فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
141 - 151
ہفتم : عبدالغافر خاں پر دعوٰی عائد ہونے کی بنا اس پر ہے کہ بیعنامہ وکرایہ نامہ میں زوجہ عبدالغافر خاں کانام فرضی ہو حقیقۃً یہ عقد عبدالغافر خاں سے ہوئے ہیں شہادتوں سے اس کاثبوت دو ہی صورتوں میں منحصر، ایک یہ کہ گواہ اپنے ذاتی علم سے اس پر شہادت دیں، دوسرے یہ کہ ان کے سامنے عبدالغافر خاں نے زوجہ کا نام فرضی اور اپنا واقعی ہونے کا اقرار کیا ہو ا س کی گواہی دیں، لیکن تمام شہادات ان دونوں وجہ سے خالی ہیں اپنا ذاتی علم تو کسی نے بیان نہ کیا بلکہ بعض مثل حیدر علی خاں ومحمد بشیر وغیرہما نے اپنے علم کی صاف نفی کی ہے، اکثر نے گنیشی کا قول بیان کیا ہے کہ میں نے عبدالغافر خاں سے پانچ ہزار قرض لئے اور اپنے مکان دکان رہن یا مکفول کئے ان کا کرایہ یا سوددیتا ہوں گنیشی یہاں بجائے مدعی ہے،
باطل ست آنچہ مدعی گوید
(باطل ہے جو کچھ مدعی کہتا ہے۔ت) اگر مدعی کے کہنے سے ثبوت ہوجائے تو گنیشی کا بیان تو گواہوں سے سنا مدعیوں کا بیان تو خود مجوز کے سامنے ہوا بس اس قدر پر فیصلہ ہوجا تا شہادتوں کی کیاحاجت تھی، عبدالغافر خاں کا جو قول شاہدوں نے بیان کیا وہ پانچ قسم ہے :
(۱) محمد رضاخاں ومظہر حسین ''بہت دن ہوگئے روپیہ کرایہ کا دو'' کس کا کرایہ کاہے کا کرایہ، یہ محض مجمل و مہمل۔
(۲) محمد رضاومظہر حسین''کرایہ ہمارا چاہئے'' عبدالعزیز خاں ''ہمارا کرایہ دلوائیے" احمد خاں ولد میاں خاں''ہمارا کئی مہینے کا کرایہ دلوائیے'' حیدر علی خاں ''ہمارا کرایہ بہت عرصہ سےنہ پہنچا'' عبدالرحیم خاں''کرایہ کا روپیہ بہت دنوں سے نہیں دیا ہے ہم کو دو'' سید الطاف علی" آپ نے ہمارا تین سال کا کرایہ ادانہیں کیا ہے'' محمد بشیر''ہمارا کرایہ بہت دنوں کا'' انور بیگ''ہمارا کرایہ تین سال سے''حیدر حسین ''کئی مہنے سے ہمارا کرایہ نہ دیا'' ان میں اپنی طرف اضافت ہے مگریہ نہیں کہ کس چیز کا کرایہ۔
(۳) سید عبدالعزیز ''۸مہینے کا مکان کا کرایہ دیجئے'' یہ دوم کا عکس ہے کرایہ مکان کا بتایا اور اضافت نہیں۔
(۴) عجائب الدین خاں ''کرایہ مکانوں کا جو میرا ہے تم نے نہ دیا'' نجن''ہمارا سات مہینے کرایہ مکانوں کا'' ان دو میں دونوں ہیں مگر مکان مبہم مکان انہیں میں منحصر نہیں جن کا معاملہ زوجہ عبدالغافر خاں سے ہوا ہے اس سے اتنا سمجھا گیا کہ عبدالغافر خاں نے کچھ اپنے مکان گنیشی کو کرائے پر دئے ان کا کرایہ مانگا۔
