Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
131 - 151
 (اختلافات) کہ بیان شہود میں پیدا کئے ان میں کوئی اصلاً صالح التفات نہیں۔

اولاً تفضل حسین خاں نے اپنی بی بی کا پرورش کرنا بتایا غلام ناصر خاں نے تفضل حسین خاں کا یہ کیا اختلاف ہوا ممکن کہ تربیت مباشرۃً امراؤ بیگم نے کی اور مال ورضاجانب تفضل حسین خاں سے، تو بلحاظ مباشرت اس سے نفی اور بنظرمال  واجازت اس کے لئے اثبات دونوں حق ہیں۔
قال اﷲ تعالٰی       ومارمیت اذ رمیت ولکن اﷲ رمٰی۳؎۔
فتح الامیر الحصن ولم یفتح ھو بل العسکر کل صحیح کما قد علم فی محلہ۔
اﷲ تعالٰی نے فرمایا: جب آپ نے مارا آپ نے نہ مارا لیکن اﷲ تعالٰی نے مارا۔ امیر نے قلعہ فتح کیا، اس نے فتح نہ کیا بلکہ لشکر نے فتح کیا یہ کلام ہر طرح صحیح ہے، جیسا کہ وہ اپنے محل میں معلوم ہے۔(ت)
(۳؎ القرآن الکریم ۸/ ۱۷)
ایسے امور کا صاحب خانہ کی طرف نسبت کرنا شائع وذائع ہے
لانہ الاصل وعن رأیہ یصدر
 (کیونکہ صاحب خانہ اصل اور صاحب رائے ہے۔ت)اور اختلاف غلام ناصر خاں وغلام محی الدین خاں کا ادعا سخت ہی تعجب خیز ہے کلام محی الدین میں بگا کو ندا کی نفی بھی تو نہیں صرف عدم ذکر ہے وہ ذکر عدم کیونکر ہوا،
رب العزت جل وعلا نے سورہ نمل میں فرمایا:
یٰموسٰی لاتخف انی لایخاف لدی المرسلون۱؎۔
اے موسٰی علیہ وعلٰی نبینا الصلوٰۃ والسلام، مت خوف کرو، میں وہ ذات ہوں کہ میرے ہاں رسولوں کو خوف نہیں ہوتا۔(ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۲۷/ ۱۰)
اور سورہ قصص میں ہے:
یٰموسٰی اقبل ولاتخف انک من الاٰمنین ۲؎۔
اے موسٰی علیہ السلام ! آگے بڑھو اور خوف نہ کرو، آپ امن والوں میں سے ہیں۔(ت)
 (۲؎القرآن الکریم    ۲۸/ ۳۱)
اور سورہ طہٰ میں ارشاد ہوا:
قال خذھا ولاتخف سنعیدھا سیرتھا الاولٰی ۳؎۔
فرمایا اسے پکڑو اور خوف نہ کرو ہم اس کو عنقریب پہلی حالت پر پھیریں گے۔(ت)
 (۳؎القرآن الکریم   ۲۰/ ۲۱)
ان دونوں سورتوں میں ذکر ندا ہے یہاں نہیں بلکہ
جملہ" لاتخف"
 کے سوا ہر جگہ نیا کلام نقل فرمایا ہے، کلن خاں اور ظہورن بیگم و فاطمہ بیگم کے بیانوں میں اختلاف گمان کرنا محض قلت تدبر سے ناشئی ہے، سائل سے استفسار پر واضح ہوا کہ کلن خاں غیر شخص ہے بگا بیگم اس سے چھپتی ہے وہ دالان میں تھی اور یہ دروازے میں۔ اب دونوں بیان صاف صاف حق وصحیح ہیں بے غوری کے باعث یہ گمان ہوا کہ دروازے کا لفظ دونوں کلام میں بگا بیگم سے متعلق ہے یعنی کلن خاں کہتا ہے بگا بیگم نے دروازے میں آکر مجھ سے کہاظہورن بیگم و فاطمہ بیگم کہتی ہیں بگابیگم نے دالان میں سےکہا دروازے میں کچھ نہ کہا حالانکہ حقیقۃً عورا ت کے بیان میں تویہ لفظ بگابیگم کی طرف ناظر ہے جس طرح مجوز نے سمجھا اور کلن خاں کے کلام میں خود کلن سے متعلق ہے یعنی میں دروازے میں تھا کہ بگا بیگم نے مجھ سے کہا ایسی، طرف متکلم ومخاطب دونوں کے لئے محتمل و مستعمل ہوتی ہے زید نے مجھ سے مسجد میں کہا اسکے یہ بھی معنی ہوسکتے ہیں کہ زید مسجد میں تھا جو اس نے مجھ سے کہا اور یہ بھی کہ میں مسجد میں تھا کہ اس نے کہا ولہذا قرائن سے ایک معنی کی تعیین کرتے ہیں مثلاً قسم کھائی کہ تجھے مسجد میں گالی نہ دوں گا، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ میں جس وقت مسجد میں ہوں گا تجھے گالی نہ دوں گا ولہذا اگر وہ شخص مسجد میں ہوا اور اس نے باہر سے گالی دی حانث نہ ہوگا، اور اگر قسم کھائی کہ تجھے مسجد میں نہ ماروں گا تو اس کے یہ معنی کہ جب تو مسجد میں ہوگا تجھے نہ ماروں گا ولہذا اگر وہ شخص بیرون مسجد ہے اور اس نے مسجد میں سے اسے مارا قسم نہ ٹوٹے گی۔
اشباہ میں ہے:
قال ان شتمتہ فی المسجد او رمیت الیہ فشرط حنثہ کون الفاعل فیہ وان ضربتہ او جرحتہ او قتلتہ اورمیتہ کون المحل فیہ۱؎۔
اگر کسی نے کہا میں اسے مسجد میں گالی دوں یا مسجد سے اسے تیرماروں، اس کی قسم ٹوٹنے کی شرط یہ ہے کہ فاعل مسجد میں ہو، اور اگر کہا میں اس کو ضرب لگاؤں یا زخمی کروں یا قتل کروں یا تیر ماروں تو پھر شرط یہ ہے کہ مفعول مسجد میں ہو۔(ت)
(۱؎ الاشباہ والنظائر     الفن الثانی کتاب الایمان ادارۃ القرآن کراچی    ۱/ ۲۷۷)
ظہورن بیگم وفاطمہ بیگم کے بیا ن  میں احتمال اول مقصود ہے اور کلن خاں کے بیان میں دوم، ولہذا اس نے دالان ودروازہ کا فاصلہ بتایا کہ تین چار ہی گز ہے جس کے سبب بگابیگم نے دالان میں سے جو بات کی میں نے دروازے میں سنی۔ یہ تو حق تحقیق ہے اور بالفرض اس سے قطع نظر بھی کیجئے اور دونوں کلام میں طرف کوبگابیگم ہی کے واسطے قرار دیجئے تاہم وہ دونوں بیان بداہۃً بگابیگم کے دو کلاموں کے حکایت ہیں ایک میں کلن خان مخاطب تھا کہ تم کو گواہی دینا ہوگی دوسرے میں اور لوگ کہ تم سب اور کلن خاں کو گواہی دینی ہوگی وہ کلن خان سے کہا تھا یہ اس کے جانے کے بعد تو ایک کا دروازہ دوسرے کا دالان میں ہونا کیا محال ہے نہ ہر گز شرط شاہد ہے کہ اس تمام جلسے میں جس سے جو بات اصل امر سے زائد بھی کہی جائے اس سب کو اس کا علم محیط اور اس کے حفظ میں حاضر ہو، یہیں سے سلام علیک کہنے نہ کہنے کا جواب ظاہر، معہذاممکن کہ تفضل حسین خان جب دروازے پر مدعا علیہ کو بلانے گیا اس نے اس سے سلام علیک نہ کی پھر یہ اس کے بعدمکان میں آیا اس نے سلام علیک کرتے نہ دیکھا اپنے عدم علم کی بناء پر نفی کی اور غلام محی الدین نے دیکھا لہذ ا اپنے علم کی بناء پر اثبات، ظہورن بیگم و فاطمہ بیگم و تفضل حسین خاں و غلام محی الدین خاں کے بیان میں جو مکالمہ زن و شو کے حکایا ت ہیں ان کاحاصل کہیں مختلف و متنافی نہیں اسے اختلاف بتانے کے رد میں وہی تین آیتیں کہ ابھی تلاوت کی گئیں اور قرآن عظیم کے عامہ قصص اور تمام منقولہ بالمعنی و بزیادت و نقص رواۃ جن کے تو دہ تو دہ نظائر صحیح بخاری کے اور ابواب اور صحیح مسلم کے ایک ہی سیاق میں مل سکتے ہیں کافی ووافی۔ کوئی عاقل اسے اختلاف نہیں کہہ سکتا۔ رہا غلام ناصر خان و غلا م محی الدین خاں کا اختلاف،ممکن کہ واقع میں غلام ناصر خاں پہلے چلا گیا ہو غلام محی الدین خاں نے اسے جاتے نہ دیکھا استصحاباً کہا وہیں چھوڑآیا۔

ثانیاً بالفرض اگر یہ سب اختلاف مسلم بھی ہوں تو زائد و فضول و لغو و بیکار باتوں میں تفاوت اصلاً لائق التفات نہیں بگابیگم کو تفضل حسین خان نے پرورش کیا یا اس کی زوجہ نے مدعا علیہ نے طلاق دینے میں ''اے بگا'' کہا، یا بے ندا اس سے خطاب کیا، اس نے امراؤ بیگم وغیرہا سے سلام علیک کی یا نہ کی، غلام محی الدین خاں پہلے اٹھ گیا یا غلام ناصر خاں، بگا بیگم نے کلن خاں سے دروازے میں کچھ کہا یا نہیں، بجواب عباس علی خاں جب تک ضامن نہ آئیں، جانے سے انکار ان لفظوں سے اداکیایا ا ن سے ان میں کون سی بات کی نفی یا اثبات طلاق دینے نہ دینے سے تعلق یا معاملہ پر کچھ اثر رکھتی ہے تو ایسی مہملات پر نظر کے کوئی معنی نہیں۔ 

وجیزامام کردری میں ہے:
التناقض فیما لایحتاج الیہ لایضر، اصلہ فی الجامع الصغیر الخ۱؎۔
غیر ضروری کے متعلق تناقض مضر نہیں، اس کی اصل جامع الصغیر میں ہے الخ(ت)
 (۱؎ فتاٰی بزازیہ علٰی ہامش فتاوٰی ہندیہ     کتاب الشہادات    نورانی کتب خانہ پشاور    ۵/ ۲۵۱)
جا مع الفصولین فصل ۱۱ میں ہے:
القاضی لو سأل الشہود قبل الدعوٰی عن لون الدابۃ فقالوا کذا ثم عند الدعوٰی شھدا بخلاف ذلک اللون تقبل لانہ سأل عما لایکلف الشاھد بیانہ فاستوی ذکرہ وترکہ ویخرج منہ مسائل کثیرۃ ۲؎۔
قاضی نے اگر دعوٰی سے قبل گواہوں سے جانور کا رنگ پوچھا تو انہو ں نے کوئی رنگ بتایا پھر قاضی نے دعوٰی کے موقعہ  پر ان سے سوال کیا تو انہوں نے دوسرا رنگ بتایا یہ شہادت مقبول ہوگی کیونکہ قاضی نے ان سے ایسی چیز کا سوال کیا جس کے بیان کے وہ پابند نہیں تو ایسی چیز کا ذکر کرنا نہ کرنا مساوی ہے اس ضابطہ سے بہت سے مسائل کی تخریج ہوئی ہے۔(ت)
