Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
122 - 151
مسئلہ ۱۳۱: ازریاست رامپور محلہ محل موتی خاں ۲۷/شوال ۱۳۳۶ھ

زید نے اپنے نابالغ بچے بکر کے مقدمہ میں  پنچوں کو حکم کردیا تو آیا باپ بیٹے کے مقدمہ میں کسی کو حکم کرسکتا ہے یانہیں؟اورفیصلہ پنچایت قابل پابندی ہے یانہیں؟
الجواب

باپ کا اپنے نابالغ کے مقدمہ میں کسی کو حکم کرنا جائز ہے مگر وہ فیصلہ اگر خلاف شرعی ہو جیسا کہ مقدمہ متعلقہ سوال میں ملاحظہ فیصلہ سے ظاہر ہوا تو وہ اصلاً قابل پابندی نہیں۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ۱۳۲: ازرامپور

چندا نے وحیدی پر دعوٰی حق زوجیت کا کیا، وحیدی کو زوجہ چندا ہونے سے انکار ہے، مدعی کی طرف سے جوگواہان گزرے ہیں ان میں سے احسان الحق واشتیاق احمد اپنے آپ کو گواہان نکاح قرار دیتے ہیں جن کے بیان شامل سوال ہذا ہیں مفتی صاحب دیوانی نے مدعا علیہ کا اجازت دینا قرار نہیں دیا ہے تجویز مفتی صاحب بھی ہمراہ سوال ہے بعض علمائے رامپور نے مفتی صاحب کے تجویز فیصلہ کے خلاف فتوٰی(عہ) دیا ہے اس کی نقل بھی حاضر کی جاتی ہے، اب علمائے محققین سے عرض ہے کہ آیا تجویز مفتی صاحب دیوانی صحیح ہے یااستفتاء۔ اور جزئیات فقہ کس رائے کے مثبت ہے، اوریہ بھی واضح رہے کہ گواہان مذکور سے مسماۃ وحیدی بیگم کا کوئی بھی رشتہ نہیں ہے جس سے کہ مابین گواہان مذکورین وحیدی بیگم کانکاح ناجائز ہو پس گواہان مذکور  ذی رحم محرم نہ ہونے کے باوجود اپنا بے پردہ ہونا بیان کرنا موجب فسق ہے یانہیں؟ فاسق کی شہادت جائز ہے یانہیں؟
عہ: نقل فتوٰی رامپور : کیافرماتے ہیں علمائے دین، زیدنے اپنی بیوی ہندہ کے رخصت کراپانے کی نالش عدالت میں بربنائے نقل رجسٹر نکاح خوان و گواہی گواہان دائرکی اور گواہان نے یہ بیان کیا کہ جلسہ نکاح منعقد ہو ا اور ہندہ نے ہم سے یہ کہا کہ میرا نکاح زید کے ساتھ پڑھوادو اور ہم کو اپنے نفس کا اختیار دیا ہم لوگ نکاح کے گواہ تھے اور غلام سرور وکیل تھے چنانچہ ہم نے وکیل سے کہہ دیا اور وکیل نے قاضی سے کہہ دیا قاضی نے نکاح پڑھادیا اور بعض نکاح چھوہارے اور شیرینی تقسیم ہوئی اور ہندہ زید کے یہاں بعد نکاح کے حسب رواج زمانہ رہی، پس ایسی حالت میں نکاح صحیح شرعی ہندہ کا زید کے ساتھ ہوگیا یا کہ نکاح فضولی ہے بوجہ عدم اجازت ہندہ کے صحیح نہیں ہوا، بینواتوجروا
الجواب: سبحانہ الموفق با لصدق والصواب(وہ پاک ذات صدق و صواب کی توفیق دینے والی ہے۔ت) صورت مسئلہ میں نکاح صحیح و شرعی ہندہ کا زید کے ساتھ ہوگیا اس لئے کہ بیان گواہان سے معلوم ہوتا ہے کہ جلسہ نکاح منعقد ہوا اور حسب قاعدہ رواج نکاح ہوا اگر نکاح بطور فضولی کے منعقد ہوا ہے تو اجازت ہندہ کی بعد نکاح کے ثابت ہے اس لئے کہ جلسہ نکاح کا منعقد ہونا اور کثیر لوگوں کا جمع ہونا اورہندہ کا اجازت دینا، نکاح پڑھوانے کی یہ دلیل اس امر کی کافی ہے کہ ہندہ کو علم نکاح کا ہوا اور بعد نکاح کے ہندہ کا بمکان زید رہنا یہ فعل ضرور دلیل اجازت ہندہ بعد نکاح کے ہے، اور برائے اجازت یہ ضروری نہیں ہے کہ اجازت قول سے ہی ہو بلکہ فعل سے بھی اجازت ہونا کافی ہے وہ یہاں متحقق ہے لہذا نکاح صحیح و شرعی زید کے ہندہ کا ہوجانا یقینی ہے۔ 

