Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
137 - 151
سوم : دعوی زر کے ساختہ پر داختہ ہونے پر ایک اور قرینہ واضحہ بھی ہے بنیوں کو حساب خصوصاً سود کے محاسبات میں کمال مشق و مہارت ہوتی ہے لیکن عرضی دعوی نیز شہود مدعی کے بیانوں پر حساب بہت گندا ہے اولاً مدعیوں نے پانچ ہزار پر شرح ماہوار فیصدی ۱۳/ ۱۱ پائی بتائی پھر سب نے ماہوار (٭٭)حالانکہ شرح مذکور سے پانچ ہزار پر (٭٭) ماہوار ہوتا ہے بنئے کا ہر مہینے سود میں آٹھ آنے ماہوار سے زیادہ دینا اور پندرہ برس تک اسی غلطی پر جما رہنا اور کبھی متنبہ نہ ہونا عادۃً معقول نہیں۔

ثانیاً ۱۷ /دسمبر ۱ ؁ سے ختم ماہ تک پندرہ دن ہوتے ہیں مدعیوں نے ان کی بابت بائیس روپے رکھے اور یہی رسید میں دکھائے۔ دسمبر ۳۱ دن کا ہے اس کے ۱۵دن کے شرح مذکور پر (٭٭) پائی ہوئے کہ اکیس روپے سے تین پیسے بھی زائد نہیں نہ کہ پورے بائیس اور اگر(٭٭) ہی شرح لیں تو ان پندرہ دن کے (٭٭) پائی ہوئے اب بھی بائیس روپے میں (۱۱/) سے زائد زیادہ گئے، کیا بنیا ۱۱یا ۱۵آنے سود کے حساب میں زیادہ دیگا۔

ثالثاً ایک ہزار زر اصل سے ادا ہونے کے بعد حسب شرح اقرار ی مدعیان (٭٭) ماہوار رہا نہ کہ (٭٭) جو مدعیوں نے لکھا کہ ہر مہینے پر( ۶ / ۷)  پائی  زائد ہے اور اگر چوالیس ہی روپے لیں (٭٭) پائی ہو اب بھی ۳/۵ کی زیادت ہے حساب میں اسے بھی غلطی کہیں گے اور مرورزمان سے اس کی مقدار روپوں کو پہنچے گی۔

رابعاً یہ ہزار کی ادا ۳/ جنوری ۱۳ ؁کو بتائی اور جب سے آخر اپریل ۱۵ ؁تک (٭٭) پہنچنا کے حساب سے صرف (٭۴/۴-۲/۳۱ ) کے حساب سے یہ رقم یکم جنوری سے پورے ۲۸ ماہ کی ہوئی حالانکہ ان کے زعم پر جنوری کے پہلے دو دن تک (٭٭) کی پوری رقم باقی تھی اس پر جنوری کے دو یوم کے (٭٭ ۱۲/۰ا-۲۲/۳۰) پائی ہوتے اور (٭٭) کے حساب  سے صر ف (٭۴/۴-۲/۳۱ ) پائی رہ گئے ساڑھے آٹھ آنے سے زیادتی کی کمی ہے، یہ سب اغلاط دعوے پر ہے شرح اقراری مدعیان ۱۷ /دسمبر ۱ ؁ سے آخر اپریل۱۵ تک حساب یہ ہوا
18_8.jpg
 کل (٭٭) دینے تھے لیکن مدعی اور گواہ اور رسیدات سب (٭٭)دینا بتاتے ہیں محال عادی ہے کہ ہو شیار بنیا تیرہ چودہ برس غلطی میں پیچاں رہ کر ۷۹روپے ۴ آنے (۷-۲۹/۳۱ ) پائی حساب سے زیادہ دے دے یہ ہر گز معقول نہیں اور ایسا دعوٰی کہ ظاہر حال مدعی جس کی تکذیب کرے مقبول نہیں۔
بحرالرائق میں ہے:
ان من شرط سماع الدعوی ان لایکذب المدعی ظاہر حالہ ثم رأیت ابن الغرس فی الفوائد الفقہیۃ (صرح بہ فقال) ومن شروط صحۃ الدعوی ان یکون المدعی بہ مما یحتمل الثبوت بان لایکون مستحیلا عقلا او عادۃ، فان الدعوی والحال ماذکر ظاہرۃ الکذب لان المستحیل العادی کالمستحیل العقلی۱؎۔(ملخصاً)
دعوٰی کے قابل سماعت ہونے کے لئے شرائط میں سے ہے کہ مدعی کاظاہر حال اس دعوٰی کی تکذیب نہ کرتا ہو، پھر میں نے فوائد فقہیہ میں ابن الغرس کی تصریح دیکھی تو انہوں نے کہا کہ دعوٰی کی صحت کیلئے شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ جس چیز کا دعوی کیا ہو وہ قابل ثبوت بھی ہو یوں کہ وہ عقلاً یا عادۃً محال نہ ہو کیونکہ اگر دعوٰی ایسا ہو کہ ظاہراً جھوٹ ہو تو قابل سماعت نہ ہوگا کیونکہ محال عادی محال عقلی کی طرح ہوتا ہے۔(ملخصاً۔(ت)
 (۱؎ بحر الرائق     کتب الدعوٰی باب التحالف     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ۷/ ۲۲۷)
غایت درجہ یہاں عذر خطا ہوگا یعنی مدعیوں نے براہ غلط اس شرح کا اقرار کیا مگر بعد اقرار ادعائے خطا مردود وبیکار۔
فتاوی قاضیخان و اشباہ والنظائر وقنیہ و درمختا ر وعقو دالدریہ وغیرہا میں ہے:
اقربشیئ ثم ادعی الخطا لم تقبل۲؎۔
ایک چیز کا اقرار کرکے پھر اس کی خطا کی دعوٰی کرے تو قبول نہ ہوگا۔(ت)
 (۲؎ درمختار    کتاب الاقرار     فصل مسائل شتی    مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۱۴۰)
شہادات
ان شہادتوں کے بطلان پر کچھ وجوہ عامہ ہیں کہ ہر وجہ سب کوشامل، اور کچھ خاصہ کہ بعض سے خاص مگر ان سے بھی کوئی گواہی خالی نہیں لہذا وہ بھی وجہ عام ہیں، وجوہ عامہ سات ہیں:

