Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
13 - 151
کتاب القضاء والدعاوی

(قضاء اور دعوٰی کا بیان)
مسئلہ۲۴: ازرام پور    ۱۳/ربیع الاول شریف۱۳۰۶ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ہندہ لاولد فوت ہوئی، بعد وفات ہندہ کے زید اجنبی اپنے آپ کو شوہر ہندہ ظاہر کرتاہے اور ثبوت دعوٰی میں دو مرد اور دو عورتیں پیش کرتا ہے، مردوں کا یہ بیان ہے کہ ہندہ نے جو ہم سے پردہ کرتی تھی پردے کے اندر سے نکاح خواہ کو جو باہر بیٹھا تھا اجازت دی کہ میرا نکاح زید کے ساتھ پڑھادو، مسماۃ مکان کے اندر اور ہم سب لوگ صحن میں باہر بیٹھے تھے، عورتوں کا بیان ہے کہ ہم مسماۃ ہندہ کے قریب بیٹھے تھے مسماۃمتوفیہ نے نکاح کا خود اقرار کیا تھا، اس صورت میں دعوٰی زید کا ثابت ہوا یانہیں ؟بینواتوجروا۔
الجواب

اگر گواہان مذکور کا بیان صرف اسی قدر ہے جو سائل نے تحریر کیا تو وہ شہادتیں محض ناکافی و بیکار ہیں قطع نظر بہت وجوہ خلل ونقصان کے دونوں مردوں کی گواہی اثبات زوجیت سے متعلق ہی نہیں، نہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے سامنے نکاح ہوا نہ یہی بیان کرتے ہیں کہ وہ اس کی زوجہ تھی بلکہ صرف اتنا کہتے ہیں کہ ہندہ نے فلاں کو اپنے نکاح کا وکیل کیا اس سے اگر ثابت ہوگی تو اس کی وکالت، اور وکالت مستلزم وقوع تزویج نہیں  کما لایخفی (جیسا کہ پوشیدہ نہیں۔ت) 

تو دعوائے مدعی وبیان گواہان اصلاً مطابق نہیں، اور قاعدہ کلیہ ہے کہ ایسی شہادت محض مہمل ہوتی ہے۔
فی الفتاوی الہندیۃ والخیریۃ وغیرہما الشہادۃ ان وافقت الدعوٰی قبلت والالا۱؎۔
فتاوٰی ہندیہ وخیریہ وغیرہما میں ہے شہادت جب دعوٰی کے موافق ہو قبول ہے ورنہ نہیں۔(ت)
 (۱؎ فتاوٰی ہندیہ    کتاب الشہادات    الباب السابع فی الاختلاف        نورانی کتب خانہ پشاور    ۳ /۴۹۴)
رہیں دونوں عورتیں ان کا بیان بھی اگر اور وجوہ سے سالم مان لیا جائے تو یوں نامقبول ہے کہ نصاب کامل نہیں تنہا عورتوں کی گواہی ہر گز مثبت نکاح نہیں ہوسکتی،
فی الدرالمختار نصابہا لغیرہا من الحقوق کنکاح رجلان اورجل وامرأتان ولم تقبل شہادۃ اربع بلارجل اھ۲؎ملخصاً، واﷲ تعالٰی اعلم۔
درمختار میں ہے: شہادت کا نصاب حقوق وغیرہ مثلاً نکاح میں دو مرد یا ایک مرداور دو عورتیں، اور مرد کے بغیر چار عورتوں کی شہادت مقبول نہیں اھ ملخصاً واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
(۲؎ درمختار  کتاب الشہادات  مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۹۱)
مسئلہ۲۵: ۱۴ربیع الاول شریف ۱۳۰۶ھ 

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک چھوٹا سا کوچہ غیر نافذہ چند قدم کی مسافت کا جس میں گنتی کے گھرہیں، شارع عام سے مغرب کی طرف جاکر شمال پھر مغرب پھر شمال کو گیا اور سرستہ ہوگیا اس کوچہ کے سرے پر زید کا مکان واقع ہے جس کی شرقی دیوار میں شرق رویہ دروازہ شارع عام کے قریب ہے اور اس کے آگے چند گز کا صحن جس سے اترتے ہی شارع عام کا کنارہ ہے اس مکان کی جنوبی ومغربی دیواریں اس کوچہ غیر نافذہ میں ہیں زید نے دیوار جنوبی میں ایک جدید دروازہ کوچہ سربستہ کی طرف نکالاا ور اس کے آگے خاص اس راستے کی زمین میں ایک سیڑھی دروازہ پر جانے کو بنائی بعض ساکنان کوچہ اس فعل پر ناراض ہیں آیا یہ دروازہ نکالنا اور سیڑھی بنانا اسے جائز تھا یا ناجائز، اور وہ اس فعل سے گنہگار ہوا یا نہیں اور اس نے حق غیر میں ناحق تصرف کرکے ظلم کیا یا نہیں اور اس سیڑھی کا کھودڈالنا اور دروازے کا بند کردینا شرعاً اس پر واجب ہے یانہیں؟ اور ایسے تصرف کے جائز ہونے کے لئے تمام ساکنان کوچہ کی رضامندی چاہئے یا اکثر کی رضاکافی ہے اگرچہ بعض ناراض ہوں۔بینواتوجروا۔
18_1.jpg
الجواب

