Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
135 - 151
 (تجویز)
تنقیح نمبر۱ کے بارہ میں میری رائے یہ ہے کہ موتی شاہ اوروزیر خاں کی شہادت میں حسب مراد تنقیح نمبر۱ کے گنیشی لال (زید راہن) مورث مدعیان اور عبدالغافر خاں کے مابین معاہدہ قرضہ (٭٭)  کا بشرح سود (٭٭)  ماہوار اور جائداد مندرجہ دستاویز کی کفالت کیلئے دینا، بحق مدعیان ثابت ہے۔

تنقیح نمبر۲و۳درحقیقت ایسے امور میں جن کا شہودی ثبوت ناممکن ہے البتہ امور مذکورہ کاثبوت نیت میں ہوتا ہے اور نیت مذکورہ حالات ذیل میں ثابت ہوتی ہے یعنی مدعا علیہ نمبر۱ (بکر شوہر مرتہنہ) مسلمان ہے اور پیشکار کچہری بھی ہے اس لئے برے معاملات میں اس کو خود معاہدہ کرنا اور دستاویز زوجہ کے نام لکھانا عین مصلحت ہے اسی طرح سود کا لینا کسی مسلم اور خاص کر ذی علم شخص کو سراسر معیوب ہے لہذا رقم سود کا نام بدل کرکرایہ کا نام لکھانا ایک حیلہ ضرور ہے۔ دوسرے رقم (٭٭)  کو خود وصول کرناجس کی بابت آئندہ تصریح کی جائے گی) اور رقم کرایہ مندرجہ کتاب کا خود وصول کرکے اپنے دستخط کرنا اور مدعا علیہا نمبر۲ (ہندہ مرتہنہ) کانام نہ لکھنا صاف طور پر اس نیت کو جو تنقیحات نمبر۲و۳ کا ماحصل ہے ثابت کررہا ہے اس لئے میں ان دونوں تنقیحوں کو بحق مدعیان قرار دیتا ہوں۔

