Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
124 - 151
مسئلہ۱۳۳: ازعلی گڑھ مدرسۃ العلوم مرسلہ مولوی عبداﷲ صاحب ناظم دینیات ومحمد نصرت شیر خان محرر دینیات ۱۹/ ربیع الاول شریف ۱۳۳۷ھ 

کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید کی والدہ محترمہ کی مالک میں ایک کھیت تھا اس کا فروخت کردیا اس کے روپے سے ایک مکان خرید نے کاارادہ کیا جب مکان تجویز ہوگیا اور قیمت کامعاملہ بائع سے طے ہوگیا اس وقت زید نے اپنی والدہ سے دریافت کیا کہ اس مکان کا بیعنامہ آپ کے نام کرادوں یا جس کے نام ارشاد فرمائیں زید کی والدہ کے بجز زید کے اور کوئی فرزند ودختر نہ تھی اس وجہ سے زید کی والدہ نے فرمایا کہ تو ہی اپنے نام کرالے چنانچہ زید نے بموجب حکم اپنی والدہ کے اپنے نام مکان کابیعنامہ کرالیا اور اس بیعنامہ کو عرصہ چالیس سال کا تخمیناً ہواہے اس وقت زید کی زوجہ اولٰی مع بعض اولاد کے موجود تھی اس مکان کے خریدنے کے پہلے اور بعد کو بھی زید نے چند جگہ اپنے خاندان میں کسی عورت سے عقد ثانی کا ارادہ بزمانہ حیات اپنی ولادہ اور زوجہ کے پختہ طور سے کرلیا اور دونوں کوا س کا علم قطعی طور سے ہوا لیکن اس پر بھی زید کی والدہ نے زید سے یہ نہیں فرمایا کہ تو اس مکان کو اپنی زوجہ یا اپنی اولاد کے نام منتقل کردے بلکہ زید کی ماں نے اسی مکان میں سالہاسال تک سکونت فرماکر وفات پائی آخر دم تک کوئی بات اس مکان کی نسبت نہیں فرمائی، زید نے بعد وفات اپنی وجہ اولٰی کے تخمیناً عرصہ بیس سال کا ہوا ایک عورت سے نکاح کرلیا ید اس مکان کو جس کو اس کی والدہ مرحومہ نے زید کے نام کرادیا تھا اسے زوجہ ثانیہ کے مہر میں دینا چاہتا ہے اور ایک دوسرا مکان جو اس مکان کے محاذ میں زید نے خریدا ہے اس کو اپنی زوجہ اولٰی متوفیہ کے اولاد کو تبرعاً دینا چاہتا ہے اس حالت میں زید کی بڑی لڑکی خالدہ یہ دعوی کرتی ہے کہ جس مکان کو آپ مہر میں ہماری مادر صاحبہ کے دینا چاہتے ہیں وہ مکان ہماری والدہ مرحومہ کا اور ہمارا ہے کیونکہ ہماری دادی صاحبہ مرحومہ کی دلی نیت یہ تھی ہماری والدہ صاحبہ اور ہم آپ کے ساتھ اس مکان میں رہیں اور ہماری دادی صاحبہ نے آپ کا نام بیعنامہ میں فرضی طور پر کرادیا تھا۔دوسرا دعوٰی خالدہ کا یہ ہے کہ جب ہیہ مکان خریدا گیا تو صرف اس میں ایک کو ٹھا بہت نیچا تھا اس کو آپ نے اونچا کرایا اور اس کے آگے سہ دری مرتب کرائی اور دروازہ مسقف بنوایا اور باسٹھ گز زمین پچاس روپے کو خرید کر آپ نے اس مکان میں شام کی یہ سب روپیہ آپ نے ہماری والدہ سے لیا اور وہ سب روپیہ ہماری والدہ کا تھا کیونکہ جس قدر وپیہ آپ اپنی چالیس روہے کی تنخواہ میں سے بچا کر مان بماہ ہم کوروانہ کرتے تھے وہ ہماری والدہ کے نان و نفقہ اور ہمارے اخراجات