چنانچہ فتاوٰی عالمگیری میں ہے:
ویثبت الاجازۃ لنکاح الفضولی بالقول والفعل کذافی البحرالرائق ۱؎انتہی بقدر الحاجۃ ھذہ صورۃ الجواب، واﷲ تعالٰی اعلم۔



فضولی کے نکاح کی اجازت قول اور فعل سے ثابت ہوجاتی ہے، ایسے ہی بحر الرائق میں ہے اھ بقدر حاجت یہ جواب ہے۔ واﷲتعالٰی اعلم۔(ت)
18_7.jpg
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ     کتاب النکاح     الفصل السادس نورانی کتب خانہ پشاور    ۱/ ۲۹۹)
العبد المجیب محمد ہدایت اللہ  محمد عنایت اللہ ولد محمد ہدایت اللہ 

العبد محمد حسیب اللہ خاں  ولد محمدعنایت اللہ خاں 

 برتقدیر صدق مقال نکاح ثابت ہے فقط محمد عبدالغفارخاں عفی عنہ
الجواب الجواب واللہ سبحانہ اعلم بالصواب محمد فضل حق عفی عنہ
  

الجواب  صحیح مخدوم علی عفی عنہ 

جوا ب صحیح ہے احمد امین عفی عنہ مدرس دوم مدرسہ عالیہ  

المجیب صحیح واللہ اعلم بالصواب الراجی الی اللہ محمد خلیل اللہ عفاعنہ اللہ 

 قد صح الجواب محمد عبدالوہاب عفی عنہ
الجواب صحیح بندہ محمد مرتضی حسن عفی عنہ 

ان النکاح صحیح ولا شریک لہ قاسم علی عفی عنہ
الجواب

اللھم ھدایۃ الحق والصواب،فیصلہ جناب مفتی صاحب و اظہار ہر شش گواہ مدعی کی باضابطہ نقلیں اور فتوائے رامپور ملاحظہ ہوئے تفصیل موجب تطویل اور فرصت قلیل اور سائل کو تعجیل، لہذا اجمالاً مدارک عالیہ فقہیہ کی طرف اشارت کریں و باﷲا لتوفیق، فتوائے رام پور محض باطل و بے شعور، عقل و نقل دونوں سے دور، اور حکم مفتی صاحب کہ دعوٰی نامسموع ضرور صحیح اور طریق حکم میں مسلک صحیح کی یہ تصریح۔

مدعی نے چھ گواہ پیش کئے:

