Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
123 - 151
(۵) اشتیاق احمد ولد کریم اﷲ برادر مدعی، اس نے کہا میں گواہی دیتا ہوں عرصہ تخمیناً ساڑھے سات ماہ کا ہوا قمر الدین کی بیٹی وحیدی اس کا نام  اس کا نکاح چندا ولد کریم اﷲ کے ساتھ ہوا وحیدی نے مجھ سے اور احسان الحق سے کہا میں نکاح چندا کے ساتھ کرتی ہوں میرا نکاح کرادو میں اجازت دیتی ہوں، حافظ غلام سرور نے نکاح پڑھوایا ہمارے دو گواہیوں کے ساتھ، اس کے بیان میں یہ جملہ کہ قمر الدین کی بیٹی وحیدی اس کا نام مستقل جملہ ہے جس نے مابعد کے بیان نکاح کو اس لفظ سے کہ گواہی دیتا ہوں، الگ کردیا کہ وہ بلا عطف مستقل جملہ منفعلہ ہے کہ اس کا نکاح الخ ہاں اگر یوں ہوتا کہ گواہی دیتا ہوں کہ اتنا عرصہ ہوا کہ قمر الدین کی بیٹی کا جس کانام وحیدی ہے چنداسے نکاح ہواتو یہ جملہ گواہی دیتا ہوں کے تحت میں ہوتا اب محتمل رہ گیا کہ اس نے سب سے اشد واعظم حلف گواہی دیتا ہوں صرف اتنے جملہ کی نسبت کہا کہ قمر الدین کی بیٹی کا وحیدی نام ہے، باقی بیان اس حلف اعظم سے جدا رکھا تویہ نکاح پر شہادت نہ ہوئی، محتمل بیان شہادت میں نہیں لیا جاتا فیصلہ نے ان دونوں شہادتوں پر اختلاف سے اعتراض فرمایا کہ احسان الحق کہتا ہے میں نے نکاح پڑھوادیا، اشتیاق احمد کہتا ہے غلام سرور نے پڑھوادیا یہ کوئی اختلاف نہیں نکاح پڑھایا یعنی خود متولی عقد ہوا اور پڑھوایا یعنی دوسرے سے اور اس میں واسطہ وواسطہ در واسطہ سب یکساں ہیں، وحیدی نے ان دونوں سے کہا ان دونوں نے غلام سرور سے کہا غلام سرور نے نکاح خواں سے کہا تو نکاح خواں نے پڑھایا اور ان سب نے پڑھوایا، ہاں ان کے بیانوں میں اور اختلافات ہیں، احسان الحق کہتا ہے وحیدی نکاح سے اول بھی جایا آیا کرتی تھیں۔ اشتیاق احمد کہتا ہے اس سے اول نہیں آئی گئی تھیں، احسان الحق کہتا ہے نکاح خواں نے آواز دے کر دریافت کیا کہ یہ لڑکی بیوہ ہے، آواز آئی کہ بیوہ ہے، اشتیاق احمد کہتا ہے قاضی صاحب نے اندر کسی سے دریافت نہیں کیا تھا احسان اﷲ کہتاہے قاضی صاحب میرے بعد آئے تھے اشتیاق احمد کہتا ہے احسان الحق دس سے اول نہیں آئے تھے قاضی صاحب قریب دس بجے تشریف لائے تھے ہم نے ایسے زوائد پر التفات نہ کیا، فیصلہ نے دوسرا اعتراض یہ فرمایا کہ یہ دونوں وکیل بالنکاح ہیں اور وکیل بالنکاح کی شہادت ناجائز مطلقاً ناجائز نہیں، 