کا تھاعلاوہ بریں ہماری والدہ صاحب مع ہمارے دوسرے تیسرے سال نانی صاحبہ کے گھر جاتی تھیں اور وہاں دو دو مہینے یا تین تین مہینے رہنا ہوتا تھا اور ہمارا سب کا کھانا نانی صاحبہ کے ذمہ ہوتا تھا اس عرصہ میں جس قدر روپیہ ماہواری آپ روانہ کرتے تھے وہ بچتا تھا وہ سب روپیہ ہماری والدی کا اور ہمارا تھا اس کے سوا ہمارے نانا صاحب کے مرید اور شاگرد نانا صاحب کے مکان پر آتے تھے وہ ہماری والدہ صاحبہ یا ہم کو کچھ روپیہ دیتے تھے وہ ہماری والدہ صاحب ہ کا اور ہمار ا ہوتا تھا۔

زید خالدہ کے اول دعوی ملکیت مکان کا یہ جواب دیتا ہے کہ اصل مکان جبکہ میری والدہ مرحومہ نے اپنی ذاتی رضامندی سے میرے نام کرادیا تو اس کے بعد یہ کہنا سراسر فضول ہے کہ ان کی دلی نیت تمہاری ملک میں دینے کی نہ تھی اور آپ کا نام فرض تھا کیونکہ بیع وشراء میں باعتبار شریعت کے دلی نیت کا اعتبار نہیں ہوتا بلکہ ظاہری الفاظ یا تحریر کا اعتبار ہوتا ہے، اور زید خالدہ کے دوسرے دعوٰی ملکیت روپے کا یہ جواب دیتا ہے کہ جو کچھ تمہاری والدہ کے پاس پس انداز روپیہ تھا وہ میری ہی کمائی کا روپیہ تھا اور جس وقت میں نے تمہاری والدہ سے زمین کے خرید نے اور دکان کے مول لینے کو یا مرمت مکان کو یادرمیانی دیوار بنانے کو روپیہ طلب کیا اس مرحومہ نے مجھ سے یہ نہیں کہا کہ اس وقت آپ کا ذاتی روپیہ تو میرے پاس نہیں، ہاں میرا ذاتی روپیہ موجود ہے یا کسی کی امانت میرے پاس رکھی ہے اس وقت آپ لےکر اپنا کام چلالیں بعد کو بتدریج ادا کردیں، اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ روپیہ میری کمائی کا پس اندا ز تھا جو میں نے اس مرحومہ سے لیا۔

دوسرا جواب شرعی طور پر یہ ہے کہ اس مرحومہ نے مرتے دم تک اس روپے کا نسبت کبھی یہ نہیں کہا کہ جو روپیہ آپ نے فلاں فلاں وقت مجھ سے لے کر مکان میں لگایا تھا وہ میراذاتی روپیہ تھا اس کو آپ نے مجھ کو واپس نہیں دیا اب آپ اس روپے کو میری طرف سے کسی مدرسہ اسلامیہ یا مسجد یا کسی اور کار خیر میں لگادیں تاکہ مجھ کو اس کا ثواب پہنچتا رہے، اس سے بھی صاف ظاہرہوتا ہے کہ جو روپیہ میں اس سے لیا میرا ہی مملوک تھا۔ 

اور تیسرا جواب زید کایہ ہےکہ  اگر بفرض محال یہ بھی تسلیم کیا جائے کہ انہوں نے اپنا مملوک ہی روپیہ مجھ کو دیا تھا جب کہ آخریدم تک اس کو مجھ سے طلب نہ کیا اور نہ اس کی نسبت بوقت وفات مجھ کو کچھ وصیت کی تو وہ روپیہ انہوں نے مجھ کو بخش دیا اعنی وہ روپیہ مجھے واپس لینے کی غرض سے نہیں دیا بلکہ اس روپیہ کا مجھ کو مالک بنادیا تھا، پس علمائے دین سے استفسار ہے کہ زید کی خالدہ بیٹی کے دونوں دعوی ازروئے شرع شریف حق ہیں یا زید کے جوابات حق ہیں؟
الجواب: خالدہ کا پہلا دعوٰی محض باطل و نامسموع ہے اعتبار لفظ کا ہے نہ کہ محض نیت کا
