Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
128 - 151
چہارم یہ کہ معاملہ ہذا اقسام دعاوی حلال وحرام سے ہے ایسے محل پر واجبات سے ہے کہ تاوقتیکہ گواہان ثقات و معتمد سے وقوع طلاق متحقق نہ ہو اوپر بیان مجرد ایسے اشخاص کے حکم تفریق بین الزوجین دینا بجز اس کے کہ اپنی جان کو ماخوذ بہ گناہ کیاجائے کوئی نتیجہ نہیں عدالت کی رائے میں کوئی گواہان میں سے ایسا نہیں کہ جس کی شہادت کے اطمینان پر حکم تفریق بین الزوجین دیا جائے اس لئے کہ غلام ناصر خاں مرد مان گواہی پیشہ سے ہے اکثر مقدمات میں گواہیاں اس کے وقت تلاش موجود نکل سکتی ہیں اور صدہا مخبریان دروغ لوگوں پر کرنا شروع کی تھیں کہ عندالتحقیق سرکار اصل ان کی نہ نکلی گواہی مخبر بوجہ فسق قابل قبول نہیں، تفضل حسین خاں پیشتر ازیں بمقدمہ جعل سازی سزایاب ہوچکا ہے غلام محی الدین خاں عرف ننھے خان اور کلن خاں جن کا حال ہم  کو نہیں معلوم تھا ان کا حال ہم نے خفیہ طور پر بذریعہ آدم معتبر و معتمد خود دریافت کرایا یہ ہر دو گواہ بھی عند الدریافت آدم معتمد ثقات اور مقبول الشہادۃ نہ پائے گئے بناء برروایت شامی کے کہ جوذکر کی جائے گی اور بعض گواہ ان میں سے مستور الحال ہیں اور بعض فاسق ہیں اور گواہی مستور و فاسق کی جب تک تحری صدق نہ ہو اور عدالت ظاہر نہ ہو قابل اعتماد نہیں۔
کما قال فی الدر الفاسق اھلھا فیکون اھلہ لکنہ لایقلد وجوبا ویاثم مقلدہ کقابل شہادتہ بہ یفتی وقیدہ فی القاعدیۃ بما اذا غلب ظنہ صدقہ فلیحفظ، درر۱؎ ومقتضی الدلیل ان لایحل ان یقضی بھا فان قضی جاز و نفذ اھ ومقتضاہ الاثم وظاہر قولہ تعالٰی ان جاءکم فاسق بنبا فتبینوا انہ لایحل قبولھا قبل تعرف حالہ وقولھم بوجوب السوال عن الشاہد سراوعلانیۃ طعن الخصم اولا فی سائر الحقوق علی قولھما المفتی بہ یقتضی الاثم بترکہ لانہ للتعریف عن حالہ حتی لایقبل الفاسق وصرح ابن الکمال بان من قلد فاسقا یاثم واذا قبل القاضی شہادتہ یاثم ۱؎اھ
جیسے درمیں فرمایا کہ فاسق شہادت کا اہل ہے تو وہ قضاء کا اہل ہے لیکن اس کا تقرر نہ کیا جائے یہ لازمی بات ہے اور اس کی تقرری منظور کرنیوالا گنہگار ہوگا جیساکہ اس کی شہادت قبول کرنے والا گنہگار ہے اسی پر فتوٰی ہے، فتاوٰی قاعدیہ میں فاسق کے متعلق اہل قضاء و شہادت ہونے کو اس قید سے مقید کردیا کہ جب تقرر کرنیوالے کو فاسق کے صدق کا گمان ہو، اس کو محفوظ کرلو، درر۔، اور دلیل کا مقتضی یہ ہے کہ فاسق کو فیصلہ دینا حلال نہیں تو اگراس نے کوئی فیصلہ کردیا تو جائز اور نافذ ہوگا اھ، اسکا مقتضٰی یہ ہے کہ گناہ ہوگا، اور ا ﷲ تعالٰی کے ارشاد''اگر فاسق کوئی خبر دے تو اس کی وضاحت طلب کرو'' کا ظاہری تقاضا یہ ہے کہ اس کی شہادت کا قبول کرنا اس کے حال کی تحقیق سے قبل حلال نہیں ہے جبکہ فقہاء کرام کا گواہ کے متعلق فرمانا کہ خفیہ طور پر اور اعلانیہ بھی اس کی تفتیش کی جائے فریق مخالف کا اس پر طعن ہویا نہ ہو خواہ تمام حقوق میں ہو، صاحبین کے مفتی بہ قول کے مطابق تو فقہاء کرام کی اس بات کا تقاضا ہے یہ کام ترک کرنے پر گناہ ہوگا کیونکہ یہ کام گواہ سے متعلق معلومات کےلئے ہے حتی کہ فاسق ہو تو گواہی قبول نہ کی جائیگی اور ابن کمال نے تصریح کی ہے کہ جس نے فاسق کی تقرری کی وہ گناہگار ہوگا اور جب قاضی فاسق کی شہادت قبول کرے گا تو وہ گنہگار ہوگا۔
 (۱؎ درمختار     کتاب القضاء     مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۷۱)

