفاق طے کردہ فرضی منصوبہ ایک فریق کے اعراض سے ختم نہ ہوگا کیونکہ وہ دونوں کا طے کردہ ہے، اسی کو محقق صاحب نے تحریر میں ترجیح دی ہے اس کے برخلا ف وہ صورت کہ دونوں نے مطلق سودا کرلیا، پھر ایک یہ کہے کہ ہم نے فرضی طے کیا تھا تو اسکی بات بالاتفاق قبول نہ کی جائیگی کیونکہ وہ اپنی تام کی ہوئی بیع کو ختم کرنا چاہتا ہے الایہ کہ وہ اس پر گواہ پیش کرکے اس کوثابت کردے۔ ردالمحتار پر ہمارے حاشیہ کی عبارت ختم ہوئی۔(ت)
 (۱؎ ردالمحتار     کتاب البیوع    باب الصرف         داراحیاء الترا ث العربی بیروت    ۴/ ۲۴۵)

(۲؎ جدالممتار علٰی ردالمحتار    کتاب البیوع    باب الصرف )
درمختار میں ہے:
اقر بمال فی صک واشھد علیہ بہ ثم ادعی ان بعض ھذاالمال رباعلیہ فان اقام علی ذٰلک بینۃ تقبل، وان کان متناقضالانانعلم انہ مضطر الی ھذا الاقرار شرح وھبانیۃ و حرر شارحھا الشرنبلالی انہ لایفتی بھذاالفرع لانہ لا عذر لمن اقر، غایتہ ان یقال بانہ یحلف المقر لہ علی قول ابی یوسف المختار للفتوی فی ھذہ ونحوھااھ قلت وبہ جزم المصنف ۱؎۔
ایک شخص نے رسیدمیں درج مال کا اقرار کیا اور اس پرگواہی پائی گئی پھر اقرار کرنیوالے نے دعوٰی کردیا کہ اس میں سے کچھ مال مجھ پر سود ہے اگر اس نے اس دعوٰی پر گواہ پیش کردئے تو یہ شہادت  قبول کی جائیگی اگرچہ یہ دعوٰی اس کے اقرار سے مناقض ہے کیونکہ ہمیں واضح طور پر معلوم ہے کہ اس کواس اقرار کے بغیر چارہ نہیں تھا شرح وہبانیہ میں جس کو اس کے شارح شرنبلالی نے تحریر کیا ہے کہ اس پر فتوٰی نہ دیا جائے کیونکہ اقرا رکرنے والے کوکوئی عذر نہیں، زیادہ سے زیادہ یہ کہ جس کے حق میں اس نے اقرار کیا ہے اس سے قسم لی جائے امام ابویوسف کے قول پر جوکہ اس جیسے مسئلہ میں فتوٰی کے لئے مختار ہے۔ میں کہتا ہوں اسی پر مصنف نے جزم فرمایا ہے۔(ت)
 (۱؎ درمختار    کتاب الاقرار     فصل فی مسائل شتی     مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۱۴۰)
ردالمحتار میں نورالعین سے ہے:
فی دعوٰی التلجئۃ یدعی الوارث علی المقرلہ فعلالہ وھو تواضعہ مع المقر فی السر فلذایحلف۲؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
فرضی بیع کے دعوٰی میں مقرلہ کے خلاف وارثوں کا دعوٰی ہوجاتا ہے کہ اس نے اقرار کرنیوالے سے خفیہ سمجھو تہ کیا ہے اس لئے اس سے قسم لی جائیگی واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
 (۲؎ ردالمحتار   کتاب الاقرار     فصل فی مسائل شتی   داراحیاء التراث العربی بیروت     ۴/ ۴۵۸)
Flag Counter