Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
130 - 151
رابعاً وباﷲ التوفیق، نظر تدقیق میں تحقیق یہ ہے کہ علمائے متاخرین بھی مطلقاً رنجش کو مسقط شہادت نہیں کہتے جب تک اس حد تک نہ پہنچے کہ قلب و عقل ایمانی پر مستولی ہو کر عدالت انسان عادل پر غالب آجائے جس کے باعث بانکہ اس کی عدالت ثابت، یہاں جھوٹی گواہی دینے کا مظنہ پیدا ہو ا اور اس شخص کے معاملہ خاص میں اس کے صدق و عدالت پر اطمینان نہ رہے، ان کی تعلیلات اس معنی پر شاہد عدل ہیں، خود فیصلہ میں امام عینی سے نقل کیا:
لایؤمن من التقول علیہ(عہ) ۔
جھوٹ والے پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا (ت)
عہ:  یہ عبارت اندازہ سے بنائی گئی۔
اسی طرح بحرالرائق ودرمختار وغیرہما میں ہے اور اب یہ مذہب منصوص سے چنداں  بعید نہیں وہاں فسق حاضر و ظاہر پر بنائے کار ہے یہاں فسق مظنون و خفی و ارتفاع امان پر، اور اس کی نظیر اس کی ضد یعنی محبت ہے کہ وہ بھی جب اس درجہ تک بالغ ہو کہ یہ اس کے معاملہ میں متہم ہوجائے تو اس کے نفع میں اس کا قول مقبول نہیں اصل محبت بالاجماع مانع شہادت نہیں
کما سیأتی
 (جیسا کہ آگے آئے گا۔ت) یونہی اصل عداوت تو حاصل حکم یہ ٹھہرا کہ اگر عداوت نے بالفعل فاسق کردیا تو بالاتفاق اس کی شہادت اس دشمن اور اس کے غیر سب کے معاملہ میں مطلقاً مردود، اور اگر اس مرتبہ قوت پر ہے کہ گوفی الحال مرتکب فسق نہ ہوامگر اس کے معاملہ میں عداوت کا پلہ عدالت پر غالب ہے تو غیرعدو کے بارے میں بالا تفاق مسموع، اور خاص عدو کے ضرر پر اختیار، متاخرین میں نامقبول، اور اگر ایسا نہیں تو مطلقاً اتفاقاً مقبول۔
ھذاھو التحقیق الذی یعطیہ کلامھم و یشدہ الدلیل فعلیہ فلیکن التعویل۔
تحقیق یہی ہے جوان کے کلام سے حاصل ہوئی اور دلیل اس کی تائید کرتی ہے اس پر اعتمادچاہئے۔(ت)
تو عند التحقیق مجرد اس اظہار تفضل حسین خاں سے عداوت بالغہ مان لینا کسی قول پر صحیح نہیں جب تک اس کی ترجیح جانب عدالت پر ثابت نہ کی جائے
ھکذا ینبغی التحقیق واﷲ ولی التوفیق
 (تحقیق یوں چاہئے اور اﷲ تعالٰی ہی توفیق کا مالک ہے۔ت)
 (طرفداری) غلام ناصر خاں کاکہنا جو کچھ کوشش اور پیروی ہوسکے گی کروں گا اگر اس بناء پر مانع قبول مانئے کہ جو کسی کام میں کوشش وپیروی کرے مطلقا مردود و مثل نفس مخاصم ہے تو بداہۃً باطل کہ اس میں سرے سے شہادت کا دروازہ ہی بند ہوتا ہے نفس شہادت ہی مشہودلہ کیلئے کوشش اور اس کے کام کی پیروی ہے کما تشھد بہ اللام فی شھد لہ (جیسا کہ ''شھد لہ'' کالام اس کی گواہی دیتا ہے۔ت) اور  اگر اس بناء پر کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ خواہ مدعیہ حق پر ہو یا باطل پر، ہر طرح میں اسی کا ساتھ دوں گا،توکلام میں ہرگز اس کا ذکر نہیں اور از پیش خویش معنی فاسد پر حمل کرکے جو اعتراض ہو وہ اپنے حمل پر ہے نہ کہ اصل قول پر، کیوں نہ کہئے کہ ہوسکنے سے اس کے کلا م میں امکان شرعی مراد،
حضور پر نور سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
من استطاع منکم ان ینفع اخاہ فلینفعہ ۱؎۔ رواہ الامام احمد ومسلم فی صحیحہ عن جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ تعالٰی عنہما۔
