فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
143 - 151
(تناقض شاہد)
نوزدہم : محمدرضاں خاں نے پہلے ''معرفت مولچند'' بتایا پھر کہا' 'ص۹ پر یہ عبارت لکھی تھی ''مولچند سے وصول ہوا'
بستم : موتی شاہ نے (٭٭)ماہوار بتایا پھر کہا ۱۴/ سود۔
بست ویکم : سید الطاف علی نے خود اپنی شہادت نقض کردی رقوم سابق ولاحق ومجموعی بیان کرکے کہا''میں نے اسکو نوٹ کرلیا تعداد رقم کی پرسوں میں نے دیکھی ہے اگر نہ دیکھتا تو اس وقت رقم کی شہادت نہ بیان کرسکتا'' شاہد کو جب شہادت یاد نہ ہو تو اپنی لکھی یا دداشت کی بناء پر گواہی امام اعظم رضی اﷲتعالٰی عنہ کے نزدیک مطلقاً باطل ہے۔
متن تنویر میں ہے:
لایشھد من رأی خطہ ولم یذکرھا۲؎۔
جس نے خط دیکھا اور اس کا مضمون یا د نہ ہو تو وہ اس کی شہادت نہ دے۔(ت)
(۲؎ درمختار شرح تنویر الابصار کتاب الشہادات مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۹۲)
بزدوی وغیرہ نے اسی کو قول امام محمد بتایا تقویم میں اسی صحیح کہا،
ردالمحتار میں ہے:
فی البزدوی الصغیر اذااستیقن انہ خطہ وعلم انہ لم یزدفیہ شیئ بان کان مخبوأعندہ وعلم بدلیل اٰخرانہ لم یزد فیہ لکن لایحفظ ماسمع فعندھما لایسعہ ان یشھد،وعند ابی یوسف یسعہ وما قالہ ابویوسف ھو المعمول بہ وقال فی التقویم قولھما ھوالصحیح، جوہرۃ۱؎۔
بزدوی صغیر میں ہے جب اس کو یقین ہو کہ یہ خط اس کا ہے اور یہ معلوم ہوکہ اس میںکوئی زیادہ نہیں کی گئی اور وہ خط اس کے پاس بند تھا اور دیگر دلائل سے بھی معلوم ہوا کہ اس میں کوئی زیادتی نہیں کی گئی لیکن خط کا سنا ہوا مضمون یاد نہیں رہا تو طرفین کے نزدیک اس صورت میں شہادت دینے کی گنجائش نہیں اور امام ابویوسف رحمہ اﷲ کے ہاں اسے شہادت دینا جائز ہے، اور ابویوسف رحمہ اﷲتعالٰی نے جو فرمایا وہی معمول بہ ہے اور تقویم میں فرمایا کہ طرفین رضی اﷲتعالٰی عنہما کا قول صحیح ہے جوہرہ (ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الشہادات داراحیاء التراث العربی بیروت ۴/ ۳۷۵)
قول امام ثانی پر اگرچہ فتوٰی دیا گیا مگر وہ اس صورت میں ہے کہ گواہ حاکم کے سامنے یہ ظاہر نہ کرے کہ اپنا لکھا دیکھ کر گواہی دے رہا ہوں اساظہار کے بعد بالاتفاق اس کی شہادت مقبول نہیں۔
بحرالرائق وطحطاوی علی الدرالمختار وعالمگیریہ میں ہے:
ثم الشاہد اذااعتمد علی خطہ علی القول المفتی بہ وشھد فللقاضی ان یسألہ ھل تشھدعن علم او عن خط ان قال عن علم قبلہ وان قال عن الخط لا۲؎۔(ملخصاً)
پھر گواہ کو جب اپنے خط پر اعتماد ہے کہ اسی کا ہے اور گواہی دی تو مفتٰی بہ قول میں جائز ہے، لیکن قاضی اس سے سوال کرے کہ تو اپنے علم کی بناء پررشہادت دے رہا ہے یا خط کی بناء پر اگر وہ یہ کہے کہ اپنے علم کی بناء پر شہادت دے رہا ہوں، تو شہادت کو قبول کرلے، او اگر وہ کہے کہ خط کی بنا پر دے رہا ہوں توع قبول نہ کرے۔(ملخصاً)۔(ت)