(۱) عنایت احمد ولد عبدالرحیم خاں جس کی شہادت ہے کہ ۸/جون میں مظہر نے چندا مدعی حاضر عدالت کا نکاح وحیدی بنت قمر الدین خاں کے ساتھ پڑھایا۔ ذی علم مجوز نے ایک اسی گواہ کی تعدیل فرمائی ہے کہ بہت اچھے نہایت عمدہ آدمی ہیں باقی سب کو مستور لکھا ہے جوان کی اصطلاح میں فاسق بلکہ کافر کو شامل، یہ گواہ کتنا ہی عمدہ ثقہ ہو مگر اپنے فعل پر گواہی دے رہا ہے کہ میں نے پڑھایا، لہذا اس کی شہادت مسموع نہیں، البتہ صرف نکاح ہونے کی گواہی دیتا اور اپنا نکاح پڑھانانہ بیان کرتا تو سنی جاتی۔
فتاوٰی خانیہ وفتاوٰی عالمگیریہ وخزانۃ المفتین میں ہے:
اذاادعت امرأۃ علی ورثۃ الزوج مہرھا فانکرت الورثۃ نکاحھا وکان الشاہد تولی تزویجھا قال یشھد علی النکاح ولا یذکر العقد عن نفسہ۱؎۔
جب عورت نے خاوند کے ورثاء پر اپنے مہر کا دعوٰی کیا تو ورثاء نے ا س کے نکاح کا انکار کردیا ہو جبکہ اس عورت کے نکاح کا گواہ خود اس کے نکاح کا ولی تھا تو انہوں نے فرمایا کہ وہ گواہ نکاح کی شہادت دے اور یہ ذکر نہ کرے کہ میں نے اسکا نکاح پڑھاہے۔(ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ     بحوالہ فتاوٰی قاضیخان    کتاب الشہادات     الباب الرابع، الفصل الثالث     نورانی کتب خانہ پشاور  ۳/ ۴۸۳)
تاتارخانیہ وہندیہ وخزانۃ المفتین میں ہے:
ان رجلا حلف بطلاق امرأتہ ثلثا ان ضرب ھذین الرجلین فضربھما وسعھما ان یشھداعلیہ بطلاق امرأتہ ثلثا ولایخبران کیف کان وان اخبرا لاتقبل شہادتھما کذافی التاتارخانیۃ۲؎۔
اگر کسی شخص نے قسم کھائی کہ اگرمیں ان دو مردوں کو ماروں تو میری بیو ی کو تین طلاق تو اس نے دونوں کو مارا تو ان دونوں مردوں کو جائز ہے کہ وہ اس شخص پر بیوی کی تین طلاقوں کی شہادت دیں اور یہ نہ بتائیں کہ طلاق کیسے ہوئی، اور اگر طلاق کی وجہ بتائی تو شہادت قبول نہ ہوگی۔تاتارخانیہ میں یونہی ہے۔(ت)
 (۲؎فتاوٰی ہندیہ     بحوالہ فتاوٰی قاضیخان    کتاب الشہادات     الباب الرابع، الفصل الثالث     نورانی کتب خانہ پشاور  ۳/ ۴۸۳)
فتاوٰی بزازیہ وعالمگیریہ میں ہے:
