Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
136 - 151
الجواب :
 اللھم لک الحمد یاوھاب اسئلک ھدایۃ الحق والصواب(اے اﷲ ! حمدیں تیرے لئے ہیں، اے عطا کرنے والے! میں تجھ سے حق اور ہدایت کی رہنمائی چاہتا ہوں۔ت) کلام طویل اور فرصت قلیل اور طبیعت علیل اور سائل کو تعجیل،لہذا چندمفید و کافی کلمات پر اقتصار اور انہیں کے ضمن میں جواب سوالات ضروریہ کا اظہار ہو وباﷲالتوفیق سائل نے دارالافتا میں عرضی دعوٰی وبیان تحریر و فیصلہ و عبارت رسیدات مندرجہ بہی اور بیعنامہ وکرایہ نامہ اور مدعی کے بیس گواہان موتی شاہ، وزیر خاں، محمد رضاخاں، مظہر حسین، عبدالعزیز، سید عبدالعزیز۔

حافظ عجائب الدین خاں، احمد خان ولد میان خاں، حیدر علی خاں، عبدالرحیم خاں، الطاف علی، محمد بشیر، انور بیگ، نجن، حیدر حسین، اشرف علیخاں، احمد خاں، ولد عبدالنبی خاں، نجف علی خان، محمدغفران، ولی خاں کے اظہارات کی نقول پیش کیں جبکہ رسیدات وبینات موتی شاہ ووزیر خاں کی باضابطہ باقی سادہ، ان کے ملاحظہ سے واضح ہوا کہ نہ دعوی صحیح نہ شہادتیں نہ فیصلہ۔ منصب افتا شرع مطہر کا حکم بتانا ہے اور زمانہ حسب ارشاد حدیث وہ کہ معروف منکر ہے اور منکر معروف۔

اہل اسلام حکم شرع پر گردن رکھیں اگرچہ غلط رواج سے بیگانہ نظرآئے۔
دعوے:
دعوٰی تین وجہ سے باطل ہے:

اول وارث و مورث مثل شخص واحدہیں مورث کے اقرار ثابت کے خلاف وارث کا دعوٰی تناقض ہے اور غیر محل خطا میں تناقض مبطل دعوٰی۔ 

وجیز امام کردری پھر بحرالرائق جلدہفتم ص۳۹پھر فتح اﷲ المعین جد ۳ ص۴۲پھر طحطاوی علی الدرالمختار جلد ۳ص۲۱۶میں ہے:
اعلم ان التناقض کما یکون من متکلم واحدیکون عن متکلمین کمتکلم واحد حکما کوارث و مورث۔۱؎
معلوم ہونا چاہئے کہ جس طرح تناقض ایک متکلم کے کلام میں ہوتا ہے اسی طرح ایسے دو متکلم حضرات کے کلاموں میں جو ایک متکلم کے حکم میں ہوں مثلاً وارث اور مورث دونوں کا کلام ایک متکلم کے حکم میں ہے(ت)
(۱؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار کتاب القضاء    مسائل شتی    داالمعرفۃ بیروت    ۳/ ۲۱۶)
فتح المعین و طحطاوی صفحات مذکورہ میں اس کے بعد ہے:
وفی ھذا دلالۃ ظاہرۃ علی مانقلہ الشیخ حسن (یعنی العلامۃ الشرنبلالی) فی رسالۃ الابراء عن فتاوٰی الشیخ الشلبی حیث حکی الاجماع علی ان دعوی الوارث لاتسمع فی شیئ لاتسمع فیہ دعوی مورثہ ان لوکان حیا فادعی۲؎۔
اور اس میں شیخ حسن یعنی علامہ شرنبلالی کی رسالہ الابراء میں شیخ شلبی کے فتاوٰی سے منقول کلام پر ظاہر دلالت ہے جہاں انہوں نے یہ اجماع ذکر کیا ہے کہ جہاں مورث اپنی زندگی میں کوئی دعوٰی کرتا تو اس کا دعوٰی وہاں مقبول نہ ہوتا وارث کا ایسا دعوٰی قابل سماعت نہ ہوگا۔(ت)
( ۲؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار کتاب القضاء    مسائل شتی    داالمعرفۃ بیروت    ۳/ ۲۱۶)
دوم واپسی دستاویزات کے دعوٰی میں حکم شرعی یہ ہے کہ اگر کاغذدستاویز ملک مدعا علیہ ہے تو دعوٰی رأسا باطل، صرف رسید پانے کا دعوٰی کرسکتا ہے اگر نہ پائی ہو اور اگر ملک مدعی ہے تو ضرور ہے دعوٰی میں کاغذ کی مقدار اور اس کی صفت بیان کرے ورنہ دعوٰی بوجہ جہالت نامسموع، یہاں مدعیوں نے ان میں سے کچھ نہ بیان کیا لہذا دعوٰی مدفوع۔ 

حاوی زاہدی و قنیہ باب المداینات و عقود الدریہ جلد دوم صفحہ۲۰۸:
طلب القبالۃ من رب الدین بعد القضاء فللمدیون طلبھا منھم ان کانت الکاغذۃ مملوکۃ لہ وان کانت مملوکۃ للدائن فلہ طلب وثیقۃ القضاء منہ ولابدفی صحۃ دعوی القبالۃ من بیان قدر الکاغذۃ وصفتہا و بیان قدر المال المکتوب فیہا۱؎۔(ملخصاً)
قرض کی ادائیگی کے بعد قرضخواہ سے دستاویزات طلب کرنا مقروض کا حق ہے بشرطیکہ وہ دستاویزات مقروض کی ملکیت ہوں، اور اگر وہ قرض خواہ کی ملک ہوں تو پھر مقروض کو صرف ادائیگی کی رسید کے مطالبہ کا حق ہے اور دستاویزات کے دعوٰی میں مدعی پر لازم ہےکہ وہ ان دستاویزات کی مقدار اور ان کی صفت اور ان میں درج شدہ مال کی مقدار کوبیان کرے(ملخصاً)۔(ت)
(۱؎ العقود الدریۃ     کتاب المداینات    ارگ بازار قندھار افغانستان    ۲/ ۲۵۰)
ریاست رامپور میں علاقہ قدیم پر اسٹامپ کی قید بہت جدید ہے مگر ان دستاویزوں تک نہ تھی جب توظاہر اور تھی توجب بھی اس قدر تعیین مدعی بہ کےلئے کافی نہیں کبھی کاغذ کم قیمت کا پیش ہوتا ہے جس پر تاوان لے کر رجسٹری کردیتے ہیں کبھی جتنی قیمت کا قانوناً چاہئے خزانے میں نہیں ہوتا تو دو قطعے دئے جاتے ہیں کبھی عبارت دستاویز قطعاً اسٹامپ پر پوری نہیں آتی سادہ ضمیمہ لگاتے ہیں تو صرف اس قدر کہ اس نوعیت کی دستاویز پر اتنے کا اسٹامپ ہوگا، تعیین کاغذ نہیں کر سکتا بلکہ دعوٰی میں اس کا بیان ضرور ہے کہ کاغذ کس قیمت کا ہے، ایک قطعہ ہے یادو، تنہا ہے یا مع ضمیمہ، ضمیمہ ہے تو کس مقدار و صفت کا ہے، یہاں ان میں سے کچھ مذکور نہیں لہذا دعوٰی مسموع نہیں۔
Flag Counter