تنقیح نمبر۴ کے متعلق میری تجویز ہے کہ (محمد رضاخاں ومظہر حسین خاں) کی شہادت سے (٭٭)کے پہلے پہنچنے کا اقرار مدعا علیہ نمبر۱ اور(٭٭) روبرو گواہان مذکور گنیشی لال(زیدراہن)کا مدعا علیہ نمبر۱ کو دینا جملہ (٭٭)  کا پاس مدعا علیہ مذکور پہنچنا اور عبدالعزیز وسید عبدالعزیز کی شہادت سے(٭٭)  کے پہلے پہنچنے کا اقرار اور(٭٭) گواہان کی موجودگی میں دیا جانا جملہ(٭٭) کا پاس مدعا علیہ نمبر۱ پہنچنا اور (عجائب الدین واحمد نبی خاں ولد مسیتا خاں) کی شہادت سے (٭٭)  کے پہلے پہنچنے کا اقرار اور(٭٭)  کا نقد روبرو گواہان مذکور دیا جانا جملہ (٭٭) کا پاس مدعا علیہ مذکور پہنچنا اور (حیدر علی خاں و عبدالرحیم خاں) کی شہادت سے (٭٭) کے پہلے پہنچنے کا اقرار مدعا علیہ مذکور اور (٭٭) کا نقد گواہان مذکور کے روبرودیاجانا جملہ(٭٭) کا پاس مدعا علیہ مذکور پہنچنا اور ( الطاف علی خاں ومحمد بشیر خاں و انور بیگ)کی شہادت سے(٭٭)کا پہلے پہنچنے کا اقرار اور(٭٭)کا نقد گواہان مذکور کے روبرودیا جاناجملہ(٭٭)کا پاس مدعا علیہ مذکور پہنچنا اور(نجن ولد غلام محی الدین وحیدر حسین) کی شہادت سے(٭٭ ۴/۳) پائی کا پہلے پہنچنے کا اقرار مدعا علیہ نمبر۱ اور (٭٭) کا بمواجہہ گواہان مذکور نقد دیا جانا (٭٭) پاس مدعا علیہ مذکور پہنچنا ثابت ہے مضمون شہادت مصرحہ بالا میں ثابت ہے کہ بعض حصہ کل رقم موصولہ کا اقرار اور بعض حصہ مشاہدہ گواہان (جنکے روبرو رقوم دی گئی ہیں ثابت ہوتا ہے جن رقوم کے اقرار کی شہادت ہے ان کی صداقت کا یہ قوی قرینہ ہے کہ دیگر شہادتیں اس کی بالترتیب تائید کرتی ہیں اور اس کے متعلق رسیدات مدعا علیہ مذکور مشمولہ کتاب رسیدات ہے جس کی بابت ہم آئندہ تفصیلی بحث کریں گے) پیش ہوئی ہیں جو شہادت و اقرار کی کامل تائید کرتی ہیں اس لئے اس رقم اقراری کے ایصال کو بوجہ تائید شہادت تحریر ی کے میں ثابت قرار دیتا ہوں، لیکن منجملہ (٭٭)کل رقم مودٰی بنام نہاد کرایہ کے (٭٭)کی ایسی رقم ہے جس کے متعلق مدعیان نے کوئی رسید پیش نہیں کی او رتحریر کرتے ہیں کہ مدعا علیہ نمبر۱ کے براہ بدنیتی اس رقم کی رسیدات نہیں دیں بوجہ نہ ہونے شہادت تحریری کے قابل منہائی جانتا ہوں جس کے منہا ہونے کے بعد (٭٭) باقی رہتے ہیں اس لئے باتفاق شہادت مدعیان و تحریر ات مدعا علیہ نمبر۱ (٭٭) کا پاس مدعا علیہ مذکور حسب اطمینان کچہری پہنچنا ثابت ہے ایصال رقوم مندرجہ بالا کے ثبوت میں جو کتاب رسیدات مدعیان نے پیش کی اس کتاب میں سوائے رقم (٭٭) کے باقی جملہ رقوم درج ہیں جن کی وصول کے بابت مدعا علیہ کے دو قسم کے دستخط ہیں ایک بنام عبدالغافر خان دوسرا بنام دولہ خاں، جو دستخط بنام عبدالغافر خاں تحریر ہیں ان کے ثبوت میں مدعیان نے متعدد گواہان عہدہ داران متعلق شناخت تحریر خط و دستخط طلب کرائے ہیں اور واسطے مطابقت دستخطوں کے پندرہ قطعہ ثمن وغیرہ مجریہ کچہری دیوانی اور بیس قطعات اطلاع نامجات مجریہ کچہری فوجداری پیش کئے جن پر مدعا علیہ نمبر۱ کے مسلم دستخط ثبت ہیں شہادت عہدہ داران مذکور اور مطابقت و معائنہ دستخطہائے مثبتہ کاغذات مذکور دویم مثبت پشت ثمن ابتدائی مثل ہذا و دستخطہائے اطلاعیابی و نیز احکام کچہری میں باطمینان کچہری ثابت ہے کہ کتاب رسیدات پر جس قدر دستخط بنام عبدالغافر تحریر ہیں وہ یقینا مدعا علیہ نمبر۱ کے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہیں اور تحریر بھی اسی کے ہاتھ کی ہے جس جگہ دستخط بنام دو لہ خاں تحریر ہیں ان کی طرز تحریر اور شان خط اور روشن قلم سے ثابت ہے کہ وہ بھی مدعا علیہ نمبر ۱ کے ہاتھ کی ہیں اور اکثر شہادتوں سے یہ امر ثابت ہے کہ مدعا علیہ نمبر۱ کا عرف دولہ خاں بھی ہے۔ واسطے ثبوت اور جانچ اس امر کے کہ دستخط مثبتہ کتاب رسیدات فی الواقع مدعا علیہ مذکور کی ہیں دو طریقے ہیں، ایک تو شہادت ایسے اشخاص کی جو مدعا علیہ مذکور کے دستخط پہچانتے ہیں، دوسرے مطابقت ان دستخطوں سے جو تحقیقی طور پر مدعا علیہ مذکور کی ہیں، پس دونوں طریقوں مصرحہ بالا سے کچہری کو اطمینان اس امر کا ہوگیا کہ دستخطہائے مثبتہ کتاب رسیدات یقینا مدعا علیہ مذکور کے ہیں،۔
فقرہ ثانی تنقیح نمبر۴ رقم (٭٭)کی ادائیگی اور رقعہ کی تحریر کی بابت میری یہ رائے ہے کہ شہادت شیخ غفران و محمد علیخان سے (٭٭) کا پاس مدعا علیہ نمبر ۱ پہنچنا ثابت ہے اور منشی فدا علی خاں پیشکار دیوانی اور منشی گوری سہائے ناظر فوجداری و منشی فیاض علی خاں پیشکار کچہری ججی بابو شمس الدین سب انسپکٹر پولیس وسید فرزند علی ناظر سیکریٹریٹ و منشی شکیل احمد اہلمد فوجدار ی و منشی سید احمد وکیل کی شہادت سے بخوبی ثابت ہے کہ رسید (٭٭) کی مدعا علیہ نمبر۱ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی اور اسی کے دستخط اس پر ثبت ہیں اس کے علاوہ دیگر دستخطہائے مدعاعلیہ مذکور مثبتہ کاغذات ثمن و اطلاعنامجات و پشت ثمن و نیز احکام کچہری کے معائنہ و مطابقت سے حسب اطمینان کچہری ثابت ہے کہ دستخط مثبتہ رقعہ(٭٭) کے اور تحریر خاص مدعا علیہ نمبر۱ کے ہاتھ کی اور اسی کی دستخطی ہے جس میں کسی قسم کا شک و شبہ باقی نہیں رہا لیکن یہ رقم منجملہ زر رہن کے ہے اور رقعہ میں حوالہ (٭٭) زررہن کا دیا گیا ہے لہذا بمنشاء ۹۲دفعہ ۱۴ قانون رجسٹری ریاست کے رسید مذکور کا رجسٹری ہونا لازمی ہے اور چونکہ وہ رجسٹری نہیں کرائی گئی اس لئے بمنشاء دفعہ ۴۹قانون رجسٹری مذکور ثبوت میں لینے کے قابل نہیں ہے بناء براں اس رقم (٭٭) کا ادا ہونا بوجہ نص قانونی کے غیر ثابت قرار دیا جاتا ہے۔
تنقیح نمبر۵ یعنی جائداد مرہونہ کا موروثی مدعیان ہونا اور بحیات گنیشی لال مدعیان کا حصہ دار ہونا کسی شہادت سے ثابت نہیں ہے اس لئے اس تنقیح کو میں خلاف مدعیان فیصل کرتا ہوں۔

