Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
129 - 151
الجواب: صورت مستفسرہ میں اگر دو مرد یا ایک مرد دونوں عورتیں ثقہ عادل شرعیہ ہیں اور انہوں نے شہادت بروجہ شرع اد اکی تو دعوٰی طلاق ضرور ثابت ہے اور فیصلہ بحق مدعیہ کرنا واجب، عامہ وجوہ نامقبولی شہادات کہ فیصلہ میں مذکور ہوئیں اصلاً بے اصل و ناقابل قبول ہیں
(جہالت تاریخ) شہود کے چھبیس ستائیس دن کہنے کو جہالت تاریخ قرار دینا اولاً سخت عجب ہے جبکہ صراحۃًتعیین تاریخ ویوم وماہ سب کچھ ان کے کلام میں مذکور۔

ثانیاً روایت منقولہ فیصلہ دعوٰی ملک میں ہے طلاق کا اس پر قیاس باطل و مہجور۔ علماء تصریح فرما تےہیں کہ اگر ایک شاہد نے کہا آج طلاق دی دوسرے نے کہا کل، طلاق ثابت ہے اور شہادت متقبل،

 بحرالرائق واشباہ والنظائر و زواہر الجواہر ودرمختار وغیرہ میں ہے:
 قال احدھما طلقھا الیوم والآخر انہ طلقھا امس یقع الطلاق۱؎۔
ایک گواہ نے کہا اس نے بیوی کو آج طلاق دی ہے دوسرے نے کہا اس نے گزشتہ روز طلاق دی ہے تو طلاق ثابت ہوگی۔(ت)
(۱؎ درمختار کتاب الوقف فصل فیمایتعلق بوقف الاولاد    مطبع مجتبائی دہلی     ۱/ ۳۹۸)
فتاوٰی صغری و فصول عمادی و خزانۃ المفتین و جامع الفصولین و غایۃ البیان و فتاوٰی انقرویہ وردالمحتار آخر الوقف میں ہے:
لو اختلف الشاھدان فی زمان اومکان او انشاء و اقرار او کان ھذاالاختلاف فی قول محض کبیع وطلاق و اقرار و ابراء لایمنع القبول۱؎۔
اگر دونوں گواہوں کا اختلاف زمان، مکان، انشاء اور اقرار میں ہوااور گواہی کا تعلق کلام والے معاملہ سے جیسے بیع، طلاق، اقرار اور بری کرنے سے ہو تو یہ اختلاف گواہی کی قبولیت سے مانع نہ ہوگا۔(ت)
 (۱؎ ردالمحتار    کتاب الوقف    فصل فیما یتعلق بوقف الاولاد     داراحیاء التراث لعربی بیروت    ۳/ ۴۴۴)

(فتاوٰی انقرویۃ     کتاب الشہادات     الفصل الثامن     دارالاشاعۃ العربیہ قندھار افغانستان     ۱/ ۳۹۹)

(جامع الفصولین     الفصل الحادی عشر    اسلامی کتب خانہ کراچی    ۱/ ۱۶۳)
خلاصہ وجامع الفصولین وبحرالرائق وانقرویہ میں ہے:
الاختلاف فی زمان او مکان او انشاء و اقرار فی القول المحض لایمنع قبولھا مطلقا اھ مختصرین ۲؎۔
زمان، مکان یا انشاء واقرار کا محض کلام والے معاملہ میں یہ اختلاف شہادت کی قبولیت کیلئےمانع نہ ہوگا اھ مختصرین(ت)
 (۲؎جامع الفصولین     الفصل الحادی عشر    اسلامی کتب خانہ کراچی    ۱/ ۱۶۴)

(فتاوی انقرویۃ     کتب الشہادات     الفصل الثامن     دارالاشاعۃ العربیہ قندھار افغانستان    ۱/ ۳۹۹)

(بحرالرائق      کتب الشہادات    باب الاختلاف فی الشہادۃ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۷/ ۱۱۳)
کافی و لسان الحکام وبحرالرائق میں ہے:
اذا اختلف الشاھدان فی الزمان او المکان فی البیع والشراء والطلاق والعتاق والوکالۃ والوصیۃ والرھن والدین والقرض والبرائۃ والکفالۃ والحوالۃ والقذف تقبل۳؎۔
بیع شراء، طلاق، عتاق، وکالت، وصیت، رہن، دین، قرض، برائت، کفالہ، حوالہ اور قذف میں جب گواہوں کا اختلاف زمانہ یا مکان میں ہو تو شہادت مقبول ہوگی۔(ت)
 (۳؎بحرالرائق      کتب الشہادات    باب الاختلاف فی الشہادۃ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۷/ ۱۱۳)

 (لسان الحکام     الفصل الثالث فی الشہادات     نوع فی الاختلاف فیہ الشہادۃ     مصطفی البابی مصر    ص۲۴۷)
معین الحکام میں ہے:
لو شھد ابالخلع او الکبیع اوالھبۃ او الصدقۃ اوالرھن او الصلح واخلتفا فی المکان اوالزمان قبلت۱؎۔
اگر گواہی کا تعلق خلع، بیع، ہبہ، صدقہ، رہن یا صلح سے ہو اور دونوں گواہ مکان یا زمان میں اختلاف کریں تو شہادت مقبول ہوگی(ت)
(۱؂ معین الحکام    الباب الثالث عشر     مصطفی البابی مصر    ص۱۰۷)
جامع الفصولین و انقرویہ میں دربارہ اختلاف تاریخ ہے:
الاختلاف فی القول لایمنع۲؎۔
قولی معاملہ میں تاریخ کا اختلاف گواہی کی مقبولیت کےلئے مانع نہیں ہے(ت)
 (۲؎ جامع الفصولین     الفصل الحادی عشر     اسلامی کتب خانہ کراچی    ۱/ ۱۶۴)

(فتاوٰی انقرویۃ کتاب الشہادات    الفصل الثامن     دارالاشاعت العربیہ قندھار افغانستان۱/ ۳۹۹)
 (عداوت دنیویہ) تفضل حسین خاں کا مدعا علیہ سے ترک سلام وکلام اولاً مہاجرت ہے اور مہاجرت و عداوت میں عموم  وخصوص من وجہ، باپ اپنے بیٹے اور بھائی بھائی اور دوست دوست سے کسی بات پر کشیدہ ہوکر ترک سلام وکلام کرتا ہے مگر عداوت نہیں ہوتی ولھا نظائر فی عہد الصحابۃ بل و عہد النبوۃ مع قولہ تعالی رحماء بینھم(اﷲ تعالٰی کے فرمان کہ ''آپس میں رحم کرنے والے ہیں'' کے باوجود صحابہ کرام بلکہ زمانہ نبوت میں اس کے نظائر موجود ہیں۔ت) تو عام کو ایک خاص پر بلادلیل حمل کردینا کیونکرصحیح، 

