Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
138 - 151
سوم : اشھد، گواہی میدہم، گواہی دیتا ہوں سب سے سخت تر قسم ہے اور مشہود بہ مقسم علیہ یعنی وہ بات جس پر یہ شدید قسم کھائی۔ 

درمختا رمیں ہے:
رکنھا لفظ اشھد لاغیر لتضمنہ معنی مشاہدۃ وقسم واخبار للحال فکانہ یقول اقسم باﷲ لقد اطلعت علی ذلک وان اخبربہ وھذہ المعانی مفقودۃ فی غیرہ فتعین۱؎۔
اس کا رکن صرف اشھد کا لفظ ہے اور کچھ نہیں کیونکہ یہ لفظ مشاہدہ اور قسم اور حال کی خبر ہے گویا اس نے یوں کہا خدا کی قسم میں نے اس پر اطلاع پائی اور اس کی خبر دے رہا ہوں، جبکہ یہ معانی اس لفظ کے غیر میں مفقود ہیں، تویہی متعین ہے۔(ت)
(۱؎ درمختار    کتاب الشہادات    مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۹۰)
جامع الفصولین جلد اول ص۱۲۱ :
فی لفظ الشہادۃ من التاکید مالیس فی لفظ الخبرلانہ یمین باﷲ تعالٰی معنی۲؎۔
لفظ شہاد ت میں جو تاکید ہے وہ خبر کے لفظ میں نہیں ہے کیونکہ اشہد معناً اﷲ تعالٰی کی قسم ہے۔(ت)
 (۲؎ جامع الفصولین     الفصل التاسع     اسلامی کتب خانہ کراچی    ۱/ ۲۲۔۱۲۱)
تبیین امام زیلعی ج ۴ ص۲۱۰:
النصوص ناطقۃ بالاستشہاد فلا یقوم مقامھا غیر ھا لما فیہا من زیادۃ توکید لانہا من الفاظ الیمین فیکون معنی الیمین ملاحظافیہا ۳؎۔
تمام نصوص شہادت کے مطالبہ پر ناطق ہیں تو کوئی دوسرا لفظ اس کے قائم مقام نہ ہوگا کیونکہ اس میں تاکید زیادہ ہے اس لئے کہ اس میں قسم کا معنی ملحوظ ہے لہذا یہ قسم کے الفاظ میں ہے(ت)
 (۳؎ تبیین الحقائق     کتاب الشہادۃ     المطبعۃ الکبری الامیریہ بولاق مصر    ۴/ ۲۱۰)
ہدایہ میں فرمایا:
النصوص نطقت باشتراطہا ولان فیہا زیادۃ توکید فان قولہ اشھد من الفاظ الیمین فکان الامتناع عن الکذب بھذہ اللفظۃ اشد۱۔
تمام نصو ص اس کی شرط پر ناطق ہیں اور اس لئے کہ اس میں تاکید زیادہ ہے تواس کا اشھد کہنا قسم کے الفاظ میں سے ہے تو اس لفظ سے کذب کا امتناع شدید ہے۔(ت)
(۱؎ الہدایہ  کتاب الشہادۃ  مطبع یوسفی لکھنؤ ۳/ ۱۵۵)
اور قسم مقسم علیہ کا اتصال شرط ہے جب ان میں وہ چیز فاصل ہو کہ نہ قسم ہے نہ اس کی تاکید ہے، تو قسم اس سے بے تعلق و بے اثر ہوجاتی ہے۔
فتاوٰی قاضی خاں و فتاوٰی عالمگیریہ میں ہے:
لو قال خدائے را وپیغمبر را پذیرفتم کہ فلاں کا ر نہ کنم لایکون یمینا لان قولہ پیغمبر را پذیر فتم لایکون یمینا فاذا تخلل بین ذکر اﷲ تعالٰی وبین الشرط مالایکون یمینا یصیر فاصلا فلایکون یمینا۲؎۔
اگر یوں کہے میں خدا تعالٰی اور پیغمبر صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو قبول کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ فلاں کام نہ کروں گا تو قسم نہ ہوگی کیونکہ پیغمبر کو قبول کرتاہوں، کہنا قسم نہیں ہے تو جب اﷲ تعالٰی اور شرط کے ذکر میں کوئی غیر قسم والے الفاظ فاصل بن جائیں تو قسم نہ ہوگی۔(ت)
 (۲؎ فتاوٰی ہندیہ بحوالہ فتاوٰی قاضیخان     کتاب الایمان نورانی کتب خانہ پشاور    ۲/ ۵۸)
انہیں میں ہے:
لو قال باﷲ العظیم کہ بزر گتراز باﷲ العظیم نیست کہ ایں کار نہ کنم یکون یمینا کما لو قال باﷲ العظیم الاعظم و ھذہ الزیادات تکون للتاکید فلا یصیر فاصلا۳؎۔