خلاصہ میں بعد عبارت مذکورہ اولاً ہے:
اما اذاشھد الوکیلان بالبیع انہ ملک المشتری اوشھد الوکیلان بالنکاح انہا منکوحتہ یقبل فی الاجناس۱؎۔
لیکن اگر بیع کے دو وکیلوں نے یہ شہادت دی کہ اس چیز کا خریدار مالک بن گیا ہے یا نکاح کے دو وکیلوں نے یہ شہادت کہ بطور فلاں کی منکوحہ ہے تو شہادت مقبول ہوگی۔(ت)
 (۱؎ خلاصۃ الفتاوٰی    کتاب الشہادات    الفصل الثانی     مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ    ۴/ ۶۹)
بلکہ اس اعتراض کی تحقیق وہ ہے جو شاہد چہارم میں ہم نے ذکر کی۔ وکلائے نکاح کی ایسی گواہیاں ضرور مردود ہیں۔
(۶) سجاد علی خاں ولد منور علی خاں، اس کا بیان متناقض ہے کہتاہے وحیدی نے اپنے نفس کا اختیار گواہوں کو دیا، گواہ چوکھٹ پر تھے وکیل چوکھٹ کے اندر تھا، جو الفاظ وحیدی نے گواہان سے کہے مظہر کو یاد نہیں وہ الفاظ مظہر نے سنے بھی نہیں، پہلا فقرہ توکیل پر شہادت ہے اور پچھلا اس شہادت سے صاف برائت، نیز کہتا ہے وحیدی اور چندا کا رسم تھا اسی وجہ سے چندا مدعی کے مکان پر نکاح ہوا یہ ان کے مکان میں جاتے تھے وہ ان کے مکان میں آتے تھے ا س سے اول وحیدی کے آنے جانے کاحال مجھ کو معلوم نہیں، اس گواہ کو نہیں معلوم ہوتا کہ ابھی کیا کہہ چکا تھا اور اب کیا کہتا ہے، ایسے مغفل کی کیا شہادت، اور ہوتی بھی تو وہ تنہا تھا ایک کی شہادت ان حقو ق میں مسموع نہیں، فیصلہ نے اسی گواہ اور نکاح خواں عنایت احمد کی شہادتوں پر نکاح فضولی منعقد ہونا تسلیم فرمایا ہے اور ازاں کہ وحیدی کی اجازت درکنار اسے نفس نکاح سے انکار ہے، فرمایا پس یہ نکاح شرعا باطل ہے ، ہم ان دونوں شہادتوں کا حال بیان کرآئے تو ہرگز نکاح فضولی بھی ثابت نہیں اور بالفرض ثابت ہوتا تو نکاح فضولی ہر گزباطل نہیں بلکہ منعقد موقوف علی الاجازۃ ہوتا ہے وحیدی کا اس وقت نفس نکاح سے انکار بعد نکاح اجازت قولی یا فعلی کا کب مبطل ہوسکتا ہے ممکن کہ اس وقت سن کر جائز کیا ہواب کسی نااتفاقی کے باعث سرے سے وقوع نکاح کی منکر ہوگئی تو دعوٰی نکاح ثابت کرنا تھا اور اجازت وحیدی کا مدعی سے ثبوت مانگنا کہ حق ظاہر ہو اور ہوا ہے تو حقدار کو پہنچے کہ قاضی کا نصب اسی ایصال حقوق و ابطال عقوق کے لئے ہوتا ہے مگر ہم ثابت کرآئے کہ اصلاً وقوع نکاح ہی ثابت نہیں، نہ اصیل سے نہ وکیل سے نہ فضولی سے، نکاح خواں کا رجسٹر کوئی چیز نہیں، حروف صامت ہیں جن کی زبان ناطق وہی نکاح خواں جس کی شہادت یہاں اصلاً مسموع نہیں، 