 (۲؎ جامع الفصولین    الفصل الحادی عشر    اسلامی کتب خانہ کراچی    ۱/ ۱۶۰)
خلاصہ وہندیہ میں ہے:
لو سأل القاضی الشہود عن لون الدابۃ وذکر وا ثم شہد واعند الدعوی و ذکر واالصفۃ علی خلافہ تقبل والتناقض فیما لایحتاج الیہ لایضر۱؎۔
اگر قاضی نے گواہوں سے جانو ر کے رنگ کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے کوئی رنگ بتایا پھر دعوٰی کے موقعہ پر انہوں نے کوئی دوسرا رنگ بتایا تو شہادت مقبول ہوگی کیونکہ غیر ضروری چیز میں تناقض مضر نہیں ہے(ت)
 (۱؎ فتاوٰی ہندیہ     کتاب الشہادات    الباب الثالث    نورانی کتب خانہ پشاور    ۳/ ۴۶۰)
خانیہ وبحرالرائق وظہیریہ وعالمگیریہ میں ہے:
لو اختلفافی الثیاب التی کانت علی الطالب والمطلوب اوالمرکب او قال احدھما کان معنا فلان وقال الآخر لم یکن معنا ذکر فی الاصل انہ یجوز لاتبطل ھذہ الشہادۃ ۲؎۔
اگر گواہوں نے طالب، مطلوب یا سواری کے جانور پر کپڑے میں اختلاف کیا یا ایک نے کہا فلاں ہمارے ساتھ تھا اور دوسرے نے کہا وہ ہمارے ساتھ نہ تھا اصل (مبسوط) میں مذکور ہے کہ یہ شہادت جائز ہے اور اسے باطل نہ کہا جائیگا۔(ت)
 (۲؎ بحرالرائق         کتاب الشہادات     باب الاختلاف فی الشہادۃ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ۷/ ۱۱۳)

(فتاوٰی ہندیہ      کتاب الشہادات     الباب الثامن     نورانی کتب خانہ پشاور    ۳/ ۵۰۹)
فتاوٰی قاعدیہ وفتاوٰی انقرویہ میں ہے:
قال الشہادۃ لو خالفت الدعوٰی بزیادۃ لایحتاج الی اثباتھا او بنقصا ن کذٰلک فان ذٰلک لایمنع قبولھا مثالھا لو اشھدا علی اقرارہ بمال فقال لااقر فی یوم کذا والمدعی لم یذکر الیوم او شھداولم یؤرخا والمدعی ارخ، اوشھداانہ اقرفی بلد کذا وقد اطلق المدعی او ذکر المدعی المکان ولم یذکراہ اوذکر المدعی مکانا وھما سمیا غیر ذٰلک المکان، او قال المدعی اقر وھو راکب فرس اولابس عمامۃ، وقالا اقروھو راجل اوراکب حمار او لابس قلنسوۃ واشباہ ذٰلک فانہ لایمنع القبول لان ھذہ الاشیاء لایحتاج الی اثباتھا فذکرھا والسکوت عنہا سواء وکذالووقع مثل ھذا التفاوت بین الشہادتین لایضر۱؎۔
