Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
133 - 151
(ریب وتہمت) اس بنا پر کہ اکثر مخلوق نے پیشہ شہادت زور اختیار کرلیا ہے محض بے اصل ہے شیوع کذب وعدم اعتماد خود زمانہ امام ابی یوسف رحمہ اﷲ تعالٰی کہ قرون خیر منقضی ہوچکے تھے،شہادت احادیث صحیحہ متحقق ہولیا تھا ولہذا صاحبین نے برخلاف مذہب صاحب مذہب رضی اﷲ تعالٰی عنہم ظاہر عدالت پر اطمینان نہ رکھا خفیہ وآشکارا تحقیق وتزکیہ لازم کیا علماء نے تصریح فرمائی کہ یہ اختلاف اختلاف برہان نہیں اختلاف زمان ہے۔ درمختار میں ہے:
لایسأل عن شاہد بلا طعن من الخصم الافی حدوقود عندھما یسال فی الکل ان جہل بحالھم، بحر، سرا وعلنا، بہ یفتی وھو اختلاف زمان لانھما کانافی القرن الرابع ولو اکتفی بالسرجاز،مجمع، وبہ یفتی، سراجیۃ۲؎۔
قاضی فریق مخالف کے اعتراض کے بغیر گواہوں کی تفتیش نہ کرے ماسوائے قصاص اور حد کے، اور صاحبین کے نزدیک تمام مقدمات میں تفتیش کرسکتا ہے اگر قاضی گواہوں کے حال سے ناواقف ہو، بحر، خفیہ اور اعلانیہ بھی۔ اسی پر فتوٰی ہے اور یہ زمانہ کے اختلاف کا معاملہ ہے کیونکہ صاحبین قرن رابع میں تھے، اگر خفیہ تفتیش کرے تو بھی صحیح ہے، اسی پر فتوٰی ہے، سراجیہ (ت)
 (۲؎ درمختار    کتاب الشہادات     مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۹۱)
تو اس روایت میں یہ شیوع کذب کی عام بے اطمینانی قطعاً مراد نہیں ورنہ قید و شرط کی حاجت نہ تھی بلکہ بالخصوص ان گواہوں میں کوئی ریب واضح پیدا ہونا مقصود ہے ولہذا ''ورأیت الریب'' فرمایا، پہر ظاہر کہ اس عام احتمال بات سے ان شہود کے کاذب ہونے پر ظن نہیں ہوسکتا اور روایت میں صراحۃً فرمایا
فظننت انھم شہود الزور ۳؎
 (تو میں گمان کرتا ہوں کہ یہ گواہ جھوٹے ہیں۔ت)
(۳؎ فتاوٰی ہندیہ     کتاب ادب القضاء     الباب الخامس عشر     نورانی کتب خانہ پشاور     ۳/ ۳۴۵)
شادی کے چھ سات مہینے بعد طلاق ہونا بھی کچھ موجب ریب نہیں جس طرح تین چار دن بھی والدین کے یہاں نہ چھوڑنے کو مجوز نے فرط محبت پر محمول کرکے اسے مبنائے ریب ٹھہرایا ہے، یوں ہی برابر کا احتمال یہ بھی موجود کہ یہ بربنائے خشونت وشدت وسخت گیری ہو جس کاخاتمہ تین طلاق پر ہوا، عورتیں مردوں کے ہاتھ میں قیدی ہیں، 

رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
اﷲ اﷲ فی النساء فانھن عوان بین ایدیکم۱؎۔
اﷲسے ڈرواﷲ سے ڈرو عورتوں کے حق میں کہ وہ تمہارے ہاتھ میں قیدی ہیں۔
 (۱؎ اتحاف السادۃ المتقین     کتاب آداب النکاح     دارالفکربیروت    ۵/ ۳۵۲)

(احیاء العلوم     کتاب آداب النکاح     الباب الثالث    مطبعۃ المشہد القاہرہ     ۲/ ۴۲)