تنقیح نمبر۶ کے بارہ میں میری یہ رائے ہے کہ جو رقم مدعا علیہ نمبر۱ نے (بکر شوہر مرتہنہ) مورث مدعیان (زید راہن) سے بنام نہاد کرایہ وصولی کی ہے اور جس کے ایصال کو کچہری نے ثابت قرار دیا ہے بقدر (٭٭) حسب تصریحات صدر ہوتی ہے میرے نزدیک وہ رقم بوجوہ قابل مجرائی بہ زر اصل ہے، اول یہ کہ کچہری دیوانی سے یہ امر طے ہوچکا ہےکہ بیع بالوفاء بمذہب حنفی حکم رہن میں ہے اور شیئ مرہونہ کا کرایہ اور دیگر محاصل حق راہن اور قابل مجرائی بہ زر رہن ہے جیسا کہ نقول فیصلجات پیش کردہ مدعیان سے ثابت ہے، دوم یہ کہ شہادت اشرف علی خاں و دیگر گواہان سے امر ثابت ہے کہ کرایہ نامہ برضامندی واجازت گنیشی لال(زید راہن) لکھا گیا حتی کہ رقم کرایہ خود گنیشی لال نے وقتاً فوقتاً ادا کی جیسا کہ تجویز تنقیح نمبر۴ سے ثابت ہے اس رضامندی واجازت راہن سے حسب فتوی مدرسہ اہلسنت بریلی پیش کردہ خود مدعا علیہما رہن باطل ہوگیا اور رقم زر رہن قرضہ خالص ہوگیا پس بلا اختلاف وہ رقم جو بنام نہاد کرایہ وصول ہوئی ہے وہ لائق مجرائی بہ زر رہن ہے، سویم یہ کہ حسب تصریح مندرجہ تجویز تنقیح نمبر۱۰ قبضہ مرتہن ثابت نہیں ہو ا تو اس صورت میں کبھی قرضہ سادہ اور رقم مودی بنام نہاد کرایہ ضرور  لائق محسوبی و مجرائی بہ زر اصل رہن ہے۔

