فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی) |
مسئلہ۱۴۴: ازریاست رامپور گھیر شرف الدین خاں مرسلہ اسعمٰیل خاں ۱۶شعبان المعظم ۱۳۲۳ھ کیافرماتے ہیں علمائے دین اس صورت میں کہ عرضی دعوی اور اظہار محمد نبی خاں اور محمد حسن شاہدین ہمرشتہ آیا شہادت دونوں گواہوں کا مطابق دعوٰی و مثبت دعوٰی ہے یانہیں، اور دونوں شہادتیں باہم مطابق ہیں یانہیں اور محمد نبی خاں کا ایک جگہ یہ کہنا کہ مدعی نے کہا کہ ان پنج قطعات کو جس قیمت کو پرتہ سے پڑے میں نے اپنے حق شفعہ میں لیا اور مدعی عرض دعوٰی میں لکھاتا ہے کہ پنج میں سے جو سہام مبیعہ ازروئے پر تہ کے پڑیں گے میں نے اسی قیمت کو بحق شفعہ لئے ہر دونوں بیان مخالف ہیں یا نہیں اور یہ خلاف بیانی محمد نبی خاں کی مبطل شہادت ہے یانہیں، دوسرے محمد نبی خاں نے طلب شفعہ کرنا عندالمبیع اور موجودگی مشتری بیان کی ہے اور مدعی طلب عندالمشتری تحریر کرتا ہے آیا دونوں میں مخالفت ہے یانہیں، اور محمد حسن کی شہادت خلاف اس سبب سے ہوسکتی ہے یانہیں کہ بلحاظ اندراج عرضی دعوٰی مدعی کا طلب شفعہ کرنا نسبت سہام مبیعہ پنج قطعات مندرجہ میں سے دریافت ہوتا ہے اور شہادت محمد حسن سے بلحاظ خبر دینے علی گوہر خاں کے طلب شفعہ کرنا نسبت ایک غیر معین کے پنج قطعات مکانات سے معلوم ہوتا ہے اور نیز شہادت مذکور محمد حسن مجہول شہادت ہے اس کے بیان سے یہ نہیں ثابت ہوتا کہ وہ حصہ کون سے قطعہ سے ہے یا ہر ایک قطعہ سے،اور نیز یہ اعتراض کہ شاہدین کا بیان باہم مختلف ہے محمد نبی خاں طلب شفعہ کرنا نسبت مجموعہ پنج قطعات مکانات کے اور محمد حسن خاں طلب شفعہ نسبت ایک حصہ کے بیان کرتا ہے شرعا عائد ہوسکتا ہے یانہیں؟ فقط۔ اور کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس صورت میں کہ زید نے اپنا ایک سہم منجملہ دس سہام چھ قطعات مکانات سے جو اس کو وراثۃً پہنچا تھا بدست بکر بیع کیا عمرو نے نسبت پانچ مکانات کے کہ عمر وکا شفعہ انہیں پانچ قطعات میں تھا طلب مواثبت و اشہاد کرکے دعوٰی دائر عدالت کیا، اب سوال یہ ہے کہ بوجہ تفریق صفقہ یہ دعوی جائز ہوگا یا ناجائز؟بینواتوجروا۔۔ اور کیا فرماتے ہیں علمائے دین کہ مکان مذکورہ میں دسواں حصہ زید کا تھا وہ اس نے بدست بکر بیع کیا، دریافت طلب امریہ ہے کہ بعض شاہد نے دسواں حصہ بیع کرنا بیان کیا اور بعض نے یہ کہا زید نے اپنے حصص چھ قطعہ مکانات سے گویا ہر ایک قطعوں میں دس دس سہام قرار دے کر ایک ایک سہم کا بیع کرنا اور طلب شفعہ کرنا بیان کیا یہ اختلاف موجب سقم شہادت ہے یانہیں؟فقط۔
