Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
121 - 151
مسئلہ۱۲۸:     ۲۵/شعبان ۱۳۳۵ھ                           

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ہندہ اور نصیبہ نے اپنے ترکہ پدری کے تقسیم کا دعوٰی عمرو برادر خورد اور مسماۃ زبیدہ خاتون بیوہ اور بکر پسر زید برادر کلاں کے نام دائر کچہری کیا۔ زبیدہ خاتون بیوہ اور بکر پسر مدعا علیہا مجیب ہوئے کہ ترکہ مظہرہ مدعیات غلط اور غیر صحیح ہے جس قدر جز ہمارے مورث زید کا مملوکہ مقبوضہ چالیس سال کا ہے وہ مستثنٰی ہوکر جس قدر متروکہ پدر مدعیات ثابت کریں اس کے تقسیم میں کچھ عذر نہیں ہے عمرو برادر خورد مدعا علیہا بوجہ سازش مدعیات ضمناً مقبل دعوی اور ظاہر ایک جز و کابذریعہ خریدار مدعیات و مدعا علیہا نمبر۲ونمبر۳ کا دعویدار ہوا کچہری سے مطابق تنیقیحات ہر ایک سے بقدر دعوٰی کے ثبوت و تردید طلب ہوا۔ مدعیات نے ایک مرتبہ گواہ طلبی بذریعہ کچہری کراکر بعذر عدم تعمیل سمن ثبوت داخل کرنے سے گریز کیا مگر بذریعہ سمن طلبی گواہان کراکر تاریخ موعود پر گواہان حاضر کو ہدایت حاضری تاریخ ثانی بعذر عدم حاضری جملہ گواہان کچہری سے رخصت کرادیا۔ سہ بارہ بذریعہ سمن جملہ گواہان حاضر کچہری کرائے گئے اور باوجو د حاضری گواہان بہ کچہری بدیں مضمون درخواست پیش کی کہ گواہان کا اعتماد نہیں ہے لہذا جملہ مدعا علیہم مجیب سے حلف لے لیا جائے۔ پس دریافت طلب امر یہ ہےکہ بحالت موجودگی گواہان در مجلس قضا مدعیات کا انحصار بحلف مدعا علیہم مجیب شرعاً صحیح ہے یاغیر صحیح، اور صورت مسئولہ میں مدعا علیہما مجیب پر حلف متوجہ ہوتا ہے یانہیں، دوسرے جبکہ مدعیات اپنے دعوٰی کو ثابت نہ کرسکیں تو اب مدعا علیہما نمبر ۲ و نمبر۳ کو اپنی جوابدہی کے موافق ثبوت دینے کی ضرورت باقی رہی یا نہیں؟بینواتوجروا۔
الجواب 

صورت مستفسرہ میں مدعیات کامدعا علیہم سےحلف طلب کرنا صحیح نہیں نہ مدعا علیہم پر حلف متوجہ ہو۔  بحرالرائق میں ہے :
ان لم تکن للمدعی بینۃ حلف القاضی المدعی علیہ بطلب المدعی لقولہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم للمدعی الک بینۃ قال لافقال لک یمینہ سأل ورتب الیمین علی فقدان البینۃ ۱؎۔
اگر مدعی کے پاس گواہ نہ ہوں تو پھر قاضی مدعی علیہ سے قسم کا حلف لے اگر مدعی طلب کرے کیونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مدعی کو فرمایا کیاتیرے پاس گواہ ہیں،اس نے کہا نہیں، فرمایا تجھے اس کی قسم لینی ہوگی، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود سوال فرمایا اور مرتب فرمایا کہ قسم گواہ نہ ہونے پر ہے۔(ت)
 (۱؎ بحرالرائق     کتاب الدعوٰی     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۷ /۲۰۳)
اسی میں ہے:
ثبوت الحق فی الیمین مرتب علی العجز عن اقامۃ البینۃ بما رویناہ فلایکون حقہ دونہ۲؎۔
قسم کا حق گواہ پیش کرنے سے عاجز ہونے پر مرتب ہوتا ہے اس حدیث کے سبب جو ہم نے روایت کی ہے تو اس عجز کے بغیر قسم کا حق نہ ہوگا۔(ت)
(۲؎بحرالرائق     کتاب الدعوٰی     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۲ /۲۱۰)
درمختار میں ہے:
لو حاضرۃ فی مجلس الحکم لم یحلف اتفاقا۳؎۔
اگر وہ قاضی کی مجلس میں حاضر ہوں تو بالاتفاق قسم لینا جائز نہیں(ت)
 ( ۳؎ درمختار     کتاب الدعوٰی   مطبع مجتبائی دہلی  ۲ /۱۱۹)
جب مدعی اثبات دعوٰی سے عاجز ہو، منکر کو ثبوت دینے کی حاجت نہیں۔
فان البینۃ علی من ادعی والیمین علی من انکر۱؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
کیونکہ گواہ پیش کرنا مدعی پر اور قسم مدعی علیہ پر ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
 (۱؎ صحیح البخاری     کتاب الرہن     قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱ /۲۴۲)

