فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی) |
اول : مدعی کہتا ہے قبض و دخل مدعا علیہما کا جائداد مرہونہ پر کبھی ایک منٹ کےلئے نہیں ہوا۔ محمد بشیر ''قبضہ جائداد پر عبدالغافر خاں کا تھا اب تک گودام پر عبدالغافر خاں اور رام کنور کا ہے دونوں کے قفل پڑے ہیں عبدالغافر خاں کا کچھ غلہ وغیرہ گودام میں ہے مجھے نہیں معلوم کہ روپیہ لینے سے قبضہ جائداد پر پیشتر ہوا تھا یا بعد، گودام پر اب تک قبضہ عبدالغافر خاں کا ہے اور گنیشی کابھی قبضہ ہے'' یعنی مردے کا۔ دوم : مدعی کہتا ہے اصل معاملہ عبدالغافر کان سے ہے، زوجہ کا نام فرضی، اور احمد خان ولد عبدالنبی خاں ونجف علی خان کی شہادتیں صراحۃً اس کا رد کررہی ہیں کما مر انفا۔ سوم : مدعی کہتا ہے حقیقۃً سود لیا اور اس کے اخفاء کےلئے کرایہ نامہ فرضی لکھوایا۔، انور بیگ''گنیشی نے لکھا کہ سود کی کارروائی فرض ہے گودام اور مکان میرا رہن ہے۔ چہارم: مدعی کہتا ہے بشرح سود(۱۳ / ۱۱ )پائی سیکڑہ ماہواری موتی شاہ ۱۴ کا سود ٹھہراتا تھا۔ پنجم : حسب دعوعائے مدعیان رسید بہی پیش کردہ میں صرف اس سود کی رقوم ہیں جو گنیشی نے مدعا علیہ کو دیا لیکن سید الطاف علی کا بیان ہے''میں نے گنیشی سے ریافت کیا یہ کتاب کس بابت ہے کہا میں نے مولوی عبدالغافر خاں سے کچھ روپے قرض لئے تھے اس کے سود وغیرہ کا حساب ہے'' گنیشی کا یہ ''وغیرہ'' دعوٰی مدعیان کا نقض ہے۔ ششم : یہ رسید بہی بھی شاید بناکر پیش کی ہے وہ مدعیوں اور شاہدوں کی تکذیب کرتی ہے مدعیوں کا بیان ہے کہ ''ابتدائے ۱۷/ دسمبر ۱ لغایۃ دسمبر ۱۲ (٭٭) بشرح (٭٭) ماہوار مدعا علیہ کو باخذ رسیدات نوشتہ نامبردہ ادا کی گئی، لیکن رسید بہی میں نومبر ۴ میں(٭٭٭٭)کی دو رقمیں درج ہیں تو آخر دسمبر ۱۲ تک (٭٭)پہنچی۔
(اختلاف شاہدان)
ہفتم : بیان مدعیان کے سلسلے کو تمام گواہوں نے اول سے آخر تک نباہا ہے کہ ۱۵ یوم دسمبر ۱کے (٭٭)پھر ختم ۱۲ تک ہر مہینے کے (٭٭) انہیں کے لحاظ سے اخیر رقم (٭٭) رکھی ہے اور شاہدوں کے مشاہدے سے جولائی ۶تک پہنچی ہوئی (٭٭) حالانکہ رسید بہی سے یہ رقم (٭٭) ہے اور رقم اخیر(٭٭)۔
ہشتم : موتی شاہ و وزیر خاں دونوں ایک جلسے کے گواہ ہیں قول محض میں اختلاف زمان و مکان مضر نہیں اس لئے کہ وہ مکرر ہوسکتا ہے مگر یہ طویل تقریر اور ابتدائی مول تول کے دونوں نے بیان کئے عادۃً ہر گز دوبارہ نہیں ہوتے کہ ایک بار گنیشی عبدالغافر کان کو بلائے، عبدالغافر خان آپ نے مجھے بلایا تھا، گنیشی بلایا تھا مجھے پانچ ہزار روپے کی ضرور ہے، عبدالغافر میں دوں گا میرااطمینان کیا ہوگا، گنیشی زنانہ مکان گودام دکان ضمانت میں دوں گا اس روپے کا نفع کیا لیا جائیگا، دولھا خاں ڈیڑہ روپیہ کا قاعدہ رام پور میں ہے وہی لیا جائیگا، گنیشی آپ میرے مہربان ہیں کچھ کم کرکے کہہ دیجئے دولھا خان ایک روپیہ، گنیشی میں عرض کرتا ہوں اس کو منظور کرلینا (٭٭) ماہوار آپ لے لیا کریں، دولھا خاں ذرا چپ ہوئے پھر کہا یہ تو (۱۴/) سے بھی ایک پائی کم ہوتا ہے گنیشی اب آپ اسے ہی منظور کرلیں ہماری آپ کی محبت ہے، دولہا خان آپ کاغذ کی تکمیل کریں روپیہ تیار ہے دوں گا، پھر فریقین سو رہے اور ۲۱ دن بعد گنیشی پھر عبدالغافر خاں کو بلائے اور اول تا آخر سب وہی گفتگو پیش آئی فریقین اس پہلی گفتگو کو ایسا بھول جائیں کہ خواب فراموش ہوجائے اور از سر نو آغازکریں مگر تمام سوال جواب وہی رہیں ترتیب تک نہ بدلے، وہی بلانے کی وجہ پوچھنی وہی پانچ ہزار کی ضرورت وہی اطمینان کا سوال وہی انہیں کفالتوں کا بیان وہی سود کا سوال وہی حسب قاعدہ شہر ڈیڑھ روپیہ وہی تخفیف چاہنا وہی اس پر ایک روپیہ پھر وہی کہ میری مانئے(٭٭)ماہوار اس پر وہی تأمل اور وہی جواب کہ (۱۴/) سے بھی ایک پائی کم ہوا اور بالآخر وہی قبول کہ روپیہ تیار ہے کاغذ لکھواؤ اسے ہر گز عقل سلیم قبول نہیں کرتی تو ضرور جلسہ واحدہ کے گواہ میں لیکن یہ انہیں کے بیان سے محال ہے، موتی شاہ کی شہادت ۹/ اکتوبر ۱۷کو ہوئی اور وہ بالجزم کہتا ہے''عرصہ اس کو سولہ برس کاہوا ، تو روز گفتگو ۳۱/ اکتوبر ۱ ہوا، وزیر خاں کی شہادت ۳۱ مارچ۱۸ کو ہوئی اور وہ بالجزم کہتا ہے کہ سولہ برس پانچ مہینے ہوئےتو روز گفتگو ۳۱ اکتوبر ۱ ہوا ، ۹و ۳۱ دونوں ایک ہوجائیں تو یہ شہادیں دائرہ امکان میں آئیں لیکن وہ محال تو یہ بھی باطل وواجب الاہمال۔
خانیہ و ہندیہ میں ہے :
لاتبطل الشہادۃ باختلاف الشاھدین فیما بینھما فی الایام والبلدان الاان یقولاکنامع الطالب فی موضع واحد فی یوم واحد۱؎۔
دونوں گواہوں کا زمانہ اور شہروں میں اختلاف شہادست کو باطل نہ کرے گا ماسوائے اس کے کہ وہ دونوں ایک جگہ ایک دن میں طالب کے ساتھ ہونے کی بات کریں۔(ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب الشہادات الباب الثامن فی الاختلاف بین الشاہدین نورانی کتب خانہ پشاور ۳/ ۵۰۸)
مبسوط وعالمگیریہ میں ہے:
شھد احد ھما انہ طلقھا یوم الجمعۃ بالبصرۃ والاٰخر انہ طلقھا فی ذیلک الیوم بعینہ بالکوفۃ لم تقبل شہادتھمالانا نتیقن بکذب احدھما فان الانسان فی یوم واحد لایکون بالبصرۃ والکوفۃ بخلاف مااذا شھد احدھما انہ طلقھا بالکوفۃ والاٰخرانہ طلقھا بالبصرۃ ولم یوقتا وقتا فہناک الشہادۃ تقبل۱؎۔