تنقیح نمبر۷و۸کے متعلق کوئی ثبوت قانونی پیش نہیں کیا گیا اس لئے وہ بحق مدعا علیہما غیر ثابت ہے۔

تنقیح نمبر۹ کے متعلق صرف حافظ عثمان خاں نے شہادت دی ہے مگر وہ مثبت اس تنقیح کی نہیں ہے

تنقیح نمبر۱۰ بوجوہ ذیل میرے نزدیک بحق مدعا علیہما نمبر۲ ثابت نہیں ہے، اول یہ کہ جس قدر گواہان جانب مدعا علیہا نمبر۲ (ہندہ مرتہنہ) میں پیش ہوئے ہیں ان کی شہادت سے پورے طور پر فارغ ہونا کل مکانا ت کا اسباب و سامان راہن سے ثابت نہیں ہے اس لئے کہ کل گواہان مدعا علیہ نمبر ۲ بیان کرتے ہیں کہ مکانات مذکور میں اوپر بھی درجات ہیں اور اوپر کے درجات میں ہم نہیں گئے، پس ظاہر ہے کہ جب اوپر کے درجوں میں ان گواہوں نے خود جاکر نہیں دیکھا تو ان گواہوں کی شہادت سے فارغ ہونا کل مکانات کا اسباب و سامان راہن سے جو شرط ضروری قبضہ مرہونہ کی ہے کس طرح ثابت مانا جاسکتا ہے۔
ثا نیا یہ کہ شہادت مذکور سے تعلق عمرو خاں قبضہ گیرندہ کا بھی نہیں ہوتا، چونکہ وہ فوت ہوگیا ہے اس لئے اس کا یعنی واسطے حصول قبضہ کے موجود ہونا ضروری تھا۔

ثالثا اہم وجہ بے اثری قبضہ محمد عمرو خاں  یہ ہے کہ بضمن تجویز تنقیح نمبر۹ اصل صاحب معاملہ ہونا مدعا علیہا نمبر۲ (ہندہ مرتہنہ) کا غیر ثابت ہے اور بضمن تجویز تنقیح نمبر۱ مابین مولوی عبدالغافر خاں و گنیشی لال کے معاہدہ ہونا ثابت ہے، ایسی حالت میں منجانب مدعا علیہ نمبر۲ محمد عمر خاں (عمر بردار مرتہنہ) کا قبضہ کب مفید ہوسکتا ہے۔

