فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
145 - 151
یازدہم : جن پر بلفظ دولھا خاں دستخط ہیں اور اکثر وہی ہیں ۶۳ رسیدوں میں صرف ۴ پر عبدالغافر خاں ہے اور ۵۹ پر دولھا خاں، ان کی نسبت اتنا بھی نہیں پہچاننے والوں نے شان خط پر گواہی دی یا کسی کاغذ کچہری پر یہ دستخط ملے یہاں صرف اس قدر سے کام لیا گیا کہ اس کی شان شان دستخط سابق سے ملتی ہے یعنی ظن در ظن قیاس در قیاس اور اس پر حکم یہ کہ ''دستخط یقینا مدعا علیہ کے ہیں
انا ﷲ وانا الیہ راجعون o
دوازدہم : یہ کمی کہ مدعا علیہ کانام تو عبدالغافر خاں ہے اور ان میں دولھا خاں، اسے یوں پورا فرمایا کہ''اکثر شہادتوں سے ثابت کہ مدعا علیہ کا عرف دولھا خاں بھی ہے'' شہادتوں کا ردی حال اوپر گزرا، اگر ان کے علاوہ اور شہادتیں مراد ہیں تو انہوں نے یہ شہادت دی کہ عبدالغافر خاں کو دولھا خاں بھی کہتے ہیں یا یہ کہ دولھا خاں جہاں لکھا اس سے یہی عبد الغافر خاں مراد ہیں، اور اگر یہی شہادتیں مراد تو سخت عجب۔ شہادتوں پر اعتما دبذریعہ شہادت تحریری یعنی رسیدات مذکورہ ہوا، اب ان رسیدات پر اعتماد ان شہادتوں سے ہوکھلا دَور ہے۔
سیزدہم : منجملہ زر اصل ایک ہزار کا عبدالغافر خاں کو پہنچنا ولی خاں و غفران کی شہادتوں سے (جن کا حال اوپر گزرا) ثابت ماننا اور رسید ورقعہ یقیناً تحریر عبدالغافر خاں جاننا مگر اس بنا پر کہ رقعہ بے رجسٹری ہے لہذا بموجب فلاں دفعہ قانون رجسٹری ریاست ثبوت میں لینے کے قابل نہیں اس کی ڈگری نہ دینا سخت عجب ہے بحکم دفعہ رقعہ ثبوت میں لیا جانا نہ سہی شہادتوں کا ثبوت کدھر گیا اگر شہادتیں قابل قبول نہ تھیں ان سے ثبوت ماننا کیا معنی اور مقبول تھیں تو ان پر عمل نہ کرنا یعنی چہ، یہ شریعت مطہرہ کے بالکل خلاف ہے، ہاں یوں کہنا تھا کہ شہادتیں ان وجوہ سے (کہ ہم نے فتوٰی میں بیان کیں) باطل ہیں اور کوئی رقعہ بے شہادت نہیں لیا جاسکتا خصوصاً اس میں نقص قانونی بھی ہے لہا ہزار کا پہنچنا اصلاً ابت نہیں تو بات صحیح ہوتی۔
چاردہم : تنقیح ۵ خود فیصلہ نے بحق مدعیان ثابت نہ مانی، تنقیح ۲ کو تین دلیلوں سے ثابت گمان کیا جن میں دو بے علاقہ محض ہیں اور ایک باطل،اول بیع وفا حکم رہن میں ہے اور مرہون کا کرایہ اور دیگر محاصل حق راہن اور قابل مجرائی بزر رہن ہے، حکم شرع یہ ہے کہ مرتہن بے اجازت راہن شخص ثالث کو کرایہ دے تو کرائے کا مالک مرتہن ہے ہر گز وہ ملک راہن نہیں، ہاں اس کے حق میں خبیث ہے تصدق کردے یا راہن کو دے دے اگر حق راہن ہوتا تصدق کا حکم کیونکر ہوسکتا۔
فتاوٰی قاضیخان و فتاوٰی عالمگیریہ وغیرہما میں ہے :
ان اٰجر المرتہن من اجنبی وکانت الاجارۃ بغیر اذن الراھن یکون الاجر للمرتہن یتصدق بہ۱؎۔(ملخصاً)
رہن لینے والے نے مکان کو رہن رکھنے والے کی اجازت کے بغیر کسی تیسرے شخص کو کرایہ پردے دیا تو اجرت و کرایہ مرتہن (رہن لینے والے) کا ہوگا اور اس کو صدقہ کردے گا(ملخصاً)۔(ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ بحوالہ قاضیخاں کتاب الرہن الباب الثامن نورانی کتب خانہ پشاور ۵/ ۴۶۴)