ایک گواہ نےکہا اس نےبصرہ میں جمعہ کے روز بیوی کو طلاق دی، اور دوسرے نےکہاکہ اس نے اسی جمعہ کے روز کوفہ میں طلاق دی تو دونوں کی یہ شہادت مقبول نہ ہوگی کیونکہ ہمیں ان میں سے ایک کے جھوٹا ہونے کا یقین ہے کیونکہ ایک ہی روز میں انسان کوفہ اور بصر ہ میں نہیں ہوتا اس کے برخالف جب ایک نے کہااس نے بصرہ میں اور دوسرے نے کہا کوفہ میں طلاق دی اور دونوں نے کوئی وقت نہ بتایا تو اس صورت میں شہادت مقبول ہوگی۔(ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیۃ کتاب الشہادات الباب الثامن نورانی کتب خانہ پشاور ۳/ ۵۰۸)
نہم : سید عبدالعزیز وعبدالعزیز خاں ایک جلسے کے گواہ ہیں ان کے بیان میں شروع ستمبر ہے اس کے بیان میں ۳۰/ستمبر۔ دہم سید عبدالعزیز کا بیان ہے مظہر پسر گنیشی کو لکھنے کی مشق کرارہاتھا اتنے میں مولوی عبدالغافر خاں تشریف لائے گنیشی کے پاس، اور کہا پانچ مہینے کا مکان کا کرایہ دو سو بیس روپے دے دیجئے اس پر گنیشی نے رام کنور سے کہا کتاب حساب کی لے آؤ، وہ لے گئے، گنیشی نے مولوی عبدالغافر خاں کو کتاب دی، بعد مولوی عبدالغافر کے چلے جانے کے مجھ سے گنیشی نے کہا اس کتاب میں کیا لکھا ہے، تو اس میں یہ لکھا تھا کہ آخر اگست ۸تک کرایہ وصول ہوا یعنی پانچ ماہ کا مطالبہ آتے ہی کیا کتاب سے دیکھنے سے پہلے، لیکن عبدالعزیز خان کہتا ہے ''عبدالغافر خان تشریف لائے اور گنیشی سے کہا ہمارا کرایہ دلوائیے، گنیشی نے کہا حساب کرلیجئے، اور رام کنور سے کہا کتاب لے آؤ، وہ کتاب حساب کی لائے، عبدالغافر نے دیکھ کر کہا پانچ مہینے کا ہمارا کرایہ بقدر دو سو بیس کے واجب ہے وہ دےدیجئے۔ یازدہم عبدالعزیز خاں کہتا ہے''اس کے بعد گنیشی نے وہ کتاب ایک شخص کو جوگنیشی کے لڑکے کو پڑھا رہا تھا بلاکر دکھائی، اس نے پڑھا، میرے کان تک آواز آئی''یہ شخص وہی سید عبدالعزیز ہیں'' لیکن ان کا بیان ہے''اس وقت آٹھ سات آدمی تھے ایک مظہر اور عبدالغافر خاں مسلمان باقی ہندو'' توان کو وہاں عبدالعزیز کے ہونے ہی سے انکار ہے۔ دوازدہم حیدر علی وعبدالرحیم ایک جلسے کے گواہ ہیں حیدر علی خاں کا بیان ہے''عبدالغافر چلے گئے اس کے بعد گنیشی نے حساب کی کتاب مجھے دی اور کہا پڑھ کر سنادیجئے کہ عبدالغافر خاں نے کیا لکھا ہے میں نے گنیشی سے پوچھا یہ کیسا روپیہ ہے کہاں مکان اور گودام رہن ہے اس کے سود کا ہے اس کے بعد میں چلاآیا چاولوں کے واسطے روپیہ دے کے۔ عبدالرحیم خاں کہتا ہے ''عبدالغافر خاں جب چلے گئے گنیشی نے کتاب ایک آدمی کو جوان کے پاس بیٹھا تھا دکھائی کہ اسمیں کیا لکھا تھا اس نے سنایا پھر انہیں صاحب نے پوچھا یہ روپیہ کیسا عبدالغافر خاں کو دیا گنیشی نے کہا مکان اور گودام او دکان رہن ہے اس کا کرایہ ہے اس پر اس شخص نے کہا کرایہ بہت ہوگا گنیشی نے کہا(٭٭)ماہوار دیتا ہوں انہیں صاحب نے چلتے وقت گنیشی کو (٭٭) دئے کہ چاول بھجوادینا'' ان اختلافوں کو جانے دیجئے اولاً حیدر علی نے دو چیزیں بتائیں مکان اور گودام، اور عبدالرحیم نے دکان بھی بڑھائی۔ ثانیاً گنیشی کا جواب حیدر علی نے یہ بتایا کہ سود کاہے عبدالرحیم نے یہ کہ کرایہ ہے۔ ثالثاً ایسا ہی اختالف یہ ہے کہ حیدر علی خاں کہتا ہے ''گنیشی نے اپنے پسر سے کہا حساب کی بہی لے آؤ، وہ لے کر آیا او عبدالغافر خاں کو دی'' عبدالرحیم خاں کہتا ہے''گنیشی کو دی''۔ رابعاً حیدر علی خاں کہتا ہے ''گنیشی نے کہا پہلے کتنی رقم آپ کے پاس پہنچی'' عبدالغافر خاں نے کہا''(٭٭)'' اس پر گنیشی نے اپنے بیٹے سےکہا عبدالغافر خاں کو کرایہ کا روپہیہ دو، کوٹھری سے لاکر (٭٭)دے دئے، عبدالرحیم خاں اس کا عکس بیان کرتا ہے کہ (٭٭)دے دئے پھر گنیشی نے کہا اس سے پہلے رقم کس قدر گئی ہے کہا(٭٭)۔ خامساً تخالف شدید یہ ہے کہ عبدالرحیم کہتا ہے ''اس شخص یعنی حیدر علی خاں نے کرایہ پوچھا گنیشی نے (٭٭) ماہوار بتایا، حیدرعلی کاں کہتا ہے''تعداد ماہوار ی کرایہ کی مجھے گنیشی نے نہیں بتائی''۔ سیزدہم محمدرضاں خاں کہتا ہے ''عبدالغافر خان نے کتاب پر وصول ڈال دیا اور پڑھ کر سنایا کہ آخر مارچ ۸تک کا کرایہ معرفت مولچند کے وصول پایا'' جس کا حاصل یہ کہ کرایہ کسی اور پر ہے اس نے مولچند کے ہاتھ بھیجا لیکن کتاب یعنی رسید بہی کی عبارت یہ ہے''آخرمارچ ۸ تک کرایہ مولچند سے وصول ہوا۔'' چاردہم سب شاہد (٭٭) ماہوار کے حساب پر چلے ہیں جس کے فیصدی( ۱۴/ ۱۱ ،۱۸ /۲۴) پائی ہوئے لیکن موتی شاہ کہتا ہے ''۱۴/ کا سود ٹھہراتھا'' یہاں یا وجہ چہارم میں مجاز کا عذر کہ بقاعدہ رفع واسقاط موتی شاہ نے ۱۴ /ایک پائی کم یا زائد کو مجاز ۱۴/ کہا مقبول نہیں کہ شہادت میں مجاز نہیں لے سکتے۔
وجیز امام کردری جلد ۵ص۳۲۲میں ہے :
الحکم لما اتصل بالشھادۃ وشرط فیہا العلم مثل الشمس لم یتحمل فیہا المجاز الذی یصح نفیہ واما الدعوی فاخبار مجرد لایتصل بہ الحکم فاتسع فیہ لدفع المناقضۃ عند الافصاح بالتوفیق۱؎۔
حکم جب شہادت سے متصل ہواور شہادت میں شرط ہے کہ واقعہ کا سورج کی طرح واضح علم ہو اور اس میں مجاز کا احتمال نہ ہو جس کی نفی کرنا پڑے لیکن دعوی تو وہ خالص خبر ہے جس میں فیصلہ نہیں ہوسکتا ہے تو اس میں وسعت ہے کہ تناقض کو ختم کرنے کے لئے موافقت کوظاہر کیا جائے (ت)
