Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
119 - 151
مسئلہ۱۲۳: مسئولہ غلام گیلانی از شمس آباد کیمل پور    ۱۸/شعبان ۱۳۳۴ھ سہ شنبہ
مدعی بینہ آورد وامانز د قاضی بکسے وجہ مقبول نشد ندازوجہ فسق یا عدم تو افق شہادات بادعوی یایک گواہ موافق بود دیگر مخالف مدعی دریں صور ایں بینہ را کالعدم تصور بدہ بر منکر حلف عائد خواہد شد یانہ فقط۔
مدعی نے گواہی پیش کی لیکن فاسق ہونے یا شہادت کے دعوٰی کے موافق نہ ہونے یا ایک گواہ موافق اور دوسرا مخالف میں سے کسی وجہ سے قاضی کے ہاں گواہی مقبول نہ ہوئی ان صورتوں میں مدعی نے گواہی کو کالعدم قرار دیا تو کیا منکر پر قسم عائد ہوگی یا نہیں، فقط۔(ت)
الجواب الملفوظ

پیداست کہ دریں صورت مدعی از اقامت بینہ عاجز ماند ہر چہ برسم گواہان پیش کنند بینہ نہ باشد بینہ آنست کہ ہمچو اسم خود بینہ باشد پس بطلب مدعی بلا شبہہ حلف بر مدعی علیہ عائد گردد۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
اس صورت میں ظاہر ہے کہ مدعی گواہی پیش کرنے سے عاجز رہا اس نے گواہی کے طور پرجن کو پیش کیا وہ بینہ نہ ہوئے، بینہ اپنے نام کی طرح واضح کرنے  والا ہوتا ہے، پس مدعی کے مطالبہ پر مدعٰی علیہ پر قسم عائد ہوگی۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔(ت)
مسئلہ۱۲۴: مسئولہ شمس الدین از نصیر آباد ضلع اجمیر شریف مسجد گودام چرم ۱۷/ذوالقعدہ ۱۳۳۴ھ دو شنبہ
فتوٰی دینے کےلئے مفتی کو کتنا علم پڑھنا ضروری ہے اور کتنی مہارت علوم دینیہ میں ہونی چاہئے فقط۔
الجواب

حدیث و تفسیر واصول وادب وقدر حاجت ہیأت وہندسہ و توقیت اور ان میں مہارت کافی اور ذہن صافی اور نظروافی اور فقہ کا کثیر مشغلہ اور اشغال دنیویہ سے فراغ قلب اور توجہ الی اﷲ اور نیت لوجہ اﷲ اور ان سب کے ساتھ شرط اعظم توفیق من اﷲ، جوان شروط کا جامع وہ اس بحر ذخار میں شناوری کرسکتا ہے مہارت اتنی ہو کہ اس کی اصابت اس کی خطا پر غالب ہو اور جب خطا واقع ہو رجوع سے عار نہ رکھے ورنہ اگر خواہی سلامت برکنار است۔واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ۱۲۵: مسئولہ محمد سلیمان طالب علم مدرسہ فیض احمدی کانپور۳۰/محرم الحرام ۱۳۳۵ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اور مفتیان شر ع متین ا س مسئلہ ذیل میں کہ زید صاحب جائداد کے انتقال کے قریب اس کی زوجہ مسماۃ ہندہ سے لوگوں نے کہا کہ زید کے انتقال کا وقت قریب ہے اپنا دین مہر زید کو معاف کردو تاکہ آخرت میں اس کو مواخذہ نہ ہو، مسماۃ ہندہ مذکور نے کہا کہ اگر میں اپنا مہر معاف کردوں تو زید کا بھائی بکر اس جائداد میں سے اپنا حصہ لے لے گا اور بقیہ جائداد مجھ کو اور میری دونوں لڑکیوں کو کافی نہ ہوگی اور ہم لوگ سخت تکلیف اٹھائیں گے، لوگوں نے کہا کہ تم معاف کردو اور ہم ذمہ داری کرتے ہیں کہ یہ جائداد تمہارے ہی قبضہ میں رہے گی اور بکر کو ہر گز قابض نہ ہونے دینگے، چنانچہ مسماۃ ہندہ نے جس قدر مہر کی قیمت جائداد سے زائد تھا اسی وقت زید کو معاف کردیا، بعد اس کے زید نے انتقال کیا او ربعد انتقال زید کے جائداد زید پر قابض ہوئی اور اپنی باقی عمر ا س پر مالکانہ تصرف کرتی رہی، چنانچہ دونوں لڑکیوں کی شادی کے وقت کچھ جائداد کو متفرق طور پر بقدر ضرورت بیچ ڈالا اور بکر برادر زید مرحوم کچھ نہیں بولا اور جب تک مسماۃ ہندہ زندہ رہی بکرنے کبھی کوئی دعوٰی کچہری میں اپنے حق پانے کا نہیں کیا اور نہ کبھی ہندہ سے کہا کہ میرا حق مجھ کو دے دو، البتہ اور لوگوں سے کہا کرتا تھا کہ میرا بھی اس جائدا میں حق ہے، اب ہندہ نے بعد وفات زید کے تخمیناً پندرہویں سال انتقال کیا اور بعد انتقال ہندہ کے بکر دعوٰی کرتا ہے کہ جائداد زید میں میرا حق میراث مجھ کو ملناچاہئے اور منافع جائداد مذکور ہندہ کی دونوں لڑکیوں کو لینے نہیں دیتا اور کہتا ہے کہ جب تک میراحق مجھ کو نہ دوگی تم لوگوں کو لینے نہ دوں گا، اس صورت میں جائدا د متروکہ زید میں سے کہ جس میں اس کی زوجہ ہندہ بعوض بقیہ مہر کے چودہ پندرہ برس قابض و متصرف مالکانہ رہی ہے شرعاً بکر کو حق مل سکتا ہے یانہیں؟
بینوابالسند والکتاب تؤجروا من رب الارباب
(سند اور کتاب سے بیان کیجئے، رب الارباب سے اجر دئے جاؤ گے۔ت)
الجواب