اشباہ والنظائر میں ہے:
لایعتمد علی الخط ولا یعمل بہ فلا یعمل بمکتوب الوقف الذی علیہ خطوط القضاۃ الماضین لان القاضی لایقضی الابالحجۃ وھی البینۃ اوالاقرار والنکول کمافی وقف الخانیۃ ۱؎۔
لکھائی اور خط پر نہ اعتماد ہوگا نہ عمل، تو ماضی کے دور کے قاضی حضرات کے مکتوب وقف پر اب عمل نہ ہوگا کیونکہ کوئی قاضی حجت کے بغیر فیصلہ نہیں دے سکتا بلکہ حجت صرف گواہی، اقرار یا قسم سے انکار ہے جیسا کہ خانیہ کے وقف میں ہے۔(ت)
 (۱؎ الاشباہ والنظائر     کتاب القضاء والشہادات الخ    ادارۃ القرآن کراچی    ۱/ ۳۳۸)
یہیں فتوائے رام پور کا بطلان واضح ہوا اولاً اس نے انہیں نامقبول و نامسموع شہادتوں پر بنا کی کہ بیانات گواہان سے ثابت ہوتا ہے کہ جلسہ نکاح منعقد ہواا ور حسب قاعدہ و رواج نکاح ہوا حالانکہ ہونے پر اصلاً ایک شہادت معتمدہ بھی نہیں جیسا کہ اوپر مفصلاً معلوم ہوا۔

ثانیاً خود سمجھا کہ صرف اتنی بات دعوی مدعی مطالبہ رخصت کا اثبات نہ کرے گی لہذا اس میں یہ پیوند لگایا کہ اگر نکاح بطور فضولی کے منعقد ہوا تو اجازت ہندہ بعد نکاح ثابت ہے اجازت کےلئے دو امر درکار تھے عورت کو اطلاع ہونا اور اس کا جائز رکھنا اول کے ثبوت کو یہ بے معنی دلیل گھڑی کہ اس لئے کہ جلسہ نکاح کا منعقد ہونا اور کثیر لوگوں کاجمع ہونا اور ہندہ کا اجازت دینا نکاح پڑھوانے کے لئے دلیل کافی ہے کہ ہندہ کو علم نکاح ہوا یہ اس پر موقوف ہے کہ ہندہ کا وہاں ہونا ثابت ہوکہ کثیر لوگ نکاح کے لئے جمع ہونے سے اس کی اطلاع پر استدلال کیا جائے یہاں سرے سے جلسہ نکاح کا انعقاد ہی ثابت نہیں کہ شہادتیں سب مختل و مہمل ہیں۔

ثالثاً نکاح خواں کہتا ہے نکاح میں ۱۵یا ۲۰آدمی سے کم نہ تھے، اشتیاق احمد کہتا ہے جلسہ نکاح میں ۲۵یا ۳۰ آدمی ہوں گے، احسان الحق بھی یہی کہتا اور لفظ اندازاً اور اضافہ کرتا ہے، اسی طرح یسین خاں تخمیناً کہتا ہے، قطع نظر اس سے کہ یہ شہادتیں شرعاً مردود ہیں، ۱۵ ،۲۰یا ۲۵ ،۳۰کیا ایسا کثیر مجمع ہے جس کی اطلاع گھر کے اندر پہنچنی ضرور ہے خصوصاً اس حالت مں کہ نکاح خوان کہہ رہا ہے کسی عورت سے دریافت کا قاعدہ نہیں گواہان کے اعتبار پر نکاح پڑھوادیا، کسی عورت سے کچھ دریافت نہ کیا۔ غلام صمدانی کہتا ہے نکاح رات کے ساڑھے دس بجے ہوا تھا جلسہ نکاح میں مظہر نو بجے پہنچا تھا، قاضی صاحب میرے سامنے آئے تھے، قاضی جی نے میرے سامنے عورتوں سے کچھ نہیں پو چھا، اشتیاق احمد کہتا ہے قاضی صاحب نے گواہوں سے دریافت کیا تھا انہوں نے کہا بیوہ ہیں اندر کسی سے دریافت نہیں کیا تھا صرف ایک احسان الحق کہتا ہے کہ نکاح خواں نے ہم سے بھی دریافت کیا اور آوازدے کر دریافت کیا کہ یہ لڑکی بیوہ ہے آواز آئی کہ بیوہ ہے یہ مستوران ثقہ نہایت عمدہ آدمی کی تکذیب کرتا ہے اور نہ سہی تو اکیلا ہے اور نہ سہی تو آواز آئی سے کیا ثابت ہوا اور اس سے کیونکر معلوم ہوا کہ وحیدی کو اطلاع ہوئی۔

