Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
126 - 151
مسئلہ۱۳۹: ازضلع دربھنگہ مقام مدھوبنی محلہ جولاہہ ٹولہ متصل جامع مسجد مرسلہ خاں محمد صاحب ۱۱/محرام الحرام۱۳۳۹ھ

نوری مومن اور اس کے ساتھی نے مسجد میں بیان کیا کہ ہم خاں محمد کے پیچھے نماز نہیں پڑھیں گے کیونکہ اس کی ماں کو اس کے پہلے شوہر نے طلاق نہیں دی تھی کہ اس کے والدنے اس سے نکاح کرلیا چونکہ یہ نکاح صحیح نہ ہوا اس لئے اس کے ماں باپ دونوں زانی اور یہ لوگ ولد الزنا ہوئے اور ولد الزنا کے پیچھے نماز درست نہیں ہے، کئی دفعہ کہنے پر خان محمد نے اس پر پنچایت بٹھائی جس میں چند معزز اشخاص کے سامنے نوری سے ثبوت طلب کیا گیا اور کہا گیا کہ خاں محمد کے والد کو چالیس برس ہوئے اب تک تم لوگ کیوں نہ بولے، اتنے دن تک خان محمد کے پیچھے نماز کیوں پڑھتے رہے، خان محمد اور اس کے بھائی کی شادی خاندان میں کیوں کی؟نوری نے کوئی گواہی پیش نہیں کی بلکہ اقرار کیا کہ ہم نے رنج اور غصہ کی وجہ سے ایسا کہا ہے، ہم سے قصور ہوا، اب ہم خان محمد اور اس کے بھائی کو ولد الزنا نہیں کہیں گے اور برابر ان لوگوں کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔ اب عرض یہ ہے کہ نوری اور اس کے ساتھی کا اگر پنچایت والا بیان صحیح ہے تو وہ لوگ حد قذف کے قابل ہیں یا نہیں، اگر ہیں تو خود ان لوگوں کے پیچھے نماز کا کیا حکم ہے، ان لوگوں کی گواہی ہمیشہ مردود ہوگی یا نہیں، اگر پہلا بیان سچ ہے تو چالیس برس نہ بولنے، خان محمد کے پیچھے نماز پڑھنے اور اسکی شادی بیاہ اپنے خاندان میں کرنے سے نوری اور اس کے ساتھی کس سزا کے مستحق ہیں او کس حکم کے قابل ہیں؟
الجواب : ان لوگوں کا پہلا بیان جھوٹااور سر اسر جھوٹ ہے،
قال اﷲ تعالٰی
اذلم یأ توا بالشھداء فاولٰئک عند اﷲھم الکٰذبونo۱؎.
اﷲ تعالٰی نے فرمایا: جب وہ گواہ پیش نہ کریں تو وہ اﷲ تعالٰی کے ہاں جھوٹے ہیں۔(ت)
(۱؎ القرآن الکریم     ۲۴/ ۱۳)
اور وہ اس بیان کے سبب ضرور حد قذف کے مستحق ہیں۔
قال اﷲتعالٰی
فاجلد وھم ثمانین جلدۃ۲؎۔
اﷲ تعالٰی نے فرمایا: ان کو اسی کوڑے مارو۔(ت)
 (۲؎القرآن الکریم    ۲۴/ ۴)
گواہی کا وہ مردود ہونا کہ
ولاتقبلوالھم شہادۃ ابدا۳؎
 (اور ان کی گواہی کبھی نہ مانو۔ت)
 (۳؎القرآن الکریم  ۲۴/ ۴)
اس حالت میں ہے کہ حد قذف لگ جائے یہاں نہیں ہوسکتا البتہ وہ مردود ہونا حاصل ہے جو جھوٹے کذاب کی گواہی کے لئے ہے جبکہ وہ بار بار یہ جھوٹ بک چکے ہوں۔ عاجز آکر خان محمد نے پنچایت کی ہو یا اس کے سوا اور جھوٹوں کے ساتھ معروف و مشہور ہوں کہ جھوٹ ان کی عادت ہو تو کبھی ان کی گواہی مقبول نہ ہوگی اگرچہ تو بہ کرلیں۔ 

فتاوٰی عالمگیریہ میں ہے:
المعروف بالکذب لاعدالۃ لہ فلا تقبل شہادتہ ابداوان تاب بخلاف من وقع فی الکذب سہوا اوابتلی مرۃ ثم تاب کذافی البدائع۔۱؎