صورت مستفسرہ میں بکر کا دعوٰی مدفوع اور اصلاً نامسموع، شیخ الاسلام ابو عبداﷲ محمد عبداﷲ غزی تمر تاشی نے اپنے فتاوٰی میں تصریح فرمائی ہے کہ:
لا تسمع الدعوی بعد ثلث سنین قطعا للحیل والتزویر والاطماع الفاسدۃ۱؎(ملتقطا)
حیلہ سازی، جھوٹ اور فاسد لالچ کے احتما ل کی وجہ سے تین سال کے بعد دعوٰی قطعاً قابل سماعت نہ ہوگا(ملتقطاً)۔(ت) اسی طرح خیریہ و عقود الدریہ وردالمحتار وغیرہا میں ہے،
والتفصیل فی فتاوٰنا
 (اور س کی تفصیل ہمارے فتاوٰی میں ہے۔ت)
واﷲ تعالٰی اعلم۔
(۱؎ ردالمحتار    کتاب القضاء    فصل فی الحبس    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴ /۳۴۴)

(العقود الدریۃ        کتاب الدعوٰی    ارگ بازار قندھار افغانستان    ۲ /۳)

(فتاوٰی خیریۃ        کتاب الدعوٰی    دارالمعرفۃ بیروت    ۲ /۴۸)
مسئلہ۱۲۶: مرسلہ ناصر الدین خاں ساکن پیلی بھیت محلہ بشیر خاں۲/صفر ۱۳۳۵ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شر ع متین اس مسئلہ میں کہ زید اور عمرو کے دروازوں کے سامنے ایک اراضی چودہ فٹ چار انچ طویل اور پانچ فٹ نوانچ عریض بغرض مرور کے ہے، عرصہ پندرہ سولہ سال سے زید نے بجائے دروازہ کے کھڑکی کرلی اور اس سے آمدورفت جاری رکھی، پھر زید نے اس کو تقریباً ایک سال تک بندر کھااور اسی حالت میں اپنے مکان کا بیعنامہ مع جملہ حقوق داخلی و خارجی کے بکر کو کردیا اور اس بیعنامہ میں اس کھڑکی کا ذکر نہیں اور اس بیعنامہ میں دوسری کھڑکی کا بھی ذکر نہیں ہے  جو اس مکان میں دوسری طرف لگی ہوئی ہے بکر نے مکان خرید نے کے بعد کھڑکی کھول لی جس کو تقریباً تیرہ چودہ سال ہوئے اب عمرو نے اس اراضی کو اپنے گھر میں عرصہ تین ماہ سے ڈال لیا ہے اور ایک دروازہ جدید اراضی مرور میں لگایا ہے جو ملاحظہ نقشہ سے ظاہر ہوگا، آیا زید کو اپنی کھڑکی کھولنے کا حق تھا یانہیں اور اگر حق حاصل تھا تو وہی حق مشتری بکر کو حاصل ہے یانہیں اور عمرو اس اراضی کو اپنے مکان میں الحاق کرنے کا مجاز ہے یانہیں؟
الجواب

عمرو کو کوئی استحقاق اس زمین کے الحاق کا نہیں، یہ سراسر ظلم ہے اور اس سے باز آنا اس پر واجب اور بکر اس کھڑکی کے کھولنے کا اختیار رکھتا ہے مکان مع جمیع حقوق اس نے خریدا ہے حقو ق میں یہ مرور بھی ہے عمرو وبکر دونوں کو یکساں اس میں حق مرور حاصل ہے عمرو کا اس میں دیوار قائم کرنا تصرف باطل ہے اوراس کا انہدام لازم۔
نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
لیس لعرق ظالم حق۱؎
 (ظالم کے دخل کا کوئی حق نہیں۔ت)
 (۱؎ السنن الکبری للبیہقی    کتاب الغصب باب لیس لعرق ظالم الخ    دارصادر بیروت    ۶ /۹۹)

(صحیح البخاری    کتاب الحرث ۱/ ۳۱۴    وسنن ابی داؤد    کتاب الخراج     ۲ /۸۱)
دروازہ جدید کہ عمرو نے نکالا ہے اس کے نکالنے کا اس کو اختیار حاصل ہے کہ وہ اندر کی جانب نہیں باہر کی طرف ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
Flag Counter