رابعاً اطلاع درکنار سرے سے وحیدی کا اس مکان میں ہونا ہی ثابت نہیں اس کا وہاں آنا ایک تو احسان الحق واشتیاق احمد نے بیان کیا یہ دونوں اپنے لئے مدعی توکیل ہیں ان کو تو اس کے بیان کی ضرورت ہی لاحق تھی مگر کسی وکیل کا ادعائے وکالت بحال انکار موکل مسموع نہیں ہوسکتا۔
باطل ست انچہ مدعی گوید
 (مدعی جو کچھ کہتا ہے باطل ہے۔ت) یسین خاں کہتا ہے وحیدی نے زور سے آوازدی کہ میرا نکاح پڑھوادو۔ یہ اس کی تراش باقی سب گواہوں سے  جدا ہے پھر خود کہتا ہے کوٹھی میں اور بھی عورتیں تھیں اس نے توآواز کا دروازہ بند کیا آگے کہتا ہے یہ نہیں بتاسکتا کہ کوٹھی میں کون کون عورتیں تھیں یہاں سے اس علم کابھی سد باب ہوا کہ وحیدی تھی کیونکہ اس کا وہاں موجود ہونا جانا لاجرم سنی سنائی کسی کی بتائی یا محض جزافاً اڑائی۔ سجاد علی خاں صاف تر کہتا ہے کہ وحیدی پردہ نشین ہے مظہر سے پردہ ہے وحیدی کوٹھڑی میں تھی اول تو یہی نہیں معلوم کہ کہاں کی کوٹھری میں تھی پھر یہ کیونکر جانا کہ وہاں تھی یہی گواہ توکیل گواہان پر شہادت بھی دے رہا ہے اور اسی منہ میں کہتا ہے کہ میں نے وہ الفاظ سنے تک نہیں تو جس طرح کسی کی تعلیم سے توکیل پر گواہی دے دی یونہی وہاں وحیدی کے ہونے کے۔ کیا ایسے مہمل و بے سر وپا بیانوں سے عورت کا وہاں موجود ہونا ثابت ہوسکتا ہے حاشا۔

خامساً طرفہ تر فتوٰی کا یہ قول ہے کہ ہندہ کا اجازت دینا نکاح کےلئے دلیل کافی ہے کہ ہندہ کو علم ہوا اجازت دینے کا حال تو اوپر معلوم ہوا کہ دو مدعیان تو کیلی اور تیسری اس غیبی آواز پر شہادت اور چوتھی میں آواز تک نہیں یونہی ایمان بالغیب کے سوا کہیں اس کا پتہ نہیں، مگر لطف یہ ہےکہ جب ہندہ کا قبل عقد اجازت نکاح دینا ثابت ہے تو نکاح فضولی کب رہا جس کے لئے اجازت فعلی گھڑ نے کو آپ یہ درد سر اٹھارہے ہیں۔ سبحان اﷲ!خود نکاح کی اجازت دینا مانئے اور اس سے صرف اتنا نتیجہ نکالئے کہ اسے نکاح کی خبر ہوئی، رہی اجازت وہ آگے فعل سے ہورہے گی ایسے اجتماع ہوش وحواس کی حالت میں افتاد تصدیقات کی تکلیف اٹھانی نہ تھی مگر ہے یہ کہ خود سمجھا کہ جلسہ کا انعقاد اور آدمیوں کا اجتماع ہندہ کی اطلاع کو کافی نہیں، ناچار اجازت کا شقشقہ بڑھایا اگرچہ اس نے ساری تقریر کو عقل سے بیگانہ کر دکھایا۔