فرمایا اگر شہادت کسی غیر ضروری یا نقصان کی وجہ سے دعوٰی سے مختلف ہوجائے تو گنجائش ہے کہ اس کی قبولیت سے انکار نہ کیا جائے مثلاً گواہوں نے ایک شخص کے اقرار بالمال کی شہادت دیتے ہوئے کہا اس نے فلاں روز اقرار کیا حالانکہ مدعی نے اس دن کا ذکر نہ کیا یا یوں کہ مدعی نے اپنے دعوٰی میں کوئی تاریخ ذکر کی اور گواہوں نے وہ تاریخ نہ ذکر کی یا یہ کہ گواہوں نے کسی شہر کا ذکر کیا حالانکہ مدعی نے کسی شہر کوذکر نہ کیا یا یہ کہ مدعی نے جگہ کاذکر کیااور گواہوں نے وہ جگہ ذکر نہ کی، یا یہ کہ مدعی نے جگہ کا ذکر کیا اور گواہوں نے کسی دوسری جگہ ذکر کیا یا یہ کہ مدعی نے دعوٰی میں کہا کہ گھوڑے پر سواری کی حالت میں اقرار کیا یا عمامہ پہنے ہوئے اقرار کیا اور گواہوں نے پیدل یا گدھے پر سوار ی کی حالت میں یا ٹوپی پہننے کی حالت وغیرہ کا، توان غیر ضروری امور میں اختلاف گواہی کی قبولیت کے لئے مانع نہ ہوگا، کیونکہ یہ چیزیں وہ ہیں جن کا اثبات ضروری نہیں ہے توان کا ذکر اور عدم ذکر مساوی ہے اور یونہی اگر اس قسم کا اختلاف دونوں گواہوں کی شہادت میں ہو تو مضر نہ ہوگا۔(ت)
 (۱؎ فتاوٰی انقرویہ     بحوالہ الفتاوی القاعدیۃ     کتاب الشہادات    دارالاشاعۃ العربیہ قندھار     ۱/ ۹۵۔۳۹۴)
بلکہ علماء تو معاملہ طلاق و عتاق میں نفس الفاظ ایقاع کے اختلاف لسانی کو نظر انداز کرتے ہیں ایک گواہ کہے زید نے اپنی زوجہ سے کہا انت طالق یا غلام سے انت حر، دوسرا کہے طلاق دادمت کہا،یا آزاد ت کردم، یا ایک کہے زید نے اس وقت عربی میں کلام کیا تھا، دوسرا کہے کہ فارسی میں، ان سب صورتوں میں شہادت مقبول ہے اور طلاق وعتاق ثابت، پھر ان بالائی لغویات کا لحاظ یعنی چہ، 

درمختار میں ہے:
شھد احدھما انہ قال لعبدہ انت حر والاٰخر انہ قال آزادی تقبل۲؎۔
اگر ایک نے شہادت دی کہ اس نے اپنے غلام کو ''انت حر'' (عربی) اور دوسرے گواہ نے کہا کہ اس نے غلام کو فارسی میں آزاد کہا گواہی قبول ہوگی۔(ت)
(۲؎ درمختار    کتاب الوقف    فصل فیما یتعلق بوقف الاولادمجتبائی دہلی   ۱/ ۳۹۸)
بحرالرائق میں ہے:
شھد احدھما انہ اعتق بالعربی والاٰخر بالفارسی تقبل۳؎۔
ایک نے شہادت دی کہ اس نے غلام آزاد کرتے ہوئے عربی میں اور دوسرے نے شہادت میں کہا کہ اس نے فارسی میں کہا، شہادت مقبول ہوگی(ت)
 (۳؎ البحرالرائق     کتاب الشہادات     باب الاختلاف الخ    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۷/ ۱۱۔۱۱۰)
اشباہ میں ہے:
شھد احد ھما انہ اعتقہ بالعربیۃ والاٰخر بالفارسیۃ تقبل بخلاف الطلاق والاصح القبول فیہما۱؎۔
ایک نے شہادت دی کہ اس نے عربی میں، اور دوسرے نے شہادت دی کہ اس نے فارسی میں آزاد کہا، مقبول ہوگی بخلاف طلاق کے، لیکن صحیح یہ ہے کہ عتاق وطلاق دونوں میں مقبول ہے۔(ت)
 (۱؎ الاشباہ والنظائر     کتاب الدعوٰی والشہادات    ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی    ۱/ ۳۴۵)
Flag Counter