(۲؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار کتاب الشہادات دارالمعرفۃ بیروت ۳/ ۲۳۶)
(بحر الرائق کتاب الشہادات ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۷/ ۷۲)
(فتاوی ہندیہ کتاب الشہادات الباب الثانی نورانی کتب خانہ پشاور ۳/ ۴۵۶)
تنبیہ:یہاں جو نقول سادہ اظہار محمدرضاخاں، مظہر حسین آئیں ان میں اظہار محمدر ضا خاں میں سابق پہنچی ہوئی رقم (٭٭)لکھی ہے اور(٭٭)حال کی ملاکر (٭٭)یہ دعوی و دیگر شہادت ورسید بہی سب کے خلاف ہے اور اظہار مظہر حسین میں اولاً رقم سابق (٭٭)اور چند سطر کے بعد (٭٭) ہے یہ تناقض ہے اگر ان رقوم میں خطائے نقلی ہو تو یہ تین وجہیں اختلاف دعوی شہادت واختلاف شاہدیں وتناقض شاہد میں اور اضافہ ہوں گی۔
بست ودوم (حالت گواہان) (۱) موتی شاہ(۲) غفران اقراری سزا یافتہ ہیں(۳) عجائب الدین خاں پتنگ ساز پتنگ فروش گواہی پیشہ ہے(۴) حیدر علی خاں گواہی پیشہ ہے(۵) احمد خاں ولد میاں خاں باجہ فروش ہے(۶) محمدر ضاخاں (۷) مظہر حسین بنیوں کے یہاں سود کے تقاضے اور وصول کرکے لانے پر کم درجے کے نوکر ہیں(۸) عبدالعزیز خاں وثائق نویس ہیں، اور صحیح مسلم شریف میں امیر المومنین مولی علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ الکریم سے ہے:
لعن رسول اﷲصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اکل الربا ومؤکلہ وکاتبہ وشاھدیہ وقال ھم سواء۱؎۔
رسول اﷲصلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے لعنت فرمائی سود کھانے والے اورکھلانے والے اور اس کاکاغذ لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر۔ اور فرمایا وہ سب برابر ہیں۔(ت)
(۱؎ صحیح مسلم کتاب المساقات باب الربو قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۲۷)
(۹)ولی خاں (۱۰)عبدالرحیم خان(۱۱)اشرف علی خاں(۱۲) محمدر بشیر (۱۳) مظہر حسین (۱۴) نجف علی خاں سب جاہل و ناخواندہ ہیں بلکہ اظہر یہ کہ ان میں اکثریا سب اپنے ضروری فرائض سے آگاہ نہ ہوں اور جو اس قدر بھی فقہ نہ سیکھے اس کی شہادت مردود ہے۔
مجبتٰی شرح قدوری و نہر الفائق ودرمختار باب التعزیر میں ہے:
من ترک الاشتغال بالفقہ لاتقبل شہادتہ والمراد مایجب علیہ تعلمہ ۲؎۔
جس نے فقہ سے مشغولیت ختم کردی اسکی شہادت مقبول نہیں یعنی جسنے واجبی حد تک فقہ سے بھی تعلق نہ رکھا(ت)
(۲؎ درمختار کتاب الحدود باب التعزیر مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۳۲۷)
