Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
116 - 151
وجہ ہشتم: یہاں تک گواہان مدعی علیہا پر تمام اعتراضات کا رد ہوگیا۔ ہر دو فتوائے مدعی کا ایک ایک فقرہ مسترد ہوگیا اور روشن ہوا کہ وہ فتوے اگرچہ بظاہر تائید مدعی کے لئے ہیں حقیقۃً ابطال دعوی شفعہ کررہے ہیں ان سے ایک ایک گواہی مدعی سات سات وجہ سے مردود ہے۔ اب ہم وہ وجہ ذکر کریں جس کا وعدہ کیا تھا، ثبوت شفعہ کے لئے لازم ہے کہ دار مشفوع بہا جس کے ذریعہ سے شفیع دعوٰی شفعہ کرے قبل بیع سے وقت حکم تک ملک شفیع میں رہے کہ وقت بیع اس کی ملک شرط شفعہ ہے اور بعد بیع قبل حکم اس کا اپنی ملک سے اخراج دلیل اعراض ہے و لہذا اگر مشتری مشفوع بہا میں ملک شفیع تسلیم نہ کرے شفیع کی طرف سے اس مضمون کی شہادت لازم ہے کہ مشفوع بہا قبل بیع مشفوعہ سے اس وقت تک ملک شفیع ہے ہمارے علم میں اس کی ملک سے خارج نہ ہوئی، اگر گواہوں نے صرف اتنا کہا کہ مشفوع بہا ملک شفیع ہے کافی نہ ہوگا۔

 عالمگیریہ شرائط شفعہ میں ہے:
منھا ملک الشفیع وقت الشراء فی الدار التی یاخذ بھا الشفعۃ۲؎۔
شرائط میں سے شفعہ کرنے والے کی سودے کے وقت اس مکان کی ملکیت ہے جس کی بناء پر شفعہ کررہا ہے۔(ت)
 (۲؎فتاوٰی ہندیہ    کتاب الشفعہ     الباب الاول         نورانی کتب خانہ پشاور    ۵ /۱۶۱)
درمختار میں ہے:
یبطلھا بیع مایشفع بہ قبل القضاءبالشفعۃمطلقاعلم ببیعھا ام لاوکذالوجعل مایشفع بہ مسجدا۱؎۔
شفعہ کے فیصلہ سے قبل شفعہ کا سبب بننے والی زمین کو فروخت کرنا مطلقاً شفعہ کو باطل کردے گا اس کی بیع کا علم ہو یا نہ ہو اور یوں ہی اگر اس زمین کو مسجد بنادیا ہو(ت)
 (۱؎ درمختار    کتاب الشفعہ     باب مایبطلہا    مطبع مجتبائی دہلی     ۲ /۲۱۵)
نیز درمختار میں ہے:
واذا طلب الشفیع سأل القاضی الخصم عن مالکیۃ الشفیع لما یشفع بہ فان اقربھا او نکل عن الحلف علی العلم او برھن الشفیع انہا ملکہ سألہ عن الشراء۲؎الخ۔
جب شفعہ والا مطالبہ کرے تو قاضی دوسرے فریق سے اس مکان کی ملکیت کے متعلق سوال کرے جس کے سبب شفعہ کا دعوٰی کیا ہے اگر وہ فریق مدعی کی ملکیت کا اقرار کرے یا اپنے علم سے متعلق قسم دینے سے انکار کردے یا مدعی اس کی اپنی ملکیت پر شہادت پیش کردے تو پھر قاضی اس مکان کے سودے کے متعلق سوال کرے الخ۔(ت)
(۲؎درمختار    کتاب الشفعہ    باب طلب الشفعہ   مطبع مجتبائی دہلی   ۲ /۲۱۲)
ردالمحتار میں زیر قولہ
برھن الشفیع
 (شفعہ والا گواہ پیش کرے۔ت) محیط سے اور عالمگیری میں محیط وذخیرہ سے ہے:
فی الاجناس بین کیفیۃ الشہادۃ فقال ینبغی ان یشھدوا ان ھذہ الدار التی بجوار الدار المبیعۃ ملک ھذا الشفیع قبل ان یشتری ھذاالمشتری ھذاالدار وھی لہ الی ھذہ الساعۃ لانعلمھاخرجت عن ملکہ فلو قال ان ھذہ الدار لہذا الجار لا یکفی۳؎۔
اجناس میں شہادت کی کیفیت کے بیان میں ہے، تو فرمایا کہ گواہوں کو چاہئے کہ وہ یہ بیان کریں کہ مدعی فروخت شدہ مکان کے پڑوسی والے مکان کا اس مکان کی فروخت سے قبل تاحال مالک چلاآرہا ہے اور مدعی ہی مالک ہے اس کی ملکیت سے خارج ہونے کا ہمیں کوئی علم نہیں ہے اگر گواہوں نے صرف اتنا کہا کہ پڑوس کا یہ مکان اس پڑوسی کا ہے تو کافی نہ ہوگا۔(ت)
 (۳؎ فتاوٰی ہندیہ    کتاب الشفعہ   الباب السابع     نورانی کتب خانہ پشاور    ۵ /۱۷۹)

