فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی) |
اذاقال الحاکم للشاھد بای شیئ تشھد؟ فقال حضرت عندفلان فسمعتہ یقرأ بکذا، او اشھدنی علی نفسہ بکذا، او شھدت بینھما بصدور البیع اوغیر ذٰلک من العقود لایکون اداء شہادۃ، ولایجوز للحاکم الاعتماد علی شیئ من ذلک۲؎۔
جب حاکم نے گواہ سے پوچھا تو کس چیز کی گواہی دیتا ہے؟ تو اس نے کہا میں فلاں کے پاس حاضر تھا تو میں نے اسے فلاں چیز کا ذکر کرتے ہوئے سنا، یا اس نے مجھے اتنی چیز کا گواہ بنایا، یا کہا میں دونوں فریقوں کے درمیان بیع صادر ہونے کی گواہی دیتا ہوں یا اس کے علاوہ کسی سودے کی، تو یہ شہادت کی ادائیگی نہ ہوگی اور نہ ہی حاکم کو اس بیان پر اعتماد ہوگا۔(ت)
(۲؎معین الحکام الفصل الثامن مصطفی البابی مصر ص۸۹ )
ہمارے نزدیک اس کی بہتر تعلیل یہی ہے کہ "
حضرت عندفلاں"
شہادت مشہود بہ میں فاصل ہوگیا
ولامحل لان یقال لم یقل اشھد لان السوال معادفی الجواب ولذالم یبنیہ علیہ العلامۃ الطرابلسی وانما عللہ بانہ خبر عن ماض ویحتمل التغیر اقول: وفیہ نظر ویردہ فروع جمۃ لاتحصر، قال فی جامع الفصولین (مش) لو شھداانہ کان ملکہ فکانما شھداانہ ملکہ فی الحال ولا یجوز للقاضی ان یقول امروز ملک وے دانید فعلی ھذا لوادعی دیناراشھد اانہ کان لہ علیہ کذااوقال اوراایں قدرزردرذمہ ایں بود ینبغی ان تقبل کما فی العین وفی (ط) مایدل علی قبولھا وفیہ وکذالو شاھد احدھما انہ ملکہ والآخر انہ کان ملکہ تقبل شہادتھما لاتفاقھما انہ لہ فی الحال معنی لمامروکذا الشہادۃ علی النکاح والاقرار بہ ففی (فش) ادعت نکاحہ فشھد احدھما انہ اقرانھا امرأتہ والاٰخرانہ اقرانھا کانت امرأتہ تقبل، لان الشہادۃ باقرارہ بنکاح کان شہادۃ باقرارہ بنکاح حالی لان ماثبت یبقی وکذالوادعی انہا امرأتی او منکوحتی وشھد اانہ کان تزوجہا ولم یتعرضا للحال تقبل، ولوادعی انہ کان لاتقبل لان اسناد المدعی یدل نفی الملک فی الحال اذلافائدۃ للمدعی فی الاسناد مع قیام ملکہ فی الحال بخلاف الشاہدین لو اسندا ملکہ الی الماضی لایدل علی النفی فی الحال لانھما لایعرفان بقائہ الا بالاستصحاب والشاھد قد یحترز عن الشہادۃ بماثبت باستصحاب الحال لعدم تیقنہ بخلاف المالک لانہ کما یعلم ثبوت ملکہ یقینا یعلم بقائہ یقینا، اھ۱؎ببعض اختصار وفی الدر والغرر وتنویرالابصار والدرالمختار ادعی الملک فی الحال و شھد الشھود ان ھذا العین کان ملکہ تقبل لان ماثبت فی زمان یحکم ببقائہ مالم یوجد المزیل ۱؎اھ فالوجہ فی تعلیلہ ماذکرنا وباﷲ التوفیق وﷲ الحمد، واﷲ تعالٰی اعلم۔