اگر کہا اﷲ عظیم کی قسم، اﷲ تعالٰی سے بزرگ تر کوئی نہیں، میں فلاں کام نہ کروں گا تو یہ قسم ہوگی کیونکہ یہ ایسے ہے جیسے کہ اﷲ تعالٰی العظیم الاعظم کی قسم، تو یہ زیادتی عظمت کی تاکید ہے تو وہ فاصل نہ ہوگی۔(ت)
 (۳؎فتاوٰی ہندیہ بحوالہ فتاوٰی قاضیخان     کتاب الایمان نورانی کتب خانہ پشاور ۲/ ۵۷،۵۸)
اسی طرح فتاوٰی سمر قند و فتاوٰی خلاصہ میں ہے ردالمحتار میں ہے:
ویشترط عدم الفاصل من سکوت و نحوہ ففی الصیرفیۃ لو قال علی عھد اﷲ وعھد الرسول لا افعل کذا لایصح لان عھد الرسول صار فا صلااھ ای لانہ لیس قسما بخلاف عہداﷲ ۱؎۔ (ملتقطا)
سکوت اور ایسی دوسری چیز کا فاصل نہ بننا قسم میں شرط ہے تو صیر فیہ میں ہے اگر کہا اﷲ تعالٰی کے عہد اور رسول کے عہد پر میں ایسا نہ کروں گا، یہ صحیح نہیں کیونکہ ''رسول کا عہد'' درمیان میں فاصل بن گیا ہے اھ یعنی یہ قسم نہیں ہے بخلاف عہد اﷲ کے (ملتقطا)۔(ت)
(۱؎ردالمحتارکتاب الایمان  داراحیاء التراث العربی بیروت    ۳/ ۴۶)
خانیہ میں ہے:
رجل اخذہ السلطان وارادان یحلفہ فقالہ قل بایزدقال بایزد قال کہ بروز آدینہ بیائی قال بروز آدینہ بیایم فلم یأت  لایحنث علیہ لانہ لما قال لہ قل بایزد و سکت صار فاصلا فلا یصیر یمینا۲؎۔
ایک شخص کوسلطان نے پکڑ لیا اور اس سے قسم لیتے ہوئے سلطان نے کہا، تو کہہ کہ اﷲ تعالی کی قسم، اس نے کہا اﷲ کی قسم تو کل آئے گا، تو گرفتار ہونے والے نے کہا میں کل آؤں گا، وہ اگر نہ آئے تو اس پر وہ حانث نہ ہوگا، کیونکہ سلطان نے اس کو کہا تو کہہ اﷲ کی قسم، پھر سلطان خاموش ہوا، تو یہ خاموشی فاصل بن گئی، تو قسم نہ ہوئی۔(ت)
 (۲؎ فتاوٰی قاضیخان    کتاب الایمان   نولکشور لکھنؤ    ۲/ ۲۸۲)
اسی طرح بزازیہ وغیرہامیں ہے، اور شک نہیں کہ کلام دیگر بھی مثل سکوت ہے بلکہ اس سے زائد
کما فی البحر وقد عرفت المسائل  فی الشفعۃ وخیار البکر۔
جیسا کہ بحر میں ہے جبکہ تو شفعہ اور باکرہ کے خیار کی بحث میں مسائل معلوم کرچکا ہے(ت)
اور ظاہر کہ مشہود بہ و ہ چیز ہے جس کی نزاع ہے مدعی جس کا مدعی ہے مدعا علیہ جس کا منکر ہے مدعی جسے شہادت سے ثابت کیا چاہتا ہے ان تمام گواہیوں میں''گواہی دیتا ہوںـ'' کے بعد اس کا ایک حرف نہیں، بالائی جملے ہیں۔ محمدرضاخاں گواہی دیتا ہوں ۸؁ میں مظہر جمعہ خاں کے یہاں ملازم تھا، مظہر حسین گواہی دیتا ہوں اتنا عرصہ ہوا میں گنیشی کے مکان پر بیٹھا تھا، عبدالعزیز خاں گواہی دیتا ہوں نوسال ہوئے مظہر گنیشی کے مکان پر تھا، سید عبدالعزیز گواہی دیتا ہوں اتنا عرصہ ہوا مظہر پسر گنیشی کو لکھنے کی مشق کرارہا تھا، عجائب الدین خاں گواہی دیتا ہوں مئی کا مہینہ تھا میں دکان عطاری کرتا ہوں گنیشی کا آدمی دوالینے نسخہ لایا، احمد خاں ولد میاں خاں گواہی دیتا ہوں مئی ۹؁کو میں رام پور آیا تھا، حیدر علی خاں گواہی دیتا ہوں اتنا عرصہ ہوا میں گنیشی کے پاس چاول لینے گیا، عبدالرحیم خاں گواہی دیتا ہوں مظہر گنیشی کو بلانے گیا ناظم صاحب نے بلوایا تھا، سید الطاف علی گواہی دیتا ہوں اتنا عرصہ ہوا مظہر گنیشی کی دکان پر تھا، محمد بشیر خاں گواہی دیتا ہوں بعدظہر کے مظہر اپنے گھر کو جارہا تھا، انور بیگ گواہی دیتا ہوں اتنا عرصہ ہوا مظہر گنیشی کے یہاں بیٹھا تھا، نجم