(جامع الترمذی     ابواب الاحکام     امین کمپنی دہلی         ۱ /۱۶۰)

(السنن الکبرٰی         کتاب الدعوات    دارصادر بیروت    ۱۰ /۲۵۲)
مسئلہ۱۲۹: از سہسرام، ضلع گیامدار دروازہ مرسلہ قادر بخش صاحب ۳شوال ۱۳۳۵ھ

ایک مسجد محلہ مدار دروازہ میں واقع ہے جس کے اتر جانب کی دیوار اسے ایک ہندو حلوائی نے اپنا مکان مسجد مذکور کی دیوار سے دیوار ملا کر اس طرح اٹھایا کہ جس سے مسجد کے اتر جانب ایک فرخانہ جھنجری نما ہوا کے لئے ایک کھڑکی تھی اس کو اپنی نو دیوار سے بند کردیا ہے جس سے ہوا بالکل بند ہوگئی ہے اب نمازیوں کو بسبب بند ہوجانے ہوا کے از حد تکلیف ہے اور جانب اتر و پورب کچھ اینٹ دیوار جدید فصیل مسجد پر زیادہ کرکے بنالیا ہے جو قریب دو انچ کے ہوگی مسجد کی فصیل پر اس کی اینٹ چڑھی ہوئی ہے اور ایک جانب پورب سے وہ ناگر معلوم (عہ) ہوتی ہے یہ مسجد زمانہ چھپن برس کی بنی ہوئی ہے اس نے آج یہ نیا کام بنایا ہے، ازروئے شرع شریف اس میں کیا حکم ہے؟
 عہ: اصل میں اسی طرح ہے۔
الجواب

