Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
118 - 151
مسئلہ۱۱۹: ازگوالیار محمود الحسن ہادی ۲/ذی الحجہ ۳۳ ھ روز شنبہ

کیافرماتے ہیں علمائے دین و حماۃ الشرع المتین کسی معاملہ متنازعہ فیہ میں کسی شخص قرار دادہ احد المتخاصمین کو حکم قرار دے دیں اور وہ حکم ولایت شرعیہ میں نہ فیصلہ کرے تو کیا شرعاًا س کی منسوخی کے واسطے احد المتخاصمین باب القضاء میں یا کسی دیگر طریقہ سے چارہ جوئی کرسکتا ہے؟
الجواب

حکم کا ولایت شرعیہ میں فیصلہ نہ کرنا دو معنی رکھتا ہے، ایک یہ کہ اسے اس فیصلہ کی شرعاً ولایت نہ تھی عام ازیں کہ وہ خود اہل ولایت سے نہ تھا یا اس خاص فیصلہ کی اسے ولایت نہ تھی جیسے قود و حدود میں تحکیم جائز نہیں، دوسرے یہ کہ حکم کو فی نفسہ اور اس خاص مقدمہ کے اعتبار سے بھی ولایت شرعیہ تھی مگر اس نے اس ولایت کے حدود میں فیصلہ نہ کیا اس سے باہر گیا یعنی خلاف شرع حکم دیا بہر حال کچھ بھی معنی ہوں وہ فیصلہ مردود باطل ہے اور کسی طرح نافذ نہیں ہوسکتا منسوخ تو وہ کیا جائے جو کچھ وجود بھی رکھتا ہو، ہاں اگر فریق ثانی نہ مانے تو اس کے اظہار بطلان کے لئے دارالقضاء میں رجوع کی جائے اور قاضی پر واجب کہ اسے رد کردے۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ۱۲۰: مسئولہ محمد حسن صاحب تحصیلدار بجنور    ۲۴/محرم الحرام ۱۳۳۴ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ مورث نے کچھ زیور نقرئی و طلائی برتن وغیرہ کے اس نیت سے تیار کرائے کہ بوقت شادی اپنی فلاں لڑکی کو بطور جہیز دینگے، وقتاً فوقتاً کسی کسی زیور کو جو تیار ہوکر آتے رہے اپنے اعزاواحباب کو یہ کہہ کر دکھایا بھی کہ فلاں لڑکی کو بطور جہیز بوقت شادی دینے کے لئے بنوایا ہے، منجملہ اشیا مسطور بالا بعض اشیاء دختر مذکور ہ کے زمانہ عدم بلوغ میں تیار ہوئے تھے، اور بعد بلوغ قطعی طور سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کون کون سے قبل از بلوغ تیار ہوئے تھے اور کون سے بعد بلوغ ۔ بعد بلوغ دختر مذکورہ مورث زائدازیک سال زندہ رہے اور کل اشیاء بدستور بحالت موجودہ بہ بقبضہ مورث رہیں۔ مورث نے دختر مذکورہ کی شادی سے قبل انتقال کیا، اس صورت میں اشیاء متذکرہ بالا شرعا متروکہ متوفی قابل ورثہ ہیں یا تنہا ملک دختر متصور ہوں گی اور مورث کی محض نیت ہبہ وصیت کی حد تک پہنچتی ہے یانہیں؟بینواتوجروا۔
الجواب

