Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
132 - 151
ثالثاً اصل شہادت میں اتفاق شافی ووافی کے بعد بعض فضولیات میں ایسے مؤثر ہلکے آسان اختلافوں کو  جنہیں معاملے سے کچھ تعلق نہ ہو دستاویز بناکر شہادت متفقہ کو رد کردینے کا اگر فتح باب ہو تو عامہ حقوق ضائع ہوجائیں، ظالمین اموال وفروج پر دسترس پائیں، مظلوم اپنے حق سے محروم رہ جائیں، کچہریاں صرف اعانت ظلمہ کے صیغے نظرآئیں کہ انسان نسیان کےلئے ہے اور زوائد ضائعہ کی طرف نہ ذہن ابتداءً التفات تام کرتا ہے نہ حافظہ انتہاءً ان کا اہتمام، ایسی کسی بات میں ایک آدھ اختلاف ہوجانا نادر نہیں بلکہ کثیر و غالب ہے خصوصاً اس بدعت شنیعہ کے ہاتھوں جو آجکل کے وکلاء نے اتلاف حقوق وتکذیب صدوق کےلئے تراشی اور قضاۃ نے اس پر تقریر کی محض براہ مغالطہ شہود کا بیان متزلزل کردینے کے لئے صدہا سوالات فضول و مہملات سو سو طرح کے پیچ دے کر کرتے اور شرع نے جن کے اکرام کاحکم دیا جنہیں ذریعہ دادرسی مظلوم بنایا ان کے اغوا وتضلیل وازلال و تذلیل میں کوئی دقیقہ نامرعی نہیں رکھتے اس بیہودہ بے معنی کشاکش پریشان کن میں آدمی کے آئے حواس جاتے ہیں خصوصاً نساء وضعفا وارباب سلامت صدر اور وہ لوگ جنہیں کچہریوں کا اتفاق کم ہوا کہ یہ توان حضرات کے سخرہ و دست مال ہیں جب فہرست شہود میں ایسوں کانام پاتے ہیں براہ تاخر فرماتے ہیں وہ بہت سیدھے مسلمان ہیں دیکھنا دو سوالوں میں بول جائیں گے جس کا ثمرہ یہ ہوتا ہے کہ بھولا راستباز جھوٹا ٹھہرتا ہے اور جھوٹا فسوں کار سچا، رسو ل اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
المؤمن غرکریم والفاجر خب لئیم۲؎۔ رواہ ابوداؤد والترمذی والحاکم بسند جید عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
مومن کریم ہونے کی بناء پر دھوکا کھاتا ہے اور فاجر شخص قابل ملامت ہونے کی وجہ سے دھوکاباز ہوتا ہے۔اسے ابودادؤد، ترمذی اور حاکم نے جید سند کے ساتھ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲتعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔(ت)
 (۲؎ سنن ابی داؤد     کتاب الادب     نورمحمد کارخانہ تجارت کتب کراچی    ص۶۶۰)
وہاں ایسے کسی اختلاف یسیر کا بھی اصلاً واقع نہ ہونا ہے تعجب ہے تو ان پر نظر کا حاصل سوا اضاعت حقوق اعانت عقوق کے اور کیا قرار پاسکتا ہے، والعیاذ باﷲتعالٰی، پرظاہر کہ اس میں حرج صریح ہے اور حرج بنص قطعی مدفوع۔ جامع الفصولین میں ہے:
عدم القبول فی امثالہ یفضی الی الحرج والتضییق وتضییع کثیر من الحقوق وامرنا بیسرلابعسر والحرج مدفوع شرعا۔۱؎