اول حقوق العباد میں صحت دعوٰی شرط شہادت ہے اگر دعوٰی صحیح نہیں اس پر کوئی شہادت کیسے ہی اعلٰی درجہ وثوق کی ہو اصلاً مسموع نہیں
اذفات الشرط فات المشروط
 (جب شرط فوت ہوجائے تو مشروط فوت ہوجاتا ہے۔ت)
تنویر الابصار میں ہے:
تقدم الدعوی فی حقو ق العباد شرط قبولہا ۱؎۔
حقوق العباد کے متعلق پہلے دعوٰی ہونا شہادت کی قبولیت کے لئے شرط ہے۔(ت)
 (۱؎ درمختار شرح تنویر الابصار    کتاب الشہادات باب الاختلاف فی الشہادۃ    مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۹۸)
اور ہم ثابت کرچکے کہ یہ دعوٰی صحیح نہیں لہذا تمام یہ اور ان کے سوا اور جس قدر ہوں سب باطل۔
دوم حقو ق العباد میں شرط شہادت وہ لفظ ہے جو انشاء گواہی کے لئے ہو بلفظ اخبار کچھ بھی کہا جائے ہر گز قبول نہیں۔
معین الحکام میں ہے:
اعلم ان اداء الشہادۃ لایصح بالخبر البتۃ فالخبر کیف تصرف لایجوز الاعتماد علیہ۲؎۔
واضح ہوکہ خبر کے طور پر شہادت کی ادائیگی ہر گز صحیح نہیں کیونکہ خبر جیسی بھی ہو وہ قابل اعتماد نہیں ہے۔(ت)
(۲؎ معین الحکام    الفصل الثامن     مصطفی البابی مصر    ص۸۹)
اسی میں ہے:
لابد من انشاء الاخبار عن الواقعۃ المشھودبھا والانشاء لیس بخبر فاذا قال الشاھد اشھد کان انشاء ولو قال شھدت لم یکن انشاء۳؎۔
جس واقعہ کی شہادت دی جائے وہ بطریقہ انشاء ہو کیونکہ وہ خبر نہ ہوگی جب گواہ اشھد (گواہی دیتا ہوں) کہے تو یہ انشاء ہے اور اگر اس نے شھد ت(میں نے شہادت دی ہے کہا تو انشاء نہ ہوگی۔(ت)
 (۳؎ معین الحکام    الفصل الثامن     مصطفی البابی مصر    ص۸۹)
اسی میں ہے:
لایقع الانشاء باسم الفاعل نحوانا شاھد عندک بکذا فھذالیس انشاء۴؎ملخصاً۔
اسم فاعل کے صیغہ سے مثلاً ''میں گواہی دینے والا ہوں'' کہا تو یہ انشاء نہیں ہے،ملخصاً(ت)
(۴؎معین الحکام    الفصل الثامن     مصطفی البابی مصر    ص۸۹)
گواہ پر قسم خلاف مذہب و خلاف شرع ہے بعض متاخرین نے نظر بضرورت جو اس بدعت کو گوارا کیا تھا کہ لوگ جھوٹی شہادت پر جری ہیں جھوٹی قسم سے بچیں گے اب وہ بھی باقی نہیں قسم پر شہادت سے زیادہ جرأت ہےاس سے قطع نظر ہو تو قسم مشہود بہ پر ہونی تھی مثلا خداکی قسم اس زیدپر اس عمرو کا اتنا روپیہ فلاں سبب سے آتا ہے یہاں اس کے خلاف تمام اظہاروں میں قسم شہادت دینے پر کھائی ہے کہ خدا کی قسم سچ گواہی دیتا ہوں اس نے ''گواہی دیتا ہوں'' کو انشائے شہادت نہ رکھا بلکہ اخبار کےلئے متعین کردیا کہ قسم داخل  نہیں ہوتی مگر جملہ خبریہ پر، ولہذا اگر کہے خد اکی قسم تو میری زوجہ نہیں اگرچہ اس سے طلاق کی نیت کرے طلاق نہ ہوگی کہ طلاق انشاء ہے اور قسم نے اس جملے کو خاص خبریہ کردیا،