جھوٹ میں مشہور شخص عادل نہیں ہے تو اس کی شہادت کبھی مقبول نہ ہوگی اگرچہ وہ توبہ بھی کرلے بخلاف اس شخص کے جو بھول کر جھوٹ میں مبتلا ہوا یا کبھی ایک مرتبہ جھوٹ بولا ہو پھر توبہ کرلے، تو اس کی شہادت قبول ہوگی، ایسے ہی بدائع میں ہے۔(ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ     کتاب الشہادات    الباب الرابع    الفصل الثانی     نورانی کتب خانہ پشاور    ۳/ ۴۶۸)
ایسے لوگ فاسق معلن ہیں اور فاسق معلن کے پیچھے نما مکروہ تحریمی ہے اور اسے امام بنانا گناہ ہے اور جو نماز اس کے پیچھے پڑھی جائے اس کا پھیرنا واجب ہے ہاں اگر توبہ کرلیں اور ان کا حال صلاح کے ساتھ بدل جائے تو اس وقت ان کے پیچھے نماز میں حرج نہ ہوگا جبکہ باقی شرائط جواز وحلت امامت کے جامع ہوں۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ۱۴۰: ازپبی ضلع پشاور مدرسہ قادریہ محمودیہ واقع مسجد چہل گزی مولوی حمد اﷲ صاحب قادری محمودی ۲/ربیع الآخر۱۳۳۸ھ

کیافرماتے ہین علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے اپنے ماموں عمرو پر اپنے نانا کے متروکہ سے جو عمرو کے قبضے میں ہے اپنی ماں متوفاۃ کے حق میراث کا دعوٰی کیا عمرو جواب دہ ہوا کہ یہ مال ۳۶ برس سے میرے قبضے میں ہے دعوٰی میں تمادی عارض ہے نیز تیری ماں نے اپنا حصہ میراث اپنی حیات میں مجھے ہبہ کردیا تھا جس کے گواہوں میں اب کوئی زندہ نہیں، زید کہتا ہے یہ مال تجارت کا ہے اب تک میرے نانا کانام مندرج کاغذات رہا میں نے اور ما ں نے تمہیں امین جانا اور بنظر تجارت ترقی کا خیال رہا، امید تھی کہ جب داخلخارج ہوگا حصہ مادری میں میرا نام درج کراؤگے ڈیڑھ سال سے تم نے داخلخارج کرایا اور صرف اپنا نام مندرج کرایا لہذا میں مدعی ہوا گواہان مردہ سے ثبوت ہبہ کیسے ہوسکتا ہے، نہ مال مشترک کا ہبہ صحیح نہ میراث میں تمادی مانع۔ نیز تمہارے دعوٰی میں تناقض ہے کہ ہبہ کا بھی ادعا کرتے ہو اور تمادی عذر بھی۔ اس صورت میں زید حق پر ہے یا عمرو؟ عبارات عربی کا اردو ترجمہ فرمادیا جائے۔بینواتوجروا۔
الجواب : زید کا دعوٰی صحیح و مقبول ہے اور عمرو کے عذر باطل و مخذول۔ ہبہ صرف اس کی زبان سے کیسے ثابت ہوسکتا ہے، اموات کو گواہ قرار دینا عجب جہل بے مزہ ہے، ایسی شہادت بس ہو تو جو چاہے۔جس کا مال چاہے چھپن لے کہ تونے یا تیرے باپ نے مجھے ہبہ کردیا یا میرے ہاتھ بیچا اور ثمن پالیا تھابیس پچیس معززین اس کے گواہ تھے جو سب مرچکے، اور بفرض باطل اگر ہبہ ہوتا بھی تو مال مشترک صالح قسمت قبل تقسیم ہبہ کرنا اگرچہ شریک کے لئے ہو محض ناتمام ہے جسے موت واہبہ قبل تسلیم نے باطل کردیا۔

 تنویر الابصار ودرمختار میں ہے:
(لا) تتم بالقبض (فیما یقسم و) (لو) وہبہ(لشریکہ) لعدم تصور القبض الکامل کمافی عامۃ الکتب فکان ھو المذہب۱؎۔
قابل تقسیم چیزکا ہبہ قبضہ کے بعد بھی ناتمام رہتا ہے اگرچہ اپنے شریک کو ہبہ کیا ہو کہ اس میں بلاتقسیم قبضہ کامل متصور ہی نہیں جیسا کہ عام کتب میں تصریح ہے تو یہی مذہب حنفی ہے۔
 (۱؎ درمختا ر    کتاب الہبہ     مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۱۵۹)