خاں گواہی دیتا ہوں مظہر رگناتھ پر شاد کا ملازم تھا، سید حیدر حسین گواہی دیتا ہوں میں خان بہادر کو بلانے گنیشی کے یہاں گیا، احمد خاں ولد عبدالغنی گواہی دیتا ہوں مظہر گنیشی کے یہاں نوٹ تڑانے گیا، نجف علی خاں گواہی دیتا ہوں اتناعرصہ ہوا مظہر گنیشی کی بیٹھک میں تھا، محمد غفران گواہی دیتا ہوں اتناعرصہ ہوا مظہر عبدالغافر خاں کے مکان پر تھا، اشرف علی خاں گواہی دیتا ہوں اتنے سال ہوئے دولھا صاحب اور ایک منشی جی گنیشی کی بیٹھک میں آئے، موتی شاہ گواہی دیتا ہوں منصور خاں نے میرے گھر آکر مجھ سے کہا میرا زیور گروی رکھا دو۔ وزیر خاں گواہی دیتا ہوں اتنا زمانہ ہوا میرے ہاتھ میں چوٹ لک گئی تھی۔
کیا یہی فقرے مابہ النزاع ہیں، کیا انہیں جملوں کا دعوٰی ہے کیا انہیں کو مدعی ثابت کرانا چاہتا ہے ہرگز نہیں، تو یہ قطعاً مشہود بہ نہیں، مشہود بہ وہ حق ہے جسے شاہد مشہود علیہ پر بتاتا ہے۔
شلبیہ علی الزیلعی میں بنایہ سے ہے:
فی الشرع الشہادۃ اخباربحق لشخصٍ علٰی غیرہ عن مشاہدۃ۱؎الخ۔
شریعت میں مشاہدہ کی بناء پر کسی حق کی خبر دینا کہ یہ فلاں کا غیر کے ذمہ ہے الخ(ت)
 (۱؎ حاشیۃ الشلبی علٰی تبیین الحقائق     کتاب الشہادات     المطبعۃ الکبرٰی الامیریہ مصر    ۴/ ۲۰۶)
ظاہر ہے کہ یہ جملے وہ حق نہیں اور ان کا قسم یا تاکید قسم نہ ہونا بدیہی، تو شہادت و مشہود بہ یعنی قسم و مقسم علیہ میں فاصل اور قسم و شھادت کے مبطل ہیں۔ گواہی ان فقروں سے متصل ہوئی نہ کہ مقصود و مشہودسے، معاملہ شہادت و دعوٰی بس نازک ہے، ائمہ دین تصریح فرماتے ہیں کہ اگر یوں دعوٰی کرے کہ یہ چیز میری ملک ہے اور میرا حق، یا گواہ شہادت دے کہ یہ چیز اس مد عی کی ملک ہے اور اس کا حق ، یہ دعوٰی وشہادت کا فی نہ مانیں گے کہ ممکن ہے کہ میر ایا اس کا حق کہنے کے بعد آہستہ سے لفظ ''نہیں'' ملالے بلکہ یوں کہنا لازم کہ میرا یا اس کا حق ہے۔
فتاوٰی امام نسفی وفتاوی عالمگیریہ وغیرہم میں ہے:
ینبغی للشاہد ان یقول فی شہادۃ ایں مدعی ست وحق وے ست حتی لایمکن ان یلحق بہ وحق وے نے بنفی وکان الشیخ الامام فخر الاسلام علی البزدوی یقول اذاقال المدعی فلاں چیز ملک من ست وحق من، لایکتفی بہ وینبغی ان یقول وحق من ست ویقول فی قولہ وبدست فلاں حق، بدست فلاں بنا حق ست وکذٰلک فی نظائرہ حتی لایلحق بہ کلمۃ النفی۱؎۔
گواہ کو چاہئے کہ وہ شہادت میں یوں کہے یہ اس مدعی کی ملک ہے اور اس کا حق ہے تاکہ اس کو نفی لاحق نہ ہوسکے یعنی صرف اس کا حق ''ہے'' نہ کہے، ایسا نہ ہو کہ حق کے ساتھ، نہ ہے، لاحق ہوجائے اما م شیخ فخر الاسلام بزدوی فرماتے تھے کہ اگر گواہ نے یہ کہا فلاں چیز میری ملک ہے اور میرا حق، تو کافی نہ ہوگا، بلکہ، میرا حق ہے، کہے، اور فلان کا قبضہ ناحق کی بجائے، فلاں کا قبضہ ناحق ہے، یوں ہی اس کے نظائر میں، تاکہ اس کو نفی لاحق نہ ہوسکے۔(ت)
(۱؎فتاوٰی ہندیہ     کتاب الشہادات الباب الثالث     نورانی کتب خانہ پشاور ۳/ ۶۱ ،۴۶۰)
جب اسے نہ مانا کہ کہیں چپکے سے لفظ''نفی'' نہ بڑھالے تو یہاں تو کسی حرف کے بڑھانے گھٹانے کی حاجت ہی نہیں فقط نیت کافی ہے''گواہی دیتا ہوں'' کو صرف ان فقروں سے متعلق کیا جواس کے متصل ہیں باقی داستان گوئی کردی۔
Flag Counter