لاجرم شرح وہبانیہ للمصنف ولا بن الشحنہ والشرنبلالی ولسان الحکام ودرمختار وغیرہا میں ہے:
مثال العداوۃ الدنیویۃ ان یشھد المقذوف علی القاذف والمقطوع علیہ الطریق علی القاطع الطریق والمقتول ولیہ علی القاتل والمجروح علی الجارح وقدیتوھم بعض المفقہۃ والشہود ان کل من خاصم شخصا فی حق یصیر عداوۃ ولیس کذٰلک بل العداوۃ تثبت بنحو ما ذکرت۱؎اھ ملتقطا۔
دنیاوی عداوت کی مثال متہم ہونیوالے کی تہمت لگانے کے خلاف، ڈکیتی سے متاثر ہونیوالے کی ڈاکو کے خلاف، مقتول کے والی کی قاتل کے خلاف، مجروح ہونیوالے  کی جارح کے خلاف شہادت ہے، بعض فقیہ بننے والے اور بعض گواہ لوگوں کا خیال ہے کہ ہر مخاصمت والے کی ایک دوسرے کے خلاف، عداوت قرار پاتی ہے حالانکہ یہ صحیح نہیں بلکہ عداوت کا ثبوت ان صورتوں کے سبب ہوتا ہے جیسے میں نے ذکر کی ہیں اھ ملتقطا(ت)
(۱؎ لسان الحکام     الفصل الثالث    مصطفی البابی مصر    ص۴۴۔۲۴۳)
ثانیاً مہاجرت کو عداوت ہی مانئے تو دنیویہ کا کیاثبوت،۔ مسلمان کے اقوال افعال کو مہما امکن محمل حسن پر اتارنا واجب
کما نطقت بہ الاٰیات والاحادیث
 (جیسا کہ آیات واحادیث نے اسے بیان کیا ہے۔ت) کیا یہ مہاجرت اس بناء پر ناممکن کہ مدعا علیہ نے تین طلاقیں دفعۃً دیں اور یہ شرعاً حرام، تو بوجہ ارتکاب معصیت اس سے مہاجرت کی
فیکون من الدین لا للدنیا وھو لایمنع القبول کما نص الفحول
 (تو وہ دین کے متعلق ہوگی نہ کہ دنیوی، جبکہ یہ مانع نہیں ہے جیساکہ بڑوں نے اس پر نص کی ہے۔ت)
درمختار میں ہے:
تقبل من عدو بسبب الدین لانہا من التدین۲؎۔
دین کے سبب عداوت والے کی شہادت مقبول ہے کیونکہ یہ دین پسندی ہے۔(ت)
 (۲؎ درمختار     کتاب الشہادات    باب القبول وعدمہ     مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۹۵)
ثالثا دنیویہ ہی سہی مگر ہمارے تمام ائمہ کے اصل مذہب منصوص علیہ میں ہر عداوت دنیویہ مطلقا مانع شہادت نہیں جب تک موجب فسق نہ ہو ، منع مطلق امام شافعی کا مذہب ہے نہ کہ ہمارے ائمہ کا اور علماء تصریح فرماتے ہیں کہ وقت اختلاف ترجیح ظاہر الروایۃ کی طرف رجوع واجب
کما فی البحر والدر والخیریۃ وردالمحتار وغیرہا من معتمدات الاسفار
 (جیسا کہ بحر، در، خیریہ، ردالمحتار وغیرہاقابل اعتماد کتب میں ہے۔ت) نہ کہ جہاں روایت وہی ہو وہاں غیر کی طرف کیونکر مصیر،
ردالمحتار میں ہے:
بقی ھنا تحقیق و توفیق وھو انہ ذکر فی القنیۃ ان العداوۃ الدنیویۃ لاتمنع قبول الشہادۃ مالم یفسق بھا وانہ الصحیح وعلیہ الاعتماد وان مافی المحیط والواقعات من ان شہادۃ العدو علی عدوہ لاتقبل اختیار المتاخرین والروایۃ المنصوصۃ تخالفہا وانہ مذہب الشافعی،وقال ابوحنیفۃ رحمہ اﷲ تعالٰی تقبل اذاکان عدلا وفی المبسوط ان کانت دنیویۃ فھذا یوجب فسقہ فلا تقبل شہادتہ اھ ملخصا، والحاصل ان فی المسألۃ قولین معتمدین احدھما عدم قبولھا علی العدو وھذا اختیار المتاخرین وعلیہ صاحب الکنز و الملتقی، ثانیہما انہا تقبل الااذافسق بھا واختارہ ابن وھبان وابن الشحنۃ ۱؎اھ مختصراً۔
یہاں تحقیق اور توفیق باقی ہے وہ یہ کہ قنیہ میں مذکور ہے کہ عداوت دنیوی میں جب تک فاسق نہ ہوجائے اس کی شہادت قبول ہوگی، اور کہاکہ یہ صحیح ہے اور اس پر اعتماد ہے، جبکہ محیط اور واقعات میں یہ بیان ہے کہ دشمنی والے کی ایک دوسرے کے خلاف شہا دت قبول نہ ہوگی یہ متاخرین کامختار ہے حالانکہ منصوص روایت اس کے خلاف ہے، اور کہا کہ یہ امام شافعی کا مسلک ہے، اور امام ابوحنیفہ رحمہ اﷲ تعالٰی نے فرمایا کہ یہ شہادت قبول ہوگی جب وہ عادل ہو، اور مبسوط میں ہے کہ جب دنیوی عداوت ہو تو یہ موجب فسق ہے تو مقبول نہ ہوگی اھ ملخصاً، اور حاصل یہ ہے کہ اس مسئلہ میں دو معتمد قول ہیں، ایک یہ کہ عدالت والوں کی ایک دوسرے کے خلاف شہادت نامقبول ہے اور یہ متاخرین کا مختار ہے اور اسی پر صاحب کنز و ملتقی کا اعتماد ہے، اور دوسرا قول یہ ہے کہ عداوت والوں کی شہادت مقبول ہے تاوقتیکہ وہ فاسق نہ ہوجائیں، اور اس کو ابن وہبان اور ابن شحنہ نے اختیار کیا ہے اھ مختصراً(ت)
(۱؎ ردالمحتار     کتاب القضاء     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴/ ۳۰۱)
کنز الرؤس میں ہے:
شہادۃ العدو علی عدوہ لاتقبل لانہ متھم وقال ابوحنیفۃ تقبل اذا کان عدلا قال استاذ نا وھو الصحیح و علیہ الاعتماد لانہ اذاکان عدلا تقبل شہاد تہ وان کان بینھما عداوۃ بسبب امرالدنیا ۲؎ اھ اثرہ فی البحرہ۔
عداوت والے کی ایک دوسرے کے خلاف شہادت مقبول نہیں کیونکہ وہ محل تہمت ہے، اور امام ابوحنیفہ رحمہ اﷲ تعالٰی نے فرمایا جب عادل ہوں تو مقبول ہے، اور ہمارے استاد نے فرمایا یہی صحیح ہے اور اسی پر اعتماد ہے کیونکہ جب عادل ہو تو اس کی شہادت مقبول ہے اگرچہ ان میں دنیوی عداوت ہو اھ، اور بحر میں اسے نقل کیا ہے(ت)
 (۲؎ بحر الرائق     بحوالہ کنز الرؤس کتاب الشہادات باب من تقبل شہادتہ الخ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۷/ ۸۶)
شرح وہبانیہ و لسان الحکام میں ہے:
شہادۃ العدو علی عدوہ الصحیح انہا تقبل سواء کانت العداوۃ دینیۃ او دنیویۃ فانہا لاتقدح فی العدالۃ ۱؎۔
صحیح یہ ہے کہ عداوت والے کی شہادت مقبول ہے خواہ یہ عداوت دینی ہو یا دنیوی، کیونکہ یہ عدالت کو متاثر نہیں کرتی۔ (ت)
(۱؎ لسان الحکام     الفصل الثالث    مصطفی البابی مصر    ص۲۴۳)
Flag Counter