Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
115 - 151
وجہ ہفتم: مدعی کے فتوائے اولٰی نے جملہ شہادات مدعی کو ان چھ وجوہ سے باطل کیا نہ یوں کہ مجموع پر چھ ہوں بلکہ ہر گواہی چھ وجہ سے مردود ہے ، اب اس فتوے میں بعض شہادتوں پر دو اعتراض اور ہیں کہ وہ بھی مدعی کی بعض شہادات پر وار د ہیں یونہی بعض دیگر ابطال مدعی کے فتوائے دوم سے ہے یوں مل کر ان فتووں نے ساتویں وجہ سے جملہ شہادات مدعی باطل کی ہیں ان کا بیان سنئے:

اول: شہادت محمد شاہ خاں پر تبدیلی نام کا اعتراض کہ اس سے سخت تر شہادت سید وزیر علی پر وارد ہے:

دوم : شہادت منور حسین پر اس کا جز و بیان غلط ہونے سے اعتراض کہ اس نے کہا مجھے سمن وصول ہوگیا تھا حالانکہ واقع میں اس وقت تک وصول نہ ہوا تھا فتوے نے اس کی نسبت کہا تھا کہ عدالت کو بھی تسلیم ہے ہم نے فیصلہ میں کہیں اس کی صریح تسلیم نہ پائی بلکہ جواب وہ دیا ہے کہ برتقدیر وقوع بھی شہادت سے دفع مضرت کرے جس کا بیان عنقریب آتا ہے بہرحال یہ اعتراض گواہ مدعی احسان خاں بلکہ ننھے مرزا پر بھی ہے ان کے کلام میں بھی تناقص ہے ننھے مرزانے کہا مظہر گل نورخاں کے چبوترہ پر قریب مکان متنازعہ بیٹھا ہوا تھا اس کو عرصہ کوئی ڈھائی مہینہ کا ہوا پھر کہا مظہر چبوترہ کے نیچے بیٹھا تھا اور آدمی چبوترہ پر تھے اسے اگر استدراک ہی کہئے تو احسان خاں نے اولاً کہا جب سے مظہر اس جلسہ میں آیا اور جب تک گیا مظہر سے کسی کی بات نہ ہوئی، بعد کو لکھایا مظہر گل نورخاں سے باتیں کررہا تھا یہ ضرور تناقض ہے اور تناقض میں کذب سے مفر نہیں کہ دونوں باتی سچی نہیں ہوسکتیں،

