Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
140 - 151
چہارم : حاضر پر شہادت میں مدعی و مدعا علیہ دونوں کی طرف اشارہ ضرور ہے اور غائب و میت کا نام و نسب بتانا جس میں سید ناامام اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے نزدیک ذکر جد بھی لازم، اور اسی پر فتوٰی ہے مگر جب غناء ہے، ذخیرہ و ہندیہ وغیرہما میں ہے:
یحتاج فی الشہادۃ علی الحاضر الی الاشارۃ الی المدعی علیہ والمدعی یحتاج الی تسمیۃ الشہود اسم المیت والغائب وابیھما وجدھما۲؎۔
حاضر شخص کے خلاف شہادت میں مدعی اور مدعی علیہ کی طرف اشارہ کی ضرورت ہے، اور گواہوں کا میت اور غیر حاضر اور ان کے والد اور دادا کا نام لینا ضروری ہے۔(ت)
 (۲؎ فتاوٰی ہندیہ     کتاب الشہادات    الباب الثالث    نورانی کتب خانہ پشاور۳/ ۴۵۹)
بحر میں ہے:
والصحیح ان النسبۃ الی الجد لابدمنہ۳؎۔
صحیح یہی ہے کہ دادے کی طرف نسبت ضرور ی ہے۔(ت)
(۳؎ بحرالرائق     باب الشہادۃ علی الشہادۃ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۷/ ۱۲۵)
شہادات تنویرالابصار ودرمختار میں ہے:
(ھی) ان (علی حاضر یحتاج الشاہد الی الاشارۃ (الی) ثلثۃ مواضع اعنی (الخصمین والمشھودبہ لوعینا) لادینا(وان علی غائب) کمافی نقل الشہادۃ (او میت فلابد) لقبولھا(من نسبتہ الی جدہ فلایکفی ذکر اسمہ واسم ابیہ وصناعتہ  الااذاکان یعرف بھا لامحالۃ) بان لایشارکہ فی المصرغیرہ۱؎۔
شہادت اگر حاضر کے خلاف ہو تو گواہ کو تین چیزوں کی طرف اشارہ کی ضرورت ہوگی، مدعی، مدعی علیہ اور مشہود بہ اگر وہ عین چیز ہو، نقد نہ ہو، اور اگر غائب کے خلاف ہوجیسے نقل شہادت کی صورت ہو، یامیت کے متعلق ہو تو اس وقت شہادت کی قبولیت کے لئے ان کو دادے کی طرف منسوب کرنا ضروری ہے تو اس کا اور اس کے باپ اور پیشہ کا نام ذکر کرنا ناکافی نہیں ہے ہاں اگر ان کے ذکر سے لازمی طور پر معرفت ہوجائے مثلاً اس نام کا شہر میں کوئی دوسرا نہ ہو۔(ت)
(۱؎؎ درمختار     کتاب الشہادات     مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۹۱)
فتاوٰی ابن رشیدالدین وجامع الفصولین میں ہے:
لوکانت الشہادۃ علی الحاضر یحتاج الشاہد الی الاشارۃ الٰی ثلثۃ  مواضع الی الخصمین والمشھودبہ ولو علی غائب او میت فسماہ ونسبہ الی ابیہ فقط لاتقبل حتی ینسبہ الی جدہ ۲؎۔
شہادت اگر حاضر کے خلاف ہو تو تین چیزوں کی طرف اشارہ ضروری ہے، مدعی، مدعٰی علیہ اور مشہود بہ کی طرف۔ اور غائب اور میت سے متعلق ہو تو ان کانام اور ان کے باپ کا نام کافی نہ ہوگا بلکہ ان کے دادے کا نام ذکر کیا جائے تو شہادت قبول ہوگی۔(ت)
 (۲؎ جامع الفصولین    الفصل التاسع        اسلامی کتب خانہ کراچی     ۱/ ۱۱۹)
اسی میں ہے:
اماالغائب فلابد من ذکرجدہ عند ابی حنیفۃ رحمہ اﷲ تعالٰی وھو الصحیح والفتوٰی علی قول ابی حنیفۃ رحمہ اﷲ تعالٰی ۳؎۔
لیکن غائب شخص کے متعلق ہو تو اس کے دادے کاذکر بھی امام ابوحنیفہ رحمہ اﷲ تعالٰی کے نزدیک ضرور ی ہے یہی صحیح ہے اور فتوٰی امام اعظم رحمہ اﷲ تعالٰی کے قول پر ہے۔(ت)