ایسی صورتوں میں قبول نہ کرنا حرج، تنگی اور بہت سے حقوق کے ضیاع کا سبب بنتا ہے جبکہ ہمیں یسر کا حکم ہے تنگی اور دشواری پیداکرنے کا حکم نہیں نیز حرج شرعاً مدفوع ہے۔(ت)
 (۱؎ جامع الفصولین     الفصل الحادی عشر    اسلامی کتب خانہ کراچی    ۱/ ۱۶۶)
(روایت نادرہ ابی یوسف)کو مذہب امام ابویوسف کہنا کس قدرخلاف فقاہت ہے نہ قاضی ومفتی کو اس پر عمل وحکم کی اجات۔ جامع صغیر ومبسوط امام محمد وبحرالرائق واشباہ والنظائر وزواہر الجواہر و درمختارو فتاوٰی صغری و فصول عمادی وخزانۃ المفتین وجامع الفصولین وغایۃ البیان و فتاوٰی انقرویہ، ردالمحتار وفتاوٰی خلاصہ وکافی ولسان الحکام و معین الحکام و عقود الدریہ و وجیز کردری وفتاوٰی خانیہ وفتاوی ظہیریہ و فتاوٰی قاعدیہ وغیرہا کتب معتمدہ مذہب کی عبارات کثیرہ اوپر گزریں کہ اس روایت نادرہ کے سراسر خلاف ہیں اور انہیں پر انحصار نہیں، عامہ کتب مذہب میں اس کا خلاف موجود، اور اس روایت کامخالف ظاہرالروایت ہونا خود عبارت منقولہ فیصلہ سے ثابت فیصلہ سے جس قدر سائل نے نقل کیا وہ یہیں سے ہے کہ
اذاارتاب القاضی
(جب قاضی کو شک ہو۔ت) حالانکہ اصل عبار ت محیط ان الفاظ سے شروع ہے:
قال فی الاصل اذاارتاب القاضی ۲؎الخ
 (اصل (مبسوط)میں فرمایا جب قاضی شک میں مبتلا ہو الخ۔ت)
(۲؎ فتاوٰی ہندیہ     بحوالہ المحیط     کتاب ادب القضاء    الباب الخامس     نورانی کتب خانہ پشاور    ۳/ ۳۴۵)
جس سے صاف ظاہر کہ محرر المذہب امام محمد نے کتاب الاصل میں  کہ کتب ستہ ظاہر الروایۃ سے ہے بے حکایت خلاف تصریح صاف فرمائی کہ شاہدوں کا زمان ومکان میں بھی اختلاف مطلقاً مضر شہادت نہیں جہاں ہے ''ہے'' یعنی افعال نہ طلاق و عتاق وبیع وامثالہا اقوال چہ جائے اختلاف ثیاب ومراکب وحضار واقعہ نساء ورجال، اورصاف یہ بھی ارشاد فرمایا کہ مجرد تہمت وریب کی بناء پر شہادت رد نہ کی جائے گی، نیز اسی عبارت سے یہ بھی ثابت کہ نوادر میں بھی یہ صرف روایت ابی یوسف ہے برخلاف امام اعظم وہمام اقدم رضی اﷲ تعالٰی عنہ  توجماہیر کے خلاف، امام کے خلاف، ظاہر الروایۃ کے خلاف، دلیل کے خلاف، بے تصحیح صریح و ترجیح رجیح ائمہ افتاء ایک روایت شاذہ نادرہ پر فیصلہ کیونکر روا، ائمہ وعلماء کی روشن تصریحا ت ہیں کہ جو کچھ ظاہر الروایۃ سے خارج ہے ہمارے ائمہ کامذہب نہیں وہ مرجوع عنہ ہے قول مرجوح پر افتاء وقضاء جہل وخرق اجماع ہے نہ کہ مرجوع عنہ کہ سرے سے قول ہی نہ رہا، لاجرم ایسے فیصلے کو منسوخ کردینے کا حکم فرمایا اور اگر والی مولی جس نے قاضی عہدہ قضا دیا تصریح کردی کہ مذہب امام یا قول مصحح پر عمل کرنا جیساکہ غالباً یونہی ہوتا ہے جب تو ایسا فیصلہ قطعاً اجماعاً سرے ہی سے باطل و نامعتبر و محض بے اثر جسے منسوخ کرنے کی بھی حاجت نہیں کہ قاضی اب ماورائے مذہب میں معزول ومثل احدمن  الناس ہے۔