رابعا یہ کہ مدعیان نے نقل فیصلہ اجلاس عالیہ جو ڈیشلی بمقدمہ جانی بیگم ابیلانٹ بنام نایاب  بیگم رمپانڈنٹ مورخہ ۹ / دسمبر ۱۹۱۴ء میں اس امر کے ثبوت میں پیش کیا ہے کہ اجازت دینا قبضہ کی ثابت نہیں ہے جو باتباع حکم موصوفہ مبطل رہن ہے، اس میں شک نہیں کہ فیصلہ موصوفہ میں یہ امر تجویز فرمایا گیا ہے کہ راہنہ کی اجازت قبضہ دینے کی مرتہنہ کو ثابت نہیں جو ضرور ی ہے اور اس مقدمہ میں مدعا علیھا نمبر۲ (ہندہ مرتہنہ) کاعمر خاں(عمر برادر ہندہ) کو قبضہ لینے کی اجازت لینا کسی شہادت سے ثابت نہیں ہے، پس بہ تقلید فیصلہ اجلاس اعلٰی اگر اجازت راہنہ پر اجازت مرتہنہ قیاس کی جائے تو بلاشبہہ قبضہ زیر بحث میں اجازت مرتہنہ ثابت نہ ہونے سے رہن باطل ہوتا ہے اور یہ امر ظاہر ہے کہ جب رہن میں اجازت قبضہ دینے کی امر ضروری ہے تو قبضہ کے لئے اجازت دینا بدرجہ اولٰی ضروری ہوگا کیونکہ اسی پر مدار قبضہ مرتہنہ ہے۔
خامسا : یہ کہ شہادت مدعا علیہا نمبر۲ (ہندہ مرتہنہ) میں نسبت ثبوت مکانات وخلو مکانات اختلاف بین ہے۔

تنقیح نمبر۱۱ کے متعلق کوئی ثبوت قانونی یا نظر ایسی پیش نہیں ہوئی جس سے میں تنقیح مذکور کو ثابت قراردوں میرے نزدیک اس مقدمہ میں دفعہ ۵۱ قانون رجسٹری ریاست اور دفعہ ۹۲ قانون شہادت کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

تنقیح نمبر۱۲ بھی غیر ثابت ہے بلکہ تردید اس کی ثابت ہے  کیونکہ رسید کرایہ کے لئے بمنشاء دفعہ ۱۴

قانون رجسٹری کے رجسٹری ہونا ضرور ی نہیں ہے البتہ ٹکٹ رسید کی ضرورت ہے چونکہ اس پر ٹکٹ رسید نہیں تھا اس کا تاوان ایک روپیہ وصول ہوگیا ہے، اس لئے بمنشاء مدب دفعہ ۵۲ قانون اسٹامپ ریاست قابل قبول ہے، اور حسب اعتراض مدعا علیہا لائق ضبطی و خلاف قانون و بے ضابطہ نہیں ہے، بوجوہات بالا حکم ہوا کہ دعوی مدعیان بتجویز انفکاک رہن بمجرائی کل زر مندرجہ بیعنامہ بالوفا وواپسی (٭٭) زر فاضل بواپسی دلائی جانی بیعنامہ بالوفاء و کرایہ نامہ اقراری مول چند بنام مدعا علیہما نمبر ۱و۲ ڈگری ہوا اور دعوٰی مدعیان واپسی (٭٭) کی خارج ہوا، لہذا اب سوالات مندرجہ تحت جواب طلب ہیں:

(۱) آیا وارث کو اپنے مورث کے اقرار کے خلاف ایسے ادعا کا حق شرعاً حاصل ہے یانہیں؟

(۲) آیا  قاضی کو بلا موجودگی بینہ واقرار ونکول کے محض اپنے قیاس کی بناء پر دستاویز مصدقہ سرکاری کے فرضیت کا حکم کرنا شرعاً جائز ہے یانہیں اور ایساحکم قابل بحالی ہے یا منسوخی؟
 (۳) آیا شرعاً قاضی کو عمل بالخط بصورت انکار مدعا علیہ از تحریرخود
الخط یشبہ الخط۱؎
 (خط، خط کے مشابہ ہوتا ہے۔ت) کے خلاف جائز ہے یانہیں؟ اور رسید پیش کردہ مدعی بصورت موجودہ جس کی بابت کوئی گواہ شہادت ادا نہیں کرتا ہے کہ ہمارے سامنے رسید لکھی گئی ہے صرف قیاساً شناخت خط کے گواہ پیش ہوئے ہیں قابل قبول ہے یانہیں؟
(۱؎ العقود الدریۃ     کتاب الدعوٰی     ارگ باازار قندھار افغانستان ۲/ ۱۹)
 (۴) آیا بیع بالوفاء میں غیر بائع یعنی کرایہ دار سے بعد قبضہ شرعی جو روپیہ بذریعہ کرایہ وصول کیاجائے وہ زر اصل میں قابل مجرائی ہے یانہیں؟

