Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
127 - 151
مسئلہ ۱۴۱: ازریاست رامپور موٹے کلن کی کنیان   مرسلہ مولوی محمد عنایت اﷲ خان صاحب ۲۰/صفر ۱۳۱۶ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس امر میں کہ ہندہ نے دعوی تفریق از زوجیت بجہت وقوع سہ طلاق مغلظہ بنام عباس (عہ) علی خان نے مجھ کو بتاریخ فلاں بہ دادن سہ طلاق مغلظہ حبالہ نکاح اپنے سے آزاد کیا عباس علی خاں کو دینے طلاق سے ہندہ کے انکار ہے اور کہتا ہے کہ میں بتاریخ مذکورہ شہر میں موجود نہ تھا، ہندہ نے چار مرد مسمیان تفضل حسین خان و غلام ناصرخان وغلام محی الدین خان وکلن خان اور دو عوتیں مسماتان ظہورن بیگم و فاطمہ بیگم بہ ثبوت وقوع طلاق پیش کئے،ان میں سے پانچ نے ہنگام ادائے شہادت بمواجہ خود عباس علی خان کا طلاق دینا عند العدالت بیان کیا اور ایک نے یعنی کلن خان نے ادائے شہادت اقراری کی اور نیز جانب ہندہ سے ہنگام تحقیقات محلہ کے تین شخصوں نے اوپر موجودگی عباس علی خان کے شہر ہذا میں بتاریخ مذکورہ ادائے شہادت کی، عدالت نے دعوٰی ہندہ کو بے اصل اور شہادت شہود کو غیر مقبول قرار دے کر دعوی ہندہ کو نامسموع فرمایا اور وجوہ بے اصلیت دعوے اور نامقبولی شہادت شہود پیش کردہ ہندہ اپنے فیصلہ میں تحریر فرمائیں،
عہ: عباس علی خان بعد الت دیوانی محکمہ ابتدائی میں رجوع کیا اور دعوٰی اپنے میں بصراحت لکھا۔
پہلی وجہ نامقبولی شہادت و شہود کی ان الفاظ پر قائم کی کہ جملہ گواہوں نے بالاتفاق اپنے اظہاروں میں بیان کیا کہ اشہد باﷲ گواہی دیتے ہیں کہ عرصہ چھبیس ستائیس دن کا ہوا کہ خالی کا مہینہ تھا ساتویں تاریخ بدھ کا رو ز تھا آٹھ بجے دن کے تھے کہ عباس علی خان نے اپنی زوجہ کو تین طلاقیں دیں یہ کہ جملہ گواہان رجال و اناث مدعیہ مسموعہ عدالت نے دینا طلاق بمرور چھبیس ستائیس روز لکھایا ہے اور اس قسم کا بیان بیان زمان خواہ بدعوی ہو خواہ بشہادت بوجہ جہالت تاریخ شرعاً بموجب روایت ہذا کے نامقبول ہے،
ادعی بالفارسیۃ دوازدہ درہم وشہد الشہود ان لہذا المدعی علی ہذا المدعی علیہ دوازدہ درہم لاتقبل لمکان الجہالۃ، وکذٰلک اذاادعی دہ دوازدہ درہم، لاتسمع دعواہ وکذلک اذا ذکرت التاریخ فی الدعوی علی ھذا الوجہ بان قال ایں عین ملک من است از دہ دوازدہ سال فانہ لا تسمع دعواہ و کذٰلک اذا ذکر الشہود التاریخ فی شہادتھم کذافی الذخیرۃ، عالمگیریۃ۱؎۔
فارسی میں دس گیارہ درہم کا دعوٰی کیا اور گواہوں نے گواہی دی کہ اس مدعی کے اس مدعی علیہ پر دس بارہ درہم ہیں تو شہادت مقبول نہ ہوگی کیونکہ مجہول ہے اور یوں ہی دس بارہ کا دعوٰی بھی مسموع نہ ہوگا اور یوں ہی اگر دعوٰی میں تاریخ مجہول ذکر کی یوں کہ یہ چیز دس بارہ سال سے میری ملکیت میں ہے تو بھی دعوٰی مسموع نہ ہوگا اور ایسے ہی اگر گواہوں نے اپنی شہادت میں ایسی تاریخ بیان کی تو ان کی شہادت مقبول نہ ہوگی، ذخیرہ میں یونہی ہے۔ عا لمگیریہ (ت)