یہ محل ایسا نہیں کہ اشھد نہ کہنے کو وجہ بنایا جائے کیونکہ(قاضی کا یہ کہنا تو کیا شہادت دیتا ہے) سوال کا جواب میں اعادہ ہوتا ہے اسی لئے علامہ طرابلسی نے اس کو بنیاد نہیں بنایا اور وجہ یہ بتائی کہ یہ ماضی سے خبر ہے جو خلاف کا احتمال رکھتی ہے اقول: (میں کہتاہوں کہ) ماضی والی وجہ قابل غور ہے بہت سے مسائل ا سکو رد کرتے ہیں۔ جامع الفصولین میں فرمایا (مش) اگر دونوں گواہوں نے شہادت دی کہ یہ اس کی ملکت ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ فی الحال اس کی ملک ہے اور قاضی کویہ حق نہیں کہ وہ کہے کہ، کیا آج ملک مانتے ہو، تو اس بنا پر اگر مدعی دینار کا دعوٰی کرے اور گواہ شہادت دیں کہ اس کا دین مدعی علیہ کے ذمے تھا یا یوں کہیں کہ اتنی مقدار زر اس کے ذمہ تھا گواہی قبول کی جائے گی جیساکہ عین چیز میں مقبول ہوگی، اور طحطاوی میں ذکر کردہ اس کی قبولیت پر دال ہے اور اس میں ہے اور یونہی اگر ایک گواہ نے کہا یہ اس کی ملک ہے، اور دوسرے نے کہا اس کی ملک تھی، دونوں کی شہادت قبول ہوگی کیونکہ معنیً دونوں کا اتفاق ہے کہ فی الحال ملک ہے جیسا کہ گزرا، اور یونہی نکاح اور نکاح کے اقرار کی شہادت کا معاملہ ہے (فش) میں ہے کہ عورت نے ایک مرد سے نکاح کا دعوٰی کیا، ایک گواہ نے کہا کہ مر دنے اس کے بیوی ہونے کا اقرار کیا ہے اور دوسرے نے کہا کہ یہ اس کی بیوی تھی، تو شہادت مقبول ہوگی کیونکہ نکاح کے متعلق اقرار کی شہادت موجودہ نکاح کے اقرار کی شہادت ہے کیونکہ ثابت شدہ چیز باقی رہتی ہے، اور یوں ہی اگرمرد نے دعوٰی کیا کہ یہ میری بیوی ہے یا منکوحہ ہے اور دونوں گواہوں نے شہادت دی کہ اس نے اس عورت سے نکاح کیا تھا اور انہوں نے حال کو بیان نہ کیا تو شہادت مقبول ہوگی، اور اگر مدعی نے کہاہو کہ نکاح تھا تو پھر یہ گواہی مقبول نہ ہوگی کیونکہ مدعی کا ماضی کی طرف منسوب کرنا دال ہے کہ فی الحال ملک نہیں کیونکہ فی الحال ملک ہو تو پھر ماضی کیطرف منسوب کرنا مدعی کو مفید نہیں ہے اس کے برخلاف گواہوں کا ماضی کی طرف منسوب کرنا حال کی نفی پر دال نہیں کیونکہ ان کو بقاکا علم صرف استصحاب سے ثابت شدہ چیز کی گواہی سے احتراز کرتا ہے کیونکہ وہ یقینی نہیں ہے جبکہ مالک خود اپنی ملکیت کے ثبوت کو جانتا ہے،اسی طرح وہ بقائے ملکیت بھی یقینی طور پر جانتاہے ۔ بعض اختصا ر کے ساتھ عبارت ختم ہوئی۔ درر، غرر، تنویر الابصار اور درمختار میں ہے اگر مدعی نے اپنی حالیہ ملکیت کا دعوٰی کیا او رگواہوں نے یہ شہادت دی کہ یہ چیز اس کی ملک تھی تو یہ شہادت مقبول ہوگی کیونکہ جب کوئی چیز ایک زمانہ میں ثابت ہوتو جب تک اس کے ثبوت کا زوال ثابت نہ ہوجائے اس وقت تک اس کی بقاء کا حکم دیا جائے گا اھ، تو اس کی علت کی وجہ وہی ہے جو ہم نے بیان کی ہے، توفیق اﷲ تعالی سے اور تمام حمدیں اﷲ تعالٰی ہی کے لئے ہیں، واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
(۱؎ جامع الفصولین الفصل الحادی عشر اسلامی کتب خانہ کراچی ۱/ ۱۶۲) (۱؎ درمختار کتاب الدعوی باب دعوی الرجلین مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۱۲۷)
ولی خاں کی گواہی بھی اس بحث کا عمل ہے مگر وہ اپنے فعل پر شہادت ہے اور خود مجوز نے اسے قبول نہ کیا لہذا اس کی طرف زیادہ توجہ کی حاجت نہیں۔