فقد نصوا ان العبرۃ بما تلفظ لا بمانوی
 (فقہاء کرام نے تصریح کی ہے کہ لفظ کا اعتبار ہے نیت کا نہیں۔ت)
روپیہ زوجہ کو خرچ کےلئے دیا جاتا ہے اس کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ زن و شو وعیال ایک جگہ رہتے ہیں ایک خرچ ہے شوہر سب آمدنی اسے دے دیتا ہے وہ اپنے اور شوہر اور سب گھر کے مصار ف اس سے اٹھاتی ہے، اس صورت میں وہ روپیہ تمام و کمال ملک شوہر پر رہتا ہے، عورت کا خرچ بھی ملک شوہر پر ہوتا ہے،اسے شرع میں تموین کہتے ہیں، عقد نکاح کا اصل موجب یہی ہے، ظاہرہے کہ اس میں جو کچھ پس انداز ہوگا شوہر کا ہے۔ دوسری صورت یہ کہ زن و شو جدا ہیں شوہر اسے نفقہ بھیجتا ہے یا ایک ہی جگہ ہیں مگر عورت کے خرچ کا اسے جدا دیتا ہے، عام ازیں کہ وقت معین پر مثلاً ماہوار رقم معین مثلاً دس روپے خاص بحکم قاضی خواہ بتراضی، یا تعیین کچھ نہیں وقتاً فوقتاً مختلف مقدار میں اس کے خرچ کے لئے بھیجتا یا اسے دیتا ہے، اس صورت میں جو کچھ اسے دیا وہ ملک زن ہوگیا، اس میں سے جو کچھ بچے گا، خواہ عورت کی جز رسی سے یا یوں کہ وہ مہینوں اپن ی ماں کے یہاں رہی اور مصارف ماں نے کئے بہر حال عورت ہی اس کی مالک ہے۔ 

بحرالرائق وردالمحتار میں ہے:
المفروضۃ اوالمدفوعۃ لھا ملک لہا فلہا الاطعام منھا والتصدق وفی الخانیۃ لو اکلت من مالھا او من المسألۃ لھا الرجوع علیہ بالمفروض۱؎۔
عورت کے لئے مقرر شدہ یا اس کو ادا شدہ کی وہ مالک ہے تو اس میں سے اس کوکھلانے اور صدقہ کرنے کا حق ہے، ور خانیہ میں ہے اگر عورت اپنے مال میں سے کچھ کھائے یا وصول کردہ سے مقرر شدہ کیلئے عورت خاوند سے رجوع کرسکتی ہے۔(ت)
 (۱؎ ردالمحتار     کتاب الطلاق    باب النفقۃ     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۲/ ۶۴۹)

(بحرالرائق      کتاب الطلاق    باب النفقۃ    ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی        ۴/ ۱۷۴)
ظاہر ہےکہ یہاں واقع صورت ثانیہ ہےکہ زید اسےخرچ بھیجاکرتا تھا تو تو چاہئےکہ عورت ہی اس کی مالکہ ہو ،
اقول: مگر یہاں ایک نکتہ اور ہے زن وولد کے نفقہ میں فرق ہے وہ جزائے احتباس ہے اور جبکہ نفقہ اسے دیا گیا اس کی ملک ہوگیا اگر وہ نہ اٹھائے بلکہ دوسری جگہ سے اپنا خرچ چلائے تواس سے واپس نہیں لے سکتا اور اگر اس نے مثلاً مہینے یا سال بھر کا اسے دے دیا اور اس کے پاس سے چوری نہ کریں اپنی حاجت دوسرے طور پر رواکرلیں تو اس مدت کا ان کا نفقہ ذمہ پدر نہیں، اس صورت میں اگر ان کا نفقہ مثلاً کچھ ماہوار بحکم حاکم مقرر ہوا ہو جب بھی آئندہ کے لئے اس سے نہیں لے سکتے جب تک یہ خرچ نہ ہوجائے کہ پہلی حاجت دفع ہوگئی اور اگر اس نے دیا ان کے پاس سے چوری ہوگیا اسے دوبارہ دینا ہوگا کہ حاجت دفع نہ ہوئی تو اس میں سے جو کچھ پس انداز کریں وہ ان کی ملک نہیں  ملکِ پدر ہے کہ معلوم ہوا کہ حاجت سے زائد ہے مگریہ کہ ان کو ہبۃً دے تو البتہ وہ مالک ہوں گے، ذخیرہ پھر بحرالرائق میں ہے :
