مسئلہ۱۳۴ تا۱۳۷: ازدیوی تحصیل گوجر خاں ضلع راولپنڈی مرسلہ میر غلام اول مدرس ۱۳ربیع الاول ۱۳۳۷ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک قاضی قضا کرتا ہے لیکن قضا بالکل ہی واقع کے خلاف ہے قاضی کو یقین دے دیا جاتا ہے کہ آپ کا فیصلہ بالکل خلاف واقع ہے اس میں حق شناسی نہیں ہوئی تو قاضی کہتا ہےکہ جاؤ جی، جوکچھ ہوا ہو، ہو لیا، اب قضا پر قضا نہیں ہوتی نصاب سے زیادہ گواہ نہیں لئے جاسکتے حالانکہ قاضی صرف دو گواہ لیتا ہے اور ایک گواہ کی رائے پر فیصلہ کردیتا ہے چونکہ اس کی دلی منشا بھی اسی فیصلہ پر ہے اور واقعہ یوں ہے ایک آدمی اپنا گاؤں چھوڑ کر دوسرے گاؤں میں جارہتا ہے وہاں جس کے مکان میں رہتا ہے اس کے ساتھ اپنی نابالغہ لڑکی کا عقد شرعی رو برو گواہان کردیتا ہے، شادی نہیں ہوتی یعنی روٹی وغیرہ نہیں کی جاتی اور ڈھول وغیرہ نہیں بجایا جاتا اس کا گھر بار کھالیتا ہے گاؤں کے سب لوگوں کو پتہ ہوجاتا ہے کہ نکاح ہوگیا کچھ عرصہ کے بعد ناچاقی ہوجاتی ہے لڑکی کا خاوند لاہور ملازم ہے اس کی عدم موجودگی میں اس کا گھر چھوڑ کر لڑکی کے والدین لڑکی کو لے کر اپنے اصلی گاؤں میں آجاتے ہیں اور اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ طلاق دلاکر لڑکی کا نکاح دوسری جگہ کردیا جائے لڑکی کا باپ کئی مسلمانوں کو کہتا ہے جو ابھی زندہ ہیں کہ طلاق لے دو وہ اس کے ساتھ لاہور جانے پر تیار ہوتے ہیں بلکہ اسے یقین دلاتے ہیں کہ طلاق لے دیں گے چونکہ جس اصلی گاؤں میں اب لڑکی کے والدین ہیں اس گاؤں کے لوگوں کی مرضی تھی کہ یہ اپنی لڑکی کا نکاح اپنے بھتیجے سے کردے ان کی شہ وغیرہ سے وہ بغیر طلاق لئے نکاح کردینے پر آمادہ ہوجاتا ہے اس گاؤں کے نکاح خوانوں کی مرضی نہیں یہ نکاح پر نکاح ہو، پھر اس حالت میں کہ پہلا نکاح اس نکاح خواں کے لڑکے نے ہی پڑھا تھا جواب فوت ہوگیا ہے اس مجبوری کو دیکھ کر لڑکی کا باپ تیسرے گاؤں کے قاضی کے پاس جاتا ہے کہ شاید اس کے طفیل کام بن جائے خاوند لاہور ہے بغیر اس کے علم کے ایک تیسرا آدمی اس بات کو سن کر اس قاضی کے پاس جاتا ہے کہ یہ آگے نکاح ہوا ہوا ہے قاضی نے پوچھا کہ کوئی گواہ موجود ہیں جواب ملا کہ گو نکاح خواں اور چند گواہ مرگئے ہیں لیکن پھر بھی کئی گواہ موجود ہیں قاضی نے کہا کہ زیادہ گواہوں کی ضرورت نہیں صرف دو گواہ میرے پاس لے آؤ، اس بیچارے کو پتہ نہ لگا کہ قاضی صرف دو گواہ کیوں مانگتا ہے، اس کی حکمت آگے ظاہر ہوجائے گی کہ منطق پڑھے ہوئے قاضی نے کیوں دو گواہ مانگے، جب دو گواہ قاضی کے پاس آئے تو ان میں سے ایک نے پورے