تم میں سے جس سے ہوسکے کہ اپنے بھائی کو نفع دے تو دینا چاہئے( اسے امام احمد و مسلم نے اپنی صحیح میں جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے روایت کیا۔ت)
(۱؎ صحیح مسلم     کتاب السلام     باب استحباب الرقیۃ الخ        قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲/ ۲۲۴)
جو معنی ''ہوسکنے'' کے یہاں ہیں وہی وہاں۔ لفظ طرفداری کلام غلام ناصر خان میں ہے بھی نہیں، کلام غلام محی الدین خاں میں ہے، عند الانصاف وہ بھی اسی قیاس پر ہے اس نے ہر گز نہ کہا کہ مدعیہ حق پر ہو یا ناحق پر،میں ہر طرح اس کا طرفدار ہوں گا، اور امر حق میں طرفداری نہ ممنوع نہ مانع قبول، ورنہ وہی سدباب شہادت لازم آئے۔ علماء جو مخاصم مقدمہ کی شہادت نامقبول بتاتے ہیں جسے مجوز فیصلہ نے ایک روایت محض بیگانہ پر محول کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ خود فریق مقدمہ ہو جیسے شریک یا وکیل یا نابالغ کا وصی، نہ یہ کہ مطلقاً معین کو مخاصم و فریق مقدمہ بنادیجئے، 

بدائع پھر ردالمحتار میں ہے:
شرط ادائھا ان لایکون خصما فلاتقبل شہادۃ الوصی للیتیم والوکیل لموکلہ۱؎۔
شہادت اداکرنے کی شرط یہ ہے کہ اس معاملہ میں گواہ کی مخاصمت نہ ہو، تو وصی کی یتیم کے حق میں اور وکیل کی موکل کے حق میں شہادت مقبول نہ ہوگی۔(ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الشہادات داراحیاء التراث العربی بیروت  ۴/ ۳۷۰)
شرح وہبانیہ للمصنف ولسان الحکام و بحرالرائق میں ہے:
لو خاصم الشخص آخر فی حق لاتقبل شہادتہ علیہ فی ذٰلک الحق کالوکیل لاتقبل شہادتہ فیما ھو وکیل فیہ، والوصی لاتقبل شہادتہ فیما ھو وصی فیہ والشریک لا تقبل شہادتہ فیما ھو شریک فیہ ونحو ذٰلک۲؎۔
اگر کوئی کسی حق میں دوسرے سے مخاصم ہے تو اس حق میں ایک دوسرے کے خلاف شہادت مقبول نہ ہوگی، جیسا کہ وکیل کی شہادت اس کی وکالت والے معاملہ میں اور وصی کی جس معاملہ میں وہ وصی ہے اور شریک کی جس میں اس کی شرکت ہے، قبول نہ ہوگی۔(ت)
 (۲؎ لسان الحکام     الفصل الثالث    مصطفی البابی مصر    ص۲۴۴)
ہر ذی عقل جانتا ہے کہ ایک دوست خالص اپنے سچے دلی دوست کا ضرور طرفدار ہوتا ہے خصوصاً حقیقی بھائی پھر باتفاق علما دوست وبرادر کی شہادت یقینا مقبول ومسموع ہے جب تک دوستی اس حد کو نہ پہنچے کہ ایک دوسرے کے مال میں نہ صرف زبانی بلکہ واقعی اپنے مال کی طرح جو چاہے بے تکلف تصرف کرے۔

معین الحکام وفتاوٰی تمرتاشی و درمختار میں ہے:
اما الصدیق لصدیقہ فتقبل الااذاکانت الصداقۃ متناھیۃ بحیث یتصرف کل فی مال الآخر۳؎۔
لیکن دوست کی دوست کے حق میں شہادت مقبول ہوگی بشرطیکہ وہ دوستی انتہائی جس میں وہ ایک دوسرے کے مال میں بلا اجازت تصرف کرتے ہوں، نہ ہو۔(ت)
 (۳؎ درمختار کتاب الشہادات باب القبول وعدمہ  مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۹۳)
کنز وغیرہ عامہ متون میں ہے:
تقبل لاخیہ وعمہ و ابویہ رضاعا و ام امرأتہ وبنتھا وزوج بنتہ و امرأۃ ابنہ وابیہ۱؎۔
بھائی، چچا،والدین رضاعی، بیوی کی ماں، بیوی کی پہلی خاوند سے بیٹی، داماد، والد کی بیوی اور والد کے بیٹے(علاتی بھائی) کے حق میں شہادت مقبول ہوگی۔(ت)
 (۱؎ کنز الدقائق     کتاب الشہادات    باب القبول وعدمہ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص۲۶۰)
علماء تصریح فرماتے ہیں کہ اگر گواہی مقدمہ میں مدعاعلیہ سے لڑیں جھگڑیں شہادت کو ضرر نہیں جبکہ عادل ہوں اس سے زیادہ اور کیا طرف داری ہوگی۔ 

خزانۃ الفتاوٰی وبحرائق ودرمختار میں ہے:
تخاصم الشہود والمدعی علیہ تقبل لوعدولا۲؎۔
مدعی علیہ اور گواہوں کی مخاصمت ہوتو گواہی مقبول ہے بشرطیکہ گواہ عادل ہوں۔(ت)
 (۲؎ بحرالرائق     کتاب الشہادات     باب  من تقبل شہادتہ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۷/ ۹۳)

(درمختار     کتاب الشہادات     باب القبول وعدمہ     مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۹۳)
تنبیہ: مسئلہ برادر تمام متون وعامہ شروح و فتاوٰی میں یونہی اطلاق وارسال پر ہے قنیہ میں اسے اس قید سے مقید کیاکہ ایسا نہ ہو کہ مقدمہ نے بہت طول کھینچا اور یہ بھائی اپنے بھائی کی حمایت میں برسوں سے اس مقدمہ کی پیروی وکو شش ومخاصمہ و کاوش میں رہا، اب اگر اس مقدمہ میں بھائی کیلئے گواہی دے گا مقبول نہ ہوگی کہ اس ممتد کارروائی نے گویا اسے مثل مخاصم کردیا، علامہ ابن وہبان نے نظم الفرائد میں اسے بلفظ قیل نقل کیا اور شرح میں قیاساً فرمایا کہ باقی اقارب واجانب کا بھی یہی حکم ہو جبکہ برسوں پیروی مقدمہ کرچکے ہوں۔
بحر الرائق میں ہے:
فی القنیۃ امتدت الخصومۃ سنین ومع المدعی اخ وابن عم یخاصمان لہ مع المدعی علیہ ثم شھدا لہ فی ھذہ الخصومۃ بعد ھذہ الخصومات لاتقبل شہادتھما اھ وذکر ابن وھبان وقیاس ذٰلک ان یطرد ذٰلک فی کل قرابۃ وصاحب تردد مع قرابتہ او صاحبہ الی المدعی فی الخصومۃ سنین ویخاصم لہ ومعہ علی المدعی ثم یشھد لہ بعد ذلک فانہ ینبغی ان لاتقبل والفقہ فیہ انہ لماطال التردد مع المخاصم والمخاصمۃ لہ مع المدعی علیہ صار بمنزلۃ الخصم للمدعی علیہ اھ اھ ۱؎۔
قنیہ میں ہے کئی سال تک مدعوی کی حمایت میں اس کا بھائی چچا زاد، مدعٰی کے خلاف مخاصمت میں شریک ہیں پھر وہ بھائی اور چچا زاد اسی مخاصمت کے مقدمہ میں مدعی کے حق میں گواہی دیں تویہ شہادت مقبول نہ ہوگی اھ، ابن وہبان نے ذکر کیا ہے کہ یہ قاعدہ ہر قرابت میں جاری ہوگا اور اپنے قریبی کے تردد اور مدعی کی مصاحبت میں کوئی سال سے شامل ہے اور مدعی کے حق میں مدعی کے ساتھ مدعا علیہ کے خلاف مخاصمت کر رہا ہے پھر وہ مدعی کے حق میں اس تردد اور مخاصمت میں گواہی دے تو اسے قبول کرنا مناسب نہیں اور اس میں نکتہ یہ ہے کہ جب مدعی کے حق میں مدعی علیہ کے خلاف طویل مدت شریک رہا تو وہ گویا خودمدعی علیہ کے خلا ف مخاصم بن گیا اھ۔(ت)
(۱؎ بحر الرائق    کتاب الشہادات    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ۷/ ۹۳)
وہبانیہ میں ہے:؎
وقد قیل لابن العم والاخ لم یجز   	اذا خاصما معہ سنینا واخروا۲؎
 (چچا زاد اوربھائی کےمتعلق بیشک یہ کہا گیا ہے کہ جب مدعی کے حق میں کئی سال کے بعد تک وہ مدعا علیہ کے خلاف مخاصم رہے ہوں تو ان کی گواہی مدعی کے حق میں جائز نہیں ہے۔ت)
 (۲؎ الوہبانیۃ)
پر ظاہر کہ یہاں یہ صورت بھی نہیں تو صرف اتنی بات پر شہود کو خصم ٹھہرادنیا محض بے اصل ہے۔
Flag Counter