سادساً اب دعوٰی کے دوسرے شق کا ثبوت دینے کی طرف توجہ ہوئی کہ بعد نکاح ہندہ کا بمکان زید رہنا یہ فعل ضرور دلیل اجازت ہندہ بعد نکاح ہے لہذا نکاح صحیح شرعی زید کے ساتھ ہندہ کا ہوجانا یقینی ہے، ہم بیان کرآئے کہ وحیدی کا وہاں جانا ہی ثابت نہیں نہ کہ دو ایک روز رہنا۔ اس شگوفے کا ذکر ان دو مدعیان وکالت کے سوا کسی کے بیان میں نہیں۔ یسین خاں نے اتنا کہا ہے کہ ہم نکاح کے بعد مدعی کے مکان پر وحیدی کو چھوڑ آئے تھے اس سے رہنا ثابت نہیں ہوتا، ہاں احسان الحق نے کہا ہے کہ بعد نکاح ایک آدھ روز وہاں رہی پھر اپنی والدہ کے گھر چلی آئی، اشتیاق احمد نے ایک یا ڈیڑھ دن اور بڑھایا کہ بعد نکاح کے ایک دو دن اسی مکان میں رہی، ظاہر ہے کہ رہنا وہاں ہونے کی فرع ہے اور وہاں ہونے کا اظہار یہ اپنے دعوٰی وکالت و گواہی نکاح کےلئے کررہے ہیں جس میں وہ متہم ہیں۔

سابعاً خود احسان الحق کہتا ہے کہ نکاح ہونے کے بعد سب چلے گئے اس کے بعد دو ایک یا ایک آدھ روز وحیدی کے وہاں رہنے کا علم اسے کیونکر ہوااپنا معاینہ بیان نہیں کرتا، نہ یہ ان مواقع میں ہے جن میں سماع پر شہادت روا ہو تو بیان بے ثبوت ہے یہی حال اشتیاق احمد کا ہے اگر وہ چند اہی کے مکان میں نہ رہتا ہو۔

ثامناً اگر نکاح فضولی وحیدی کے مکان پر ہوتا اور وہ بعد علم نکاح حسب دستور رخصت ہوکر چند ا کے یہاں جاتی تو یہ ضرور اجازت فعلی کی حد میں آسکتا، یہاں تو یہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ نکاح چنداہی کے مکان پر ہوا اور وحیدی کو اطلاع کا کوئی ثبوت نہیں معدود اشخاص کا باہرجمع ہونا اور اندر سے کچھ دریافت کرنا کیا موجب اطلاع زناں سے ہے اسی زخم نا مندمل کے بھرنے کوفتوائے رامپور نے وہ فقرہ اضافہ کیا جس نے اس فتوے کو نقل کے ساتھ عقل سے بھی بعید کردیااور جب اس وقت اطلاع نہ ہوئی بعد نکاح معاً ہونی کیا ضرور، اور اس کا کیا ثبوت۔ ممکن کہ ایک آدھ یا دو ایک روز کے بعد ہی اسے خبر دی ہو جس پر وہ فوراً اپنی ماں کے یہاں چلی گئی۔

