فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
144 - 151
تجویز و فیصلہ
اس کی نسبت کچہ کہنے کی حاجت نہیں اولاً سر ے سے دعوٰی ہی صحیح نہیں اور جب دعوٰی صحیح نہ ہو تو مدعا علیہ سے جواب بھی نہیں لیا جاتا، نہ کوئی کارروائی چلے، شہادتیں گزریں اور غیر صحیح دعوٰی کی ڈگری ہو یہ سراسرباطل ہے۔
درمختا رمیں ہے :
یسأل القاضی لامدعی علیہ عن الدعوی بعد صحتہا والاتصدر صحیحۃ لایسأل ۱؎۔
صحت دعوٰی کے بعد قاضی مدعا علیہ سے پوچھے اور اگر دعوٰی صحیح نہیں تو مدعا علیہ سے کچھ نہ پوچھے۔(ت)
(۱؎ درمختار کتب الدعوٰی مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۱۱۶)
ثانیاً گواہیاں باطل ہیں اور مدعا علیہ کا اقرار یا نکول نہ ہونا بدیہی تو قضا کی رہا مسدود اور حکم باطل ہیں۔
قاضی صرف حجت و دلیل کی بناء پر فیصہ دے سکتا ہے اور حجت تین چیزیں ہیں:گواہی، اقرار اور قسم سے انکار۔(ت)
(۲؎ الاشباہ والنظائر بحوالہ الخانیہ الفن الثانی کتاب القضاء ادارۃ القرآن کراچی ۱/ ۳۳۸)
باینہمہ اجمالاً دو ایک حرف اس کے متعلق بھی لکھنا مناسب کہ تفصیل ایک مستقل رسالہ ہوگی، دو وجہیں یہ ہوئی
سوم تنقیح نمبر۱ کو بربنائے شہادت موتی شاہ و وزیر خاں بحق مدعیان ثابت ماننا صراحۃً باطل ہے، ردشہادات میں اس کابیان مفصل گزرا۔
چہارم تنقیح نمبر۲ونمبر۳ کی نسبت رجویز کو خود اقرار ہے کہ شہادت سے اس کاثبوت ناممکن ہے پھر محض اس بنا پر کہ مدعا علیہ مسلمان معزز ذی علم ہے ان کو بحق مدعیان مان لینا سراسر خلاف انصاف ہے یوں تو اہل علم و معززین پر کفار وفجار کے دعوٰی سود ہمیشہ بے شاہدت مسموع ہوجائیں گے زید کو ہزاروں روپے دے دین اور خالد مسلمان ذی علم پر دعوٰی کردیں کہ زید اس کا علاقہ ار ہے اصل میں سودخالد نے لیا اور مسلم وعالم ہونے کے سبب نام دوسرے کا کیا۔
پنجم رسید بہی خود ہی ثابت نہیں،
اولاً آئندہ اس کی تصریح کی جائے گی۔
ثانیاً اس کے اختراعی ہونے پر ایک واضح قرینہ نومبر ۴ میں دوبارہ (٭٭)کا اقرار ہے رسید بہی میں مذکور نہیں کہ یہ کس مہینے کا مطالبہ ہے کسی مہینے میں وصول ہونا اسی مہینے کے مطالبہ ہونے پر دلیل نہیں پہلے کا بھی ہوتا ہے پیشگی بھی ہوتا ہے اگر یہ رسیدات عبدالغافر خاں کی ہوتیں یوں مبہم و مجمل مکرر نہ ہوتیں۔
ثالثا رسید بھی انہیں اغلاط پر مرتب ہوئی ہے جو مدعیوں نے دعوے میں کیں جن کا بیان وجوہ ابطال دعوٰی میں گزرا اگر رسیدات واقعی ہوتیں حسب صحیح پر ہوتیں، اور بالفرض اگر مسلم ہو تو ہم وجہ ہفتم عام میں ثابت کرچکے کہ مطالبہ کو شوہر کا اپنے دستخط سے وصول کرنا بیجا نہیں۔
ششم : ایک ہزار کی رقم منجملہ زر اصل کو عبدالغافر سخاں کا وصول کرنا ماننا اور اس کی ڈگری نہ دینا تجویزکا صریح تناقص ہے اگر پہنچنا ثابت ہے تو حقدار کو حق سے محروم کار قضاء نہیں قاضی اس لئے مقرر ہوتا ہے کہ حقدار کو حق دلائے، نہ اس لئے کہ حق مانے اور محروم کردے، اور اگر ثابت نہیں تو اس کے وصول کرنے سے استدلال کیامعنی۔