چاردہم تنقیح ۵ خود فیصلہ نے بحق مدعیان ثابت نہ مانی، تنقیح ۲ کو تین دلیلوں سے ثابت گمان کیا جن میں دو بے علاقہ محض ہیں اور ایک باطل،اول بیع وفا حکم رہن میں ہے اور مرہون کا کرایہ اور دیگر محاصل حق راہن اور قابل مجرائی بزر رہن ہے، حکم شرع یہ ہے کہ مرتہن بے اجازت راہن شخص ثالث کو کرایہ دے تو کرائے کا مالک مرتہن ہے ہر گز وہ ملک راہن نہیں، ہاں اس کے حق میں خبیث ہے تصدق کردے یا راہن کو دے دے اگر حق راہن ہوتا تصدق کا حکم کیونکر ہوسکتا۔
وجیز کردری وحموی علی الاشباہ میں ہے:
اٰجر المرتہن الرھن من اجنبی بلا اجازۃ الراہن فالغلۃ للمرتھن ویتصدق بھا عندالامام ومحمد کالغاصب یتصدق بالغلۃ و یردھا علی المالک ۱؎ قلت ای ویطیب لہ لانہ نماء ملکہ اخص الطرفین لانہا تطیب للمرتہن عند الامام الثانی رضی اﷲتعالٰی عنہم فلا یتصدق بشیئ۔
کسی رہن چیز کو مرہن نے راہن کی اجازت کے بغیر اجنبی شخص کو کرایہ پر دے دیا تو کرایہ کی آمدن مرتہن کی ہوگی اور امام ابوحنیفہ اور امام محمد رحمہماا ﷲ تعالٰی کے نزدیک وہ اسے صدقہ کردےگا۔ جیسا کہ غاصب مغصوبہ چیز کی آمدن کو صدقہ کرتا ہے یا مالک کو واپس ادا کرتا ہے اھ، میں کہتاہوں یہ آمدن مالک کے لئے طیب ہے کیونکہ اس کی ملکیت کی آمدن ہے، مصنف نے طرفین رحمہا اﷲ تعالٰی کا خصوصیت سے اس لئے ذکر کیا ہے کہ امام ابویوسف رحمہ اﷲتعالٰی کے نزدیک یہ آمدن مرتہن کے لئے طیب ہے لہذا صدقہ نہ کرے(ت)
(۱؎ غمز عیون البصائر بحوالہ البزازیہ مع الاشباہ والنظائر، الفن الثالث کتاب الرھن ادارۃ القرآن کراچی ۲/ ۱۳۔۱۱۲)
یہاں اگر ہے تو یہی صورت ہے اس میں زر کرایہ اصل میں مجرا کرنے کا حکم ایسا ہے کہ زید نے عمرو سے پانچ ہزار قرض لئے عمرو نے شخص ثالث بکر سے کچھ ناجائز رقمیں حاصل کیں اب زید کہے میرا قرض ادا ہوگیا کیونکہ تو ایک راہ چلنے سے ناجائز رقم لے چکا، کیا اس میں زید کو مجنوں نہ کہا جائے گا، اگر یہ وجہ اول اس صورت کو شامل تو حکم یقینا باطل، اور اگر یہ مراد کہ یہ اجارہ باذن راہن تھا لہذا وہ مالک اجرت ہوا، اور لی مرہن نے،تو زراصل میں محسوب ہونی چاہئے، تو یہ وجہ نہ رہی بلکہ وجہ دوم ہوگئ، وجہ دوم یہی ہے کہ اجارہ باذن راہن تھا لہذا''رہن باطل اور کرایہ لائق مجرائی، یہ انہیں شہادات باطلہ اشرف علی وغیرہ پر مبنی ہے جن کے وجوہ بطلان روشن ہوگئیں اور جن کو خود مجوز نے ناکافی جانا جیسا کہ ابھی رد ۱۳ میں گزرا۔ سوم یہ کہ قبضہ مرتہن ثابت نہیں، اس کی بحث ابھی آتی ہے، قبضہ یقینا ثابت ہے، اور بالفرض نہ سہی تو اس سے کرایہ اصل میں کیوں مجراہونے لگا، غایت یہ کہ یہ غاصب ہو اور غاصب کہ مغصوب کو کرایہ پر دے مالک کرایہ خود غاصب ہوگا نہ کہ مغصوب منہ جیسا کہ ابھی گزرا، ہاں اجارہ باذن راہن ثابت ہونا درکار تھا تو یہ بھی وجہ دوم ہے کہ باطل ہے، بالجملہ اصلاً کوئی تنقیح بحق مدعیان ثبوت کا نام بھی نہیں رکھتی۔