اسی میں ہے:
(والمیم موت احد العاقدین) بعد التقسیم فلو قبلہ بطل۔۲؎
موہوب لہ کو قبضہ کا ملہ دینے کے بعد واہب یا موہوب لہ کا مرجانا ہبہ میں رجوع کامانع ہے اور اگر قبضہ کا ملہ سے پہلے ان میں سے کوئی مرجائے گا تو ہبہ سرے سے باطل ہوجائے گا۔
 (۲؎درمختا ر   کتاب الہبہ     باب الرجوع فی الہبہ    مطبع مجتبائی دہلی    ۲/ ۱۶۱)
بلکہ اس کے دعوٰی ہبہ نے اسی کو ضرر دیا اس سے صاف ظاہر ہوا کہ مال کو وہ متروکہ پدر مانتا اور اپنی بہن کا اس میں حق ارث جانتا ہے جب تو اپنے لئے ہبہ از جانب خواہر کا مدعی ہے اور اس صورت میں چھتیس نہیں سو برس گزرجائیں دعوی ساقط نہیں ہوسکتا۔
فتاوٰی خیریہ میں ہے:
سئل فیما اذاادعی زید علی عمرو ومحدودا انہ ملکہ ورثہ عن والدہ فاجابہ المدعی علیہ انی اشتریتہ من والدک وانی ذوید علیہ من مدۃ تزید علی اربعین سنہ وانت مقیم معی فی بلدۃ ساکت من غیر عذر یمنعک عن الدعوی، ھل یکون ذٰلک من باب الاقرار بالتلقی من مورثیہ فیحتاج الی بینۃ تشھد لہ بالشراء ولا ینفعہ کونہ واضعا یدہ علیہ المدۃ المذکورۃ اجاب نعم دعوی ذلک التلقی عن ابی المودع ودعوی تلقی الملک من المورث اقرار بالملک لہ ودعوی الانتقال منہ الیہ فیحتاج المدعی علیہ الی بینۃ وصار المدعی علیہ مدعیا وکل مدع یحتاج الٰی بینۃ ینور بھا دعواہ ولا ینفعہ وضع الید المدۃ المذکورۃ مع الاقرار المذکور لیس من باب ترک الدعوی بل من باب المواخذۃ بالاقرار ومن اقربشیئ لغیرہ اخذباقرارہ ولو کان فی یدہ احقاما کثیرۃ لاتعد وھذامالایتوقف فیہ۱؎۔
سوال ہوا کہ زید نے عمرو پر ایک زمین کا دعوٰی کیا کہ میری ملک ہے باپ کے ترکہ سے میں اس کا وارث ہوں عمرو نے جواب دیا کہ میں نے تیرے باپ سے خرید لی تھی اور چالیس برس سے زائد ہوئے کہ میں اس پر قابض ہوں اور تو ایک شہر میں میرے ساتھ ساکن اور بلاعذر ساکت ہے آیا اس صورت میں کیا عمرو مورث زید سے بذریعہ شر املک حاصل کرنے کا مدعی ہوگا اور اسے اس انتقال پر گواہ دینے ہوں گے اور چالیس برس سے زائد اس کا قبضہ اور زید کا سلوک عمرو کو کچھ نفع نہ دے گا، جواب: فرمایاہاں یہ عمرو کا دعوٰی ہے کہ مجھے دعوٰی ہے کہ مجھے تیرے مورث سے ملی ہے اور ارث زید سے ملنے کا اقرار تو اس کی ملک کی اوپر سے اقرار ہے اور اس کا دعوی کہ بذریعہ انتقال شرعی مجھے ملی تو اب عمرو اس پر گواہ دینے کا محتاج ہے کہ یہ مدعی ہوگیا اور ہر مدعی کو شہادت پیش کرنی لازم ہے جس سے اس کا دعوٰی ثابت ہواور وہ چالیس برس سے زائد کا قبضہ اسے اقرار مذکور کے ساتھ کچھ بھی نافع نہیں، نہ یہ تمادی کے باب سے ہے بلکہ باب اقرار سے کہ ہر مقر اپنے اقرار پر ماخوذ ہے اگرچہ وہ شیئ بے شمار قرنوں جگہوں سے اس کے قبضہ میں ہو، یہ ایسی واضح بات ہے جس میں شبہہ کو دخل نہیں۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
 (۱؎ فتاوٰی خیریہ     کتاب الدعوٰی     دارالمعرفۃ بیروت    ۲/ ۸۰و۸۱)
Flag Counter