Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
14 - 151
مسئلہ۲۶: کیافرماتے ہیں علمائے دین متین زادھم اللہ شرفا اس صورت میں کہ مسماۃ راحت النساء ہمشیرہ محمد عیوض علی خان کی میر ارشد علی کے نکاح میں اور مسماۃ مہر النساء ہمشیرہ میرارشد علی کی محمد عیوض علی خان کے نکاح میں تھی ہر دوزوج وزوجات نے بدون ادائے دین مہر کے وفات پائی اب ورثہ ہر دو زوجات دین مہر ان کا ان کے شوہر وں کے متروکہ سے طلب کرتے ہیں ورثہ مسماۃ راحت النساء ہمشیرہ محمد عیوض علی خان فریق مقابل سے کہتے ہیں کہ دین مہر ہماری مورثہ کا تمہارے مورث پر اور تمہاری مورثہ کا ہمارے مورثہ پر ہے اول ان دونوں مہروں کا باہم معاوضہ اور مبادلہ کرلیاجائے بعد معاوضہ اور مبادلہ کے جس فریق کے جس قدر باقی نکلے وہ نقداً ادا کی جائے اور جو نقداً ادا نہ ہوسکے تو جائداد باقی دار سے مطالبہ کیا جائے، درجواب اس کے ورثہ مسماۃ مہرالنساء ہمشیرہ میر ارشد علی کہتے ہیں کہ جو جائداد محمد عیوض علی خان پر بعوض دین مہر اپنے موروثہ کی ہم نے قبضہ کرلیا ہے ہم وہی جائداد دیں گے اور مقابلہ اور معاوضہ دین بالدین نہیں  کریں گے دریں صورت از روئے شرع شریف حق بجانب کس فریق کے ہے۔بینواتوجروا۔
الجواب

جس حالت میں مہر زر نقد ہے اور جائدا اس کی جنس سے نہیں پس ورثہ مہر النساء جائداد پر قابض ہونے سے بے رضائے ورثہ راحت النساء اس کے مالک نہ ہوگئے ہر دو مہر باہم مقاص ہوکر اگر ایک کا مہر زائد ہو مابقی کی نسبت دوسری عورت کے ورثہ کو اختیار ہے خواہ زر نقد دین یا جائداد سے اداکریں،
فی بحث الدین من الاشباہ والنظائر وایفاؤہ واستیفاؤہ لایکون الابطریق المقاصۃ عند ابی حنیفۃ رحمہ اﷲ ۱؎الخ و فی مبحث الملک منہ وللوارث استخلاص الترکۃ بقضاء الدین ولو مستغرقا۲؎قال العلامۃ حموی تحت قولہ ولاینفذ بیع الوارث الترکۃ المستغرقۃ بالدین وانما یبیعہ القاضی اقول:  ینبغی ان یکون البیع بحضرۃ الورثۃ لما لھم من حق امساکہا وقضاء الدین من مالھم۱؎الخ واﷲ تعالٰی اعلم بالصواب والیہ تعالٰی المرجع والمآب۔
اشباہ ونظائر کے دین کے باب میں ہے کہ اس کا پورالین دین سوائے ادل بدل کے جائز نہیں امام ابوحنیفہ رحمہ اﷲ تعالٰی کے ہاں الخ، اور اس پر ملک العلماء کی بحث میں ہے وارث کو حق ہے کہ وہ قرضہ ادا کرکے ترکہ کی خلاصی کرائے اگرچہ وہ تمام ترکہ قرضے میں بند ہو۔علامہ حموی نے اس پر فرمایا: اور وارث کا ایسے ترکہ کو فروخت کرنا جو تمام کا تمام قرض میں بند ہے جائز نہیں اس کو صرف قاضی فروخت کرے گا۔ میں کہتا ہوں وارثوں کی موجودگی میں فروخت کرنا مناسب ہوگا کیونکہ ان کو حق ہے کہ وہ ترکہ کو روک لیں اور قرض خود ادا کریں الخ واﷲ تعالٰی اعلم بالصواب والیہ تعالٰی المرجع والمآب۔(ت)
(۱؎ الاشباہ والنظائر    الفن الثالث     القول فی الدین    ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی    ۲/ ۲۰۹)

(۲؎الاشباہ والنظائر    الفن الثالث     القول فی الملک  ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی    ۲/ ۲۰۵)

