Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
117 - 151
مسئلہ۱۱۶ تا ۱۱۸: ازضلع بجنور قصبہ نگینہ محلہ میر سرائے مسئولہ جلال الدین عطار     بروز یکشنبہ ۱۴/ ذی الحجہ ۱۳۳۳ھ

کیافرماتے ہیں علمائے کرام سوالات مندرجہ زیل میں:

(۱) حافظ جلال الدین و نظام الدین ولد مولا بخش بھائی علاتی ہیں ان کو ترکہ میں نزاع ہے، اول یہ کہ دو دکانیں جن میں ان کے والد نشست وبرخاست کرتے تھے حافظ جلال الدین مدعی ہیں کہ یہ ملک والد صاحب مرحوم سے ہے، اور نظام الدین کہتا ہے کہ والد صاحب کی نہیں بلکہ والدہ صاحبہ کو یہ ملی ہیں حافظ جلال الدین اپنے مدعا کے ثبوت میں منجملہ شہادتوں کے ایک شہادت حدود سے کرتے ہیں یعنی ان دکانوں کی جن کے مکانات سے حدود ملتے ہیں ان کے بیعنامہ کے حدود میں ملک والد صاحب کہتے ہیں اور لکھنے والے والد صاحب کی ملک بتلاتے ہیں، اب دریافت طلب یہ امر ہے کہ یہ شہادت باوجود اس کے کہ سبب ملک والد صاحب نہیں بیان کرتے عند الشرع معتبر ہے یا نہیں، اگر معتبر ہے تو ناشی حکم(اس امر کا کھوج لگانا اور جرح کرنا کہ تم کو کس ذریعہ سے ملک مولا بخش معلوم ہوئی، یاتم نے بیعنامہ دیکھا ہے یا تمہارے سامنے بیع ہوئی ہے) حق حاصل ہے یانہیں؟

(۲) اور نیز حافظ جلال الدین اپنے مدعا میں ایک شہادت یہ گزرانتا ہے کہ ایک شاہد یہ بیان کرتا ہے کہ ان دکانوں کا بیعنامہ میرے سامنے ہو ااور بائع نے میرے سامنے بیع کی، اور دوسرا شاہد بیان کرتا ہے کہ مشتری نے میرے سامنے اس کی بیع لینے کا اقرار کیا کہ میں نے فلاں سے یہ دکانیں خریدی ہیں اب دریافت طلب امریہ ہے کہ یہ شہادت عند الشرع معتبر ہے یانہیں؟