کسی مال سے مالک کی ملک بے کسی دلیل ثابت واضح کے منتقل نہیں مانی جاسکتی۔ 

ائمہ کرام فرماتے ہیں:
لاینزع شیئ من ید احدالابحق ثابت معروف۔
مشہور طور پر حق کے ثبوت کے بغیر کسی کے قبضہ سے چیز کو چھڑانا صحیح نہیں ہے۔(ت)
یہ پہلے فتوٰی میں بیان ہولیا کہ اگر لڑکی نابالغہ تھی جو کچھ اس کی نیت سے بنوایا ملک دختر ہوگیا باپ کا اس نیت سے یہ تصرف ہی اس وقت قائم مقام ہبہ ہے اور باپ کا قبضہ ہی نابالغ کا قبضہ ہے ہبہ تام وکامل ہوگیا اور بالغہ تھی تو قبل تسلیم موت واہب سے ہبہ تھا بھی تو باطل، رہا یہ کہ بعض نامعلوم اشیاء قبل بلوغ اس کے لئے بنوائی تھیں اس کا ثبوت درکار، دختر اگر خود یونہی مجہول دعوٰی کرتی ہے کہ کچھ میری نابالغی میں بنوایا تھا تو دعوٰی ہی مسموع نہیں کہ دعوی مجہول نامقبول۔ 

درمختار میں ہے:
شرط جواز الدعوی معلومیۃ المال المدعی اذلایقضی بمجہول۱؎۔
دعوٰی کے جواز کے لئے مال مدعٰی کا معلوم ہونا شرط ہے کیونکہ مجہول چیز کا فیصلہ درست نہیں۔(ت)
 (۱؎ درمختار    کتاب الدعوٰی    مطبع مجتبائی دہلی     ۲ /۱۱۵)
اور اگر وہ معین اشیاء کا دعوٰی کرے مگر گواہ تعین نہ کریں تو گواہان نامسموع کہ شے مجہول پر شہادت مردود۔ عالمگیری میں ہے:
شرائطھا منھا مایرجع الی المشہود بہ وھو ان یکون بمعلوم فان کان بمجہول لاتقبل۲؎۔
اس کی شرائط میں سے ایک یہ ہے جو مشہود بہ سے متعلق ہے کہ وہ معلوم ہو، تو اگر مجہول ہو تو شہادت مقبول نہ ہوگی۔(ت)
(۲؎ فتاوٰی ہندیہ     کتاب الشہادات     الباب الاول     نورانی کتب خانہ پشاور    ۳ /۴۵۱)
ہاں اگر دخترد عوٰی بالتعیین کرے اور گواہان اشیاء معینہ نہ دے سکے او ر دیگر ورثہ پر حلف رکھے اور وہ حلف کرلیں دعوٰی رد ہوجائے گا اور حلف سے انکار کردیں تو دعوٰی ثابت ہوجائے گا______________اور وہ اشیاء بعینہ دختر کو دلادی جائیں گی
کما ھو الحکم المعروف فی النکول
(جیسا کہ قسم کے انکار میں حکم معروف ہے۔ت) اور اگر صورت یہ ہے کہ ورثہ خود اقرار کرتے ہیں کہ مورث نے بعض اشیاء اس دختر کی نابالغی میں اس کےلئے بنوائی تھیں تو جو جو شے معین کریں وہ ملک دختر ہوں گی ورنہ کچھ نہیں،
فان الھبۃ تملیک وتملیک المجہول لایجوز فالا قرار بھبۃ مجھولۃ لایجوز۔
کیونکہ ہبہ تملیک کا نام ہے جبکہ تملیک مجہول ناجائز ہے، تو مجہول چیز کے ہبہ کا اقرار جائز نہیں۔(ت)
ہندیہ میں ہے :
قال لاخرانت فی حل مما اخذت لم یحل لہ الاخذ۱؎۔
ایک نے دوسرے کو کہا کہ جو تو نے لیا وہ تجھے حلال ہے تو اسکو وہ لینا حلال نہ ہوگا۔(ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ     کتب الہبہ   الباب الثالث  نورانی کتب خانہ پشاور ۴ /۳۸۲)
درمختار میں ہے:
جہالۃ المقر بہ لاتضر الااذا بین سببا تضرہ الجہالۃ کبیع واجارۃ ۲؎واﷲ تعالٰی اعلم۔
جس چیز کا اقرار کیا گیا اس کا مجہول ہونا مضر نہیں لیکن جب اقرار میں ایسے سبب کو بیان کرے جس میں جہالت مضر ہو جیسے بیع اور اجارہ واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
(۲؎ درمختار    کتاب الاقرار     مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۱۳۰)
مسئلہ۱۲۱: ازرام پور محلہ پل پختہ متصل زیارت بھورے میاں مسئولہ عبدالحکیم ۱۹صفر ۱۳۳۴ھ دوشنبہ 