طور پر بیان کیا کہ نکاح ہوا اور ایجاب و قبول ہوا ہے قاضی نے کوئی سوال نہ کیا دوسرے گواہ نے جب ٹھیک طور پر گواہی دینی شروع کی تو قاضی نے جھٹ سوال کیا کہ شادی ہوئی تھی یا ناتا، اس نے کہا ناتا، قاضی جی کی چاندی ہوگئی، وہ چاہتا بھی یہی تھا، یہ سن کر بغیر مزید سوالات فیصلہ دے دیا کہ نکاح ثابت نہیں ہوا شہادت نہیں ہے حالانکہ ناتا کہنے والے نے اسی وقت کہا کہ میری مراد یہ تھی کہ شادی نہیں ہوئی بلکہ ناطہ میں ضرورایجاب و قبول ہوا ہے اس واسطے شادی کی مقابلہ میں میں نے ناتا کہا، مگر قاضی نے باور نہ کیا اور پھر کہا گیا او ربھی کتنے آدمی ہیں جو اس نکاح کے وقت موجود تھے، قاضی نے کہا نصاب ہوچکا ہے اس سے زیادہ گواہ نہیں لینا چاہتا قاضی کے لئے راہ بن گیا فوراً اس گاؤں میں جاکر لڑکی کا نکاح دوسرے آدمی سے کردیا حلوے مانڈے کھا چلتا بنا۔ اس قضا سے مسلمانوں میں عجیب حیرت ہے خاص کراس گاؤں اور گردو نواح کے لوگوں کو جن کو اس نکاح کی خبر تھی ان گواہوں کو جو نکاح میں موجود تھے ان معتبر مسلمانوں کو جن کو لڑکی کابا پ کہتا تھا کہ طلاق دلوادو کہ قاضی جی نے خوب قضا کی خاوند کو خبرہی نہیں دو سو میل پر بیٹھا ہے قاضی بغیر طلاق کے اس عورت کا نکاح دوسرے آدمی سے پڑھ دیتا ہے، عجب عجب عجب، پتہ کے گاؤں کے لفظ ناطہ ایک ایسا مل گیا ہے جو سب باتوں کو رد کردیتا ہے اس بات پر غور کرنے نہیں دیتا کہ اگرمعاملہ صاف ہوتا تو طرفین کے آدمی میرے پاس کیوں آتے کیا میرے بغیر اس گاؤں میں نکاح کوئی نہیں پڑھ سکتا، جب گواہ پیش کرنے کو کہا جاتا ہے تو قاضی کہتا ہے کہ نصاب پورا ہوگیا، جب شریعت کی طرف رجوع کرنے کو کہا جاتا ہے تو یہ کہہ کر چپ کردیا جاتا ہے کہ قضا پر قضا نہیں ہوتی لیکن یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ دو گواہوں میں سے ناطہ کہنے والے کو کیوں سچا سمجھا جاتا ہے اور دوسرے کو جھوٹا اور کیوں قاضی نے بغیر مزید تحقیقات نکاح پر نکاح پڑھ دیا۔ قاضی کے اس مسئلہ نے تمام عورت والوں کو ڈرا دیا ہے جس کا جی چاہے خاوند کی عدم موجود گی میں دو گواہ پیش کردے جن میں سے ایک کہہ دے کہ اس عورت کا نکاح نہیں ہو ا پس عورت کے ساتھ قاضی جی سے نکاح پڑھوالے اور عورت والا بیچارہ منہ دیکھتا کا دیکھتا رہ جائے۔ جناب من!اب خوب تحقیق کرکے جواب سے سرفراز فرمادیں کیونکہ قاضی جی کی اس قضاء سے اس علاقے کے مسلمانوں میں عجیب ہلچل اور کھلبلی پڑی ہوئی ہے اور حیران ہیں کہ جیتے خاوندکی عورت بلا طلاق کیونکر دوسرے مرد پر حلال ہوگئی، اگر یہ تمام باتیں درست ہیں تو مہر بانی فرماکر فتوٰی دیں: