Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
12 - 151
دوم بعض متاخرین کہ برخلاف مذہب اس طرف گئے وہ اسے قاضی مجتہد کی رائے پر رکھتے ہیں اور اب صدہا سال سے کوئی قاضی مجتہد نہیں، 

ابوالسعود ازہری پھر طحطاوی علی الدر پھر ردالمحتار میں ہے:
نقل عن الصیر فیۃ جواز التحلیف وھو مقید بما اذاراٰہ القاضی جائزا ای بان کان ذا رأی اما اذا لم یکن لہ رأی فلا۲؎۔
صیرفیہ سے منقول ہے کہ گواہوں سے حلف لینا جائز ہے، یہ جواز مقید ہے اس صورت کے ساتھ کہ قاضی اس کو جائز سمجھے جبکہ قاضی اہل رائے ہو اور اگر وہ اہل رائے نہ ہو تو حلف مذکور جائز نہ ہوگا۔(ت)
 (۲؎ ردالمحتار     کتاب القضاء     فصل فی الحبس        داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴ /۳۴۴)
شامی میں ہے:
والمراد بالرأی الاجتہاد۳؎۔
  رائے سے مراد اجتہاد ہے۔(ت)
 (۳؎ردالمحتار     کتاب القضاء     فصل فی الحبس        داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴ /۳۴۴)
سوم اس سے بھی قطع نظر ہو تو ان بعض کا بر خلاف مذہب اس طرف میل اس ضرورت سے تھا کہ حلف کے سبب حاکم کو ان کے صدق پر غلبہ ظن حاصل ہو،
بحر میں تہذیب قلانسی سے ہے :
فی زماننا لما تعذرت التزکیۃ بغلبۃ الفسق اختار القضاۃ کما اختارابن ابی لیلی استحلاف الشہود لغلبۃ الظن۴؎۔
ہمارے زمانے میں چونکہ فسق کے غلبہ کی وجہ سے گواہوں کا تزکیہ متعذر ہوگیا ہے لہذا غلبہ ظن کے حصول کے لئے قاضیوں نے گواہوں سے حلف لینے کو اختیار کیا جیسا کہ ابن ابی لیلٰی کا مختار ہے۔(ت)
 (۴؎ بحرالرائق         کتاب الشہادات     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۷ /۶۳)
ظاہر ہے کہ یہ ان متاخرین کے زمانے تک تھا جب تک جھوٹے حلف سے مستور لوگ پرہیز کرتے تھےخصوصاً پرائے لئے، اور اس زمانے میں جھوٹے حلف ایک بات ہوگئے لاکھوں کی گنتی پر ہوں گے جو روپے دو روپے بلکہ اس سے بھی کم پر بلکہ نری خاطردوستی یا فریق ثانی سے ادنٰی رنجش یا کسی خفیف بے معنی غرض کے لئے حلف کے پھنکے اڑاتے ہیں تو وہ ضرورت جس کے لئے مذہب سے عدول ہو تا ہو اصلاً مندفع نہیں، اب یہیں دیکھئے کہ یہ گواہیاں حلفی تھیں اورتجربہ کار دانا ذی علم مجوز کو غلبہ وظن صدق درکنار وہم صدق بھی نہ ہوابلکہ غلبہ ظن کذب ہی رہا، ہر عاقل جانتا ہے کہ اب اگر صرف حلف گواہان کو قائم مقام تزکیہ مانا جائے تو ہزاراں ہزاردروازہ ظلم کھل جائیں لوگ چار چار آنے کے دو گواہ حلفی گزار کر مخلوق کی جائدادیں لے جائیں جو روئیں چھین لیں وہ فساد اٹھے جس کا بیان ناممکن ہو تو اب اس قول مرجوح بلکہ مخالف اجماع مذہب کے طرف میل باطل محض وخرق اجماع و جہل صرف تو تھا ہی کہ درمختار میں ہے:
الحکم والفتیابالقول المرجوح جھل وخرق للاجماعٍ۱؎۔
قول مرجوح پر فیصلہ اور فتوٰی دینا جہل اور خلاف اجماع ہے۔(ت)
(۱؎ درمختار  رسم المفتی  مطبع مجتبائی دہلی   ۱/ ۱۵)
فتح ابواب ظلم وقطع گردن مظلومان بھی ہو گا
ولایرضاہ من لہ عقل ودین
 (کوئی عاقل اوردیندار اس کو پسند نہیں کرتا۔ت) سائل اولیت پوچھتا ہے کہ فیصلہ اول بحال رکھنا اولٰی ہے یا طلاق ثابت قرار دینا، اولویت کیسی، حاکم مرافعہ اولٰی کہ شریعت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی اطاعت چاہے اور احکم الحاکمین جل جلالہ کے دربار میں اپنی حاضری وباز پرس سے ڈرے اس پر لازم فرض ہوگا کہ حکم ججی کو منسوخ اور فیصلہ اولٰی کو بحال کرے۔ رہی وہ تائید کہ پدرمدعیہ نے لرز کر حلف کیا اور مدعا علیہ نہ بولا ایسی بات ہے جسے نہ شرع سے تعلق نہ علم سے لگاؤ۔ پدر مدعیہ یہاں خود مدعی مخاصم ہے مدعی کا حلف اگر سن لیا جائے تو ہر جھوٹا جیتے اور حق وانصاف کے گلے کا تسمہ نہ لگارہے،

 رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
لو یعطی الناس بدعواھم لادعی ناس دماء رجال واموالھم ولکن الیمین علی المدعی علیہ۲؎رواہ الشیخان عن ابن عباس رضی اﷲ عنہما۔
اگر لوگوں کو ان کے دعوٰی کے سبب سے دیا جائے تو کچھ لوگ دوسروں کے خون اور مال کا دعوٰی کرینگے لیکن قسم مدعی علیہ پر ہے۔ اس کو شیخین نے سیدنا عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے روایت کیا ہے۔(ت)
 (۲ ؎ صحیح مسلم    کتاب الاقضیہ     باب الیمین علی المدعی علیہ    قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲ /۷۴)

(صحیح البخاری     کتاب التفسیر     باب قولہ تعالٰی ان الذین یشترون بعہداﷲ الخ    قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲ /۶۵۳)
ریاست اسلامی کے حکام پر لازم ہے کہ احکام اسلام ہی کا اتباع کریں اﷲتعالٰی توفیق دے، آمین۔ واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔
مسئلہ۲۲: مسئولہ ابومحمد یوسف حسین متعلم مدرسہ اسلامیہ ساپور۲۰ذوالحجہ ۱۳۳۳ھ شنبہ

کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید کا انتقال ہوگیا اس کی بیوی اور بھائی عمرو موجود ہیں، ہندہ نے جائداد کا دعوٰی کیا ہے، عمرویہ ثابت کرتا ہے کہ نکاح نہیں ہوا، ہندہ کی طرف سے ناکح نے شہادت دی ہے کہ میں نے نکاح پڑھا ہے، اور ہندہ کی بہن فاطمہ نے بھی شہادت دی ہے کہ نکاح ہوا، شاہدین انکار کرتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ عمرو کے ملازم ہیں، مگر بہت سے لوگ جن سے زید نے اپنے نکاح کا اقرار کیا ہے شہادت دیتے ہیں کہ ہم سے زید نے نکاح کا اقرار کیا ہے، ایسی صورت میں ہندہ مستحق جائداد ہے یانہیں؟فتح القدیر میں ایک صورت درج ہے جو تحریر کی جاتی ہے ملاحظہ فرمائی جائے اس سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ شہادت علی اقرار الزوج معتبر ہے :
واذاجحد احد الزوجین النکاح فاما اصلہ او شرطہ ففی اصلہ لوجحد الزوج فاقامت بینۃ بہ اوعلی اقرارہ قبلت ولایکون جحودہ طلاقا۱؎ ۔فتح القدیرص۱۵س۱۳مطبوعہ نولکشورلکھنؤ۔
اگر زوجین میں سے کوئی اصل نکاح یا شرط نکاح کا انکار کردے تو اصل کی صورت میں اگر زوج منکر ہے اور زوجہ نے نکاح پر یا شوہر کے اقرار پر گواہ قائم کردئے تو ان کی گواہی قبول کرلی جائے گی اور شوہر کاانکار طلاق نہ ہوگا۔(ت)