ردالمحتار میں ہے:
قد صرحو ابان العمل بما علیہ الاکثر۱؎۔
فقہاء نے تصریح کی ہے کہ عمل اکثریت کے موقف پر ہوگا۔(ت)
 (۱؎ ردالمحتار     باب المیاہ قبل باب التیمم     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۱/ ۱۵۱)
امداد الفتاح علامہ شرنبلالی میں ہے:
القاعدۃ العمل بماعلیہ الاکثر۲؎۔
قاعدہ ہے کہ عمل اکثریت کے موقف پر ہوگا۔(ت)
 (۲؎ العقو دالدریہ     بحوالہ الشرنبلالی     مسائل وفوائد من الحظر والاباحۃ الخ  ارگ بازار قندھار افغانستان  ۲/ ۳۵۶)
شرح الاشباہ للعلامۃ البیری وعقودالدریہ میں ہے:
المقرر عند المشایخ انہ متی اختلف فی مسألۃ فالعبرۃ بما قالہ الاکثر۳؎۔
مشائخ کے ہاں ثابت شدہ ہے کہ جب مسئلہ میں اختلاف ہو تو اکثریت کے قول کا اعتبار ہوگا۔(ت)
 (۳؎العقو دالدریہ    بحوالہ بیری     مقدمۃ الکتاب        ارگ بازار قندھار افغانستان      ۱/ ۳)
تنویر الابصار ودرمختار ومنیہ وسراجیہ وغیرہا میں ہے:
یاخذ القاضی کالمفتی بقول ابی حنیفۃ علی الاطلاق ۴؎۔

مفتی کی طرح قاضی امام ابوحنیفہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے قول کو علی الاطلا ق لے گا۔(ت)
 (۴؎ درمختار شرح تنویر الابصار     کتاب القضاء    مجتبائی دہلی     ۲/ ۷۲)
ثلٰثہ اخیرہ میں ہے:
ھو الاصح۵؎
 (وہی اصح ہے۔ت)
 (۵؎ درمختار    کتاب القضاء    مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۷۲)
بحر الرائق میں ہے:
یجب علینا الافتاء بقول الامام ۱؎
 (ہم پر امام اعظم رحمہ اﷲ تعالٰی کے قول پر فتوی دینا واجب ہے۔ت)
(۱؎ بحرالرائق     کتاب القضاء     فصل فی التقلید    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۶/ ۷۰۔۲۶۹)
خیریہ میں ہے:
المقر ایضا عندنا انہ لایفتی ولایعمل الابقول الامام الاعظم۲؎الخ۔
ہمارے ہاں یہ بھی ثابت شدہ ہے کہ امام اعظم رحمہ اﷲ تعالٰی کے قول کے بغیر نہ فتوٰی دیا جائے اور نہ عمل کیا جائے الخ(ت)
 (۲؎ فتاوٰی خیریہ     کتاب الشہادات    دارالمعرفۃ بیروت     ۲ /۳۳)
ردالمحتار میں صدر کتاب احیاء الموات میں ہے:
وذٰلک عجیب لما قالواان ماخالف ظاہر الروایۃ لیس مذہبا لاصحابنا۳؎۔
یہ امر عجیب ہے کیونکہ ان فقہاء کرام نے فرمایا کہ جو ظاہر الروایۃ کے خلاف ہو وہ ہمارے اصحاب کا مذہب نہیں ہے۔(ت)
 (۳؎ ردالمحتار     کتاب احیاء الموات              احیاء التراث العربی بیروت        ۵/ ۲۷۸)
بحرالرائق کتاب القضاء میں ہے:
ماخرج عن ظاہر الروایۃ فھو مرجوع عنہ لما قرروہ فی الاصول من عدم امکان صدور قولین مختلفین متساویین من مجتہد والمرجوع عنہ لم یبق قولا لہ ۴؎۔