تاسعاً منسب استحقاق سخت دشوار ہے اس میں شاید ولعل سے کام نہیں چلتا بلکہ احتمال دافع استحقاق وقاطع استدلال۔ شہادت میں کہاں ہے کہ یہ رہنا بالاختیار تھا ممکن کہ مجبوراً بطور حبس رہی ہو اگرچہ اسی قدر کہ وہ پردہ نشین تھی اور سواری نہ ملنے دی۔
عاشراً : بالفرض باختیار ہی رہی مگر لڑنے جھگڑنے میں وقت گزارا اور چلی آئی اور اپنے نفس پر قدرت نہ دی تو اجازت فعلی کس گھر سے آئیگی، وہ پانچ ادعاء اطلاع پر تھے یہ پانچ اجازت پر''تلک عشرۃ کاملۃ''جن سے آفتاب کی طرح واضح ہوگیا کہ یہاں وحیدی کی طرف سے اجازت فعلی ماننا محض سفسطہ ہے اور وہ بھی اس جوش کے ساتھ کہ نکاح صحیح شرعی ہوجانا یقینی انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔ اسی لئے سوال میں یہ لفظ اضافہ کیا کہ ہندہ زید کے یہاں بعد نکاح حسب رواج زمانہ رہی مگر اس لفظ حسب رواج زمانہ کا ان بیچارے دونوں مدعیان توکیل کے بیان میں بھی پتہ نہیں حتی المقدور اجازت فعلی بنانے کے لئے از پیش خویش اضافہ ہوا ہے، ناراض ہونے کی بات نہیں، اسلامی خیر خواہی کے لئے عرض ہے کہ اتنے علم وعقل والوں کو امور شرعیہ میں دخل دینا، فتوٰی لکھوانا، تصدیق کرنا شرعاً حرام حرام حرام سخت کبیرہ ہے۔ ابن عساکر امیر المومنین مولاعلی کرم اﷲ تعالی وجہہ الکریم سے راوی کہ حضور اقدس سید عالم صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
من افتی بغیر علم لعنتہ ملٰئکۃ السماء والارض۱؎۔ والعیاذ باﷲ تعالٰی
جس نے بغیر علم کے فتوٰی دیا اس پر آسمان و زمین کے فرشتوں کی لعنت۔(ت)
 (۱؎الفقیہ والمتفقہ باب ماجاء من الوعید لمن افتی بغیر علم حدیث ۱۰۴۳ دارابن جوزی ریاض    ۲/ ۳۲۷)

(کنز العمال بحوالہ ابن عساکر عن علی     حدیث۲۹۰۱۸    موسسۃ الرسالۃ بیروت    ۱۰/ ۱۹۳)
احسان الحق واشتیاق احمد کا وحیدی سے پردہ نہ ہونا جبکہ سامنے آنا بے ستری کے طور پر ہو مثلاً سر کے بال یا گلے یا پیٹ یا بازو یاکلائی کا کوئی حصہ کھلا ہوا یا باریک کپڑے پہنے جن سے بدن چمکے اور یہ اس پر راضی ہوں، مانع نہ ہوں نگاہ پھیرنہ لیتے ہوں،ضرور ان کے لئے بھی موجب فسق ہے ورنہ نہیں 

عالمگیریہ میں ہے:
یقبل تعدیل المرأۃ لزوجھا وغیرہ اذا کانت امرأۃ برزۃ تخالط الناس و تعاملہم کذافی محیط السرخسی۱؎۔
عورت کا اپنے خاوند کو عادل قرار دینا مقبول ہوگا جبکہ یہ عورت باہر نکل کر لوگوں میں اختلاط اور ان سے معاملات کرتی ہو، جیساکہ محیط سرخسی میں ہے۔(ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ    کتاب الشہادات    الباب الثانی عشر     نورانی کتب خانہ پشاور    ۳/ ۵۲۸)
حدیث میں ہے:
النظرۃ الاولٰی لک والثانیۃ علیک۲؎۔
پہلی نگاہ تجھے معاف ہے اور دوسری نگاہ پر تجھ پر گناہ ہے۔(ت)
 (۲؎ شرح معانی الآثار    کتاب النکاح     باب حلۃ النظر قبل التزوج     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۲/ ۱۰)
کلا م کریم میں ہے:
لاتزروازرۃ وزراخری۳؎۔
واﷲ تعالٰی اعلم۔
کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گی۔ واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
 (۳؎ القرآن الکریم ۷/ ۱۶۴)
Flag Counter