 عالمگیری میں مبسوط سے ہے:
لم تقبل شہادتھما لانا نتیقن بکذب احدھما۱؎۔
دونوں کی گواہی قبول نہ ہوگی دونوں میں سے ایک کے جھوٹا ہونے کا ہمیں یقین ہے۔(ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیۃ    کتاب الشہادات     الباب الثامن    نورانی کتب خانہ پشاور    ۳ /۵۰۸)
فیصلہ نے منور حسین خاں کی طرف سے وہ جواب دیا کہ وہی احساں خاں اور ننھے مرزا پر سے اس اعتراض کا جواب ہوتا یعنی یہ امر صلب شہادت سے خارج ہے اور شرعاً نقص غیر مشہود بہ مضر شہادت نہیں اور اس پر یہ عبارت شرح وقایہ تحریر فرمائی: الاکذاب فی غیر المشھود بہ لا یمنع القبول ۲؂ ۔   مشھود بہ کے غیر میں جھٹلانا قبولیت کے لیے مانع نہیں ہے۔(ت)
 (۲؎ شرح الوقایۃ     کتاب الشہادات    باب قبول الشہادۃ وعدمہ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۴ /۱۶۹)
یہ عبارت اگر چہ چنداں متعلق نہ ہو کہ کلام کذب میں ہےنہ اکذاب میں بلکہ اس کےلیے یہ عبارت خلاصہ وہندیہ  ہے کہ :
التناقض فیما لایحتاج الیہ لایضر۳؎۔
غیر ضروری معاملہ میں تناقض مضر نہیں ہے۔(ت)
 (۳؎ فتاوٰی ہندیۃ     بحوالہ کتاب الشہادات     الباب الثالث    نورانی کتب خانہ پشاور    ۳ /۴۶۰)
مگر فتوائے مدعی نے خود بھی کذب واکذاب میں فرق نہ کرکے اس کا یہ رد کیا کہ بصورت منسوب ہونے گواہ کے صریح جھوٹ کے ساتھ گواہی اس کا نامقبول ہے خواہ یہ لغو بیانی اس کی مشہود بہا سے خارج ہویا نہ ہو اور اس پر عبارت عالمگیری پیش کی :
فی العیون ، شہد الرجلان علی اٰخر بالف وانہ قد قضاہ خمسمائۃ وقال الطالب لی علیہ الف وما قضانی شیئا والشہود او ھموا فی الشہادۃ علی القضاء تقبل شہادتھما ان عدلا، ولو قال شہادتھم بالالف حق وبالقضاء باطل لاتقبل شہادتھما لانہ نسبھما الی الفسق کذافی المحیط۱؎(ملتقطا)
عیون میں ہے کہ دو گواہوں نے ایک شخص کے ذمہ ہزار کی گواہی دی اور کہا کہ پانصداس نے ادا کردئے ہیں جبکہ مدعی کہتا ہے کہ میرا اس کے ذمہ پورا ہزار ہے ابھی اس نے کچھ بھی ادا نہیں کیا اور گواہوں کو ادائیگی کے متعلق شہادت میں وہم ہوا ہے تو ان کی شہادت قبول ہوگی بشرطیکہ دونوں گواہوں کو عادل قرار دیا گیا ہو، اور اگر طالب یعنی مدعی نے کہا ان گواہوں کی ہزار کے متعلق گواہی حق ہے اور ادائیگی کے متعلق شہادت باطل ہے تو گواہوں کی شہادت مقبول نہ ہوگی کیونکہ اس صورت میں اس نے گواہوں کی نسبت فسق ظاہر کیا ہے، محیط میں ایسے ہی ہے(ملتقطاً۔(ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ     کتب الشہادات    الباب السابع         نورانی کتب خانہ پشاور    ۳ /۴۹۵)
مگر نہ جانا کہ صورت عالمگیری کو یہاں سے کچھ علاقہ نہیں جب مدعی ہزار روپے کا مطالبہ بتاتا ہے اور گواہ کہتے ہیں ہزار تھے پانسو ادا ہوچکے ہیں تو وہ صراحۃً ہزار کے مطالبہ کو غلط اور صرف پانسو کامطالبہ بتارہے ہیں اسے مشہود بہ سے خارج ماننا عجیب ہے۔
سوم:  یہاں تک فتوائے اولٰی کے حرف حرف پر کلام ہولیا اب دوسرا سنئے:ؒ
فتوائے ثانیہ
مدعی کا خلاصہ یہ ہے کہ:
اولاً مدعا علیہ کا بیان تھا کہ ۱۵/نومبر یعنی تاریخ بیع ہی میں مدعی کو علم بیع ہوا، مدعی شریک مشورہ تھا، اس نے بعد البیع تسلیم کی ان میں پہلے دو فقرے کسی گواہ مدعا علیہا نے بیان نہ کئے تو شہادت مطابق دعوٰی نہیں لہذا نامقبول، 

عینی میں ہے:
موافقۃ الشہادۃ للمدعی ان تتحد انواعا وکما و زمانا۲؎۔
مدعی کے لئے شہادت کی موافقت یوں ہے کہ وہ نوع، مقداراور زمانہ کے اعتبار سے متفق ہوں۔(ت)
 (۲؎ البنایۃ فی شرح الہدایۃ للعینی     کتاب الشہادات    المکتبۃ الامدادیۃ مکۃ المکرمۃ    ۳ /۳۴۷)
ثانیاً گواہان مدعا علیہا میں محمد سعید خاں، محمد صدیق علی خاں جن کی شہادت ۲۳/اپریل کو ہوئی اس وقت چار مہینے پہلے مدعی کا وہ قول بتاتے ہیں کہ مکان اچھی بیگم نے مول لیا، میں خوش ہوا، تو حساب سے اس قول کا وقت اواخر دسمبر آتا ہے اور منور حسین خاں، محمد شاہ خاں سید اچھے میاں شروع جنوری روز جمعہ کو مدعی کا یہ کہنا بیان کرتے ہیں اور خود مدعا علیہا ۱۵نومبر ہی کو وقوع تسلیم بتاتی ہے اب بیان گواہان کو موجب تسلیم مانیے یا تسلیم گزشتہ کی خبر۔ برتقدیر اول جبکہ حسب بیان مدعا علیہا شفعہ ۱۵نومبر کو تسلیم و ساقط ہوچکا تھا، پھر دسمبر و جنوری میں مکرر سقوط کیسا،
الساقط لایعود
 (ساقط شدہ بحال نہیں ہوتا۔ت) بر تقدیر ثانی خبر کےلئے مخبر بہ کا ثبوت لازم، مخبربہ قول مدعا علیہا ہے بیان گواہان سے جس کا ثبوت نہیں لہذا یہ خبر تسلیم مثبت تسلیم نہیں۔
ثالثاً مدعا علیہا ۱۵ / نومبر کو تسلیم بتاتی ہے گواہ بعد کو، تو دونوں بیان متعارض ہوکر ساقط ہوں گے اور حق شفعہ جو طلبین سے مستقر ہوچکا ہے ثابت رہے گا۔ 