بیشک صورت مستفسرہ میں زید نے ظلم کیا اور سخت گناہ میں مبتلا ہوا، اس کی جنوبی دیوار سے ختم کوچہ تک جو راستہ گیا ہے وہ صرف ان لوگوں کا حق خاص ہے جو اندر رہتے ہیں زید کا اس میں کچھ دعوٰی نہیں اس کا حق مرور فقط اس کی شرقی دیوار سے اوپر اوپر یعنی شارع عام کی طرف ہے اس کے نیچے یعنی اپنے دروازہ وصحن دروازہ کی حد سے اندر اترکرنیا دروازہ نکالنے کا اسے کوئی استحقاق نہیں۔
فتاوٰی امام قاضیخان میں ہے:
رجل لہ دار فی سکۃ غیر نافذۃ لہا باب ارادان یفتح لہا بابا اٰخر اسفل من بابھا اختلفوافیہ والصحیح انہ لیس لہ ذٰلک۱؎۔
کسی شخص کا بند گلی میں مکان ہو اور اس کا دروازہ بھی اس میں ہو اگر وہ دوسرا دروازہ نچلی طرف کھولنا چاہے تو فقہائے کرام نے اس میں اختلاف کیا اور صحیح یہ ہے کہ اس کو یہ حق نہیں ہے۔(ت)
 (۱؎ فتاوٰی قاضیخان     کتاب الصلح    باب فی الحیطان    نولکشور لکھنؤ    ۳ /۶۱۱)
امام خیرالدین رملی استاد صاحب درمختار اپنے فتاوٰی خیریہ میں یہ عبارت نقل کرکے فرماتے ہیں:
مثلہ فی کثیر من کتب المذہب۲؎
 (بہت سی کتب میں حکم ایسے ہی ہے۔ت)
(۲؎ فتاوٰی خیریہ     کتا ب الدیات    فصل فی الحیطان    دارالمعرفۃ بیروت    ۲ /۲۰۳)
ا سی میں ہے:
ونقل فی التتارخانیۃ عن الفتاوٰی العتابیۃ انہ لیس لہ ذٰلک وعلیہ الفتوی۳؎۔
اور تاتارخانیہ میں فتاوٰی عتابیہ سے منقول ہے کہ اس کو یہ حق نہیں ہے اور اسی پر فتوٰی ہے۔(ت)
 (۳؎فتاوٰی خیریہ     کتا ب الدیات    فصل فی الحیطان    دارالمعرفۃ بیروت    ۲ /۲۰۳)
اسی میں ہے:
المتون علی المنع وھو ظاہر الروایۃ کما صرح بہ فی جامع الفصولین فلیکن المعول علیہ۱؎۔
متون منع پروارد ہیں اور یہی ظاہر روایت ہے جیسا کہ جامع الفصولین میں اس کی تصریح ہے اور اسی پر اعتمادچاہئے۔(ت)
(۱ ؎ فتاوٰی خیریہ     کتاب الدیات    فصل فی الحیطان     دارالمعرفۃ بیروت    ۲/ ۲۰۳)
اور خاص راستے کی زمین میں سیڑھی بنانا اور زیادہ ظلم اشدوگناہ عظیم ہے جب دروازہ نکالنا ناجائز ہوا حالانکہ وہ اپنی دیوار میں ایک عمارت تھی راستے کی زمین اس میں نہ دبتی تھی تو خاص پرائے حق کی زمین میں تعمیر کیونکر حلال ہوسکتی ہے یہاں تک کہ علماء تصریح فرماتے ہیں اگر اس فعل سے اس کوچے والوں کا کوئی حرج بھی نہ ہو جب بھی ناجائز ہے،
ہدایہ میں ہے :
لیس لاحد من اھل الدرب الذی لیس بنافذ ان یشرع کنیفا ولامیزا با الاباذنھم لانھا مملوکۃ لھم ولھذا وجبت الشفعۃ لھم علٰی کل حال فلا یجوز التصرف اضربھم او لم یضر الاباذنھم۲؎۔
بندگلی والوں میں سے کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ بیت الخلاء یا پرنالہ گلی والوں کی مرضی کے بغیر باہر نکالے کیونکہ یہ گلی ان سب  کی مشترکہ ملکیت ہے اسی اشتراک کی بنا پر ان سب کو ہر حال میں شفعہ کا حق ہے لہذا کوئی ضرر رساں تصرف ان کی مرضی کے بغیر وہاں جائز نہیں۔(ت)
(۲؎ الہدایۃ        کتاب الدیات    باب مایحدثہ الرجل فی الطریق    مطبع یوسفی لکھنؤ    ۴/ ۵۹۷)
درمختارمیں ہے:
فی غیرالنافذلایجوز ان یتصرف باحداث مطلقا اضربھم اولا الاباذنھم۳؎۔
بند کوچہ والوں میں سے کسی کو باقیوں کی اجازت کے بغیر ایسا تصرف کرنے کا مطلقاً حق نہیں جوان کے لئے ضرررساں ہو یانہ ہو(ت)