جو ظاہر الروایت سے خارج ہے وہ مرجوع عنہ ہے کیونکہ انہوں نے اصول میں یہ امرثابت شدہ قرار دیا ہے کہ مجتہد سے دو مساوی مختلف قول صادر ہونا ممکن نہیں اور جس قول سے رجوع کرلیا ہو تو وہ مجتہد کا قول نہیں رہتا۔(ت)
 (۴؎ بحرالرائق     کتاب القضاء    فصل فی التقلید     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ۶/ ۲۷۰)
خیریہ اواخرشہادات میں ہے:
ھذاھو المذہب الذی لایعدل عنہ الٰی غیرہ وما سواہ روایات خارجۃ عن ظاہر الروایۃ وما خرج عن ظاہر الروایۃ فھو مرجوع عنہ والمرجوع عنہ لم یبق قولا لہ۵؎۔
مذہب یہی ہے جس سے غیر کی طرف عدول نہیں کیاجاسکتا اور اس کے ماسوا روایات ظاہر الروایۃ سے خارج ہیں اور جو ظاہر الروایۃ سے خارج ہو وہ مرجوع عنہ ہے اور جو مرجوع عنہ ہو وہ مجتہد کا قول نہیں رہتا۔(ت)
 (۵؎ فتاوٰی خیریہ    کتاب الشہادات     دارالمعرفۃ بیروت    ۲/ ۳۳)
تصحیح القدوری ودرمختار میں ہے:
الحکم والفتیا بالقول المرجوح جھل و خرق للاجماع ۱؎۔
کوئی حکم یا فتوٰی مرجوح قول پر ہو تو وہ جہالت اور اجماع کے مخالف ہے۔(ت)
 (۱؎ درمختار     مقدمۃ الکتاب    مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۱۵)
حواشی ثلثہ سادات ثلثہ ابراہیم حلبی واحمد مصری ومحمد شامی میں ہے:
اولٰی من ھذا بالبطلان الافتاء بخلاف ظاہر الروایۃ اذالم یصحح والافتاء بالقول المرجوع عنہ۔۲؎۔
اس سے زیادہ باطل یہ ہے کہ فتوٰی دینا ظاہر الروایۃ کے خلاف جس کی تصحیح نہ ہو، اور مرجوع عنہ قول پر فتوٰی دینا 

ہے۔(ت)
(۲؎ ردالمحتار   مقدمۃ الکتاب    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۱/ ۵۱)
تنویر وشرح علائی میں ہے:
لایخیر اذلم یکن مجتہد ابل المقلد متی خالف معتمد مذہبہ لاینفذ حکمہ وینقض ھو المختار للفتوی کما بسطہ المصنف فی فتاویہ غیرہ ۳؎۔
مجتہد کے غیر کو اختیار نہ ہوگا بلکہ مقلد جب اپنے معتمد علیہ مذہب کے خلاف فیصلہ دے تو وہ نافذ نہ ہوگا اور اس کو کالعدم قرار دیا جائے گا،یہی فتوٰی کیلئے مختار جیساکہ مصنف نے اپنے دوسرے فتاوٰی میں اس کو بسط سے بیان کیا ہے۔(ت)
 (۳؎ درمختار شرح تنویر الابصار     کتاب القضاء     مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۷۲)
انہیں میں ہے:
 (قضی فی مجتہدفیہ بخلاف رأیہ) ای مذہبہ، مجمع وابن کمال (لاینفذ مطلقا) ناسیا او عامداً عندھما والائمۃ الثلثۃ (وبہ یفتی) مجمع وقایۃ وملتقی، وقیل بالنفاذ یفتی وفی شرح الوھبانیۃ للشرنبلالی قضی من لیس مجتہدا کحنفیۃ زماننا بخلاف مذہبہ عامدالاینفذ اتفاقا وکذا ناسیا عندھما، ولو قیدہ السلطان بصحیح مذہبہ کزماننا تقید بلاخلاف لکونہ معزولا عنہ اھ وقد غیرت بیت الوھبانیۃ فقلت ؂