(۳)حافظ جلال الدین کہتا ہے کہ ایک مکان والد صاحب نے مجھ کو ہبہ کیا تھا جس میں میں نے ان کی زندگی میں ہی چھپر کا دالان بنالیا تھا اور تقریباً اس میں بیس پچیس سال رہا، بعد میں مجھ کو اس میں تنگی ہوئی اور دوسری دکان کرایہ پر لے کر اس صورت سے رہنے لگا کہ مکان موہوبہ میں اپنا تصرف و قبضہ مالکانہ رہا، اس کے بعد والد صاحب نے دوسرے دکان جو دکان موہوبہ سابق کے بغل میں ایک جانب کو واقع اور ملکیت میں اپنی زوجہ یعنی میری سوتیلی مادر کے تھا مجھ کو ملا کردے دیا اور مادر صاحبہ سے بھی کہلادیاکہ میں نے دے دیا جیسا میرا بیٹا نظام الدین ہے ویسا ہی جلال الدین ہے چنانچہ میں نے اس دوسری دکان کو بھی لے کر اپنے والد اور مادرکی زندگی میں اپنی سابق دکان کے ساتھ ملحق کرلئے درمیان کی دیوار نکال دی اور اس کے سامنے ہی ایک دالان بنالیا، اب سوال یہ ہے کہ عندالشرع ان دونوں دکانوں کا میرے لئے ہبہ درست ہوا یانہیں، اور میرے شاہد ان دونوں مکانوں کی بابت دینا والد صاحب اور والدہ صاحبہ کی جانب سے بیان کرتے ہیں یہ شہادت فقط دینے کی ہبہ پر محمول ہوگی یا عاریۃً پر اور اس میں قاضی یا حکم کو شاہدان سے یہ حق دریافت کرنے کا حاصل ہے یانہیں کہ دکان جلال الدین کو ہبہ دیا گیا تھا یا عاریۃً۔ بینواتوجروا۔
الجواب وباﷲ التوفیق
 (۱) اگر شاہدان نے صرف اس پر اکتفاء کیا کہ یہ دکانیں مولا بخش کی ہیں اور سبب ملک نہ بیان کیا تو یہ شہادت منجملہ عند الشرع معتبر ہے او ر دکانیں مولا بخش کی ہی مانی جائیں گی اور قاضی یا حکم کو اس کا حق حاصل نہیں ہے کہ گواہان سے تفتیش کرے کہ تم کو کس سبب اور ذریعہ سے ملک فلاں ہونا ثابت ہوا،
ومن فی یدہ شیئ فلک ان تشھد انہ لہ ان وقع فی قلبک ذٰلک والالا۱؎الخ تنویر الابصار،
اور اگر کوئی شیئ کسی کے قبضہ میں بطور ملکیت ہو، دل پر گزرے تو تجھے جائز ہے کہ اس چیز کی اس کے لئے شہادت دے ورنہ نہیں الخ تنویر الابصار۔
 (۱؎ درمختار شرح تنویر الابصار    کتاب الشہادات    مطبع مجتبائی دہلی     ۲ /۹۲)
وفی الھدایۃ ومن کان فی یدہ شیئ سوی العبد والامۃ وسعک ان تشھد انہ لہ لان الید اقصی مایستدل بہ علی الملک اذھی مرجع الدلالۃ فی الاسباب کلہا۲؎، قال فی نہایۃ انہ لا دلیل لمعرفۃ الملک فی حق الشاہد سوا الید لان اکثر مافی الباب ان یعاین اسباب الملک من الشراء ونحوہ الا ان الشراء انما یفید الملک اذاکان المبیع ملکا للبائع وذٰلک لایعرف الابالید فلو لم یجزاداء الشہادۃ بحکم الید لسد باب الشہادۃ حتی حل للقاضی ان یقضی بحکم الید کما یحل للشاہد۳؎انتہی۔
اور ہدایہ میں ہے غلام اور لونڈی کے علاوہ کوئی چیز کسی کے قبضہ میں ہوتو تجھے گنجائش ہے کہ تو یہ شہادت دے کہ یہ چیز اس کی ہے کیونکہ قبضہ ملکیت کی دلیل کے لئے فیصلہ کن ہے کیونکہ یہ تمام اس باب میں دلالت کا مرجع ہے، نہا یہ میں فرمایا: گواہ کے پاس ملکیت کی معرفت کے لئے قبضہ کے علاوہ کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ اس باب میں اکثر طور نظر آنے والے اسباب خریداری وغیر ہ ہیں لیکن خریداری بھی اس وقت مفید ملک ہے جب یہ معلوم ہو کہ مبیع بائع کی ملکیت تھا اور بائع کی ملکیت اس کے قبضہ سے ہی معلوم ہوسکتی ہے اور اگر قبضہ کی بناء ملکیت کی گواہی جائز نہ ہو تو شہادت کا دروازہ ہی بند ہوجائے، حتی کہ قاضی کو جائز ہے کہ وہ قبضہ کی بناء پر ملکیت کا فیصلہ دے جس طرح گواہ کو یہ شہادت دینا جائز ہے اھ(ت)
 (۲؎ الہدایہ    کتاب الشہادات    مطبع یوسفی لکھنؤ    ۳/ ۱۵۹)