قاضیخاں میں ہے:
المدعی اذااکذب الشھود فی ماشھدوالہ اوفی بعضہ لاتقبل شہادتھم۱؎۔
مدعی جب گواہوں کو اپنے حق میں کل بیان یا بعض کو جھٹلادے تو شہادت قبول نہ ہوگی(ت)
 (۱؎ فتاوٰی قاضی خان    کتاب الشہادت    فصل فی تکذیب المدعی    نولکشور لکھنؤ    ۳/ ۵۵۰)
یہ حاصل ہے تمام تطویل فتوائے ثانیہ کا، بلکہ زیادت ضبط و ایضاح کے ساتھ، مگر افسوس کا محل ہےکہ اس میں ایک حرف بھی صحیح نہیں،

اولاً مدعی علیہا کا دعوی تسلیم شفعہ بعد العلم بالبیع ہے اس کے سوا تعیین وقت نہ اس کے دعوٰی کا حقیقۃً جز ہے نہ مدار، نہ اس کے بیان کی حاجت نہ اس میں اختلاف سے مضرت، تسلیم یہاں بالقول ہوئی، اور قول قابل تکرر ہے، اور شہود ایک جلسہ خاصہ کا بیان نہیں کرتے بلکہ صراحۃً جدا جلسوں کا ذکر کرتے ہیں، قول محض میں اگر شہادتیں یا شہادت و دعوٰی دربارہ زمانہ ایسا اختلاف کریں اصلاً کچھ مضر نہیں، نہ ہر گز اسے شہادت ودعوٰی یاباہم دو شہادتوں کی عدم مطابقت کہہ سکیں، 