شھدا علی رجل انہ قال ان مسست جسدکما فامرأتہ کذا اوعبدہ حر و مس جسد نا لاتقبل ولو شھد انہ قال ان مسست ثیابکما وفعل تقبل وفی فتاوی القاضی لوارادالشہود ان یشھدوافی ھذہ المسائل یشھدون بالطلاق والعتاق مطلقا بلا بیان السبب۱؎۔
دو گواہوں نے یہ شہادت دی کہ فلاں شخص نے کہا تھا کہ اگر میں تم دونوں کے جسم کو مس کروں تو میری بیوی کو طلاق یا میرا عبد آزاد ہے جبکہ اس شخص نے ہمارے جسم کو مس کرلیا ہے تو یہ شہادت مقبول نہ ہوگی، اور اگر گواہوں نے اپنے جسم کے بجائے کپڑوں کا ذکر کرتے ہوئے شہادت دی اور کہا اس نے ایسا کرلیا ہے تو شہادت مقبول ہوگی، اور فتاوٰی قاضی خاں میں ہے کہ اگر گواہ حضرات ان مسائل میں گواہی دینا چاہیں تو سبب بیان کئے بغیر مطلقاً طلاق وعتاق کی شہادت دیں۔(ت)
(۱؎فتاوٰی ہندیہ بحوالہ فتاوی بزازیہ کتاب الشہادات الباب الرابع     الفصل الثالث    نورانی کتب خانہ پشاور    ۳/ ۴۸۳)
(۲) یسین خاں ولد قسیم خاں یہ کہتا ہے عرصہ تخمیناً سات یا ساڑھے سات ماہ کا ہوا کہ مظہر چندا ولد کلن مدعی حاضر عدالت کے مکان پر گئے وحیدی بنت قمر الدین خاں نے زور سے آواز دی کہ چنداولد کلن سے میر ا نکاح پڑھوادو وحیدی نے گواہان کو اجازت دی گواہان نے نکاح پڑھوادیا فیصلہ میں اس پر ایک اعتراض یہ فرمایا ہے کہ اس نے گواہوں کے نام ظاہر نہیں کئے کہ کس کو اجازت دی، مگر شہادت بالنکاح بیان نام مزوج ووکیل وشہود کی محتاج نہیں ایک یہ اعتراض ہے کہ وحیدی کی اجازت بذریعہ سماع آواز بیان کرتا ہے اور خود کہتا ہے کہ اندر اور عورتیں بھی تھیں، اس سے ثبوت توکیل میں خلل آیا نہ نفس انعقاد وعقد میں کہ بذریعہ فضولی بھی ممکن۔ ہاں ایک اعتراض یہ ہے کہ چندا کی ولدیت غلط بیان کی، واقعہ اگر عبدالکریم کا عرف کلن نہ ہو تو یہ بھاری اعتراض ہے اور کچھ نہ ہو تو اس کی شہادت میں ذکر زوج مجمل ہے گواہان نے نکاح پڑھوادیا، کس سے پڑھوادیا اسی سے جس کی نسبت وحیدی نے اجازت دی تھی یا دوسرے سے، شہادت میں ایسی محتمل بات نہیں لی جاتی،کما یشھدبہ من شاھد کلمات العلماء فی باب خلل المحاضر والسجلات وغیر ذلک۔جیساکہ علمائے کرام کے مقالموں اور کاغذی ریکارڈ وغیرہ میں خلل سے متعلق کلام کا مشاہدہ کرنے والا گواہی دے گا۔(ت)

