Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
120 - 151
مسئلہ۱۲۷: مرسلہ اکبرخاں ساکن ریاست رامپورمحلہ جھنڈا بڑے پیر صاحب ۲۶/ ربیع الآخر ۱۳۳۵ھ

مقدمہ عباسی بیگم زوجہ عنایت احمد خان وعنایت احمد خاں ولد عبدالرحیم خاں بنام کریم بخش ولد رحیم بخش، دعوٰی یہ کہ مدعا علیہ نے مدعیہ کی اراضی مرور ۱۲ گرہ عریض اور ۸ گز ۱۲ گرہ طویل دباکر دیوار بنالی محکمہ دیوانی نے گواہان مدعی کا بیان ناقص و مجہول وباہم مختلف و نیز مخالف دعوٰی مان کر یکسر خارج کیا محکمہ ججی سے صرف چار گرہ کی ڈگری ہوئی کہ اس قدر میں مدعیہ کو مردہ نکالنے کی وسعت ہوجائے گی محکمہ عالیہ اپیل نے شہادت مدعیہ راجح ٹھہراکر کل دعوٰی ڈگری فرمایا یہ تمام تجویزیں مع نقول باضابطہ گواہان فریقین دارالافتاء میں حاضر کرکے استدعا ہےکہ اس صورت میں جو حکم شرعی ہو ارشاد ہو۔ بینواتوجروا۔
الجواب

ان الحکم الاﷲ۲؎
 (حکم صرف اﷲ تعالٰی ہی کا ہے۔ت)
(۲؎ القرآن الکریم ۶ /۵۷)
حکم اگر شریعت کے لئے ہے اور بیشک حکم شریعت ہی کے لئے ہے حکام اگر اس لئے مقرر ہوتے ہیں کہ مطابق شرع فیصلہ کریں اور بیشک وہ اسی لئے مقرر ہوتے ہیں اور یہی ان کا فرض ہے تو شریعت مطہرہ نے قاضی کے حضور ثبوت دعوی کے صرف تین طریقے رکھے ہیں: بینہ، اقرار، نکول اور جہاں تینوں معدوم ثبوت معدوم، اور قضاء بحق مدعی ناممکن۔ 

فتاوٰی امام اجل قاضیخاں میں ہے:
القاضی انما یقضی بالحجۃ والحجۃ وھی البینۃ اوالاقرار والنکول۳؎۔
قاضی صرف حجت کی بنا پر فیصلہ کرے گا اور حجت صرف گواہی یا اقرار یا قسم سے انکار ہے(ت)
 (۳؎ فتاوٰی قاضیخان     کتاب الوقف     نولکشورلکھنؤ    ۴ /۷۴۲)

(فتاوٰی خیریہ     کتاب القاضی الی القاضی باب خلل المحاضر والسجلات    دارالمعرفۃ بیروت    ۲ /۱۹ و ۵۱)
محکمہ دیوانی نے شہادات مدعیہ کو مجروح کیا محکمہ ججی نے اول جروح کو مقبول رکھا کہ مفتی صاحب نے گواہان مدعی پر اعتبار نہیں کیا ہے حجتہائے معقولہ وروایات شرعیہ سے مؤکد اپنی رائے کو فرمایا ہے ظاہراً دیوار کا بڑا ہونا اگر معلوم ہو تو یہ مدعیہ کا نافع نہیں۔
ائمہ دین ہدایہ وغیرہ عامہ کتب میں فرماتے ہیں :
الظاہر یصلح حجۃ للدفع لاللاستحقاق۱؎۔
ظاہر حال دفاع کےلئے حجت بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے استحقاق کےلئے نہیں۔(ت)
 (۱؎ درمختار     کتاب القضاء     مسائل شتی     مطبع مجتبائی دہلی     ۲ /۸۶)

(الہدایہ     کتاب ادب القاضی     مسائل شتی    مطبع یوسفی لکھنؤ    ۳ /۱۴۷)
یہ مصلحت کہ مدعیہ مردہ نکال سکے کوئی حجت شرعیہ تو شرعیہ عرفیہ بھی نہیں کوئی اپنی مصلحت کےلئے بلا ثبوت شرعی پر ایامال نہیں لے سکتا یہ فرمانا کہ گواہان ثبوت سے کم از کم جس قدر زمین کا ڈال لینا پایا جائے اس قدر تخلیہ کرادینا چاہئے حکم شریعت سے اصلاً مطابق نہیں جس کا بیان ابھی آتا ہے پھر فیصلہ خود بھی اس کے خلاف ہے ہمارے سامنے سات گواہان مدعی کے اظہار ہیں بشیر حسن خاں، رفیق محمد خاں، ممتاز الدین خاں، عطا ء اﷲ خاں مشتاق حسین خاں، ممتاز علی خاں، غفور حسن خان اور آٹھواں عاشق حسین خاں جس کا بیان نہ ہوا۔ ان میں سے ممتاز الدین خاں نے تو کوئی مقدار بیان ہی نہ کی اور اس کی نسبت محکمہ عالیہ اپیل نے بھی اسی قدر لکھا کہ ممتاز الدین خاں کی شہادت مجہول ہو بھی تو اور بہت سی شہادت موجود ہے باقی کسی کے بیان میں دس گرہ سے کم عرض نہیں اور ڈگری صرف چار گرہ پر دی گئی جس سے صاف ظاہر کہ محکمہ ججی نے بھی وہ شہادتیں قبول نہ فرمائیں جیسا کہ ان کی بے اعتباری کو حجتہائے معقولہ وروایات شرعیہ سے مؤکد ہونا فرمایا ہے ورنہ کوئی وجہ نہ تھی کہ ثابت دس گرہ ہو اور ڈگری چار گرہ کی۔ لاجرم وہی لحاظ مصلحت ہوتی ہے کہ مردہ نکل سکے یہ ایک نیک صلاح ہے کہ کسی طرح حکم کی حد میں نہیں آسکتی، یہیں سے تجویز محکمہ عالیہ اپیل کے اس جملہ کا جواب واضح ہوگیا کہ ظاہر ہے کہ صاحب جج بہادر نے مدعیان کی شہادت کو مانا ہے محکمہ عالیہ نے خود جانب شہادات توجہ فرمائی محکمہ دیوانی کے اعتراضات میں بعض کے جواب دیئے بعض کے جواب سے اعراض کرتے ہوئے فرمایا کہ اور بہت سی شہادت موجود ہے ان تمام اعتراض وجواب اور ان کے مالہ و ما علیہ پر بحث موجب طول ہے اور بیان حکم محکم شرع مطہر کے لئے اس کی حاجت نہیں، یہاں صرف اس قدر کہنا کافی ہے کہ محکمہ دیوانی نے شہادتوں کو ناقص و مختلف ومخالف دعوٰی فرمایا اور وہ بیشک ایسی ہی ہیں ان کے وجوہ اختلال کثیر و وافر ہیں جن کی تفصیل موجب تطویل۔ ہم صر ف اس قدر پر اقتصار کریں کہ ان میں سے کسی نے بھی ایک شے معین اور ایک شخص معین پر شہادت نہ دی جس پر قضاء ممکن ہو لہذا یکسر مہمل ونامسموع ہیں۔

بیان بشیرحسن خاں کچھ نالہ تھا کچھ زمین ہے جوڑاؤ دونوں کا تخمیناً دس یا بارہ گرہ ہے اور وہ زمین آٹھ یا نوگز لمبی ہے پوٹھیا کریم بخش نے اپنے مکان میں داب لی ہے، کریم بخش کی ولدیت نہیں معلوم۔ اراضی مذکور کریم بخش نے اپنے مکان میں اندر پونے تین برس ہوئے مظہر کے سامنے ڈالی ہے۔

بیان ممتازالدین خاں مدعی کی چوکھٹ کے برابر دو پوٹھے تھے، بائیں ہاتھ کا پوٹھا دس بارہ گرہ چوڑا ہے اس میں سے نکل کر مدعی کا پر نالہ آیا ہے مدعا علیہ ہیں وہ یا کیا جن کا نام اور ولدیت مظہرکو نہیں معلوم مظہر ان کو پہچانتا ہے ان کے مکان کی دیوار گرتی جاتی تھی اور وہ بڑھاتے جاتے تھے انہوں نے مذکورپوٹھا دبالیا۔

بیان رفیق محمدخان عباسی بیگم کی مملوکہ مقبوضہ زمین تخمیناً دس یابارہ گرہ عرضاً او ر طولاً تخمیناً آٹھ نو گز کریم بخش نے دبالی ہے، کریم بخش کے باپ کا نام یاد نہیں مظہر اس کو پہچانتا ہے۔

بیان عطاء اﷲ خاں عباسی بیگم کے مرور کی اراضی میں سے آٹھ گرہ اور چار گرہ نالی کی کل دس یا بارہ گرہ اراضی چوڑی اور نویا پونے نوگز لمبی کریم بخش مدعا علیہ نے اپنے مکان میں ڈال کر دیوار بنالی ہے جس کی وجہ سے دکھن رخ کا پاکھا پھر کہا پوٹھا مدعیہ کے دوازے کا دیوار میں دب گیا ہے مذکور زمین عباسی بیگم اور ان کے شوہر عنایت احمد خاں کی ہمیشہ سے مملوکہ مقبوضہ چلی آئی ہے، کریم بخش مدعا علیہ کے باپ کا نام نہیں معلوم مظہر اس کو پہچانتا ہے، اراضی مذکور کو ڈالے ہوئے تخمیناً تین سال کاعرصہ ہوا، مدعا علیہ نے اراضی مذکور کو ایک وقت میں نہیں ڈالی تھوڑی تھوڑی ڈالی، آخری مرتبہ کو مدعا علیہ نے جو اراضی ڈالی ہے اس کو تین سال ہوئے۔

بیان مشتاق حسین خاں کوئی عرصہ تین یا چار سال کا ہوا تخمیناً کریم بخش مدعا علیہ نے تین یا چار گرہ تخمیناً نالے اور سات یاآٹھ گرہ راستہ میں سے کل دس یا بارہ گرہ چوڑی اور آٹھ یا نوگز لمبی زمین ڈال کر دیوار بنالی ہے مذکورہ نالی اور زمین مملوکہ و مقبوضہ عنایت احمد خاں اور ان کی زوجہ عباسی بیگم مدعیان کی ہے کریم بخش کی ولدیت نہیں معلوم ، مظہر اس کو پہچانتا ہے، پہلی مرتبہ جو مظہر کے سامنے دیوار بنی اس کو تخمیناً چار برس کا عرصہ ہوا دوسری بار بننے کو تخمیناً سال بھرہوا۔

بیان ممتاز علی خان عرصہ تخمیناً تین چار برس کا ہوا کہ کریم بخش مدعا علیہ جس کے باپ کا نام نہیں معلوم، مظہر اس کو پہچانتا ہے، اس نے چار گرہ نالی کی زمین اور آٹھ گرہ راستہ کی زمین چوڑی اور نویا آٹھ گز لمبی لے کر اپنے مکان میں ڈال لی ہے۔

بیان غفور حسن خاں عرصہ تخمیناً تین چار سال کا ہواکہ تین چار گرہ نالی کی زمین اور سات آٹھ گرہ راستہ کریم بخش نے اپنے مکان میں ڈال لیا، مظہر کریم بخش کی ولدیت نہیں جانتا کریم بخش کو پہچانتا ہے، جو زمین کریم بخش نے ڈال لی ہے یہ مولوی عنایت احمد خاں مدعی کے تصرف میں تھی۔ یہ ان تمام بیانوں کا خلاصہ ہے ان میں جو وجوہ اختلال ہیں خادم فقہ پر مخفی نہیں مگر یہ دو اہمال  ان سب کو شامل ہیں کہ ان میں کسی نے نہ شخص معین پر شہادت دی ہے نہ شے معین پر،