 (۳؎جامع الفصولین    الفصل التاسع        اسلامی کتب خانہ کراچی ۱/ ۱۱۹)
اسی طرح عامہ کتب مذہب میں ہے اقول:  سر ا س میں یہ ہے کہ حاضر پر شہاد ت میں شاہد کا اسے پہچاننا ضرور ہے جبکہ اصل شاہد ہو نہ کہ
شاہد علی الشاہدکما افادہ العلامۃ ابن قاضی سماوۃ
 (جیسا کہ علامہ ابن سماوۃ نے اس کا افادہ فرمایا ہے۔ت)
محیط پھر جامع الفصولین میں ہے:
یحتاج الی اداء الشہادۃ بمحضر منہ فلابد من معرفتہ بوجہ لیمکنہ الشہادۃ علیہ وعند غیبتہ او موتہ یحتاج الی الشہادۃ باسمہ و نسبہ فلا بد من معرفۃ اسمہ ونسبہ۱؎۔
حاضر کے متعلق شہادت اس کے سامنے ضروری ہے تاکہ ضروری شناخت ہوسکے اور غیب ہونے کی صورت میں یا موت کی صورت میں اس کے نام اور اس کے نسب کو بیان کرنے کی ضرورت ہوگی تاکہ اس کے نام اور نسب کی ضروری معرفت ہوسکے۔(ت)
(۱؎ جامع الفصولین     الفصل التاسع         اسلامی کتب خانہ کراچی    ۱/ ۱۲۲)
ولہذا اگر گواہ حاضر کا پورا نام ونسب بیان کریں اور اسے پہچانتے نہ ہوں گواہی مردود ہے__
جامع الفصولین میں ہے:
شھداعلی امرأۃ باسمھا ونسبھا وھی حاضرۃ فقال القاضی للشھود ھل تعرفون المدعی علیہا فقالو الالاتقبل شہادتھم۲؎۔
دو گواہوں نے عورت کے خلاف شہادت دیتے ہوئے اس کانام ونسب بیان کیا اور وہ موجود تھی، تو قاضی نے گواہوں سے پوچھا کہ تمہیں اس عورت کی شناخت ہوگئی ہے؟ تو انہوں نے کہا نہیں، تو ان گواہوں کی شہادت قبول نہ ہوگی۔(ت)
 (۲؎جامع الفصولین     الفصل التاسع         اسلامی کتب خانہ کراچی   ۱/ ۲۱۔۱۲۰)
اور حاضری میں معرفت شاہد کا بتانے والا یہی اشارہ ہے نام ونسب سیکھ کر بھی کہہ سکتے ہیں جیسے ابھی اس فرع میں گزرا تو حاضر پر گواہی بے اشارہ قبول نہیں مدعی اور مدعاعلیہ دونوں کی طرف اشارہ لازم ہے اور یہ سب گواہیاں اس سے خالی ہیں مدعیوں کی طر ف اشارہ اصلاًکسی میں نہیں۔

پنجم یوں ہی مدعا علیہ کی جانب سوائے شہادت وزیر خاں کہ محض مہمل بے معنی ہے
کما یأتی
(جیسا کہ آگے آئے گا۔ت) بلکہ اس کا اشارہ بھی شہادت میں نہیں اس سے خارج و جدا ہے، اس نے یہ نہ کہا کہ یہ دولھا خاں آئے بلکہ''دولہا خاں صاحب پیشکار آئے'' تو کلام میں اشارہ نہیں اگرچہ اس کے ساتھ ہو شہادت کلام ہے کہ زبان سے ادا ہوتا ہے نہ کہ ہاتھ سے، تو شہادت اشارہ سے خالی ہے جس طرح اپنی زوجہ سے کہے تجھ پر اتنی طلاق اور تین انگلیاں اٹھائے تین طلاق ہوجائیں گی کہ اس اشارے سے کلام متعلق ہوا، 

بدائع ملک العلماء میں ہے:
کذااذااشار الی عدد الثلاث بان قال لہا انت طالق ھکذا یشیر بالابھام والسبابۃ والوسطی لان الاشارۃ متی تعلقت بھا العبارۃ نزلت منزلۃ الکلام اذا اقامت الاشارۃ مع تعلق العبارۃ  بہا مقام الکلام صار کانہ قال انت طالق ثلثا۱؎۔
یوں ہی جب تین عدد کا اشارہ کر تے ہوئے خاوند نے کہا تجھے یہ طلاق۔انگوٹھا، شہادت کی انگلی اور درمیان والی انگلی سے اشارہ کیا کیونکہ اشار ہ کے ساتھ عبار ت ہوتو اس اشار ہ کو کلام کے قائم مقام کیا جاتا ہے، تو جب اشارہ عبارت سے متعلق ہو تو ''تجھے تین طلاق'' جیسی کلام کی طرح ہوجائیگا(ت)