نیز اس کی شہادت میں ایک اور خلل بھی ہے جس کا بیان آگے آتاہے ان شاء اﷲ تعالٰی 

(۳) غلام صمدانی خاں ولد صاحبزادہ افتخار علی خان فیصلہ کہ اس پر یہ اعتراض ہیں اس نے وحیدی کا کوئی لفظ کہنا بیان نہ کیا نہ وکیل کا ذکر کیا۔ یہ وہی بات ہےکہ اس سے توکیل بے ثبوت ہوگی نہ کہ نفس انعقاد۔ اس شہادت میں پور اخلل یہ ہےکہ چندا مدعی حاضر عدالت کا نکاح وحیدی بنت قمر الدین خاں کے ساتھ ہوا قمر الدین خاں شاید وحیدی کے باپ ہیں ان کا نام ہے، اس شاید نے مشہود علیہا کو مشکوک و محتمل ومجہول کردیا۔ شہادت و شاہد میں بین تنافی ہے۔

(۴) احسان الحق ولد غلام سرور ، اس کا بیان ہے کہ عرصہ سات یا ساڑھے سات ماہ کا ہوا کہ چنداولد کریم اﷲ کا نکاح وحیدی بنت قمر الدین خاں کے ساتھ ہوا، وحیدی نے مظہر کو اپنے نفس کا اختیار دیا اور اشتیاق احمد کو کہ میرا نکاح پڑھوا دو، مظہر نے چندا کے ساتھ پڑھوادیا۔ غلام سرور وکیل سے مظہر نے کہہ دیا اور غلام سرور نے خود سن لیا، وکیل اور گواہان کے کہنے کے بموجب قاضی نے نکاح پڑھادیا۔ نکاح ملحق بالافعال ہے کہ بے فعل تمام نہیں ہوتا تو اس میں اختلاف زمانہ مسقط شہادت ہے اور ایسی جگہ قول مردود مثلاً سات یا ساڑھے سات مقبول نہیں۔ عالمگیریہ وخانیہ وغیرہما میں ہے:
ان کان المشہود بہ قولا لایتم الا بفعل کالنکاح واختلف الشہود فی المکان او الزمان او فی الانشاء والاقرار لاتقبل شہادتھم۱؎۔
جس چیز کی گواہی دی جارہی ہے وہ ایسا قول ہو جو فعل و عمل سے تام ہو جیسے نکاح وغیرہ اور گواہوں کا مکان یا زمان یا انشاء اور اقرار میں اختلاف ہو تو ان کی شہادت مقبول نہ ہوگی۔(ت)
(۱؎ فتاوی ہندیہ     کتاب الشہادات     الباب الثامن     نورانی کتب خانہ پشاور    ۳/ ۵۰۹)
عالمگیریہ وذخیرہ میں ہے:
اذا ادعی دہ دوازدہ درھم لا تسمع دعواہ وکذٰلک اذاذکر التاریخ فی الدعوی علی ہذہ الوجہ بان قال ایں عین ملک من ست ازدہ دوازدہ سال فانہ لاتسمع دعواہ وکذٰلک اذا ذکر الشھود التاریخ فی شہادتھم علی ھذا الوجہ لاتقبل شہادتھم۱؎۔
جب دعوٰی دس بارہ درہم کا کرے تو وہ قابل سماعت نہ ہوگا اور یوں ہی اگر دعوٰی میں تاریخ کو اس طرح ذکر کرے مثلاً یوں کہے یہ چیز دس بارہ سال سے میری ملک ہے تو بھی دعوٰی مسموع نہ ہوگا، اور یونہی اگر گواہوں نے شہادت میں مہینہ اور تاریخ کو اس طرح ذکر کیا تو ان کی شہادت مقبول نہ ہوگی۔(ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیۃ    کتاب الشہادات    الباب الثالث    نورانی کتب خانہ پشاور    ۳/ ۴۶۲)
اس کی رد شہادت کی ایک وجہ وہ ہے جو شہادت یسین خاں میں بھی تھی دوسری اور بھاری وجہ یہ ہےکہ وہ اپنے آپ کو وکیل بالنکاح بتاتا اور اپنے فعل سے کار نکاح تمامی کو پہنچنا بیان کرتا ہے ایسی شہادت مردودہے۔ 

خلاصہ میں ہے:
الوکیلان بالنکاح اوالخلع اذاشھداباثبات ذلک النکاح او ذٰلک الخلع لاتقبل۲؎۔
نکاح یا خلع کے دو وکیل اگر اس نکاح یا خلع کے اثبات میں شہادت دیں تو مقبول نہ ہوگی۔(ت)
 (۲؎ خلاصۃ الفتاوی    کتاب الشہادات    الفصل الثانی        مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ    ۴/ ۶۹)
اسی میں ہے:
رجلان شھدا علی رجل انہ قال لھما ان مسست جسدکما فعبدی ھذا حرفشہد اانہ مس جسد ھما لایقبل لانھما شھدافی امرتم بھا بخلاف شہد اانہ قال ان مسست ثیابکما وقد مس انہ یقبل ویعتق الغلام لان الثیاب غیرہما۳؎۔
دو مردوں نے ایک شخص کے متعلق گواہی دی کہ اس نے کہا تھا اگر میں تمہارے جسم کو چھولوں تو میرا غلام آزاد ہے، اور پھر شہادت دی کہ اس نے ہمارے جسم کو مس کیا ہے تو یہ شہادت مقبول نہ ہوگی کیونکہ انہوں نے ایسی چیز کی شہادت دی ہے جس کا اتمام خود ان سے ہوا ہے بخلاف جب جسم کی بجائے اپنے کپڑوں کو چھونے کا ذکر کریں اور پھر اس کے مس کرلینے پر شہادت دیں تو مقبول ہوگی اور غلام آزاد قرار پائے گا کیونکہ ان کے کپڑے ان کا غیر ہیں۔(ت)
 (۳؎خلاصۃ الفتاوی    کتاب الشہادات    الفصل الثانی        مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ     ۴/ ۷۰)
Flag Counter