بد مزاج لوگ عورت کو دو دن بھی والدین کے یہاں بخوشی نہیں چھوڑتے نہ بربنائے کمال انس و محبت بلکہ شدت و غلظت واظہار حکومت، بلکہ یہاں یہی احتمال زیادہ راجح تھا اولاً عورات کا ضعف
الرجال قوامون علی النساء ۲؎
 (مرد عورتوں پر قوی منتظم ہیں۔ت) سرکشی زناں بہ نسبت سخت گیری مرداں نادر ہے۔
 (۲؎ القرآن الکریم     ۴/ ۳۴)
ثانیاً بر خلاف معتاد جملہ بلا د اول بار بھی عورت کا بضمانت جانا تند مزاجی شوہر سے ترس شدیدکا پتہ دے رہا ہے۔

ثالثاً نام طلاق جس قدر عورتوں کو سخت شدید ناگوار ہے مردوں کو نہیں کہ اس میں انہیں اپنی بدنامی کا بھی زیادہ لحاظ ہوتا ہے، لوگ کیاکہیں گے، کیاسمجھیں گے،کیوں چھوڑدیا، اور اس کے ساتھ اپنے عیش باقی اور آنے والی عمر کا خیال کہ زنان ہند میں نکاح ثانی عار ہے۔ تو بے طلاق دئیے از پیش خویش جھوٹا مشغلہ بنانے اور اس پر مقدمہ لڑانے کی جرات نوکتخدا عورت سے بہت بعید اور سخت محل شبہات ہے، ہاں جاہل مرد جب جوش حکومت میں غضب پر آتے ہیں کبھی ایک طلاق پر نہیں رکتے بلکہ تین پر بھی اتفاقاً ٹھہرتے ہیں پھر جب غصہ اترتا اور نادم ہوتے ہیں لاعلاج مرض کا علاج ڈھونڈتے ہیں ایسا ہی خوف خدا ہوا تو صبر کربیٹھے ورنہ انکار طلاق سہل نسخہ ہے بہر حال اس قدر میں شک نہیں کہ ایسے ضعیف احتمالات مبنائے
ظننت انھم شہود الزور
 (تجھے گمان ہو کہ گواہ جھوٹے ہیں۔ت) نہیں ہوسکتے تو صاف واضح ہوا کہ فیصلہ اس روایت کے بھی موافق نہیں محض اوہام پر مبنی ہے۔
 (معاملہ حلال وحرام) ضرور محل احتیاط شدید ہے، مگر یہاں حلت وحرمت کا پلہ دونوں طرف یکساں اگر واقع میں طلاق نہ ہوئی اور مطلقہ ثلاث ٹھہرا کر اجازت نکاح ثانی دیں تو معاذ اﷲ اجازت زنا ہے اور واقع میں ہوگئی اور بدستور زوجہ بناکر قبضہ طلاق دہندہ میں رکھیں تو عیاذاًباﷲاجازت زنا ہے۔ دونوں طرفین کانٹے کی تو ل برابر ہیں، ہاں اتنا ضرور ہے کہ شوہر کی طرف وہ شبہات ہیں جوابھی مذکور ہوئے اور مدعا علیہ کاکذب کچھ مستبعد نہیں کہ اس کا اپنا نفع ذاتی ہے خصوصاً عوام سے ایسے مواقع میں
کما قد علمت
 (جیسا کہ آپ معلوم کر چکے۔ت) اور شہود کثیر و متعدد ہیں اور ان کا اپناذاتی معاملہ نہیں ایک خود غرض کا کاذب ہونابہت مسلمانوں کے پرائے پیچھے اپنادین بیچنے سے آسان ہے۔
غایۃ البیان میں ہے:
الشہادۃ تحمل علی الصحۃ ماامکن ۱؎۔
شہادت کو ممکن حد تک صحت پر محمول کیا جائے۔(ت)
(۱؎ غایۃ البیان  )
عنایہ میں ہے:
عندالمخالفۃ تعارض کلام المدعی والشاھد فما المرجح لصدق الشاہد ان الاصل فی الشہود العدالۃ لاسیما علی قول ابی یوسف ومحمد رحمھما اﷲ تعالٰی، ولایشترط عدالۃ المدعی لصحۃ دعواہ فرجحنا جانب الشہود عملا بالاصل ۲؎اھ کذارأیتہ ماثورا عنہا فی بعض منقولاتی۔