(۵) اگر خود بائع بالوفاء کایہ ادعا ہو کہ میں نے فرضی کرایہ نامہ از غیر تحریر و تصدیق کرایا تھا در حقیقت کرایہ من بائع بالوفا نے ادا کیا ہے تو یہ صورت اجارہ باذن راہن کی ہے یانہیں؟

(۶) آیا شہادت گواہان معمولی وغیر ثقہ مدعیان سے بمقابلہ مدعا علیہا مقر لہا دستاویزات و اقرار ات گنیشی لال (زید راہن) کی فرضیت ثابت بھی ہوسکتی ہے اور ایسی فرضیت کی شرعاً کوئی سند ہے؟

(۷) آیا محض دو گواہوں کے (جس میں ایک سزا یافتہ ہے اور دوسرا گواہ جہاں ملازم ہے وہاں مدعی تحویلدار ہے) اور مدعی کا اس پر ہر وقت اثر ہے اس قدر بیان سے کہ گفتگوئے معاہدہ شوہر مرتہنہ اور بائع بالوفاء کے درمیان میں ہمارے سامنے (٭٭)قرض دینے کے متعلق ہوئی تھی تو ایسی صرف دو شہادتوں کی بنیاد پر کہ جو دستاویزات کی تصدیق ہونے سے بیشتر کی شہادت خلاف دستاویزات مصدقہ ادا کریں اور نہ اپنی موجودگی ہنگام تصدیق دستاویزات بیان کریں  اور نہ مسماۃ ہندہ مشتریہ بیع بالوفاء کے کسی اقرار کے متعلق شہادت ادا کریں کچہری دستاویزات مصدقہ کو شرعاً فرضی قرار دے سکتی ہے اور مدعا علیہا نمبر۲ (مشتریہ بیع بالوفا) کا حق شرعاً ضائع ہوسکتا ہے یانہیں؟ اور ایسی شہادت مدعاعلیہا مذکور کی مقابلہ میں شرعاً کیا اثر رکھتی ہے؟ جس قدر گواہ منجانب مدعیان پیش ہوئے ہیں وہ سب مستور الحال اور غیر ثقہ ہیں کچہری نے کسی گواہ کی حیثیت تحت اظہار تحریر نہیں کی ہے کہ یہ گواہ کیسی حیثیت کا ہے حالانکہ حکم ریاست جاری ونافذ ہے کہ ہر گواہ کے ختم بیان پر کچہر ی کی جانب سے نوٹ حیثیت گواہ کا لکھا جائے کہ گواہ کچہری کے نزدیک کیسی قسم کا ہے آیا ثقہ یا غیر ثقہ یا مستور الحال ہے جس سے گواہ کی معتبری کا اندازہ ہوسکے۔پس ایسی حالت میں شہادت گواہان مدعیان پر حاکم اپیل کو شرعاً کیا حکم دینا چاہئے؟
 (۸) آیا مدعیان حسب قول خود بشرح سود ۱۳/ ۱۱ پائی سود فیصدی ماہوار رقم سود (٭٭) قرار داد ہونا بیان کرکے (٭٭) ماہوار میزان قائم کرکے ادائیگی بیان کرتے ہیں اور نیز گواہ بھی اسی طرح شہادت اداکرتے ہیں لیکن بحساب ۱۳/ ۱۱پائی فیصدی ماہوار کی رقم (٭٭٭٭)  پر سود(٭٭) پائی ہوتا ہے تو ایسی تناقض عرضی دعوی و شہادت علی الزیادات پر کچہری مقدمہ کی ڈگری شرعاً کرسکتی ہے اور اگر کچہری ڈگری ایسی صورت میں صادر کرے تو وہ ڈگری شرعاً قابل بحالی ہے یا منسوخی؟بینواتوجروا۔
Flag Counter