اگر کوئی شخص دیوار مسجد کے متصل اور اسی کی ہوا میں دیوار اٹھائے تو کتنی ہی بلند کرے اسے ممانعت نہ ہوگی کہ خاص اپنی ملک میں تصرف کررہاہے اورمسجد کا کوئی ضرر نہیں، نمازیوں کے لئے ایک طرف کی ہوا رکنا کوئی ضرر نہیں جس کے سبب کسی شخص کو اپنی ملک میں تصرف سے روکا جائے۔
جامع الفصولین میں ہے:
اراد ذو الساحۃ ان یبنی فیہا ویرفع بنائہ فقال ذو البناء انک تسد علی الریح والشمس فلا ادعک ترفع البناء فلہ منعہ لافی ظاہر الروایۃ لان ذاالساحۃ منعہ عن الانتفاع بملکہ ولم یتلف علیہ ملکاولامنفعۃ فلا یمنع کرجل لہ شجرۃ یستظل بھا جارہ اراد قلعھا لایمنع منہ ولو تضرر بہ جارہ، اذ رب الشجرۃ بالقلع یمنعہ عن الانتفاع بملکہ۱؎۔
خالی جگہ پر مالک تعمیر کرنا چاہتا ہے اور عمارت بلند کرتا ہے تو دوسری عمارت والا اعتراض کرتے ہوئے کہتا ہے تو ہوا اور دھوپ کو مجھ پر بند کررہا ہے اس لئے میں تجھے عمارت بلند نہ کرنے  دوں گا تو اس کو منع کرنے کا حق نہیں ہے ظاہر روایت میں، کیونکہ یہ خالی جگہ والے کو اپنی ملکیت سے انتفاع سے منع کر نا ہے جبکہ عمارت والے کی ملکیت اور اس کے انتفاع میں نقصان نہیں لہذا جگہ والے کو عمار ت بلند کرنے سے منع نہیں کیا جائے گا، جیساکہ ایک آدمی کا درخت جس سے پڑوس والے کو سایہ حاصل ہوتا ہو درخت والے کو اس کے اکھاڑنے سے نہیں روکا جاسکتا حالانکہ پڑوسی کو اس سے ضرر ہے، کیونکہ درخت کا مالک اکھاڑ کراپنی ملکیت سے دوسرے کے نفع کو روک رہا ہے۔(ت)
(۱؎ جامع الفصولین     الفصل الخامس والثلاثون    اسلامی کتب خانہ کراچی    ۲ /۲۶۶)
فتح القدیر وردالمحتار میں ہے:
والحاصل ان القیاس فی جنس ھذہ المسائل ان یفعل المالک ما بدالہ مطلقا لانہ متصرف فی خالص ملکہ لکن ترک القیاس فی موضع یتعدی ضررہ الی غیرہ ضررا فاحشا وھو المراد بالبین وھو مایکون سببا للھدم، اویخرج عن الانتفاع بالکلیۃ وھو ما یمنع الحوائج الاصلیۃ کسدالضوء بالکلیۃ واختار و الفتوی علیہ فاما التوسع الی منع کل ضرر مافیسد باب انتفاع الانسان بملکہ کما ذکرنا قریبا۲؎۔
اور حاصل یہ ہے کہ اس قسم کے مسائل میں قیاس یہ ہےکہ مالک اپنی ملکیت میں جو چاہے تصرف کرے کیونکہ وہ اپنی خالص ملک میں تصرف کررہا ہے لیکن بعض ایسے مقامات میں جہاں مالک کا تصرف دوسرے کےلئے فحش ضرر پیداکرے وہاں یہ قیاس متروک ہوگا اور فحش ضررسے ایسا تصرف ہی مراد ہے جو دوسرے کے مکان کے گرنے کا سبب ہو یا دوسرے کو اپنی ملکیت میں انتفاع سے مکمل طور پر محرورم کردے وہ یوں کہ اس کے حوائج اصلیہ کو ختم کردے مثلاً کلیۃً روشنی کا ختم کردینا اور اسی پر فتوٰی کو فقہاء نے پسند کیا ہے لیکن ہر قسم کے ضرر کی وجہ سے منع کو وسیع کرنا اس سے تو انسان کا اپنی ملکیت سے انتفاع کا دروازہ بند ہوجائے گا، جیسا کہ قریب ہم ذکر کرچکے ہیں۔(ت)
 (۲؎ فتح القدیر    مسائل شتٰی     من کتاب القضاء    مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۶ /۴۱۵)

(ردالمحتار     کتاب القضاء    مسائل شتی     داراحیاء التراث العربی بیروت     ۴ /۳۶۱)
جامع الفصولین میں ہے :
الضوء من الحوائج الاصلیۃ والشمس والریح من الحوائج الزائدۃ۱؎۔
روشنی حوائج اصلیہ میں سے ہے اور دھوپ اور ہوا حوائج زائدہ میں سے ہے۔(ت)
 (۱؎ جامع الفصولین    الفصل الخامس والثلاثون    اسلامی کتب خانہ کراچی    ۲/ ۲۶۷)
البتہ اگر دیوار مسجد کا کوئی حصہ اگرچہ جو بھر اس کی دیوار نے دبالیا ہے تو اس جزء دیوار کا ازالہ وہدم لازم ہے، 