الجواب :کاغذات نظر سے گزرے، ابحاث فقہی پر یہاں سے کچھ کہنا ہے مگر نہ تفصیل کی فرصت نہ تطویل کی ضرورت، لہذا چند اجمالی جملوں اشعاری اشاروں پرقناعت عرضی دعوٰی میں محمد اسمٰعیل خان بنام محمد اکبر خاں دعوٰی دہانید، ایک ایک سہام منجملہ دس دس سہام از پنج منزل مکانات مندرجہ بیع نامہ بحق شفعہ محدودات ذیل واقع رامپور گھیر شرف الدین خاں حسب مرسوم عام محاکم زمانہ دعوٰی تامہ واضحہ ہے جس میں نہ کوئی ابہام منافی صحت، نہ بیان شاہدین کو اس سے مخالفت، آگے بیان تفصیل میں یہ لفظ حکایات طلب میں واقع ہوئے کہ پنج قطعہ مکانات میں سے جو سہام مبیعہ ازروئے پر تے کے پڑیں گے میں نے اسی قیمت کو بحق شفعہ خود لئے اسے وجہ مخالفت دعوٰی و شہادت ٹھہرایا ہے حالانکہ یہ دعوٰی نہیں حکایت الفاظ طلب ہے اور اس میں بھی جو ابہام واقع ہوا ایک ہی سطر بعداسے واضح کردیا ہے کہ فدوی سہام مبیعہ پر پنج قطعات میں سے مدعا علیہ سے بدون قیمت اصلی ازروئے پر تہ کے بحق شفعہ کے طلب کرتا ہے کھل گیا کہ پرتہ ناظر بقیمت ہے نہ کہ ناظر بہ سہام، معہذا یہاں ابہام سہام تعیین دعوی و طلب کے منافی ہی نہیں تعین دو قسم: تعین ذات کہ شیئ فی نفسہٖ محدود و مفرز و متمیز ہو، اور تعین قدر کہ اگرچہ مشاع و مخلوط ہے، مگر اس کی مقدار معلوم و معہود ہے۔ ہر عاقل جانتا ہے کہ شے مشاع میں تعین دوم ہوسکتا ہے تعین اول بے دفع شیوع ناممکن ہے اور بیع صرف تعین ثانی چاہتی ہے، نہ تعین اول کہ بیع مشاع جائز بالاجماع، اور شفعہ مبیع پر اسی حیثیت موجودہ سے وارد ہوگا مفرز ہے تو مفرز اور مشاع ہے تو مشاع شیوع جب کہ مانع بیع نہیں، مانع طلب و دعوٰی شفعہ بھی نہیں وکل ذٰلک واضح جلی عندکل طالب فضلا عن عالم (یہ طالب علم پر واضح اور روشن ہے چہ جائیکہ جو فاضل ہو۔ت) مدعی نے از روئے پر تہ تو باعتبار ثمن کہا اور جو سہام کا ابہام بنظر ابہام ذات رکھا کہ مشاع ضرور مبہم الذات ہوتا ہے نہ کہ بنظر ابہام قدر بلکہ خود اس کا تعین لفظ مبیعہ سے بتادیا کہ بیع نہ ہوئی مگر معلوم القدر کی، پھر دعوٰی شہادت میں تخالف کدھر سے آیا، غایت یہ کہ شہود نے ابہام ذات کا جدا ذکر نہ کیا، نہ اس کی حاجت تھی کہ وہ شیوع سے مستفاد۔ اظہار محمد نبی خاں میں کہیں نہیں کہ مدعی نے مکانات مبیعہ کے پاس جاکر شفعہ طلب کیا بلکہ لکھا ہے کہ فوراً مدعی نے کہا کہ ان پنج قطعات کو (اشارہ مدعی نے کیا تھا) میں نے شفعہ لیا اس وقت عبدالرحمٰن خاں بھی موجودتھا اس کی موجودگی میں یہ سب گفتگو ہوئی تو صاف طلب عندالمشتری بتاتا ہے نہ کہ عندالمبیع۔ کیا فقط اشارہ اگرچہ دور سے ہو عندیت ہے اس نے تو آگے چل کر اور صاف ترکہاہے کہ اسمٰعیل خاں نے زیر درخت نیب سڑک پرکھڑے ہوکر طلب شفعہ کیا مکانات متنازعہ متفرق ہیں جہاں طلب شفعہ کیا تھا اس جگہ سے سب مکانات دکھتے تھے مدعی نے کل مکان کی جانب اشارہ کیا تھا اور بالفرض اس بیان سے طلب عندالمبیع بھی ثابت ہوتو کیا طلب عندالمشتری کی اس میں صریح تصریح نہیں پھر بیان مدعی و شاہد میں کیا تخالف ہوا۔ کیا مدعی کے کلام میں کوئی حرف طلب عند المبیع سے انکار ہے یا طلب عندالمشتری بے طلب عند المبیع یا دونوں اجتماع مسقط شفعہ ہے یا ذکر اول بے ذکر ثانی مخل دعوٰی ہے یا عندالمبیع طلب میں حق زیادہ ملتا عندالمشتری طلب میں کم ہوجاتا ہے پھر اسے شہادۃ علی الزیادۃ سے کیا علاقہ، یا عدم ذکر و ذکر عدم میں فرق نہ کرنے کا منشا کیا ہے۔ شہادت محمد حسن پر جملہ اعتراضات اس کا تمام کلام نہ دیکھنے سے ناشی اس کی صدر عبارت یہ ہے:علی گوہر خاں نے کہا اکبر خاں نے دس حصوں سے ایک حصہ چھ قطعہ مکانات میں سے دولھا خاں کے ہاتھ بیچا ہے اس پر فوراً اسمٰعیل خاں نے کہا ان پنچ قطعات مکانات میں سے (مکانات کی جانب اشارہ کیا) جس قیمت کو وہ پڑتے میں آئے میں نے شفعہ میں لیا ایک حصہ کہنے سے ضروریہ معنی بھی محتمل کہ مجموع مکانات سے صرف ایک حصہ بیع ہوا اب نہیں معلوم کہ وہ حصہ کس مکان کا ہے تو اس خبر پر جو طلب ہوئی طلب مجہول ہوئی اور اب یہ یہاں بیان مدعی و بیان شاہد دیگر سب کے خلاف ہو ا، مگر اتفاقاً اس عبارت سے یہ بھی محتمل کہ ہر مکان کے دس حصو ں سے ایک ایک حصہ بیع ہو اور وہی مدعی نے طلب کیا ایک ایک میں سے ایک ایک کا حذف کردینا مستبعد نہیں۔
اﷲ عزوجل فرماتا ہے:
لانفرق بین احدمن رسلہ ۱؎
ای بین احدواحد۔
ہم رسولوں میں سے کسی ایک کا فرق نہیں کرتے یعنی اﷲ تعالٰی کے رسولوں میں ہر ایک ایک میں فرق نہیں کرتے۔(ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۲/ ۲۸۵)
عبارت مظہر صرف اسی قدر ہوتی جب بھی اسے مخالف بیان مدعی و بیان گواہ آخر کہنا ٹھیک نہ تھا غایت یہ کہ بوجہ احتمال ناکافی ہوتی مگر محمد حسن خاں نے صرف اسی قدر بیان نہ کیا بلکہ آگے چل کر مطلب صراحۃً کھول دیا جس سے وہ احتمال اٹھ گیا اور کلام بلاشبہ بیان مدعی و شاہد آخر کے مطابق ہوگیا وہ کہتا ہے سواایک ایک سہام مبیعہ کے باقی جملہ مکانات میں سے نو نو سہام اسمٰعیل خان وغلام جعفر خان کے ہیں یہ دعوٰی اسمٰعیل خاں نے پنج قطعات میں سے ایک ایک سہام مبیعہ کا کیا ہے، ان تصریحات کے بعد اعتراضات ابہام و جہالت و مخالفت مدعی و مخالفت شاہد سب خلاف انصاف ہیں۔ شفعہ میں تفریق صفقہ مضر نہیں جبکہ مدعی کا حق صرف بعض مبیع میں ہو۔
ردالمحتار میں ہے:
لون کان شفیعا لاحدھما یاخذ التی ھو شفیعھما اتفاقا لان الصفۃ وان اتحدت فقد اشتملت علی مافیہ الشفعۃ وعلی مالیست فیہ فحکم بھا فیما تثبت فیہ اداء لحق العبد کذا فی درر البحار وشرح المجمع ۱؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
اگر دو رقبوں میں سے ایک میں شفعہ رکھتا ہو تو بالاتفاق اس رقبہ کو ہی لے سکے گا جس میں اس کو شفعہ کا حق ہے، سودا اگرچہ ایک ہے مگر اس کا ایک حصہ شفعہ والا ہے اور دوسرا حصہ شفعہ والا نہیں ہے تو جس حصہ میں شفعہ ہے اس میں شفعہ کا حکم کیا جائے گا تاکہ بندے کا حق اداہوسکے۔ دررالبحار اور شرح المجمع میں یونہی ہے۔واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الشفعۃ باب مایبطلہا داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۱۵۷)