ہفتم : رسیدات پر دستخط کرنے اور ہزار کی رقم خود وصول کرنے کو تنقیحات ۲و۳ کے ماحصل کا مثبت ماننا الٹی منطق ہے بلکہ یہ ان کا صریح رد ہے کہ اس میں اس امر شنیع کی اپنی نسبت اعلان ہے جس کا اخفاء چاہا تھا، اگر واقعی یہ سود کی رقمیں ہوتیں عبدالغافر خاں جس طرح دستاویز میں الگ رہا ان وصولوں میں بھی خود نہ پڑنا مسماۃ کے بھائی وغیرہ کسی اور کا پردہ رکھتا۔ کیا فقط دستاویز میں نام ہونے سے اعلان ہوتا ہے جس پر گواہان حاشیہ یا اہل رجسٹری ہی واقف ہوتے اور یہ وسالہا سال تک بارہا علانیہ بر ملا مسلمانوں ہندوؤں سب کے سامنے وصول کرنا باعث اعلان نہیں، کیا گواہ نہیں کہ رہے ہیں کہ وہ اوردیکھنے والے ہندو تک متعجب ہوئے کہ یہ مسلمان ہوکر کیونکر سود لیتے ہیں نوٹ کرنے والوں نے اسے نوٹ کیا مولویوں کسے مسئلہ پوچھا ہاتھیوں پر بیٹھ کر تذکرہ کیا خود ایک ہندو نے اپنے نوکر سے نوٹ کرنے کو کہا اور ان سب سے زائد موتی شاہ ووزیر خاں کی شہادتیں ہیں کہ علانیہ سود کی گفتگو مول تول کرنا بتاتے ہیں موتی شاہ کہتا ہے ''فریقین کی گفتگو میں آدمی ہندو مسلمان بہت تھے'' وزیر خاں کہتا ہے ''مسلمان زائد تھے ہندو کم تھے'' موتی شاہ کہتا ہے ''وقت گفتگو دن کے دس بجے کا تھا، اس واقعہ کے یادرکھنے کا ذریعہ یہ ہے کہ ۱۴کا سودٹھہراتھا حالانکہ مسلمان کبھی سود نہیں لیتے ہیں'' جو ایسا بیبیاک ہواسے اخفا کیا معنی، لہذا یہ تمام بیانات تصنیف شدہ ہیں۔
ہشتم : تنیقح ۴ کے متعلق جن شہادتوں اور ان کے بالترتیب بیانوں سے استدلال کیا ان کے بکثرت ابطال مباحث سابقہ میں گزرے حاجت اعادہ نہیں، اس تنقیح کا ایک حرف بھی بحق مدعیان ثابت نہیں مگر غنیمت ہے کہ تجویز نے ان تمام شہادتوں کو خود ہی ناکافی مانا کہ ''اس رقم اقرار ی کے ایصال بوجہ تائید شہادت تحریری کے میں ثابت قرار دیتا ہوں'' یعنی وہ نہ ہوتی تو میں ان گواہیوں کونہ مانتا معلوم ہوا کہ سب گواہیاں ناکافی ہیں، شہادت تحریری کیا ہے وہی رسید بہی جس کی ردی حالت اوپر گزری اور پوری تفصیل بعونہ تعالٰی آگے آتی ہے تو مؤید رہا نہ مؤید اور ثبوت تنقیح باطل ومسترد۔
نہم : ذی علم مجوز نے مدعیوں اور شاہدوں اور رسید بہی جن کے کاذب ہونے کی ایک اور دلیل ظاہر کی جو ہمارے خیال میں بھی نہ تھی فرمایا''منجملہ رقم مودی بنام کرایہ (٭٭)کی ایسی رقم ہے جس کے متعلق مدعیان نے کوئی رسید پیش نہ کی، اور تحریر کرتے ہیں کہ مدعا علیہ نے براہ بدنیتی اس رقم کی رسیدات نہ دیں جو کتاب رسیدات مدعیان نے پیش کی اس میں سوائے رقم (٭٭)کے باقی رقوم درج ہیں'' لیکن مدعیان و گوہان و رسید بہی صرف اخیر ۷ ماہ کی رقم (٭٭)کی رسید نہ دینی بتاتے ہیں تو بیان ذی علم مجوز کے مقابل سب جھوٹے ہیں، یہاں سے اندازہ ہوسکتاہے کہ تجویز کس اعلٰی درجہ بیداری مغزی پر ہے جس نے ان سب کے ایسے اغلاط پر مفید(عہ) روشنی ڈالی۔
عہ: خط کشیدہ لفظ اندازہ سے بنایا گیا۔
دہم : رسیدات جن پر بلفظ عبدالغافر خان دستخط ہیں ان کے نوشتہ عبدالغافر ہونے کا یہ ثبوت کہ اتنے گواہوں نے ان دستخطوں کا خط پہچانا اور اتنے کاغذات کچہری کے دستخطوں سے دستخط ملے لہذا یقینا مدعا علیہ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہیں، محض خلاف شرع باطل ہے کتب مذہب میں تصریحات قاہرہ ہیں کہ خط مشابہ خط ہوتا ہے اور بن سکتا ہے اور یہ کہ اس پر اعتماد جائز نہیں اور یہ کہ قاضی اس پر فیصلہ نہیں دے سکتا بنانے والوں کا جسے تجربہ ہو اور وہ جانتا ہے کہ ایسا بنا لیتے ہیں کہ خود صاحب خط کو دیکھ کر اشتباہ ہوجاتا ہے اور وہ تمیز نہیں کرسکتا کہ میرا لکھا ہے یا دوسرے کا، پھر اوروں کی شناخت کیا چیز ہے۔
ہدایہ میں ہے:
الخط یشبہ الخط فلا یعتبر۱؎
(خط ایک دوسرے کے مشابہ ہوتا ہے لہذا معتبر نہیں۔ت)