پانزدہم تنقیح ۷ بلاشبہہ بحق مدعیا علیہ ثابت ہے جس کا بیان ابطال دعوٰی کی وجہ اول میں گزرا۔
شانزدہم تنقیح ۸ قابل بحث نہیں، نہ اس کا ثبوت شرع کچھ نافع مدعا علیہ تھا، نہ عدم ثبوتر کچھ مضر، تنقیح ۱۰ وہ قطعاً بحق مدعا علیہ ایسے قطعی ثبوت سے ثابت ہے کہ بکلائے ہل نہیں سکتا تجویز میں اس پر ایک طویل بحث ہے کہ قبضہ مرتہنہ اس کی شہادتوں سے ثابت نہیں مگر یہ بحث محض بیہودہ ودور از کار ہے شہادتوں سے قبضہ مرتہنہ کاثبوت نہ سہی بلکہ یہ فرض کرلیجئے کہ شہادتوں سے راہن کا مرتے دم تک ان مکانوں پر قابض رہنا ثابت ہو جب بھی قبضہ مرتہنہ یقینا ثابت ہے اور ورثۃً راہن کا اس سے انکار مسموع نہیں وہ قبضہ راہن عاریۃً باجازت مرتہنہ سمجھا جائیگا جوہرگز رہن میں مخل نہیں، وجہ یہ کہ گنیشی صراحۃً بیعنامہ میں اقرارکرتا ہے کہ ''بدست نوشان بیگم بیع کیا میں نے، اور زر ثمن تمام وکمال بعد صحت عقد بیع ایجاب و قبول طرفین کے مجھ بائع نے مشتریہ مذکورہ سے وصول پاکر قبض و دخل مشتریہ کیا مبیعہ مذکورہ پرکرادیا اور قبضہ ملکیت اپنی سے خارج کرلیا او مشتریہ نے بادائے کل زرثمن مجھ بائع سے قبضہ مالکانہ اپنا مبیعہ مذکورہ پر کرلیا''بعد اس اقرار قطعی کے قبضہ مرتہنہ میں کلام کی گنجائش نہ رہی، نہ اسے کوئی شہادت دینے کی اصلاً حاجت، نہ شہادت سے ثابت نہ ہونا اسے کچھ مضر، بلکہ قبضہ راہن ثابت ہو تو وہ بھی منجانب مرتہنہ ہے۔
جواہر الفتاوٰی امام کرمانی و عقود الدریہ علامہ شامی میں ہے :
رھن دارہ واعترف بالقبض الاانہ لم یتصل بہ القبض فاذا تصادقا علی القبض والاقباض یؤخذ باقرارہ۱؎۔
کسی نے اپنا مکان رہن رکھا اور مرتہن کے قبضہ کا اعتراف کیا لیکن عملاً مرتہن کا قبضہ نہ ہوا تو دونوں نے جب قبضہ لینے اور دینے پر اتفاق کرلیا تو اب راہن کے اقرار کو لیا جائیگا۔(ت)
(۱؎ العقود الدریۃ بحوالہ جواہر الفتاوٰی کتاب الرہن ارگ بازار قندھار افغانستان ۲/ ۲۵۹)
نیز ہر دو کتاب مذکور میں ہے :
رجل رھن دارہ والراھن متصرف فیہ حتی مات ثم اختلف المرتہن و ورثۃ الراھن انہ کان مقبوضا ام لا فان اقام المرتھن البینۃ علی اقرار الراھن بالرھن و التسلیم یحکم بصحۃ الرھن ودعوی فساد الرھن لاتقبل بظاہر ماکان فی ید الراھن لانہ لما حکم علیہ باقرارہ بالرھن حمل علی ان الید کانت ید العاریۃ ۱؎۔
ایک شخص نے اپنا مکان رہن رکھا اور خود راہن ہی اپنی موت تک اس میں تصرف کرتا رہا پھر مرتہن او راہن کے ورثاء میں مرتہن کے قبضہ میں ہونے نہ ہونے کا اختلاف ہوا اگر مرتہن نے راہن کے اس اقرار پر کہ اس نے رہن رکھا اور مرتہن کو سونپ دیا ہے، گواہ پیش کردئے تو رہن کے صحیح ہونے کا فیصلہ دیاجائے گا، اور ظاہراً راہن کے قبضہ کی بنا ء پر فساد رہن کا حکم نہ ہوگا اس کے ظاہری قبضہ کو عاریۃً قبضہ پر محمول کیاجائیگا(ت)