امید کہ جوا ب براہ کرم جلد مرحمت فرمایا جائے۔
 (۱؎ فتح القدیر    کتاب النکاح     مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۳ /۱۱۷)
الجواب

نکاح پڑھانے والے کی گواہی مذکور معتبر نہیں
لانھا شہادۃ علی فعل نفسہ وشہادۃ المرء علی فعل نفسہ لاتقبل ۲؎کما فی خزانۃ وغیرہا
(کیونکہ یہ اپنے ہی فعل پر گواہی ہے اورکسی شخص کی گواہی اس کے اپنے فعل سے قبول نہیں کی جاتی جیسا کہ خزانہ وغیرہ میں ہے۔ت)
 (۲؎ فتاوٰی قاضی خاں    کتاب الشہادات    فصل ومن الشہادۃ الباطلۃ الخ    نولکشور لکھنؤ   ۳ /۵۴۳)
اور بہن تنہاشاہد ہے بلکہ نصف، البتہ اقرار زوج پر اگر دو شاہد قابل قبول گواہی دیتے ہیں تو کافی ہے کہ وارثان زوج قائم مقام زوج ہیں اور اقرار زوج زوج پر حجت اور اس کے لئے عبارت مذکور فتح القدیر کفایت۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ۲۳: ازاحمد آباد گجرات محلہ چھیپان پانچ پیپلی مکان چھیپان سلطان جی علی جی کوڑے والے مسئولہ پیر زادہ غلام نبی صاحب ۱۷/رمضان ۱۳۳۹ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین ان مسئلوں میں کہ ان دنوں شہر ناگور ضلع جو دھپور مارواڑ میں ایک انجمن کمیٹی مدرسہ اسلامیہ حمیدیہ کے نام سے مقرر ہوئی جس میں ممبران ومنتظمان بازار کے بیٹھنے والے مثل دکاندار کفن وخوشبوفروش برائے مردہ ودلال ہیں ان کی شہادت شرع شریف کے نزدیک مقبول یاباطل،اور ایسے اشخاص قابل ممبر مدرسہ ہوسکتے ہیں یانہیں؟بینواتوجروا۔
الجواب

ہمارے بلاد میں کوئی پیشہ ور صرف کفن فروشی پر قناعت نہیں کرتا بزاز کپڑا بیچتا ہے اسی سے کفن بھی لیا جاتا ہے اسی سے شادی کے کپڑے اسی سے روزانہ پہننے کے ۔یونہی کوئی خاص حنوط فروش بھی نہیں کافور وغیرہ عام کاموں کے لئے جن دکانوں سے ملتے ہیں انہیں سے اس کے لئے بھی حاصل کئے جاتے ہیں اس کی وجہ سے ان کی شہادت  میں کوئی فرق نہیں آسکتا ہاں دلال کاکام وکلاء کی طرح جھوٹ سچ ملانا ہے اور ان کی گواہی ضرور مردود، اور انہیں کسی جلسہ دینیہ کا منتظم بنانا نہ چاہئے۔ اسی طرح وکلاء مختار وغیرہم تمام ان لوگوں کو جن کے پیشے یادیگر افعال علانیہ فسق ہوں جیسے داڑھی منڈانا وغیرہ۔ 

تبیین الحقائق میں ہے :
لانہ فی تقدیمہ تعظیمہ وقد وجب علیہم اہانتہ شرعا۱؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
کیونکہ فاسق کی تقدیم میں اس کی تعظیم ہے جبکہ مسلمانوں پر ان کی توہین شرعاً واجب ہے(ت)واﷲ تعالٰی اعلم
 (۱؎ تبیین الحقائق   باب الامامۃ والحدیث فی الصلوٰۃ    مطبعۃ الکبرٰی بولاق مصر    ۱/ ۱۳۴)
Flag Counter