درمختار میں ہے:
لست لک بزوج او لست لی بامرأۃ لو اکدہ بالقسم لاتطلق اتفاقا لان الیمین قرینۃ ارادۃ النفی ۱؎۔
میں تیرا خاوند نہیں ہوں یا تو میری بیوی نہیں ہے۔ اگر اس کلام کو قسم سے مؤکد کردیا تو بالاتفاق طلا ق نہ ہوگی کیونکہ قسم اس بات کا قرینہ ہے کہ یہاں نفی کا ارادہ ہے۔(ت)
(۱؎ درمختار     کتاب الطلاق     باب الصریح     مطبع مجتبائی دہلی     ۱/ ۲۲۲)
ردالمحتار میں ہے:
لان الیمین لتاکید مضمون الجملۃ الخبریۃ فلایکون جوابہ الاخبرا۲؎۔
کیونکہ قسم جملہ خبریہ کے مضمون کی تاکید کےلئے ہے تو اس کا جواب صرف خبر ہوگا۔(ت)
 (۲؎ ردالمحتار   کتاب الطلاق    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۲/ ۴۵۳)
سراج وہاج و عالمگیر یہ میں ہے :
اتفقواجمیعا انہ لو قال واﷲ ماانت لی بامرأۃ لایقع شیئ وان نوی۳؎۔
سب نے اتفاق کیا ہے کہ اگر خاوند نے کہا خدا کی قسم تو میری بیوی نہیں ہے، تو ارادہ طلاق کے باوجود طلاق نہ ہوگی۔(ت)
 (۳؎ فتاوٰی ہندیہ     کتاب الطلاق  الفصل الخامس     نورانی کتب خانہ پشاور    ۱/ ۳۷۵)
بحرالرائق میں ہے:
واﷲ ماانت لی بامرأۃ لایقع عندالکل و ان نوی۴؎۔
خدا کی قسم تو میری بیوی نہیں ہے کہا تو سب کے نزدیک طلاق نہ ہوگی اگرچہ طلاق کی نیت ہو۔(ت)
 (۴؎ بحرالرائق کتاب الطلاق ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۳/ ۳۰۵)
بدائع امام ملک العلماء میں ہے:
اذاقال واﷲ ماانت لی بامرأۃ لایقع الطلاق وان نوی بالاتفاق لان الیمین علی النفی تتناول الماضی وھو کاذب فی ذالک فلا یقع بہ شیئ۵؎ (ملتقطا)۔
جب کہے خدا کی قسم تو میری بیوی نہیں ہے تو طلاق نہ ہوگی اگرچہ نیت کی ہو یہ بالاتفاق ہے کیونکہ نفی پر قسم ماضی کو شامل ہے جبکہ یہ جھوٹ ہے تو اس سے کچھ نہ واقع ہوگا(ملتقطا)۔(ت)

تو ثابت ہوا کہ ان میں کوئی شہادت ہر گز شرعاً شہادت ہی نہیں سب افسا نہ گوئی قصہ خوانی ہیں۔
 (۵؎ بدائع الصنائع     کتاب الطلاق     فصل واما الکنایۃ    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۳/ ۱۰۷)
Flag Counter