 (۱؎ بدائع الصنائع     کتاب الطلاق     فصل وامابیان صفۃ الواقع بہا الخ    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ۳/ ۱۰۔۱۰۹)
ردالمحتا رمیں فتاوٰی امام قاضیخاں سے ہے:
قال انت طالق واشار بثلاث اصابع ونوی الثلاث ولم یذکر بلسانہ فانہاتطلق واحدۃ۲؎۔
خاوند نے ''تجھے طلاق' ' کے ساتھ تین انگلیوں کا اشارہ کیا اور تین طلاقوں کی نیت کی اور زبان سے اشارہ ذکر نہ کیا تو ایک طلاق ہوگی کیونکہ اشارہ کاتعلق عبار ت سے نہیں ہے۔(ت)
 (۲؎ ردالمحتار          کتاب الطلاق      باب الصریح        داراحیاء التراث العربی بیروت    ۲/ ۴۴۸)
اور اگر کہے''تجھ پر طلاق'' اور تین انگلیاں اٹھائے دل میں بھی تین ہی کی نیت کرے ایک ہی طلاق پڑے گی کہ اس اشارے سے کلام کا تعلق نہ ہوا۔
ششم : گنیشی مردہ ہے اس کے نہ دادا کانام اصلاً کسی نے لیا نہ باپ کا، بلکہ بعض نے صراحۃً اس کے باپ کانام معلوم ہونے سے انکار کیا تو شہادتیں سب مختلف وپر قصور ہیں۔ناظر یہاں تعجب کرے گا کہ سید عبدالعزیز نے شہادت اور محمد رضاخاں نے جواب جرح میں بتایا ہے کہ گنیشی کے باپ کا نام رام چند رہے او ولی خاں نے شہادت میں کہا ہے عبدالغافر نے رسید لکھ دی میں نے کہا گنیشی کی ولدیت رامچندر لکھ دیجئے تو ان تین نے تو باپ کا نام بتایا مگر اس کا یہ تعجب دوسرے سخت استعجاب سے بدل جائے گا جب اسے معلوم ہوگاکہ گنیشی کاباپ رامچندر نہیں بلکہ لل مل ہے جیسا کہ خود اس نے اسی بیعنامہ بنام نوشان بیگم کے عنوان میں لکھا ہے وہ رامچندر کا متبنی تھا اور متبنی کو بیٹا بتانا قرآن عظیم کے خلاف ہے۔
قال تعالٰی
وما جعل ادعیاءکم ابناءکم ذٰلک قولکم بافواھکم واﷲ یقول الحق وھو یھدی السبیل۱؎o ادعوھم لابائھم ھو اقسط عنداﷲ ۲؎۔
اﷲ تعالٰی نے فرمایا: اﷲنے تمہارے لئے پالکوں کو تمہارا بیٹا نہ ٹھہرایا، یہ تمہارے اپنے منہ کا کہنا ہے اور اﷲ حق بات فرماتا ہے اور وہی راہ دکھاتا ہے انہیں ان کے اصل باپوں کی طرف نسبت کرو، یہ اﷲ کے یہاں زیادہ انصاف کی بات ہے۔
  (۱؂القرآن الکریم ۳۳/ ۴ )	( ۲؎ القرآن الکریم ۳۳/ ۵)
تو یہ ان شاہدوں کا کذب ہوا اور قرآن عظیم کی مخالفت اور نہ بتانے سے الٹا بتانا بدتر،ا ور اگر بفرض باطل رامچندر ہی اس کا باپ ہوتا تو یہ نام سید عبدالعزیز نے شہادت میں یوں نہ لیا کہ گنیشی ابن فلاں شہادت دی ہو بلکہ ختم شہادت پر ایک مستقل جملہ کہا کہ گنیشی کے باپ کانام رامچندر ہے اس میں بھی لفظ مذکور تک نہ کہا معلوم نہیں کون سے گنیشی کا باپ۔ یوہیں محمد رضاخاں نے ایسا ہی مستقل جملہ کہا بلکہ استدعا کی کہ یہ ولدیت لکھ دو، اس سے یہ بھی لازم نہیں آتا کہ واقع میں یہی ولدیت ہو، اس نے ہاتھی خانے کا تحویلدار بھی کہا مگر کہاں کا ہاتھی خانہ، یہ نہ بتایا، شہاد ت میں ذہنی تصورات سے کام نہیں چلتا کہ مقصود ہے تعریف، وتعریف تعریف ہے یعنی یہ بتانا کہ شاہد اسے ہپنچانتا ہے، یہ تعریفیں الفاظ سے ہوں گی نہ کہ قائل کے مافی الذہن سے لہذا سب شہادتیں مہمل ہیں۔
Flag Counter