(۳؎ النہایہ شرح الہدایہ )
 (۲) یہ شہادت معتبر ہے۔
کما فی فوائد السمیۃ فی باب الاختلاف بالشہادۃ ناقلا علی صاحب الدرر ولو شھد احدھما ان فلانا باع منہ و اٰخران فلانا اقربا لبیع منہ تقبل الخ۔
جیسا کہ فوائد السمیہ کے اختلاف شہادت کے باب میں صاحب درر سے نقل کرتے ہوئے فرمایا کہ اور گواہوں میں سے ایک نے شہادت دی کہ فلاں نے یہ چیز اس کو فروخت کی ہے، اور دوسرے نے شہادت دی کہ فلاں نے اس کے پاس فروخت کرنے کا اقرار کیا ہے، تو مقبول ہوگی الخ(ت)
 (۳) حافظ جلال الدین کے لئے ان دونوں مکانوں کا ہبہ عندالشرع درست ہوگیا اور باپ کا دینا قرائن ہبہ اور تملیک کے موجود ہوتے ہوئے ہبہ ہی ماناجائے گا اور اتنی مدت دراز تک تصرف مالکانہ اور عدم تعرض والد کا واضح قرینہ تملیک ہے، لہذا شاہدین کی شہادت میں لفظ دینا ہبہ ہی پر محمول ہوگا عاریت پر نہیں ہوسکتا اور قاضی یا حکم کو شاہدین سے یہ استفسار کرنا کہ عاریۃً دیا تھا یا ہبۃً عندالشرع کوئی حق نہیں بلکہ یہ شہادت ہبہ ہی پر محمول ہوگی،   

ردالمحتار میں ہے :
وفی خزانۃ الفتاوی اذا دفع لابنہ مالا فتصرف فیہ الابن یکون للاب الااذادلت دلالۃ التملیک بیری۱؎الخ۔
   خزانۃ الفتاوٰی میں ہے اگر کسی نے بیٹے کو مال دیا جس میں بیٹا باپ کی دی ہوئی اجازت سے تصرف کرتا ہو وہ مال باپ کا ہوگا مگر جب باپ کی طرف سے تملیک کا واضح قرینہ موجود ہو تو بیٹے کا تصور ہو گا، بیری الخ(ت)
(۱؎ ردالمحتار    کتاب الھبۃ    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴ /۵۰۸)
وفی فوائد السمیۃ صحت بمثل قولہ نحلت و وھبتہ کذالہ جعلت، اما وھبت فانہ صریح فیہ واما نحلت وھی بمعنی اعطیت فلانہ مستعمل فیہ واما جعلت لہ فلان اللام للتملیک، واﷲ اعلم بالصواب، راقم بشیر احمد عفی عنہ۔
فوائد السمیہ میں ہے میں نے اس کو عطیہ دیا، اس کو ہبہ کیا۔ یونہی اس کے لئے کردیا، میں نے اسے ہبہ کیا۔ ان الفاظ سے ہبہ صحیح قرار پائیگا "وھبت" سے تو اس لئے کہ اس میں تملیک کی تصریح ہے "نحلت" سے اس لئے کہ یہ "اعطیت"(میں نے عطا کیا) کے معنی میں ہے کیونکہ یہ اسی معنی میں مستعمل ہے، لیکن ''جعلت لہ'' سے اس لئے کہ اس میں لام تملیک کے لئے ہے،واﷲ تعالٰی اعلم بالصواب، راقم بشیر احمد عفی عنہ۔(ت)
الجواب