(۵) وہ الفاظ جن میں خاص غرض پر روشنی ڈالنی چاہی ہے، سید الطاف علی''ایک دن مٰ نے مولوی عبدالغافر خاں سے دریافت کیا، فرمایا اگر جائداد رہن رکھ کر منافع لیا جائے خصوصاً ہنود سے سود تو جائز ہے'' یہ مثل قسم اول ہے ایک عام بات بطور مسئلہ ہے خاص اپنا ذکر نہیں۔ محمد رضاضاں ''یہ بھی وجہ ہے کہ ہماے رہن میں خلل کرے گا'' حیدر علی خاں ''میں نے بیع الوفا کرالیا ہے بیع الوفا سے نفع اٹھانا جائز ہے'' محمد بشیر ''دکانیں اور گودام گنیشی کے میرے پاس رہن ہیں یہ اس کا کرایہ ہے'' ان تین بیانوں میں ہر گز اس کا اقرار نہیں کہ زوجہ کا نام فرض ہے حقیقۃً معاملہ میرا ہے صرف اپنی طرف اضافت ہے مجرد اضافت دستاویز اقرار گنیشی ومصدقہ رجسٹری ومسلمہ فریقین کیونکر باطل کردے گی زوج وزوجہ میں ایسا ہی انبساط ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کے مال کو بلاتکلف اپنی طرف اضافت کرتا ہے ولہذا ایک دوسرے کو زکوٰۃ نہیں دے سکتا کہ یہ دینا نہ ہوا بلکہ گویا خود لینا۔
فتح القدیر میں ہے :
منافع میں اشتراک کی بناء پر ان کودینا گویا خود کو دینا ہوا۔(ت)
(۱؎ فتح القدیر کتاب الزکوٰۃ باب من یجوز دفع الصدقۃ الیہ الخ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۲/ ۲۰۹)
وکیل خصومت، ملک موکل کو اپنی طرف نسبت کرتا ہے بلکہ ایک خدمتگار اپنے آقا کی ملک کو، بلکہ وصی مال یتیم کو بلکہ موقوف علیہ بلکہ متولی مال وقف کو، حالانکہ وقف خالص ملک الٰہی عزوجل ہے کسی مخلوق کا اصلاً مملو ک نہیں، یہ سب یک گونہ بوجہ اختصاص انہیں اپنی جانب اضافت کرتے اور اپنی ملک کہتے ہیں تو شوہر نے معاملہ زوجہ کو اگر اپنا کہا کیا بعیدکہا، بلکہ شرفاء میں قطعاً یہی معہود ہے عورت کا کوئی مطالبہ کسی اجنبی پر آتا ہو یاعورت نے رہن کیا ہو تو اجانب میں بیٹھ کر یہ نہ کہیں گےکہ ہماری بی بی کا اتنا روپیہ دے دو ہماری بی بی نے یہ رہن کیا ہے بلکہ یوں ہی کہ ہمارا اتنا دے دو ہم نے رہن لیا ہے۔
وجیز امام کردری میں ہے :
ادعی انہ وکیل عن فلان بالخصومۃ فیہ ثم ادعاہ لنفسہ لایقبل لان ماھو لہ لا یضیفہ الی غیرہ، بخلاف مااذاادعاہ لنفسہ ثم ادعی انہ وکیل لفلان بالخصومۃ لعدم المنافاۃ فان الوکیل بالخصومۃ قد یضیف الٰی نفسہ یکون المطالبۃ لہ ۲؎۔
کسی نے کہا کہ میں فلاں کی طرف سے اس معاملہ کی جواب دہی کا وکیل ہوں پھر اسی چیز کو اپنی ملکیت ہونے کا دعوٰی کرے تو یہ مقبول نہ ہوگا کیونکہ اپنی چیز کو دوسرے کی طرف منسوب نہیں کیاجاتا، اسکے بر عکس پہلے اپنی ملکیت کا دعوٰی کیا، پھر بعد میں یہ دعوٰی کرے کہ اس چیز کی جواب دہی کے لئے میں فلاں کی طرف سے وکیل ہوں تو جائز ہوگا، اس صورت میں منافات نہیں ہے کیونکہ وکیل بالخصومۃ کبھی چیز کو اپنی طرف منسوب کرتا ہے تو اس کو مطالبے کا حق ہے (ت)