(ردالمحتار     کتاب الشفعہ    باب طلب الشفعۃ     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۵ /۱۴۴)
یہاں مشتریہ نے مشفوع بہا میں ملک مدعی تسلیم نہ کی تو مدعی پر اقامت بینہ بروجہ مذکور لازم تھی پانچ گواہوں میں سے تین نے تو اس کا نام ہی نہ لیا، ننھے مرزا نے یوں کہا''مدعی جس مکان میں رہتا ہے وہ ملکیت سولہ برس سترہ برس سے گویا کہ مدعی کی اب تک ہے''گویا کو شہادت سے کیا علاقہ۔ اور آگے چل کر اور بھی تخریب کردی کہ مظہر نے محلہ میں مظفرشاہ کی زبانی سنا کہ مدعی کا مکان جس میں مدعی رہتا ہے ملک کی گواہی اور ایک شخص کی سماعی، ہاں صرف برادر مدعی سید وزیر علی نے کہا ہے کہ جس مکان کے ذریعہ سے مدعی نے مکان کے شفعہ کا دعوٰی کیا ہے وہ مکان قبل بیع سے اب تک ملک مدعی میں ہے یہ شہادت بھی باطل ہے،

اولاً ملک مکان پر شہادت کےلئے ضرور ہے کہ یا مکان حاضر کی طرف اشارہ ہو جیسا ابھی عبارت عالمگیری سے گزرا کہ:
ان ھذہ الدار التی بجوار الدار المبیعۃ۱؎۔
بیشک یہ مکان جو فروخت شدہ مکان کے پڑوس میں ہے۔(ت) یا غائب ہے تو اس کے حدود کا بیان ہو،

 عالمگیریہ میں ہے:
فی الشہادۃ علی المحدود لا بد من ذکر الحدود کذافی الخلاصۃ ۲؎۔
محدود چیز کےء متعلق شہادت میں اس کے حدود کو بیان کرنا ضرور ی ہے جیسا کہ خلاصہ میں ہے(ت)
(۱؎فتاوٰی ہندیہ    کتاب الشفعہ    الباب السابع        نورانی کتب خانہ پشاور    ۵ /۱۷۹)

 (۲؎فتاوٰی ہندیہ    کتاب الشہادۃ    الباب الخامس   نورانی کتب خانہ پشاور    ۳ /۴۸۵)
یہاں دونوں مفقود، لہذا شہادت مردود۔

ثانیاً یہ وہی گواہی سے جس میں تبدیل نام واقع ہوئی ہے جس کا بیان وجہ ششم گزرا۔

ثالثاً کچھ نہ ہو تو تنہا ایک کی گواہی ہے ملک ثابت نہیں ہوسکتی لہذا سرے سے مبنائے شفعہ پایہ ثبوت کو نہ پہنچا اور دعوٰی بے ثبوت رہا، رہا یہ کہ خود اسی مکان متنازعہ فیہ کے بیعنامہ اسمی مدعاعلیہامیں حد شمالی مکان مولوی شجاعت علی تحریر ہے اور بیعنامہ عاقدین پر حجت ہوتا ہے لہذا یہ مدعا علیہا کی طرف سے مکان مشفوع بہ میں ملک مدعی کی تسلیم ہے ذی علم فاضل مفتی صاحب نے اسی بناء پر تنقیح بحق مدعی فیصل فرمائی مگر ہماری تقریر سابق سے واضح ہے کہ صرف وقت بیع مشفوع بہا میں ملک شفیع کافی نہیں بلکہ جب سے وقت حکم تک ملک مستمر در کار ہے بیعنامہ سے ثابت ہوا تو اتنا کہ وقت بیع مذکور مکان مشفوع بہ ملک مدعی تھا اس سے وقت طلب اول حسب بیان مدعی بھی ملک مدعی ثابت نہیں ہوتی، نہ کہ اب تک کہ بیع ۱۵/ نومبر کو ہوئی اور مدعی نے وقت طلب ۸/جنوری بیان کیا، ممکن ہے کہ اس بیچ میں اس کی ملک سے نکل گیا ہو اور یہاں استصحاب یعنی اس وقت ملک ثابت تھی اور زوال معلوم نہیں تو اب تک ملک مانی جائے گی کافی نہیں کہ یہ ظاہر ہے اور ظاہر حجت دفع ہے نہ کہ حجت استحقاق، اور شفیع کو منظور استحقاق ہے تو استصحاب بکار آمدنہیں۔ عالمگیریہ میں ہے:
الظاہرلایصلح للاستحقاق فلا بدمن ثبوت ملکہ بحجۃ لاستحقاق الشفعۃ۱؎۔
ظاہر حال کسی استحقاق کو ثابت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تو ثبوت ملکیت کے لئے اس کے پاس شفعہ کے استحقاق کی دلیل کا ہونا ضروری ہے(ت)
(۱؎ فتاویٰ ہندیہ    کتاب الشفعہ  الباب الثالث  نورانی کتب خانہ پشاور  ۵/ ۱۷۴)
اگر کہئے یہ تنقیح تو فیصلہ میں بحق مدعی فیصل ہوچکی تو اس کا جواب بھی فتوائے اولٰی مدخلہ مدعی دے گا کہ تجویز عدالت بلا دلیل وحجت ہے شرعاًہر گز قابل نفاذ نہیں۔ 

اشباہ میں ہے:
والحکم اذاکان لا دلیل علیہ لم ینفذ انتہی۲؎۔
جب حکم کی دلیل نہ ہو تو وہ نافذ نہیں ہوتا انتہی(ت)
 (۲؎ الاشباہ والنظائر    القاعدۃ الاولیٰ     الفن الاول    ادارۃ القرآن کراچی    ۱/ ۱۴۳)
بالجملہ ہر وجہ ہر جہت ہر پہلو سے دعوٰی مدعی باطل اور شریعت مطہر کے حکم سے فیصلہ بحق مدعا علیہا ہونا لازم واﷲ تعالٰی اعلم۔
Flag Counter