(۱؎ غمز عیون البصائر    الفن الثالث، القول فی الملک     ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی     ۲ /۲۰۵)
مسئلہ۲۷: کیافرماتے ہیں علمائےدین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ہندہ نے اپنے آپ کو بنت لیلٰی اوردختر زید کہا کہ اور تمام کاغذات میں اور دستاویزات میں ہمیشہ اپنا حسب یونہی لکھا اور زینب باوجود سکونت یک شہر ویک محلہ وموافقت سالہا سال ہندہ کی کہ دونوں اسی حال پر سن رسیدہ ہوگئیں، اپنے آپ کو مجہول النسب کہتی اور کاغذات میں بنت نامعلوم لکھتی، اس بناء پر جب زینب نے سمجھا کہ اب موت قریب آئی اور میرے کوئی وارث شرعی نہیں چہارم نومبر۱۸۶۸ء کوہندہ واولاد ہندہ کے روبرو اپنی کل جائدا دکی وصیت اپنی دختر منی اور مختار سربراہ کار کے نام کردی اور لکھ دیا کہ یہی دونوں بعد میرے میری کل جائداد کے مالک وارث ہوں گے، اس وصیت وتکمیل وصیت کے چند عرصہ بعد زینب نے بتاریخ ۱۹فروری ۱۸۷۰ء قضاء کی، اس کے انتقال کرتے ہی ایک شخص اجنبی نے براہ غصب اس تمام جائداد پر قبضہ کرلیا موصی لہا نے بربنائے وصیت دعوٰی کیا کہ بعد تنقیح تمام وہ وصیت بحکم شرع فتوائے علماء سے صحیح ونافذ وتام ولازم قرار پاکر ۱۱/جنوری ۱۸۷۲ء کو حکام وقت کے یہاں سے وہ جائداد موصی لہا کو مل گئی یہ سب واقعات ہندہ و اولاد ہندہ کے روبروہوئے لیکن کسی نے ترکہ زینب پر دعوٰی نہ کیا نہ اپنا کچھ استحقا ق بتایا اوراس سے پہلے ماہ جون ۱۸۷۲میں حکام وقت کی طرف سے جائداد کو لاوارثی قرار دے کر دعوٰی یہی ہوا کہ محکمہ بالا سے اسی بنا پر کہ پہلے سے کیوں نہ کہا تھا خارج ہوگیا، اس تحقیق و تنقیح اور لاوارثی ٹھہرانے اور دعوٰی دائر ہونے کے وقت بھی ہندہ اور اولاد ہندہ نے خبر نہ لی نہ اپنی وراثت کا ادعا کیا، جب موصی لہا کو جائداد ملی انہوں نے فوراً اس میں تصرفات مالکانہ شروع کردئے، نصف جائداد تو اسی وقت ایک شخص کو پیروی مقدمہ کے عوض میں دی کہ اس نے اوروں کے ہاتھ بیچ کر سب برابر کردی، نصف باقیماندہ پر بلامنازعت منازع خودقابض ومتصرف رہی بلامزاحم اس کے تحصیل تشخیص کرتے اور اپنے صرف خاص میں لاتے اور ان سب امور پر بھی ہندہ واولاد ہندہ کو خوب اطلاع تھی کہ وہ سب اسی شہر میں حاضر موجود تھے نہ کہ غائب ومفقود، بلکہ اسی عرصہ میں موصی لہانے اس نصب باقیماندہ سے بھی چند دیہات بیچ ڈالے کہ اب معدود باقی ہیں اور جب سے مشتریان تصرفات مالکانہ کرتے ہیں ہندہ واولاد ہندہ نے تصرف بیع وانتقال کے وقت بھی کبھی دعوی نہ کیا یہاں تک کہ ۱۳/اکتوبر ۱۸۷۹ء کو ہندہ فوت ہوگئی ورثہ ہندہ اس کے مرے پر بھی دو سال سے زیادہ تک محض ساکت رہے اب باغوائے بعض مردان ۱۹ فروری ۱۸۸۲ کو موصی لہا پر بریں بنا دعوٰی دائر کیا کہ زینب موصیہ اور مدعیوں کی ماں ہندہ دونوں حقیقی بہنیں تھیں ہندہ زینب کی وارث ہوئی اور ہم ہندہ کے ورثاء ہیں اور اظہار کرتے ہیں کہ ہندہ زینب کو اپنی بہن کہتی ہے اور شاید بعض دستاویزیں بتائیں کہ ان میں ہندہ بہن اور ہم ہمشیرزادہ لکھے گئے، آیا یہ دعوٰی ان کا شرعاًقابل سماعت ہے یانہیں؟بینواتوجروا۔
Flag Counter