(۱۵) سید الطاف علی(۱۶) عبدالرحیم خاں(۱۷)نجن(۱۸)اشرف علیخاں(۱۹)مظہر حسین (۲۰) نجف علی خاں(۲۱)وزیر خاں سب بلاسمن کچہری کے ناخواندہ مہمان ہیں عرف حال میں اہل حیثیت اسے بے عزتی سمجھتے ہیں(۲۲) ولی خان درگاہ اس کے یہاں چار روپے کا ملازم ہے (۲۳) عبد الرحیم عبدالرحیم خاں ایک چپراسی ہے۔(۲۴) محمد بشیر ایک مذکوری (۲۵) اشرف علی خاں (۲۶)نجف علی خاں دونوں گاڑی بان (۲۷) احمد خاں ولد عبدالنبی خاں ۶ روپے کا فیلبان (۲۸) وزیر خاں یہ بھی ہاتھی بان ہے(۲۹و۳۰) جہا یہ دونوں فیلبانی پر نوکرہیں اس کارخانے کا تحویلدار مدعی ہے اور وہی انہیں تنخواہ دیتاہے۔
(تحری صدق)
ایسی جگہ تحری صدق لازم تھی اس کی۸ ھالت سخت عجیب ہے مدعیوں نے پیش خویش ایک نہایت مرتب منتظم سلسلہ وصول کرایہ شہادتوں کا مسلسل کیا کہ ۱۷دسمبر / دسمبر ۱ سے چار برس ۷ ماہ تک تو گنیشی ایسا خود دہندرہا کہ مہینے کے مہینے (٭٭)دیتا رہا بنلکہ بکمال فیاضی نومبر ۴ میں دوہرے دئے یہاں تک کا وصوہل اقرار عبدالغافر خاں سے رکھا آگے گنیشی کی یہ حالت ہے کہ تین تین برس گزرجائیں ایک پیسہ بے تقاضا نہیں دیتا مگر ہر تقاضے پر اگرچہ ہزاروں کا مطالبہ ہو روپیہ برابر تیار رکھتا ہے کبھی یہ نہیں کہتا کہ آج اتنی کمی ہے کل پوری کردو ں گا پھر روپیہ تیار ہے تو مہینوں برسوں رکھ کیوں چھوڑ تا ہے اور عبدالغافر خاں کو برسوں ماہ بماہ لیتا رہا اب مدتہائے مدت تک کیوں ساکت رہتا ہے اس کی حکمت وہ دونوں جانتے ہوں گے، پھر ہر تقاضے پر گنیشی کے مسلمان بیٹھے ہوتے ہیں نہ نوکر (عہ) جن کا ہزارہا ہونا معتبر نہیں کہ نوکر کی کون سنتا ہے بلکہ اجنبی اگرچہ وہ جو نہ کبھی پہلے گئے نہ بعد کو۔
عہ: خط کشیدہ جملے اندازے سے بنائے گئے کہ جلد بندی میں کٹ گئے تھے۔ عبدالمنان
یہ اس لئے کہ مسلم پر کافر کی شہادت مقبول نہیں، پھر کئی دفعہ اس وقت دو سے کم مسلمان حاضر نہیں ہوتےکہ نصاب کامل رہے اور وہ ہر بار پہلے سے جا بیٹھتے یا عبدالغافر خاں کے ساتھ کہ سرے سے گفتگو سنیں اور ہر بار عبدالغافر خاں کواٹھا کر اٹھتے ہیں کہ پوری گفتگو کے شاہد رہیں برسوں کے متفرق جلسے ہیں کبھی اس انتظام میں فرق نہیں آیا، اب دنیا بھر کا قاعدہ ہے کہ جس حساب کے لئے کتاب موجود ہے اس پر رقم کا وصول دائن کے ہاتھ کا لکھا ہوا دستخط کیا ہو ا ہے اس میں ماضی کا اطمینان کافی ہے، اسے دہرانے کی کیاحاجت، اب جو دینا ہو اگر معلوم نہیں اس کا پوچھنا اور دے کر رسید لینا ہی ہوتا ہے مگر گنیشی ہر مطالبہ پر پوچھتا ہے کہ پہلے کتنا پہنچا رقم مال دے کر پھر پوچھتا ہے اب تک کل کتنا ہوا یہ اس لئے کہ ہر بار کے حاضرین کہ رقم حال کے شاہد معاینہ ہوں گے ہر رقم سابق کے شاہد اقرار ہوجائیں، پھر مجموعہ پوچھنے کی بھی حاجت ہے کہ رقم حال پر بھی اقرارہوجائے، یوں ہر رقم سابق و سابق برسابق سب کا ہر بار اقرار ہوتا رہاکہ افزوں کاسلسلہ منتظم رہے اور ہر رقم حال پر معاینہ بھی اقرار بھی اور (٭٭)رقم اخیر کے سواسب کی گواہ رسید بہی بھی پھر تحریر رسید بھی پڑھواکر سننا بعید نہیں، جاہل ناخواندہ کو ایساہی چاہئے کہ نوشتہ دائن پر اطمینان ہومگر