(۱؎ العقود الدریۃ بحوالہ جواہر الفتاوٰی کتاب الرہن ارگ بازار قندھار افغانستان ۲/ ۲۵۹)
غرض تجویز میں ۱۲تنقیحیں ۶ جانب مدعا علیہما میں چار بیکار او ۲ یقینا بحق مدعا علیہما ثابت ہفتم بحق مدعا علیہ و دہم بحق مدعا علیہا۔
ہفدہم تنقیح ۹ بے معنی ہے وہ قائم کرنے ہی کی نہ تھی جس کے ثبوت یا عدم سے کسی فریق کو کچھ نفع نہ ضرر، خصوصاً مدعا علیہا پر اس کا بار ثبوت رکھنا تو سخت عجیب تر۔ بیع مسماۃ کے نام ہوئی اس کے شوہر نے روپیہ اس کی طرف سے دیا۔ گنیشی نے زر ثمن تمام و کمال مشتریہ سے وصول پانے کا اقرار لکھا اب اس بحث کا کیا محل رہا کہ روپیہ مسماۃ کی ملک تھا یا نہیں یہ دلیل ملک ہے جو خلاف کا مدعی ہو ثبوت اس کے ذمہ ہے نہ کہ مدعا علیہا پر، ورنہ تمام بیوع و اجارات سخت دقت میں پڑجائیں ہر مشتری اور ہر مستاجر پر یہ ثبوت پیش کرنا لازم ہوکہ روپیہ اس کی ملک تھا اور یہ لازم بھی کیوں ہو، بالفرض روپیہ اس کی ملک نہ تھا دوسرے کے روپے سے باجازت یا بلا اجازت اس نے خریدی تو اس سے شراءاس کا کیوں نہ رہا،
قاعدہ شرعیہ ہے کہ:
الشراء اذا وجد نفاذاعلی المشتری نفذ۲؎، کما فی الدرالمختار وغیرہ۔
خریداری جب خرید کرنے والے کے حق میں پائی جائے تو اس پر خریداری کا حکم دیا جائے گا، جیسا کہ درمختار وغیرہ میں ہے(ت)
(۲؎ ردالمحتار کتاب البیوع باب المتفر قات داراحیاء التراث العربی بیروت ۴/ ۲۲۰)
فتاوٰی خیریہ میں ہے:
لاتثبت الدار للاب بقول الابن اشتریتہا من مال ابی اذلایلزم من الشراء من مال الاب ان یکون المبیع للاب لانہ یحتمل القرض والغصب۱؎۔
بیٹے کے اس کہنے پر کہ میں نے باپ کے مال سے خریدا ہے باپ کی ملکیت مکان پر ثابت نہ ہوگی کیونکہ باپ کے مال سے خریدنے پر یہ لازم نہیں آتا کہ بیع باپ کے لئے ہوئی کیونکہ باپ کے مال کو بطور قرض یا غصب استعمال کرنیکا احتمال موجود ہے۔(ت)
(۱؎ فتاوٰی خیریہ کتاب البیوع دارالمعرفۃ بیروت ۱/ ۲۱۹)
ہیجدہم تنقیح ۱۱و۱۲شرعاً بیکار ہیں قانونی باتیں ہیں کہ ثابت ہوتیں تو مدعا علیہ کو قانوناً مفید تھیں، نہ ثابت ہوتیں تو اس کا کچھ ضرر نہیں، اب نہ رہی مگر تنقیح ۸، یہ قابل بحث نہیں نہ اسکا ثبوت شرعاً کچھ نافع مدعا علیہ تھا، نہ عدم ثبوت کچھ مضر۔ یہ پچاس وجوہ ہیں،تین سے دعوے باطل ہے، ۲۹ سے شہادتیں ۱۸ سے تجویز۔ اور انہیں کے ضمن میں مراتب سوال کا جواب مع زیادت کثیرہ آگیا اور حکم اخیریہ ہے کہ فیصلہ ججی سراسر بے اصل وواجب الرد ہے اور مدعا علیہما دعوائے باطلہ مدعیان سے یکسر بری۔ واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم
مسئلہ۱۴۳: مسئولہ حافظ محمود حسن صاحب۲۳/رمضان المبارک ۱۳۱۷ھ
زید نے عمرو عطار کو ایک نسخہ دکھلایا کہ اس کی قیمت کیا ہے، اس نے کہا آٹھ آنے، زید نے کہا بنادو آج تیار کر دو، عطار نے کہا دو تین روز میں ہوگا، زید نے کہا تو مجھ کو بذریعہ پارسل بھیج دینا، پارسل جو بیرنگ آیا اس میں قیمت (٭٭)لکھی ہے محصول ۱۲/ بالجملہ اختلاف قیمت کے مقدار میں ہے، زید کہتا ہے ۸/قیمت کہی گئی جس پرمیں نے تیاری کےلئے حکم کیا، اور عمرو فرماتا ہے میں نے (٭٭) کہے تھے، پس قول عندالشرع کس کا معتبر ہے؟بینواتوجروا۔