مدعی کی بات اور گواہوں کے بیان میں تعارض ہو تو ہم گواہوں کی بات کو ترجیح دیں گے کیونکہ گواہوں میں عدالت اصل ہے خصوصاً امام ابویوسف اور امام محمد رحمہما اﷲ تعالٰی کے قول پر، جملہ مدعی کا صحت دعوٰی کے لئے عادل ہونا شرط نہیں ہے تو ہم اصل پر عمل کرتے ہوئے گواہوں کے موقف کوترجیح دینگے اھ، میں نے اپنے بعض منقولات میں یوں مذکور پایا ہے۔(ت)
(۲؎ العنایۃ علی ہامش فتح القدیر    کتاب الشہادات     باب الاختلاف فی الشہادۃ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۶/ ۵۰۱)
(جرح شہود) کثرت شہادت کوئی قدح شرعی نہیں، احکام الٰہیہ دو قسم ہیں: تکوینی وتشریعی کسی کے سامنے وقوع وقائع متعلق بہ اول ہے اور ان میں اس کی شہادت کا قبول متعلق بہ ثانی، کیا تکوین نے کوئی حد مقرر فرمادی ہے کہ اتنے سے زائد وقائع ایک شخض کے سامنے واقع نہ ہوں گے یا تشریع نے کوئی تحدید بتادی ہے کہ اتنے بار سے زیادہ شہادت شاہد مقبول نہ ہوگی، صکاک کو دیکھئے جس کا واقعی پیشہ ہی تحریر دستاویزات ہے سال میں سیکڑوں لکھتا اور وہ ہر ایک کا گواہ پھر مذہب صحیح میں یہ کہ کثرت شہادت اس کی گواہی میں خلل انداز نہیں،
خلاصہ و خزانۃ المفتین میں ہے:
شہادۃ الصکاکین تقبل علی الاصح۱؎۔
وثیقہ نویس کی شہادت مقبول ہے اصح قول کے مطابق۔(ت)
(۱؎ خزانۃ المفتین     کتاب الشہادات     قلمی نسخہ    ۲/ ۱۰۷)
بزازیہ وانقرویہ میں ہے:
شھادۃ الصکاکین تقبل فی الصحیح ۲؎۔
صحیح قول کے مطابق وثیقہ نویس کی شہادت مقبول ہے(ت)
 (۲؎ فتاوٰی انقریہ     بحوالہ بزازیہ     الفصل الاول        دارالاشاعۃ العربیہ قندھار افغانستان     ۱/ ۳۷۸)
ذخیرہ وغیاثیہ وفتح القدیر وہندیہ میں ہے:
اما شہادۃ الصکاکین فالصحیح انھا تقبل اذاکان غالب حالھم الصلاح ۳؎۔
لیکن وثیقہ نویسوں کی شہادت، تو صحیح یہ ہے کہ مقبول ہے بشرطیکہ ان کا غالب حال درست ہو۔(ت)
 (۳؎ فتاوٰی ہندیہ     بحوالہ الذخیرۃ والعنایۃ وفتح القدیر کتاب الشہادات الباب الرابع  نورانی کتب خانہ پشاور ۳/ ۴۶۹)
مخبری بروجہ مذکور ضرور فسق ہے مگر غلام ناصر خاں کو اس سے انکار بحت ہے اور جرح تفضل حسین خاں کا جواب سوال میں مذکور، مجوز نے روایت مذکورہ شامی پر محول کرنے سے ننھے خاں کلن خاں کے فسق کی طرف اشارہ کیا مگر سبب نہ بتایا اور ظہورن بیگم و فاطمہ بیگم مستورات کو شاید پردہ مستور ی میں رکھا حالانکہ بعد تنقیح کے ذمہ قاضی لازم وضوح حال ممکن تھا۔
بالجملہ فیصلہ کے بیانات بالامحض باطل ومختل اور روایت نادرہ ضعیفہ پر بنائے حکم رکھنے سے فیصلہ خود ناجائز و مہمل۔ اور مدار حکم صرف اسی قدر پر ہے جو ابتداءً گزرا کہ ان میں کوئی بھی نصاب شہادت بروجہ کفایت موجود تو بلا شبہہ تین طلاقیں ثابت اور فیصلہ بحق مدعیہ ہونا لازم۔ واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔
Flag Counter