(۱) بیعناموں کی حدود میں ملک فلاں لکھا ہونا حجت نہیں،
فان القاضی انما یقضی بالبینۃ اوالاقرار اوالنکول اما الکتاب فلیس من الحجۃ فی شیئ۱؎ کما فی الخانیۃ والخیریۃ وغیرھما۱؎۔
کیونکہ قاضی صرف گواہی یا اقرار یا قسم سے انکار پر فیصلہ دیتا ہے لیکن تحریر کوئی حجت نہیں ہے جیساکہ خانیہ اور خیریہ میں ہے۔(ت)
(۱؎ فتاوٰی خیریۃ    کتاب القضاء   باب خلل والمحاضر والسجلات  دارالفکر بیروت    ۲/ ۱۹ ،۲۳)
اس کے ساتھ اگر کاتبان بیعنامہ کی زبانی شہادتیں یوں ہی کہ یہ بیعنامے ہم نے لکھے اور ان کے حدودمیں فلاں مکان ملک فلاں لکھا تو یہ بھی کوئی چیز نہیں کہ یہ شہادت ملک پر نہیں بلکہ اپنے ایک فعل پر ہے اور اگر وہ یوں گواہی دیتے ہیں کہ یہ مکان ملک مولابخش ہے کہ حدود بیعنامہ میں اس کی ملک لکھا ہے تو یہ بھی اصلاً مسموع نہیں کہ کتابت صک غیر مقر پر حجت نہیں، ہاں اگر وہ مطلقاً یہ مکان ملک مولابخش ہونے کی گواہی دیتے ہوں اور تحریر حدود کو اس کا متبع بتاتے ہوں تو گواہی مسموع ہے، اور اگر وہ عادل شرعی ہیں تو حکم یا قاضی کو اس جرح کا کوئی حق نہیں کہ تم نے کیونکر اس کی ملک جانی ہاں اگر مستور ہوں اور حکم کو شبہہ گزرے تو سوال کرے
والمسئلۃ توخذمن جامع الفصولین وغیرہ
(یہ مسئلہ جامع الفصولین وغیرہ سے لیا گیا ہے۔ت) واﷲتعالٰی اعلم۔
 (۲) یہ شہادت اگر پوری تعیین بائع و مشتری کے ساتھ ہو بھی کہ ایک گواہ گواہی دے کہ میرے سامنے یہ مکان زید بن بکرنے مولٰی بخش بن فلان بن فلاں کے ہاتھ بیع کیا، اور دوسرا گواہ گواہی دے کہ میرے سامنے مولٰی بخش بن فلاں بن فلاں نے کہا کہ میں نے یہ مکان زید بن عمرو بن بکر سے خریدکیا جب بھی اصلاً مسموع نہیں کہ دونوں شہادتیں کسی امر واحد پر وارد نہیں، نہ کسی کا بیان کہ میں نے خرید کیا دوسرے پر حجت ہوسکے، اور اسے شہادت علی الاقرار سمجھنا محض بے معنی ہے کہ یہ کہنا کہ میں نے خرید کیا اقرار نہیں دعوٰی ہے، اقرار ودعوٰی میں زمین آسمان کا بل ہے، اقرار مقر پر کوئی حق لازم کرنا ہے بخلاف اس صورت کے کہ ایک گواہ گواہی دے کہ اس بائع نے میرے سامنے اس مشتری کے ہاتھ یہ چیز بیع کی، دوسرا گواہی دے کہ میرے سامنے اس بائع نے اقرار کیا کہ میں نے یہ چیز اس مشتری کے ہاتھ بیع کی، یہ ضرور اقرار کی شہادت ہے اور دونوں شہادتوں سے واحد پر وارد کہ بیع میں صیغہ انشاء وصیغہ اقرار دونوں "بعت" ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم
(۳) فرق ہے اس میں کہ زید عمرو سے کہے کہ یہ مکان میں نے تجھے دیا اور اس میں کہ بکر گواہی دے یہ مکان زید نے عمرو کو دیا تھا دینا ہبۃً بھی ہوتا ہے عاریۃً بھی اجارۃً بھی، مدار قرائن پر رہتا ہے اگر دلالت تملیک پائی جائے ہبہ سمجھا جائے گا ورنہ نہیں، دلائل و قرائن قول معطی کے ساتھ مقترن ہوتے ہیں یہ جو حکایت کررہا ہے کہ زید نے دیا تھا اس کے ساتھ کون سا قرینہ مقترن ہے لہذا شہادت محض مہمل وناکافی ہے، ایسی مبہم بات میں قاضی استفسار کرسکتا ہے اور مدعی کو اس سے روکنے کا حق نہیں کہ اگر استفسار نہ ہوگا شہادت مبہم ہوکر لغو بیکار ہو جائے گی۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
Flag Counter