  (۱؎ فتاوٰی ہندیہ     کتاب الشہادات   الباب الثالث     نورانی کتب خانہ پشاور  ۳/ ۴۶۲)
وجہ دوم عدم مقبولی شہادت تفضل حسین خاں و غلام ناصر خاں و غلام محی الدین خاں پرقائم کی ان الفاظ پر جوان کے اظہاروں سے نقل کئے جاتے ہیں تفضل حسین خاں اپنے اظہاروں میں بیان کرتا ہے اس طلاق دینے کے بعد سے اب تک میری اور عباس علی خاں کی بات چیت نہیں ہے اور نہ سلام علیک بگاڑ ہے نہ میں بات چیت اور سلام علیک مدعا علیہ سے کرتا  ہوں اور مدعا علیہ مجھے دیکھ کر منہ پھیر لیتا ہے۔ غلام ناصر خاں نے اپنے اظہار میں لکھایا ہے کہ مدعیہ کا اگر کسی سے جھگڑا ہو تو مظہر اس میں کوشش و طرفداری کریگا جو عزیز ہوتا ہے وہ طرفداری کرتا ہے مظہر مدعیہ کا عزیز ہے اس واسطے میں بھی طرفداری کروں گا، اس بیان پر عدالت نے یہ وجہ نا مقبولی شہادت شہود قائم کی منجملہ گواہان تفضل حسین خان سے عداوت دنیوی مدعا علیہ ثابت ہے اور اثبات عداوت خود باقرار گواہ ظاہر ہے کہ وہ باظہار خود لکھاتا ہے کہ روز طلاق سے مظہر کا مدعا علیہ سے بگاڑ ہے نہ بات چیت ہے نہ سلام علیک، غلام ناصر خاں، غلام محی الدین خاں پیروکار مقدمہ اور مثل مدعیہ ہیں کہ ان دونوں نے بھی باظہار خود لکھایا ہے کہ اگر مدعیہ سے کسی کا تنازعہ ہو تو ہم کوشش و طرفداری مدعیہ کی کریں گے اور گواہی مخاصم مقدمہ اور عدوی دنیوی شرعاً بموجب روایت ہذا نامقبول ہے:
ولاشہادۃ عدو اذاکانت العداوۃ لاجل الدنیا لان العداوۃ لاجل الدنیا حرام فمن ارتکبہا لایؤمن من التقول علیہ۱؎۱۲عینی۔
دشمن کی شہادت قبول نہ ہوگی جب یہ دشمنی دنیاوی ہو کیونکہ دنیا کی خاطر دشمنی حرام ہے تو جس نے یہ ارتکاب کیا اس کے جھوٹ بولنے کا خطرہ رہتا ہے ۱۲عینی (ت)
(۱؎ البنایۃ فی شرح الہدایۃ)
تیسری وجہ عدم مقبول شہادت شہود یہ قائم کی کہ باہم شہادت شہود میں اختلاف ہیں وہ الفاظ کہ جن میں عدالت نے اختلاف ثابت کیا ہے اظہاروں سے نقل کئے جاتے ہیں کہ تفضل حسین خاں بیان کرتا ہے کہ اس لڑکی کو میں نے پرورش نہیں کیا میری بیوی نے پرورش کیا ہے اور سامان شادی بھی اسی نے دیا ہے، اورغلام ناصرخاں نےکہا کہ تفضل حسین خاں نے پرورش کیا ہے اور سامان شادی بھی اسی نے دیا ہے اور درمیان غلام ناصر خاں و غلام محی الدین خاں یہ اختلاف ہے کہ غلام ناصر خاں اپنے بیان میں لکھاتا ہے کہ پہلی مرتبہ جو طلاق دی تو یوں کہا تھا کہ بگامیں نے تجھ کو طلاق دی، اور غلام محی الدین خاں نے بیان کیا کہ میں نے تجھ کو طلاق دی اس کی طرف نسبت کرکے، اور غلام محی الدین خاں اور تفضل حسین خاں