درمختار میں ہے :
یجب ھدمہ ولو علی جدار المسجد۲؎۔
اس کا گرانا واجب ہے اگرچہ مسجد کی دیوار پر ہو۔(ت)
 (۲؎ درمختار    کتاب الوقف    مطبع مجتبائی دہلی     ۱/ ۳۷۹)
بحرالرائق میں ہے:
اذاکان ھذا فی الواقف فکیف بغیرہ فمن بنی بیتا علی جدارالمسجد وجب ھدمہ ۳؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
جب یہ حکم واقف میں ہے تو غیر میں کیسے نہ ہو، تو جس نے مسجد کی دیوار پر کمرہ بنایا اس کاگرانا واجب ہے۔واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
 (۳؎ بحرالرائق   کتاب الوقف    فصل احکام المسجد    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۵/ ۲۵۱)
مسئلہ۱۳۰: چاچڑاں ریاست بہاولپور تحصیل خاں پور مرسلہ مولوی محمد یار صاحب ۷/ربیع الآخر ۱۳۳۰ھ
چہ فرمایند علماء دین اندریں صورت کہ زید در قطعہ اراضی بعد ثبوت استحقاق شفعہ با عمرو چنیں اظہار کرد مصرفہ اراضی رابراں قدر کہ صرف کردی ازیں جانب وصول کردہ ازیں قطعہ اراضی بیزار شو۔ عمرو ازیں دعوی زید انحراف کلی ورزیدہ انکار قطعی نمود پس زید بعد ادائے فیس کہ شرط استماع دعوی ست دعوی خود بعرض عدالت کردہ پس از حصول مدعا دربارہ فیس ہذا کہ وقت عرضی دعوی ادایش ساخت ازروئے قانون گورنمنٹی مطالبہ اش بر عمر وقائم نمود پس ایں چنیں مطالبہ فیس کہ جوازش منسوب برواج ست عندا لشرع صحیح ست یا نہ۔بینواتوجروا۔
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے اپنے لئے شفعہ اراضی کے استحقاق کے بعد عمرو خریدار سے کہا کہ تونے جو کچھ اس میں پر صرفہ کیا ہے اتنا مجھ سے وصول کرکے زمین چھوڑدے۔ عمرو نے زید کے دعوٰی کو تسلیم نہ کرتے ہوئے زید کے مطالبہ سے قطعی انکار کردیا تو زید نے فیس کورٹ وغیرہ ادا کرکے جو کہ دعوٰی کے لئے شرط تھی اپنا دعوی عدالت میں پیش کردیا زید نے اپنا مدعی عدالت سے حاصل کرلینے یعنی اپنے حق ڈگری ہوجانے کے بعد عمرو پر مقدمہ کی فیس کا دعوٰی کردیا جس کا گورنمنٹ کےقانون کے مطابق عمرو کو ادا کرنا لازم آتا ہے تو کیا ایسے مروج قانون کے مطابق زید کو عمرو سے یہ فیس وصول کرنا درست ہے یانہیں، شرعاً کیا حکم ہے؟بینواتوجروا۔(ت)
الجواب
آنراکہ حکم شرع مطہر درکارست نزدشرع شریف خرچہ مدعی بر مدعٰی علیہ عائد نتواں شد گو مد عی محق باش اگر بے رضایش گیر د مدعاعلیہ ازوواپس تواں گرفت اگر ندہد مواخذہ و مطالبہ بر گرد نش ماند در عقود الدریہ فرمودرجل کفل آخر عند زید بدین معلوم ثم طلبہ زید بہ والزم بہ لدی القاضی، فطلب الرجل من زید ان یمہلہ بہ فابٰی الاان یدفع لہ الرجل قدرما صرفہ فی کلفۃ الالزام فدفعہ لہ ثم دفع لہ المبلغ المکفول بہ ویرید الرجل مطالبۃ زید بماقبضہ زید منہ من کلفۃ الالزام فہل لہ ذٰلک ۱؎(الجواب) نعم حیث الحال ماذکر۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
شرعی حکم یہ ہےکہ شرع شریف میں مدعی کا خرچہ مدعی علیہ پر عائد نہیں ہوتا اگرچہ مدعی حق پر ہو، اگر مدعی نے مدعی علیہ سے اس کی رضا مندی کے بغیر خرچہ وصول کرلیا ہو تو مدعٰی علیہ اس سے واپس لے سکتا ہے، اگر واپس نہ دے تو شرعاً مدعی کی گردن پریہ مطالبہ ومواخذہ باقی رہے گا، عقود الدریہ میں ہے کہ ایک شخص نے دوسرے کو زید کے دین معلوم کا کفیل بنایا، پھر زید نے کفیل سے مطالبہ کرتے ہوئے قاضی کے ہاں اس پر دین کی ادائیگی لازم کردی تو اس کفیل شخص نے زید کو مہلت کے لئے کہا تو زید نے مہلت دینے سے انکار کردیا مگر یہ کہا اگر تو قاضی کے ہاں دعوٰی الزام پر خرچ شدہ رقم ادا کردے تو تجھے مہلت دے دوں گا، اس پر کفیل شخص نے خرچہ کی رقم ادا کردی پھر مہلت کے مطابق وہ رقم جس کی کفالت تھی زید کو ادا کردی اس موقعہ پر کفیل نے زید سے مطالبہ کیا کہ مقدمہ کے خرچہ کی رقم جو تو نے وصول کی وہ مجھے واپس کردے، آیا اس واپسی کے مطالبہ کاکفیل شخص کو حق ہے، جواب دیا گیا مذکورہ حال پر حق حاصل ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم (ت)
 (۱؎ العقود الدریۃ     کتاب الکفالۃ     ارگ بازار قندھار افغانستان    ۱/ ۳۰۸)
Flag Counter