ادعی علیہ انہا لہ ثم ادعی انہا وقف علیہ یسمع لصحۃ الاضافۃ بالاخصیۃ انتفاعا۳؎۔
پہلے دعوٰی کیا کہ یہ میری ملکیت ہے، پھر دعوٰی کیا کہ یہ مجھ پر وقف کی گئی ہے تو دعوٰی مقبول وار قابل سماعت ہوگا کیونکہ اپنے لئے انتفاع کی خصوصیت کی بناء پر اپنی طرف منسوب کرسکتا ہے (ت)
ادعی المحدود لنفسہ ثم ادعی انہ وقف الصحیح من الجواب ان کان دعوی الوقفیۃ بسبب التولیۃ یحتمل التوفیق لان فی العادۃ یضاف الیہ باعتبار ولایۃ التصرف والخصومۃ ۱؎۔
دعوٰی کیا یہ محدود جائداد میری ہے پھر دعوٰی کیا کہ یہ وقف ہے، تو صحیح جواب یہ ہے کہ اگر اس وقف کی تولیت کی وجہ سے اپنی طرف منسوب کیا تو دونوں دعووں میں موافقت ہوسکتی ہے کیونکہ عادۃً متولی کو تصرف اور خصومیت کی ولایت ہوتی ہے اس کی بنا پر اس کی طرف منسوب ہوتی ہے۔(ت)
(۱؎ خزانۃ المفتین کتاب الوقف فصل فی دعوٰی الوقف والشہادۃ علیہ قلمی نسخہ ۱/ ۲۲۵)
رب عزوجل فرماتا ہے:
ولاتؤتوا السفہاء اموالکم التی جعل اﷲلکم قیٰما۲؎۔
اپنے وہ مال جن کا اﷲ تعالٰی نے تمہیں منتظم بنایاہے بے سمجھ لوگوں کو نہ دو۔(ت)
(۲؎ القرآن الکریم ۴ /۵)
امام سعید بن جبیر تلمیذ سید نا عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہم فرماتے ہیں:
ھو مال الیتیم یکون عندک یقول لاتؤتہ ایاہ وانفقہ علیہ منہ حتی یبلغ وانما اضاف الی الاولیاء فقال اموالکم لانھم قوامھا ومدبروھا۳؎۔
یہ یتیم کا مال ہے جو تیرے پاس ہے، اﷲ تعالٰی نے فرمایایہ مال یتیم کو نہ دو اور اس پر خرچ کرو حتی کہ بالغ ہوجائے، اس مال کو اﷲ تعالٰی نے اولیاء کی طرف اس لئے منسوب فرمایا کہ وہ اس کے نگران اور منتظم ہیں۔(ت)
(۳ ؎ معالم التنزیل علٰی ہامش تفسیر الخازن تحت آیۃ ۴/ ۵ مصطفی البابی مصر۱/ ۴۷۸)
یہی تفسیر عکرمہ سے منقول
کما فی المعالم وغیرہا
(جیسا کہ معالم وغیرہ میں ہے۔ت) بلکہ رب العزت نے فرمایا:
ووجدک عائلا فاغنی۴؎
(اور آپ کو محتاج پایا تو اس نے غنی کردیا۔ت)
(۴؎ القرآن الکریم ۹۳/ ۸)
یہ مال ام المومنین خدیجۃالکبرٰی رضی اﷲ تعالٰی عنہا کا ہے جسے مولٰی تعالٰی نے حضور سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کامال فرمایا کہ غنا بمال غیر نہیں۔
محقق علی الاطلاق نے فتح میں فرمایا:
قال اﷲ تعالٰی
ووجدک عائلا فاغنیo