رشوت کی تعریف اور اس کی وعید۔
الجواب

رشوت کے لئے فرمایا:
الراشی والمرتشی کلاھما فی النار۱؎۔
  رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں جہنم میں ہیں۔(ت)
 (۱؎ الترغیب والترہیب  ۳/ ۱۸۰  , مجمع الزوائد، باب فی الرشا   ۴ /۱۹۹   ,کنز العمال حدیث ۱۵۰۷۷      ۶ /۱۱۳)
یہ اس صورت میں ہے کہ دینے والا مستحق رہے گا، کسی کا حق چھپانا اور اپنا حق نکالنے کیلئے جو دیا جائے وہ رشوت ہے اور اپنے اوپر سے دفع ظلم کرد یا جائے تو رشوت نہیں، ہاں ظالم کے حق میں وہ بھی رشوت ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ۱۲۲: مسئولہ رحمت علی خاں از جے پور سالگانیر دروازہ جوہری بازار دکان عبدالرحمٰن وعبدالغنی خیاط۹رجب ۱۳۳۴ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ مسمی رحمت علی خان اور اس کی زوجہ مسماۃ آبادی بیگم کے باہمی نااتفاقی تھی چنانچہ مسماۃ کی جانب سے دعوٰی واپسی جہیز عدالت میں دائرہوکر دس پانچ اشخاص اہل ہنود متخاصمین کی جانب سے پنچ مقرر ہوئے اور عدالت سے پنچان ہنود کے سپرد فیصلہ کےلئے کہا گیا، پنچان نے بجائے اس کے کہ مقدمہ واپسی جہیز میں فیصلہ دیتی یہ فیصلہ صادر کیا کہ رحمت علی خاں اپنی زوجہ کو نہ طلاق دے سکے اور نہ دوسری شادی کرسکے اور نان و نفقہ میں نصف جائداد مسماۃ کو دی جائے۔ اب دریافت طلب یہ امر ہے کہ بروئے شرع شریف اس فیصلہ کی پابندی رحمت علی خاں پر لازم ہے یانہیں؟
الجواب

 وہ فیصلہ محض مردود و باطل اور خلاف شرع و ناقابل قبول ہے، اس کا کوئی اثر فریقین میں سے کسی پر نہیں پڑسکتا، علاوہ بریں وہ پنچایت سرے سے مردود باطل ہے،
  کمافی الھدایۃ والدر المختار و العالمگیریۃ وغیرہا عامۃ الکتب قال اﷲ تعالٰی
ولن یجعل اﷲ للکفرین علی المومنین سبیلا۲؎۔
جیسا کہ ہدایہ ،درمختاراور عالمگیریہ وغیرھا عام کتب میں ہے اللہ تعالی نے فرمایا :اللہ تعالی ہرگز کافروں کو مومنوں پر راہ نہ دے گا (ت)
(۲؎ القرآن الکریم     ۴ /۱۴۱)
ہاں شرعاً رحمت علی خاں پر یہ فرض ہے کہ یا تو عورت کو اچھی طرح رکھے یا  اچھی طرح طلاق دے دے،
قال تعالٰی
فا مسکوھن بمعروف او فارقوھن  بمعروف ۱؎۔
 واﷲ تعالٰی اعلم۔
ا ﷲ تعالٰی نے فرمایا: ان کو بھلائی کے ساتھ پاس روک لو یا ان کو بھلائی کے ساتھ جدا کردو۔واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
(۱؎ القرآن الکریم       ۶۵/۲)
Flag Counter