(۱؎ فتاوٰی بزازیہ علی ہامش فتاوٰی ہندیہ کتاب الدعوٰی نوع فی التناقض نورانی کتب خانہ پشاورت ۵/ ۳۲۲)
پانزدہم : احمد خاں ولد میاں خاں اور عجائب الدین خاں ایک جلسے کے گواہ ہیں احمد خاں مئی ۹ کا واقعہ بتاتا ہے کہ عبدالغافر خاں نے کہا کہ آٹھ مہینے کا کرایہ چاہئے جس کے (٭٭)ہوتے ہیں، گنیشی نے کہا اس سے پہلے کتنی رقم پہنچی، کہا (٭٭)حسب رسید بہی و شہادت سید عبدالعزیز اگست ۸ تک تھی جب سے ختم اپریل۹ تک ۵ مہینے ہوتے ہیں تو اسی وقت تک کا کرایہ ہوا لیکن عجائب الدین خاں یہی شروع مئی ۹ لکھا کرکہتا ہے ''مولوی عبدالغافر خاں نےجواب دیا(٭٭) اول پہنچی اور (٭٭)اب گنیشی نے پوچھا یہ سب کتنے ہوئے ،عبد الغافر خاں نے کہا (٭٭)بابت کرایہ کے ہمارے پاس پہنچی اکتوربر تک کا'' یہ اکتوبر ۸ کا ہے تو ستمبر ۸سے اس تک دو ہی مہینے ہوئے اور ماہوار (٭٭)ٹھہرا اور ۹ کا ہے تو چودہ مہینے ہوئے اور ماہوار کچھ اوپر پچیس ہی رہے۔ شانزدہم : محمد رضاخاں و مظہر حسین ایک جلسے کے گواہ ہیں وہ گنیشی کا کہنا یہ بتاتا ہے ''کل تم آنا تمہیں بھی روپیہ دوں گا'' یہ کہتا ہے ''کل ہم روپیہ پہنچادیں گے۔ ہفدہم : نجن وحیدر حسین ایک جلسہ کے گواہ ہیں نجن(عہ) کہتا ہے کہ کتاب اس وقت نہیں ملتی کل آکر آپ روپیہ لے لیں، سید حیدر حسین کا بیان ہے عبدالغافر خاں سے گنیشی نے کہا کتاب تلاش کرکے میں روپیہ خودبھیج دوں گا یا آپ آکر لے جائیں۔ نجم کہتا ہے عبدالغافر خاں نے کہا کاغذ پر آپ رسید لے لیں کل کچہری سے آؤں گا تو کتاب پر جب مل جائے گی دستخط کروں گا'' حیدر حسین کا بیان ہے کہ کتاب کل میرے پاس بھیج دینا وصول لکھ دوں گا۔
عہ: خط کشیدہ عبار ت اندازہ سے درست کی اصل میں پڑھی نہیں گئی۔
ہیجدہم : احمد خان ولد میان خان گنیشی کو کہتا ہے''گورے چٹے تھے'' موتی شاہ کا بیان ہے ''گندمی رنگ تھا'' جب گواہوں کی حالت قابل اطمینان نہ ہو جیسی یہاں ہے تو اس قسم کے اختلافات پر بھی نظر کی جاتی ہے محیط و ہندیہ میں ہے:
قال ابویوسف اذرأیت الریبۃ فظننت انہم شہود الزور افرق بینھم واسألھم عن المواضع والثیاب ومن کان معھم فاذااختلفو افی ذٰلک اعندی اختلاف ابطل بہ الشہادۃ۱؎۔
امام ابویوسف رحمہ اﷲ تعالٰی نے فرمایا: جب شک کی بنا پر مجھے یہ گمان ہو کہ گواہ جھوٹے ہیں تو ان دونوں کو جدا کرکے ان سے جگہ اور لباس کے متعلق اور ان کے ساتھ موجود لوگوں کے متعلق سوال کروں گا اگر وہ ان امور میں اختلاف کریں تو میرے نزدیک یہ اختلاف ایسا ہے کہ میں شہادت کو باطل کردوں گا۔(ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ کتب القضاء الباب الخامس نورانی کتب خانہ پشاور ۳/ ۳۴۵)