(۳؎ درمختار      کتاب الدیات    باب مایحدثہ الرجل فی الطریق    مطبع مجتبائی دہلی    ۲/ ۲۹۹)
اور اس قسم کا تصرف جائز ہونے کو ایک ایک ساکن کوچہ کی رضامندی درکار ہے اکثر کی رضاہر گز کافی نہیں یہاں تک کہ اگر سو میں ایک بھی ناراض ہے تو ہر گز جواز نہیں حتی کہ اگر سب نے راضی ہو کر اجازت دے دی پھر ان میں ایک نے اپنا مکان بیچ ڈالا تو اب مشتری کو اختیار ہے کہ مزاحمت کرے اور ازالہ کرادے اگرچہ پہلے سب اہل کوچہ راضی ہوچکے تھے،
ردالمحتار میں ہے :
قولہ الاباذنھم ای کلھم حتی المشتری من احدھم بعد الاذن لما فی الخانیۃ رجل احدث بناء او غرفۃ علی سکۃ غیر نافذۃ ورضی بھا اھل السکۃ فجاء رجل من غیر اھلھا واشتری دارا منھا کان للمشتری ان یامر صاحب الغرفۃ برفعھا اھ سائحانی۱؎۔
ماتن کا قول''ان کی اجازت کے بغیر'' یعنی سب کی اجازت حتی کہ اجازت کے بعد اگر کسی نے وہاں مکان خریدا تو اس کی اجازت بھی ضروری ہے، خانیہ میں ہے کسی نے بند کوچہ میں کوئی تعمیر یا کھڑکی بنائی اور کوچہ والوں نے رضامندی ظاہر کردی ہوتو باہر سے آئے ہوئے ایک آدمی نے اس کوچہ میں کوئی مکان خریدا تو خریدار کو اب حق ہے کہ وہ کھڑکی والے کو بند کرنے پر مجبور کرےاھ سائحانی(ت)
 (۱؎ ردالمحتار    کتا ب الدیات     باب مایحدثہ الرجل فی الطریق وغیرہ    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۵ /۳۸۱)
بالجملہ زید پر شرعاً واجب ہے کہ فوراً اس دروازے کو بند کرکے بطور قدیم دیوار کرلے اور سیڑھی کا نام ونشان باقی نہ رکھے ورنہ سخت وعید شدید کا مستحق ہوگا،  صحیح بخاری شریف میں حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے ہے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
من اخذ من الارض شیئا بغیر حقہ خسف بہ یوم القٰیمۃ الی سبع ارضین۲؎۔
جو کسی قدر زمین ناحق لے لے قیامت کے دن زمین کے ساتویں طبقے تک دھنسا دیا جائے گا۔
 (۲؎ صحیح البخاری  ابواب المظالم والقصاص   باب اثم من ظلم شیئا من الارض     قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱ /۳۳۲)
حکم بن حارث سلمی رضی اﷲتعالٰی عنہ کی روایت میں ہے حضور سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
من اخذ من طریق المسلمین شبراجاء یوم القٰیمۃ یحملہ من سبع ارضین۔اخرجہ الضیاء والطبرانی۳؂  باسناد حسن۔
یعنی جو شخص مسلمانوں کے راستے میں سے ایک بالشت بھر دبالے قیامت کے دن وہ زمین وہاں سے لے کر ساتویں طبقے تک اٹھا کر اسکی گردن پر رکھی جائے گی اور اسی طرح خداتعالٰی کے حضور حاضر ہوگا والعیاذ باﷲ تعالٰی(اسے ضیاء اورطبرانی نے اسناد حسن کے ساتھ روایت کیا۔ت)
(۲؎ المعجم الکبیر للطبرانی     حدیث۳۱۷۲    المتکتبۃ الفیصلیۃ بیروت    ۳ /۲۱۵)
زید کو چاہئے من دو من ڈھیلے گردن پر چنواکر دیکھے اگر نہ اٹھ سکیں تو سمجھ لے کہ ساتوں طبقے کا اتنا بڑا ٹکڑا کیونکر اٹھا کر چلاجائے گا۔ اﷲ تعالٰی مسلمانوں کو نیک توفیق عطا فرمائے۔آمین !
واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم
 (اﷲ تعالٰی بڑے علم والا ہے اور اس جل مجدہ کا علم اتم واحکم ہے۔ت)
Flag Counter