فرق بین نفقۃ الزوجات وکسوتھن و بین نفقۃ المحارم وکسوتھم، فان فی الاقارب اذا مضی الوقت وبقی شیئ من الدراھم والکسوۃ فان القاضی لایقضی باخری فی الاحوال کلہالانھا باعتبار الحاجۃ فی حقھم، وفی حق المرأۃ معاوضۃ عن الاحتباس ولہذا اذاضاعت النفقۃ او الکسوۃ من ایدیھم یفرض لھم اخری لما ذکرنا ۱؎۔
بیویوں کے لئے نفقہ و لبا س میں اور ذی محرم کیلئے نفقہ اور لباس میں فرق ہے کیونکہ اقارب کے نفقہ و لباس میں سےکچھ باقی ہو اور وقت گزرجائے تو قاضی اس کےعوض کچھ اورکسی حالت میں دینےکا حکم نہیں کرسکتاکیونکہ ان کے لئے یہ خرچہ حاجت کے اعبتار سے ہوتا ہے اور بیویوں کے حق میں ان کو مبحوس رکھے کا معاوضہ ہوتا ہے اس لئے ان کے خرچہ میں سے اگر ان کے پاس ضائع ہوجائے تو قاضی اسکے عوض کےلئے حکم نافذ کرے گا جیسا کہ ہم نے ذکر کردیا ہے۔(ت)
 (۱؎ بحرالرائق     کتاب الطلاق    باب النفقۃ  ایچ ایم سعید کمپنی کراچی   ۴/ ۱۷۸)
ردالمحتار میں ہے :
النفقۃ فی حق القریب بقدر الحاجۃ والکفایۃ وفی حق الزوجۃ معاوضۃ عن الاحتباس ولذالومضی الوقت وبقی منھا شیئ یقضی باخری لھا لالہ وکذا لوضاعت۲؎۔
قریبی کے حق میں نفقہ بقدر حاجت و کفایت ہوتا ہے اور زوجہ کے حق میں پابندی کا معاوضہ ہوتا ہے اس لئے بیوی کے حق میں سے کچھ بقایا ہو تو وقت گزرجانے کے باوجود مزیدادا کرنے کا حکم دے گا اور قریبی کےلئے ایسا نہیں ہے اور یونہی اگر ضائع ہوجائے۔(ت)
(۲؎ ردالمحتار   کتاب الطلاق    باب النفقۃ    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۲/ ۶۷۲)
اسی پر حواشی فقیر غفرلہ میں ہے :
اقول: سبق قلمہ وصوابہ (وبعکسہ لوضاعت) ای یقضی باخری لہ لعدم اندفاع الحاجۃ لالھا لو صول العوض الیہا۳؎۔
اقول: ( میں کہتا ہوں) یہ قلم کی سبقت ہے، ورنہ درست اس کا عکس ہے، اگر ضائع ہوجائے یعنی قریبی کےلئے نفققہ ضائع ہوجائے تو قاضی اس کے لئے مزید کا حکم دے گا کیونکہ اس کی حاجت پورا کرنا ہے، بیوی کے لئے ایسا نہیں کیونکہ وہ عوض کے حقدار ہے جو اسے مل گیا ہے(ت)
(۳؎ جدالممتار علٰی ردالمحتار     کتاب الطلاق    باب النفقۃ)
یہاں سے خالدہ کے اس دعوٰی کا کہ جس قدر بچتا تھا ہمارا اور ہماری والدہ کا تھا اپنی نسبت بطلان تو ظاہر ہوگیا اس کی ماں کی نسبت بھی صحیح نہ رہا۔ سوال سے ظاہر ہے کہ زید تنہا عورت کے نقہ اسے نہ بھیجتا تھا بلکہ مع اولاد، اور اس میں کوئی تفصیل نہ تھی کہ اتنا زوجہ کےلئے اتنا اولاد کے واسطے بلکہ مجملاً بغرض صرف ارسال ہوتا تھا تو اسے عورت کےلئے تملیک نہیں کہہ سکتے کہ علاوہ شیوع مجہول القدر ہے مقصود یقینا یہ ہےکہ جتنا عورت کے صرف میں آئے وہ اٹھائے جتنا بچوں کے خرچ میں آئے ان پر صرف کرے نہ یہ کہ کہ عورت اور ہر بچے کو بحصہ مساوی مالک کیا اور جہالت قدر مبطل ہبہ ہے۔