ای بمال خدیجۃ وانما کان منہا ادخالہ علیہ الصلٰوۃ والسلام فی المنفعۃ علی وجہ الاباحۃ والتملیک احیانا۱؎۔
اﷲ تعالٰی نے فرمایا: آپ کو اس نے محتاج پایا تو اس نے غنی کردیا، یعنی حضرت خدیجہ کے مال سے اور اس لئے کہ آپ کو حضرت خدیجہ رضی اﷲتعالٰی عنہا کی طرف سے ان کے مال میں دخل اختیار تھا، یہ اختیار آپ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے مباح اور کبھی ملک کے طور پر تھا۔(ت)
(۱؎ فتح القدیر باب الزکوٰۃ باب من یجوز دفع الصدقۃ الخ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۲/ ۲۰۹)
بالجملہ ان میں کوئی صرف مثبت دعوٰی نہیں، ہاں موتی شاہ ووزیر خاں کی کوشش مدعیوں کو قابل مشکوری تھی کہ وہ صراحۃً ساری گفتگو عبدالغافر خاں وگنیشی میں بتاتے ہیں ان کی مہمل ومتناقض گواہیوں کا حال آئندہ آتا ہے مگر انہوں نے نری ناتمام گفتگو پر خاتمہ کردیا وقوع عقد سے صراحۃً انکار کیا، موتی شاہ ''میرے سامنے کچھ اور معاملہ نہیں ہوا لکھت پڑھت کچھ نہ ہوئی زبانی بات تھی'' وزیر خاں''پھر مجھے کچھ نہیں معلوم، میرے سامنے کچھ دستاویز کی تکمیل نہ ہوئی'' اشرف علی خاں''اس کاغذ کا لکھا جانا بتاتا ہے جس میں تصریحاً زوجہ عبدالغافر خاں کانام ہے'' عبدالغافر خاں کا گھر آنا اور روپیہ کچہری کو لے جانابلکہ دستاویزیں اپنے نام چھڑانا کسی طرح زوجہ کا اسم فرضی ہونے کا شبہہ بھی نہیں دلاتا نہ کہ دلیل ہو۔ ولی خاں و غفران خاں ہزار روپے زراصل سے عبدالغافر خاں کو دئے جانے اور ان کی رسید لکھنے کے گواہ ہیں،
اولاً ان دونوں کی گواہی خود مجوز نے نہ مانی اور اس ہزار کی ڈگری نہ دی۔
ثانیاً تقریر سابق اس وہم کے دفع کو بس ہے، مخدرات کا روپیہ ان کے ازواج ہی کو دیاجائیگا اور وہی رسیددیں گے۔ احمد خاں ولد عبدالغنی خاں ونجف علی خاں اس مد کے گواہ ہیں کہ عبدالغافر خاں نے گنیشی سے گودام کا ایک حصہ پندرہ روپے ماہوار کرائے پر مانگا۔ ان گواہیوں نے تو روشن طور پر ثابت کردیا کہ یہ مکان عبدالغافر خاں سے بیع یا رہن نہ ہوئی ورنہ کرائے پر لینے نہ جاتا، غایت یہ کہ حسب زعم مدعیان خلاف اقرار صریح مورث قبضہ نہ ہوا تھا تو بذریعہ نالش قابض ہوجاتا نہ کہ ایک چیز کا پندرہ روپے مہینہ کرایہ دینا چاہتا، بالجملہ کوئی شہادت اس دعوٰی کا اثبات نہیں کرتی کہ اصل معاملہ عبدالغافر خاں سے ہے ور زوجہ کا نام فرضی ہے بلکہ یہ دو شہادتیں اس کا رد ہیں۔ وجوہ خاصہ وجوہ عامہ کے بعد ان کی طرف زیادہ توجہ کی حاجت نہیں، نہ وقت میں وسعت، مگر بعض کا تذکرہ کریں۔