میں یہ اختلاف ہے کہ غلام محی الدین خاں نے بیان کیا کہ مدعا علیہ جو آیا تھا تو امراؤ بیگم زوجہ تفضل حسین خاں کو سلام علیک کی تھی اور سب سے، اور تفضل حسین خاں کہتا ہے کہ نہیں کی تھی، اور بیان کرتا ہے کہ جس وقت مدعا علیہ آیا تھا تو میں دروازہ میں بلانے کو گیا تھا اور درمیان غلام ناصر خاں وغلام محی الدین خاں کے بیان میں یہ فرق ہے کہ غلام ناصر نے بیان کیا ہے کہ میں غلام محی الدین خاں سے پہلے چلا گیا تھا اور غلام محی الدین خاں کہتے ہیں کہ میں نے غلام ناصر خاں کو وہاں ہی چھوڑا تھا، ظہورن بیگم و فاطمہ بیگم وکلن خاں کے بیان میں یہ فرق ہے کہ ہر دو مسماتان  کہتی ہیں کہ عباس علی خاں مدعا علیہ کے جانے کے بعد بگابیگم نے دالان میں سے کہا تھا کہ تم سب اور کلن خاں کو گواہی دینی ہوگی اور دروازہ میں کچھ نہیں کہا تھا اور کلن خاں کہتے ہیں کہ مجھ سے بگا بیگم نے دروازہ میں دالان سے تین چار گز کے فاصلہ پر واقع ہے یہ مضمون کہا تھا کہ کلن خاں تم کو گواہی دینی ہوگی کہ عباس علی خاں نے تم سے بیان کیا ہےکہ میں نے اپنی زوجہ کو تین طلاق دے دی، ظہورن بیگم وفاطمہ بیگم اپنے اظہار میں بیان کرتی ہیں کہ مدعیہ نے بجواب مدعا علیہ کے کہا کہ اب میں نہیں جاؤں گی جب تک کہ وہ لوگ جو پہلے مجھ کو ضمانت کرکے لے گئے تھے نہ آئیں گے، اس پر مدعا علیہ نے کہا کہ تو میری جو رونہ ہوئی ان لوگوں کی ہوئی، پھر طلاق دے دی، اور تفضل حسین خاں لکھاتا ہے کہ مدعا علیہ نے کہا کہ ابھی لے جاؤں گا، بجواب مدعا علیہ نے کہا جو لوگ مجھ کو پہلے ضمانت کرکے لے گئے تھے اگر وہی آئینگے تو میں جاؤنگی، اس پر مدعا علیہ نے کہا کہ میں نے تجھ کو طلاق دی، اور غلام محی الدین خاں لکھاتا ہے کہ مدعا علیہ نے مدعیہ زوجہ اپنی سے کہا کہ میں نے تجھ کو طلاق دی، اور غلام محی الدین خاں لکھاتا ہے کہ مدعا علیہ نے مدعیہ زوجہ اپنی سے کہا میں نے نائن کو اور ڈولی بھی بھیجی تھی تو کیوں نہیں آئی، اس پر بگابیگم نے کہا کہ مجھ کو جانے میں کچھ عذر نہیں ہے مگر جو لوگ مجھ کو پہلے ضمانت کرکے لے گئے تھے وہی آکر لے جائیں گے تو میں جاؤں گی ان سوالات جرح وکلاء مدعا علیہ از گواہان مدعیہ سے اکثر اختلاف بگواہی گواہان مدعیہ اس قسم کے پائے گئے جو باعث بے اصلیت شہادت ونامقبولی عدالت پائے گئے گو یہ اختلافات بحالت ہونے گمان غالب صداقت دعوی وشہادت مانع قبول نہ تھی لیکن چونکہ مقدمہ ہذاحل و حرمت کاہے اور عدالت ایسے محل پر کہ شادی فریقین کو صرف چھ سات ماہ گزرے ہیں کہ وصال میں انفصال سر پر آیا مدعا علیہ باوجود گوارہ نہ ہونے بود و باش سہ چار روزہ مدعیہ بخانہ والدین صرف انکار مدعیہ پر نہ آئی اپنے سے ہنوز بخانہ شوہر طلاق دے کر چلا گیا بہت شبہات واقع ہیں اس بناء پر بمذہب ابی یوسف وہ اختلافات بالضرورۃ اس زمانے میں کہ اکثر مخلوق نے پیشہ ادائے شہادت زور اختیار کرلیا ہے مانع قبول شہادت شہود ہیں بموجب روایت ہذاکے:
اذاارتاب القاضی فی امر الشہود فرق بینھم ولایسعہ غیر ذٰلک و یسألھم ایضا این کان ھذاومتی کان ھذاویکون ھذاالسوال بطریق الاحتیاط وان کان لایجب ھذاعلی الشہود فی الاصل، فاذا فرقھم فان اختلفو افی ذٰلک اختلافا یفسد الشہادۃ ردھا وان کان لایفسدھا لایردھا وان کان یتھمھم فالشہادۃ لانرد بمجرد التھمۃ فی نوادر ابن السماعۃ عن ابی یوسف رحمہ اﷲ تعالٰی قال ابوحنیفۃ اذا اتھمت الشہود فرقت بینھم ولاالتفت الٰی اختلافھم فی لبس الثیاب وعدد من کان معھم من الرجال والنساء ولا الی اختلافات المواضع بعد ان تکون الشہادۃ علی الاقوال وان کان الشہادۃ علی الافعال فالاختلاف فی المواضع اختلاف فی الشہادۃ قال ابویوسف اذا اتھمتھم ورأیت الربیۃ فظننت انھم شھود الزور افرق بینھم واسألھم عن المواضع والثیاب ومن کان معھم فاذا اختلفو افی ذٰلک فھٰذا عندی اختلاف ابطل بہ الشہادۃ کذافی المحیط۱ ؂۱۲۔
جب قاضی کوگواہوں کے متعلق شک ہو تو ان کو علیحدہ علیحدہ کردے اس کے علاوہ قاضی کو اختیار نہیں ہے اور قاضی ہر ایک سے جگہ اور وقت کا سوال کرے کہ واقعہ کب اور کہاں ہوا، یہ سوال بطور احتیاط ہوگا اگرچہ گواہوں پر یہ بیان کرنا لازم نہیں ہے، تو جدا کرنے پر جگہ اور وقت میں دونوں کا بیان ایسا مختلف ہو جس سے شہادت میں فساد ہو تو اس کو رد کردے اور وہ اختلاف ایسا ہو جس سے شہادت فاسد نہ ہوتی ہو تو رد نہ کرے اور اگر گواہوں میں اتفاق پایا جائے تو محض تہمت کی بناء پر رد نہ کرے، ابن السماعۃ کے نوادر میں امام ابویوسف رحمہ اﷲ تعالٰی سے روایت ہے کہ امام ابوحنیفہ رضی اﷲ تعالی عنہ نے فرمایا ہے جب گواہوں پر تہمت پاؤں تو ان میں تفریق کردوں گا اور ایسے اختلاف کی طرف التفات نہ کرونگا کہ ان کا لباس کیا اور ان کے ساتھ کتنے مرد اور عورتیں تھیں اور نہ ہی جگہوں کے اختلاف کی طرف التفات کروں گا بشرطیکہ شہادت اقوال پر ہو اور اگر شہادت افعال پر ہو تو جگہوں کا اختلاف شہادت کا اختلاف قرار پائے گا، امام  ابویوسف رحمہ اﷲ تعالٰی نے فرمایا جب مجھے شک ہو اور میں یہ گمان کروں کہ گواہ جھوٹے ہیں تو میں دونوں کو ایکدوسرے سے جدا کرکے ان سے مواضع اور لباس کے کپڑوں اور واقعہ میں موجود مرد وعورتوں کی تعداد کے متعلق سوال  کروں گا اگر وہ ان امور میں اختلاف کریں تو میرے نزدیک یہ ایسا اختلاف ہو گا جس کی بناء پر میں شہادت کو باطل قرار دوں گا، محیط میں یونہی ہے ۱۲۔(ت)
 (۱؎ فتاوٰی ہندیہ     بحوالہ المحیط     کتاب ادب القضاء     الباب الخامس عشر    نورانی کتب خانہ پشاور    ۳/ ۳۴۵)
Flag Counter