ولو حکم القاضی بحکم مخالف		 لمذہبہ ماصح اصلایسطر۱؎۔
قاضی نے مجتہد فیہ مسئلہ میں اپنی رائے یعنی اپنے مذہب کے خلاف، مجمع اور ابن کمال (مطلقاً نافذ نہ ہوگا) خواہ قصداً ہو یا سہواً، صاحبین اور ائمہ ثلاثہ کے ہاں (اسی پر فتوٰی ہے) مجمع وملتقٰی اور وقایہ، اور بعض نے کہا نفاذ پر فتوٰی ہے۔ علامہ شرنبلالی کی شرح وہبانیہ میں ہے ہمارے زمانہ کے حنفی قاضی کی طرح غیر مجتہد نے اپنے مذہب کے خلاف قصداً فیصلہ دیا تو بالاتفاق نافذ نہ ہوگا، اور یوں ہی بھول کردیا تو صاحبین کے ہاں وہ بھی نافذ نہ ہوگا، اور اگر سلطان نے قاضی کو اپنے مذہب کے صحیح پر فیصلہ کا پابند کیا جیسا کہ ہمارے زمانہ میں پابند کیا جاتا ہے تو بغیر اختلاف وہ نافذ نہ ہوگا کیونکہ قاضی کے دائرہ اختیار سے باہر ہے اھ اور میں نے وببانیہ کے شعر کو تبدیل کرتے ہوئے یوں کہاہے: اگر قاضی نے اپنے مذہب کے خلاف فیصلہ دیا تو قطعاً صحیح نہ ہوگا یوں لکھا جائے۔(ت)
(۱؎ درمختار شرح تنویر الابصار    کتاب القضاء    مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۸۰)
ردالمحتار میں قبیل باب التحکیم ہے:
القاضی مامور بالحکم باصح اقوال الامام فاذاحکم بغیرہ لم یصح۲؎۔
جو قاضی امام صاحب کے اقوال میں سے اصح قول پرفیصلہ کا پابند بنایا گیا ہو جب وہ اس کے غیر پر فیصلہ دے تو صحیح نہ ہوگا۔(ت)
(۲؎ ردالمحتار     کتاب القضاء     فصل فی الحبس     داراحیاء التراث العربی بیروت ۴/ ۳۴۶)
فتح القدیر ہے:
اما المقلد فانما ولاہ لیحکم بمذہب ابی حنیفۃ فلا یملک المخالفۃ فیکون معزولا بالنسبۃ الی ذٰلک الحکم۳؎۔
اگرمقررکرنے والے نے قاضی کو امام ابوحنیفہ رحمہ اﷲ تعالیٰ کے مذہب کا پابند کیا ہو وہ مخالفت کا مجاز نہ ہوگا کیونکہ وہ ایسے حکم کا مجاز نہ تھا۔(ت)
(۳؎ فتح القدیر     کتاب ادب القاضی     فصل آخر     مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۶/ ۳۹۷)
برہان شرح مواہب الرحمٰن پھر غنیۃ ذوی الاحکام شرح دررالحکام میں ہے:
ھذاصریح الحق الذی یعض علیہ بالنواجذ۴؎۔
یہ صریح حق ہے جس کو دانتوں سے مضبوط پکڑنا چاہئے۔(ت)
 (۴؎ غنیۃ ذو ی الاحکام شرح درر الاحکام     کتاب القضاء     میر محمد کتب خانہ کراچی    ۲/ ۴۱۰)
فتاویٰ علامہ قاسم بن قطلوبغامیں ہے:
لیس للقاضی المقلد ان یحکم بالضعیف لانہ لیس من اھل الترجیح فلا یعدل عن الصحیح الالقصد غیر جمیل ولو حکم لاینفذ لان قضائہ قضاء بغیر الحق لان الحق ھوالصحیح وما وقع من ان القول الضعیف یتقوی بالقضاء المراد بہ قضاء المجتہد کما بین فی موضعہ ۱؎۔