بحرالرائق میں ہے :
یشترط فی صحۃ المشاع الذی لایحتمل القسمۃ ان یکون قدر امعلوما ۱؎۔
مشاع یعنی جو تقسیم نہ ہوسکے ایسی چیز کی ہبہ کی صحت کے لئے شرط یہ ہے کہ اس کی قدر معلوم ہو۔(ت)
 (۱؎ بحرالرائق     کتاب الہبہ     ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی    ۷/ ۲۸۶)
تو ثابت ہوا کہ وہ بھیجنا بھی تموین ہی تھا نہ کہ تملیک، لہذا جو کچھ بچا ملک زید ہی تھا ھکذاینبغی التحقیق واﷲ تعالٰی ولی التوفیق(تحقیق یوں چاہئے اور اﷲ تعالٰی ہی توفیق کا ولی ہے۔ت) یہاں سے ظاہر ہوا کہ دوسرے دعوٰی خالدہ کے تین جواب جو زیدس نے دئے اگرچہ ان میں دو پچھلے صحیح نہیں، زن وشو کا معاملہ ایسا ہوتا ہے کہ شرف و شرم والیاں اس میں تقاضائے دین پسند نہیں کرتیں تو نہ مانگنا یا وصیت نہ کرنا دلیل تملیک نہیں
ولا ینسب الی ساکت قول
 (خاموش کی طرف بات منسوب نہیں ہوتی۔ت) مگر پہلا جواب کہ وہ میری ہی ملک تھا صحیح ہے، نہ اس طور پر کہ زید نے کہا، بلکہ جس طرح ہم نے تقریر کی۔ رہا خالدہ کا بیان کہ اس کے نانا کے مریدین و تلامذہ اسے اور اس کی ماں کو کچھ دیتے تھے  اس کا ثبوت اس کے ذمہ ہے کہ اس روپے میں سے اس کی ماں نے زید کو دیا اگر بتعین مقدار اسے شہود عدول سے ثابت کردے تو اس کا حاصل اس قدر ہوگا کہ زید اتنے روپے کا مدیون ہے، مکان پر خالدہ وغیرہ کسی کو دعوٰی نہیں پہنچتا کہ روپیہ قرض دیا ہے نہ کہ مکان کا کوئی حصہ مول لیا ہے
والدیون تقضی بامثالہا
 (نقدی دین کی ادائیگی ہم مثل سے ہوتی ہے۔ت)
خیریہ میں ہے :
لایلزم من الشراء من مال الاب ان یکون المبیع للاب۲؎۔
والد کے مال سے خریدی گئی چیز کو یہ لازم ہیں کہ وہ باپ کی ہوجائے۔(ت)
 (۲؎ فتاوٰی خیریہ     کتاب البیوع     دارالمعرفۃ بیروت    ۱/ ۲۱۹)
تعین و مقدار کی ضرورت یہ ہے کہ بے اس کے دعوی مسموع نہیں مثلاً خالدہ کہے اس میں کچھ روپیہ زر نذور کا تھا نہ سنا جائے گا،
ہندیہ میں ہے :
لو کان المدعی بہ مجھولافان القاضی لایسمع دعواہ ھکذا فی النھایۃ۱؎۔
جس چیز کا دعوٰی ہےوہ اگر مجہول ہو تو قاضی اس دعوٰی کو نہ سنے گا، نہایہ میں ایسے ہی ہے۔(ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ    کتاب الدعوٰی     الباب الاول        نورانی کتب خانہ پشاور    ۴/ ۲)
یہ حکم قضا ہے دیانۃً اگر زید جانتا ہو کہ اس میں زر نذر بھی تھا تو اس پر لازم ہے کہ واپس دے اور مقدار نہ معلوم ہو تو آسان طریقہ یہ ہے کہ جو مکان ان کو تبرعاً دینا چاہتا ہے اس روپے کے عوض میں دے۔واﷲ تعالٰی اعلم
Flag Counter