(۱؎ الہدایہ کتاب الشہادات مطبع یوسفی لکھنؤ ۲/ ۱۵۷)
فتح القدیر میں ہے :
الخط لاینطق وھو متشابہ ۱؎۔
خط بولتا نہیں وہ متشابہ چیز ہے۔(ت)
(۱؎ فتح القدیر )
درمختار میں ہے:
لایعمل بالخط۲؎
(خط پر عمل نہ ہوگا۔ت)
(۲؎ درمختار کتاب القضاء باب کتاب القاضی الی القاضی مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۸۳)
فتاوی امام قاضی خاں میں ہے :
لایصلح حجۃ لان الخط یشبہ الخط۳؎۔
چونکہ خط ایک دوسرے کے مشابہ ہوتا ہے وہ حجت بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا (ت)
(۳؎ فتاوٰی قاضی خان کتاب الوقف فصل فی دعوٰی الوقف الخ نولکشور لکھنؤ ۴/ ۷۴۲)
نیز خانیہ میں ہے :
اخرج المدعی خطا باقرار المدعی علیہ بذلک فانکران یکون خطہ فاستکتب وکان بین الخطین مشابہۃ ظاہرۃ لایقضی بہ ھوالصحیح ۴؎۔
مدعی نے مدعا علیہ کے اقرار کا خط پیش کیا تو مدعا علیہ نے اپنا خط ہونے سے انکار کردیا تو قاضی مدعا علیہ سے تحریر لکھوائے اور دونوں تحریروں میں واضح مشابہت پائی جائے اس کے باوجود صحیح یہ ہے کہ قاضی اس خط پر فیصلہ نہ دے۔(ت)
(۴؎ فتاوٰی قاضی خان کتاب الدعوی والبینات باب الدعوٰی نولکشور لکھنؤ ۴/ ۴۶۶)
اشباہ والنظائرمیں ہے :
لایعتمد علی الخط ولا یعمل بہ۵؎۔
خط پر نہ اعتماد کیا جائے نہ عمل۔(ت)
(۵؎ الاشباہ والنظائر الفن الثانی کتاب القضاء الخ ادارۃ القرآن کراچی ۱/ ۳۳۸)
کافی شرح وافی میں ہے :
الخط یشبہ الخط وقد یزور ویفتعل۶؎۔
خط ایک دوسرے کے مشابہ ہوتا ہے اور جھوٹا اور جعلی ہوتا ہے۔(ت)
(۶؎ کافی شرح وافی)
عینی علی الکنز میں ہے :
الخط یشبہ الخط فلایلزم حجۃ لانہ یحتمل التزویر۱؎۔
خط چونکہ ایک دوسرے کے مشابہ اور من گھڑت ہوسکتا ہے لہذا حجت ہونا لازم نہ آئے گا۔(ت)
(۱؎ رمز الحقائق فی شرح کنز الدقائق کتاب الشہادات مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۲/ ۸)
مکتوب کبھی جھوٹا اور جعلی ہوتا ہے اور ایک دوسرے کے مشابہ ہوتا ہے اور مہر ایک دوسرے کے مشابہ ہوتی ہے، مختصراً،(ت)
(۲؎ مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر کتاب القضاء فصل فی کتاب القاضی الخ داراحیاء التراث العربی بیروت ۲ /۶۶۔۱۶۵)
(فتاوٰی ہندیہ کتاب الشہادات الباب الثالث والعشرون نورانی کتب خانہ پشاور ۳/ ۳۸۱)
ظہیریہ وشرح الاشباہ للعلامۃ البیری وردالمحتار میں ہے :
لایقضی بذٰلک عند المنازعۃ لان الخط مما یزور ویفتعل۳؎۔
قاضی کسی نزاع میں مکتوب پر فیصلہ نہ دے کیونکہ خط جعلی ور من گھڑت ہوسکتا ہے۔(ت)
(۳؎ ردالمحتار بحوالہ البیری کتاب القضاء باب کتاب القاضی الخ داراحیاء التراث العربی بیروت ۴/ ۳۶۲)
فتاوی امام ظہیر الدین مرغینانی وغمز العیون میں ہے :
العلۃ فی عدم العمل بالخط کونہ ممایزور ویفتعل ای من شانہ ذلک وکونہ من شانہ ذٰلک یقتضی عدم العمل بہ وعدم الاعتماد علیہ وان لم یکن فی نفس الامر کما ھو ظاہر۴؎۔
خط پر عمل نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ جعلی اور منگھڑت ہوسکتا ہے اور جب وہ ایسا ہوسکتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ اس پر عمل اور اعتماد نہ کیا جائے اگرچہ نفس الامر میں وہ ایسا نہ ہو جیسا کہ وہ ظاہر ہے۔(ت)
(۴؎ غمز عیون البصائر بحوالہ الفتاوی الظہیریہ مع الاشباہ والنظائر الفن الثانی ادارۃ القرآن کراچی ۱/ ۳۳۹)