مقلد قاضی کو یہ اختیار نہیں کہ وہ ضعیف قو ل پر فیصلہ دے کیونکہ وہ اہل ترجیح میں سے نہیں ہے تو وہ صحیح قول سے عدول نہیں کرسکتا سوائے کسی غیر پسندیدہ وجہ کے، اگر اس نے ایسافیصلہ دیا تو وہ فیصلہ نافذ نہ ہوگا کیونکہ یہ فیصلہ ناحق ہے کیونکہ صحیح قول پر ہی حق ہے، اور یہ قول کہ ضعیف کو فیصلہ قوی بنادیتا ہے تو اس سے مراد مجتہد کا فیصلہ ہے جیسا کہ اس کے مقام پر واضح کیا گیا۔(ت)
(۱؎ ردالمحتار بحوالہ فتاویٰ قاسم بن قطلوبغا کتاب القضاء     فصل فی الحبس داراحیاء التراث العربی بیروت ۴/ ۳۳۵)
فواکہ بدریہ علامہ ابن الغرس میں ہے:
واما المقلد المحض فلا یقضی الابما علیہ العمل والفتوی۲؎۔
لیکن خالص مقلد تو وہ صرف اس پر فیصلہ دے سکتا ہے جس پر فتوی اور عمل ہو۔(ت)
 (۲؎ ردالمحتار    بحوالہ   فواکہ بدریۃ ابن الغرس  کتاب القضاء     فصل فی الحبس داراحیاء التراث العربی بیروت ۴/ ۳۳۵)
رسائل علامہ زین بن نجیم میں ہے:
اما القاضی المقلد فلیس لہ الحکم الا بالصحیح المفتی بہ فی مذہبہ ولا ینفذ قضاؤہ بالقول الضعیف ۳؎اھ اثر ھذہ الخمس جمیعا فی ردالمحتار۔
لیکن خالص مقلد تو وہ صرف اپنے مذہب کے صحیح مفتیٰ بہ قول پر فیصلہ دے سکتا ہے ضعیف قول پر فیصلہ دے تو وہ نافذ نہ ہوگا اھ ان پانچوں عبارات کو ردالمحتار میں نقل  کیا ہے۔(ت)
(۳؎ ردالمحتار بحوالہ  رسائل ابن نجیم     کتاب ادب القضاء     الباب الخامس عشر   نورانی کتب خانہ پشاور ۳/ ۳۳۵)
ان روایات صحیحہ صریحہ کثیرہ شہیرہ متوافرہ متظافرہ سے شمس وامس کی طرح واضح ہوا کہ مجوز نے اس روایت پر فیصلہ کرنے میں سراسر خلاف حکم کیا اس بناء پر فیصلہ واجب النقض بلکہ سرے سے باطل محض ہے یہ سب اس تقدیر پر ہے کہ فیصلہ کو اس روایت نادرہ کے موافق فرض کرلیجئے ورنہ انصاف یہ کہ وہ اس کے بھی موافق نہیں، یہ روایت نادرہ مطلقاً ایسے اختلافات یسیرہ کو مانع شہادت ٹھہراتی بلکہ اس حالت میں جب قرائن صحیحہ و امارات صریحہ سے قاضی کو مرتبہ ظن حاصل ہو کہ یہ گواہ جھوٹی گواہی دے رہے ہیں کہ اس میں صاف شرط مذکور:
اذااتھتھم ورأیت الریبۃ فظننت انھم شہود الزور ۱؎۔
جب میں ان کو متہم پاؤں اور مشکوک معاملہ دیکھوں تو میں گمان کرتا ہوں کہ یہ گواہ جھوٹے ہیں(ت)
 (۱؎ فتاویٰ ہندیۃ     کتاب ادب القضاء     الباب الخامس عشر نورانی کتب خانہ پشاور    ۳/ ۳۴۵)
صرف تہمت پر بھی قناعت نہ فرمائی بلکہ زیادہ کیا کہ میں ان میں ریب دیکھ لوں مجھے ان کی شاہد کذب ہونے پر گمان غالب حاصل ہوجائے یہاں مجوز نے ان تمام شہادات میں کیا ریب دیکھ لیا کس بنا پر ان کی یہ گواہی جھوٹ ہونے پر ظن ہاتھ آیا۔
Flag Counter