الجواب: جو گواہان شرعی سے اپنا دعوٰی ثابت کردے اسی کے حق میں حکم کیا جائےگا، اور اگر دونوں طرف شہادت کافیہ ہو تو عمرو بائع کے گواہ معتبر ہونگے کہ وہ مثبت زیادت ہے اور اگر کوئی گواہان شرعی نہ دے سکے تو زید مشتری سے پہلے حلف لیا جائے واﷲ میں نے عمرو سے (٭٭) کویہ دوانہ خریدی ۸/ کوخریدی تھی، اگر مشتری قسم کھانے سے انکار کرے فیصلہ بحق بائع ہے اور، قسم کھالے تو اب بائع سے حلف لیا جائے کہ واﷲ میں نے یہ دوا زیدکے ہاتھ ۸/ کو نہ بیچی (٭٭) کوبیچی تھی اگر بائع حلف سے انکار کرے فیصلہ بحق مشتری ہوا اور اگر وہ بھی قسم کھالے تو چیز واپس دی جائے او رباہم وہ دونوں مل کر بیع فسخ کرلیں یا حاکم درخواست پرفسخ کردے،
فی الدرالمختار اختلف المتبا یعان فی قدر ثمن حکم لمن برہن وان برھنا فلمثبت الزیادۃ، وان عجز اولم یرض واحد منھما بدعوی الاٰخر تحالفا وبدئ بیمین المشتری لوبیع عین بدین ویقتصر علی النفی فی الاصح و فسخ القاضی البیع بطلب احدھما او طلبھما ولاینفسخ بالتحالف ولا بفسخ احدھما بل بفسخھما بحرومن نکل منھما لزمہ دعوی الاٰخر بالقضاء اھ ۱؎ مختصرا وفی ردالمحتار فی الزیادات یحلف البائع واﷲ ماباعہ بالف ولقد باعہ بالفین ویحلف المشتری باﷲ مااشتراہ بالفین ولقد اشتراہ بالف۲؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
درمختار میں ہے فروخت کرنے والے اورخریدار کے درمیان طے پانے والی رقم میں اختلاف ہوگیا تو دونوں میں سے جو بھی گواہ پیش کردے اس کے حق میں حکم ہوگا ، اور اگر دونوں نے گواہ پیش کردئے تو رقم میں زیادتی والے کے حق میں فیصلہ ہوگا اور اگر دونوں گواہ نہ پیش کرسکیں اور کوئی بھی دوسرے کے حق میں دست بردار نہ ہو تو دونوں سے قسم لی جائے اور قسم میں پہل مشتری سے کی جائے جبکہ یہ بیع مال کی نقد کے بدلے ہو، اور قسم نفی پر کافی متصور ہوگی اصح قول کے مطابق اور ایک یا دونوں کے مطالبہ پر قاضی بیع کو فسخ کردے، اور اگر دونوں قسم دیں تو اس سے بیع خود بخود فسخ نہ ہوگی، دونوں فریقوں میں سے ایک کے فسخ کرنے پر فسخ نہ ہوگی بلکہ دونوں کے اتفاق سے فسخ ہوگی، بحر اور دونوں میں سے کوئی قسم سے انکار کرے تو دوسرے کا دعوٰی قضاء لازم ہوجائیگا اھ مختصراً۔ اور ردالمحتار میں ہے کہ زیادات میں فرمایا کہ بائع یوں قسم کھائے خدا کی قسم میں نے اسکو ایک ہزار میں نہیں دو ہزار میں فروخت کیا ہے، اور مشتری یوں قسم کھائے کہ خدا کی قسم میں نے دو ہزار میں نہیں خریدی میں نے تو ایک ہزار میں خریدی ہے۔ واﷲتعالٰی اعلم۔(ت)
(۱؎ درمختار کتاب الدعوٰی باب التحالف مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۱۲۱)
(۲؎ ردالمحتار کتاب الدعوٰی باب التحالف داراحیاء التراث العربی بیروت ۴/ ۴۳۰)