ہوشیار بنیا کسی اپنے قریب یا نوکر یا دوست ہندو پر اعتماد نہیں کرتا التزام کے ساتھ مسلمان ہی سے پڑھواتا ہے اگرچہ اس سے شناسائی نہ ہو، یہ اسی شہادت علم المسلم کےلئے ہے، پھر یہ حضرات اگرچہ اپنے ذاتی معاملات اگرچہ قریب کے بالکل بھولے ہوئے ہوں ہر بات کا جواب یاد نہیں سے ہو لیکن اس اصول کا معاملہ مدت تک پورا یاد رکھتے ہیں سابق کی رقم الگ، حال کی الگ، مجموعہ کی الگ،وقت الگ، پھر جو کوئی پوچھتا ہے کہ یہ روپیہ کیسا دیا اور بنیا سود بتاتا ہے یہ سوال جواب عبدالغافر خاں کے چلے جانے کے بعد ہی ہوتا ہے کسی نے اس کے سامنے نہ پوچھایہ اسلئے کہ سامنے اگر عبدالغافر خاں اس کا رد کرتا بات بگڑتی اور اگر قبول کرا یا ساکت رہتا کہ وہ بھی قبول ہے تو اس کا خلاف ہوتا کہ تحفظ شان علم کے لئے اخفا چاہا، اہل انصاف دیکھیں ایسی ہوشیاری کے ساتھ سلسلہ بہ سلسلہ ایک سلک میں منسلک کی ہوئی ترتیب وارگواہیاں کبھی سنی ہیں جن کی لائن چپراسی، مذکوری، فیلبان، گاڑی بان، باجہ فروش کنکیاساز، محصلان سود، بنیوں کی خدمتی، چار چار چھ چھ روپے کے نوکرجاہل ناخواندے مل کر اس خوبصورتی سے بنارہے ہیں، اس سے بڑھ کر تحری صدق اور کیا ہوگی اور اس پر پوری رجسٹری اس نے کردی کہ رقومات میں جو اغلاط مدعیوں سے واقع ہوئے سب گواہ اسی ڈگرپر چلے ہیں غلطی کےلئے کوئی معیار نہیں ہوتامدعیوں سے غلطیاں ہوئی تھیں اور بالفرض سب شاہد بھی کرتے جدا جدا اغلاط ہوتے، کسی نے کہیں غلطی کی کسی نے کہیں، یہاں یہ نہیں بلکہ وہی غلطیاں انہیں مواقع پر ہیں جس کے ظاہر کہ سب ایک سانچے کے ڈھلے ہوئے ہیں،لطف یہ کہ پان ہزار کب کے ادا ہوچکے اس کے بعد بنیاد برسوں نئی رقمیں خوشی خوشی دے رہا ہے یہاں تک کہ (٭٭)تقریبا تین ہزار روپے زیادہ پہنچاتا ہے ستمبر ۱۱ تک ہی پانچہزار سے (٭٭)زیادہ جاچکے تھے زراصل سے ایک حبہ باقی نہ رہا تھا، مگر جنوری ۱۳میں ایک ہزار منجملہ زراصل بھیجتا ہے مگر اسے معلوم نہ تھا کہ نوشان بیگم کے نام اور مولچند کے کرایہ کی آڑ میں فرضی ہیں میرا اصل معاملہ عبدالغافر خاں سے ہے وہ سود لے رہے ہیں اور سود ناجائز ہے جو دیا جائے رقم اصل میں مجراہونا لازم ہے اب میں کا ہے ہزار بھیجتا ہوں اور ان کا بھی منجملہ کہتا ہوں اور کاہے پر اور رقمیں دئے چلاجاتا ہوں، اگر مدعیوں اور گواہوں کے بیان سچ ہوتے تو ضرور پانچ ہزار پہنچتے ہی بنیا ہاتھ روک لیتا، مدعا علیہ نہ مانتا تو کچہریوں کے دروزے کھلے تھے جو نالش اب ہوئی وہی کرتا اور دستاویزیں واپس لیتا او رایک پیسہ زیادہ نہ دیتا مگر وہ عمر بھر غفلت میں لٹتا رہتا اور بحکم آنکہ پدر اگر نتواند پسرتمام کندیہ تمام تحقیقیں تدقیقیں پچھلی مت میں اپنے بیٹوں کےلئے چھوڑجاتا ہے ۔جو یہ ظاہر کرہرہے ہیں کہ ان کا باپ احمق تھا عقل ان کو ہے، یہ ہے دعوٰی اور یہ ہیں گواہیاں۔