(۱؎ ردالمحتار     کتاب القضاء     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴/ ۲۹۹)
وفی الفتاوی القاعدیۃ ھذا اذا غلب علی ظنہ صدقہ وھو مما یحفظ اھ قلت والظاہر انہ لایاثم ایضا لحصول التبیین المامور بہ فی النص تامل، قال ط فان لم یغلب علی ظن القاضی صدقہ فان غلب کذبہ عندہ او تساویا فلا یقبلھا ای لایصح قبولھا اصلا ھذا ما یعطیہ المقام شامی ۱؎۱۲، ولایقبل قول المستور  فی ظاہر الروایۃوعن ابی حنیفۃ انہ یقبل قولہ فیہا جریا علی مذہبہ یجوز القضاء بہ وفی ظاہر الروایۃ ھو والفاسق سواء حتی یعتبر فیہما اکثر الرای ۱۲ ھدایۃ۲؎، ولھذاجوز ابوحنیفۃ رحمہ اﷲ تعالٰی القضاء بشہادۃ المستور فیما یثبت بشبھات اذالم یطعن الخصم قال ولکن ماذکرہ فی الاستحسان اصح فی زماننا فان الغالب فی اھل الزمان الفسق فلا تعتمد روایۃ المستور مالم یتبین عدالتہ کما لا تعتمد شہادتہ فی القضاء قبل ان یظہر عدالتہ وفی ظاہرا لروایۃ ھووالفاسق سواء حتی یعتبر فیہما ای فی المستور والفاسق اکبر رأی فان کان غالب الرأی صدقھما یقبل قولھما والافلا عینی ۳؎۱۲۔
فتاوٰی قاعدیہ میں ہے یہ جب ہے کہ تقرری اور شہادت قبول کرنے والے نے فاسق کے صدق کا گمان کیا ہو، یہ بات محفوظ رکھنے کے قابل ہے اھ قلت(میں کہتا ہوں) ظاہر یہ ہے کہ گنہگار نہ ہوگا، کیونکہ نص میں بیان کردہ حکم کے مطابق تفتیش ہوچکی ہے، غور کرو۔ ط نے کہا اگر قاضی کو گواہ فاسق کے صدق پر غلبہ ظن نہ ہو خواہ اس کذب پر غلبہ ظن ہو یا اس کا صدق و کذب قاضی کے نزدیک مساوی ہو تو شہادت کو قبول نہ کرے یعنی قبول

کرنا بالکل صحیح نہ ہوگا، یہ مقام کی بحث ہے، شامی، اور مستور الحال کی بات ظاہر روایت کے مطابق قابل قبول نہیں ہے، اور امام ابوحنیفہ رحمہ اﷲ تعالٰی سے مروی ہے کہ اس کی بات قبول ہوگی جیسا کہ امام صاحب رحمہ اﷲ تعالٰی کا مذہب ہے جب شہادت قبول ہوگی تو قضاء بھی جائزہوگی اور جبکہ ظاہر الروایت میں مستور الحال اور فاسق کا حکم مساوی ہے حتی کہ ان دونوں میں رائے کے غلبہ کا اعتبار ہے، ہدایہ۔ اور اس لئے امام ابوحنیفہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے مستور الحال کی قضا کو ایسے معاملات میں جائز قرار دیا ہے جو شبہات کے باوجود مخالف فریق کے طعن نہ کرنے پر ثابت ہوجاتے ہیں، فرمایا، لیکن آپ نے استحسان میں جوفرمایا ہمارے زمانے میں وہ اصح قول ہے کیونکہ اس زمانہ میں فسق غالب ہے تو مستور الحال کا معاملہ جب تک حلف نہ ہوجائے اس پر اعتماد نہ کیا جائے گا جیساکہ قضاء کے معاملہ میں اس کی شہادت پر اعتماد ظہو رعدالت کے بغیر نہیں کیا جاتا ظاہر روایت میں اس کا اور فاسق کا حکم مساوی ہے حتی کہ ان دونوں کے متعلق غلبہ رائے میں ان کا صدق ہو تو ان کی بات مقبول ہوگی، ورنہ نہیں، عینی ۱۲۔(ت)
 (۱؎ ردالمحتار    کتاب القضاء     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴/ ۳۰۰)

(۲؎ الہدایۃ     کتاب الکراہیۃ     فصل فی الاکل والشرب     مطبع یوسفی لکھنؤ     ۴/ ۴۵۲)

(۳؎ البنایۃ    کتاب الکراہیۃ     فصل فی الاکل والشرب    المکتبۃ الامدادیۃ مکۃ المکرمۃ     ۴/ ۲۰۰)
اور جن گواہوں کی نسبت عدالت نے نامقبول شہادت پر وجوہات قائم کئے ہیں اورفاسق اور مستور الحال لکھا ہے بہت تھوڑا زمانہ گزرا ہے کہ عدالت نے ان میں سے اکثر کی گواہی قبول کی ہے اور بعد اس کے کوئی امران سے ایسا سر زد نہیں ہوا ہے کہ جس سے فاسق اور مستور الحال ہوگئے ہوں اور ان کی گواہی پر اعتماد نہ رہا ہو اور بابت تفضل حسین خاں کے لکھا ہے کہ یہ مقدمہ جعل سازی میں سزایاب ہوچکا ہے یہ صحیح نہیں ہے اس واسطے کہ عدالت ماتحت نے اس پر جعل سازی قائم کی تھی حالانکہ وہ بری تھا اسی واسطے وہ مرافعہ میں بری ہوگیا اس کی سند اس کے پاس موجود ہے اورغلام ناصر خاں کوعدالت نے اپنے فیصلہ میں گواہی پیشہ اور مخبر قرار دیا ہے اور اس کو اس سے انکار ہے اورکہتا ہے کہ یہ امر بالکل بے ثبوت ہے اگر عدالت کے پاس کوئی ثبوت ہو بیان کرے۔ اب علمائے دیندار سے استفسار اس امر کا ہے کہ دعوٰی ہندہ کا ثابت ہے یانہیں؟ اور شہادۃ شہود کافی ہے یانہیں؟ اور عدالت نے جو وجوہات نامقبولی شہادت شہود بیان کئے ہیں صحیح ہیں یا نہیں؟بینواتوجروا۔
Flag Counter