 اول اس لئے کہ مدعا علیہ کی طرف نہ اشارہ کیا نہ ولدیت بتائی، ولدیت بتانی درکنار بالاتفاق سب نے ولدیت جاننے ہی سے انکار کیا ایسی شہادت مجہول اور محض ناقابل قبول۔
عالمگیریہ میں ہے :
شرط الخصاف ذکر الجد للتعریف و ھکذا ذکر فی الشروط، ومن مشایخنا من قال ھذا قول ابی حنیفۃ ومحمد رحمہما اﷲ تعالٰی اما علی قول ابی یوسف رحمہ اﷲ تعالٰی فذکر الاب یکفی کذا فی الذخیرہ والصحیح ان النسبۃ الی الجد لابد منھا کذافی البحرالرائق۱؎۔
امام خصاف نے شناخت کے لئے جد کے ذکر کو شرط قرار دیا ہے اور شروط میں یوں ذکر فرمایا ہے، اور ہمارے بعض مشائخ نے فرمایا یہ امام ابوحنیفہ اور امام محمد رحمہما اﷲ تعالٰی کا قول ہے جبکہ امام ابویوسف رحمہ اﷲ تعالٰی کے قول پر شناخت کےلئے باپ کا ذکر کافی ہے،ذخیرہ میں یوں ہے، اور صحیح یہ ہے کہ داد ے کی طرف نسبت شناخت کےلئے ضروری ہے۔ بحرالرائق میں یونہی ہے۔(ت)
 (۱؎فتاوٰی ہندیہ  کتاب الشہادات الباب الثالث نورانی کتب خانہ  پشاور    ۳ /۴۵۹)
دوم جس نے کہے متردد لفظ کہے دس یا بارہ، آٹھ یا نوگز یا پونے نوگز، تین یا چار گرہ، سات یا آٹھ گرہ، یہ نفس مشہود بہ میں جہالت و موجب رد و بطلان شہادت ہے۔ یہ نہیں کہ ایسی جگہ کم سے کم مان لیں گے، نہیں بلکہ بالکل رد کردیں گے۔ 

عالمگیری میں ہے:
اذا ادعی بالفارسیۃ دوازدہ درہم و شھد الشہودان لہذاالمدعی علی ھذاالمدعی علیہ دہ دوازدہ درہم لاتقبل لمکان الجہالۃ وکذٰلک اذا ادعی دہ دوازدہ درم لاتسمع دعواہ وکذالک اذا ذکر التاریخ فی الدعوی علی ھذاالوجہ بان قال ایں عین ملک من ست ازدہ دوازدہ سال فانہ لاتسمع دعواہ، وکذٰلک اذذکر الشہود التاریخ فی شہادتھم علی ھذا الوجہ لاتقبل شہادتھم کذافی الذخیرۃ۱؎
جب کسی نے فارسی میں بارہ درم کا دعوٰی کیا اور گواہوں نے گواہی دی کہ اس مدعی کے مدعی علیہ پر دس بارہ درہم ہیں جہالت کی وجہ سے یہ شہادت مقبول نہ ہوگی، اور یوں ہی اگر مدعی نے دس بارہ درہم کا دعوٰی کیا تو اس کا دعوٰی قابل سماعت نہ ہوگا، اور یونہی اگر گواہوں نے اپنی شہادت میں ایسی تاریخ ذکر کی تو ان کی شہادت مقبول نہ ہوگی ذخیرہ میں یوں ہے۔(ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ     کتاب الشہادات    الباب الثالث    نورانی کتب خانہ پشاور     ۳/ ۴۶۲)
لہذا شہادتیں سب مردود اور دعوٰی محض بے ثبوت وواجب الرد، اور فیصلہ مفتی صاحب لازم القبول، حکم شرعی یہ ہے اور حکم نہیں مگر شر ع کےلئے،۔ واﷲ تعالٰی اعلم
Flag Counter