عالمگیری میں ہے:
ان کان المشہود بہ قولا محضا کالبیع والاجارۃ والطلاق والعتاق و الصلح والابراء، واختلفا فی البلدان او فی الشہود جازت شھادتھما ولا تبطل الشہادۃ باختلاف الشاھدین فی الایام والبلدان الاان یقولا کنامع الطالب فی موضع واحد فی یوم واحد ثم اختلفا فی الایام والمواطن و البلدان فان اباحنیفۃ رضی اﷲتعالٰی عنہ قال انا اجیز الشہادۃ وعلیہم ان یحفظواالشہادۃ دون الوقت وقال ابویوسف رحمہ اﷲ تعالٰی الامر کما قال ابوحنیفۃ رضی اﷲتعالٰی عنہ فی القیاس وانا استحسن وابطل ھذہ الشہادۃ بالتھمۃ الاان یختلفا فی الساعتین من یوم واحد فیجوز کذافی فتاوٰی قاضیخان۱؎(ملتقطاً)
جس چیز کی شہادت ہے وہ اگر خالص گفتگو ہے مثلاً بیع، اجارہ، طلاق، عتاق، صلح اور بری کرنا جن کا تعلق زبان سے ادائیگی کے ساتھ ہے،اور گواہوں نے ان امور میں علاقے یا مہینے کے بیان میں اختلاف کیا تو دونوں کی شہادت قبول ہوگی، اور دونوں گواہوں کا ایام، شہروں کا اختلاف شہادت کو باطل نہ کرے گا، مگر اس صورت میں جب دونوں یہ کہہ چکے ہوں کہ ہم دونوں ایک جگہ ایک وقت میں طالب کے ہمراہ تھے پھر اس کے بعد ایام، مقامات اور شہروں کا اختلاف بیان کریں تو امام ابوحنیفہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں میں اس شہادت کو جائز قرار دوں گا کیونکہ گواہوں کے ذمہ اصل شہادت کو محفوظ کرنا ہے نہ کہ وقت کو، اور امام ابویوسف فرماتے ہیں کہ امام اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ کا ارشاد قیاس کے مطابق ہے میں استحسان کرتا ہوں اور میں اس شہادت کو تہمت کی بناء پر باطل کہتا ہوں، ہاں اگر دونوں کا اختلاف صرف ایک دن میں مختلف گھنٹوں کے متعلق ہو تو شہادت جائز ہوگی، فتاوٰی قاضیخان میں یونہی ہے۔(ملتقطا)۔(ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیۃ کتاب الشہادات الباب الثامن نورانی کتب خانہ پشاور ۳/ ۸۔۵۰۷)
ثانیاً اعتراض دوم عجیب منطق ہے اس شہادت میں موجب و مخبر کی تردید کیسی، شہادت ہمیشہ مخبر ہی ہوتی ہے اس کی تعریف ہی میں اخبار بحق، داخل ہے اور مخبر بہ صرف قول مدعا علیہا ہونے سے ایراد اس سے بھی عجیب تر، مخبربہ ہمیشہ دعوی ہوتا ہے اور دعوٰی ہمیشہ قول صرف مدعی۔ اسی کے اثبات کے لئے شہادت ہوتی ہے شہادت سے پہلے اس کا ثبوت درکار ہوتو شہادت لغوہے کہ امر ثابت کیا محتاج اثبات ہے اور اگر یہ مقصود کہ اس کا دعوٰی اور ان کا بیان زماناً مختلف ہے تو یہ وہی پہلا اعتراض ہے جس کا رد ہوچکا۔

ثالثاً یہی حال تعارض کا ہے نفس تسلیم میں دعوائے مدعا علیہا وجملہ شاہدان مدعا علیہا متفق ہیں، اختلاف اگر ہے تو زمانہ کا، اور وہ قول محض میں مضر نہیں ہے۔ 

عالمگیری میں ہے:
شھدا ان فلانا طلق امرأتہ فشھد احدھما انہ طلقھا بالبصرۃ والاٰخر انہ طلقھا بالکوفۃ، لو شھدا بذٰلک فی یومین متفرقین من الایام وبینھما قدر مایسیر الراکب من الکوفۃ الٰی مکۃ جازت شہادتھما۱؎(ملتقطاً)
دونوں گواہوں نے شہادت دی کہ فلاں نے اپنی بیوی کو طلاق دی ہے ایک نے کہا بصر ہ میں دوسرے نے کہا کوفہ میں دی ہے، اگر دونوں نے متفرق دنوں کی بات کی ہے جن میں کوئی شخص اپنی سواری کے ذریعے ان دونوں شہروں میں سے ایک سے دوسرے میں پہنچ سکتا ہو مثلاً کوفہ سے مکہ تک ان دونوں میں جاسکتا ہے تو شہادت جائز ہوگی(ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ    کتاب الشہادات    الباب الثامن     نورانی کتب خانہ پشاور    ۳ /۵۰۸)
یہ رد ہے اس تمام فتوائے ثانیہ کا،اور شفعہ بہ ثبوت طلبین مستقر ہولینے کا ردی حال ہمارے بیانات سابقہ و لاحقہ سے واضح۔ خیریہ تو اس فتوے کی حالت تھی۔ کہنا یہ ہے کہ بفور علم بالبیع طلب مواثبت واشہاد بجالانا قطعاً ایسی چیز ہے کہ دوبارہ نہیں ہوسکتی کہ علم بالبیع متکرر نہیں ہوسکتا تو مدعی اور اس کے شاہدان کا بیان وقت میں بھی یقینا متفق چاہئے، اگر زمانہ اس کے زمانہ سے آگے پیچھے بتائیں تو شہادت و دعوٰی ضرور مختلف ہیں اور وہی عبارات ہدایہ و عینی کہ فتوائے ثانیہ نے رد شہادات مدعا علیہا کے لئے زعم کی تھیں، رد شہادات مدعی کو کافی و وافی ہیں۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ مدعی نے علم بالبیع اور بفور علم طلب کی تاریخ ۸ / جنوری بتائی اس کی گواہیاں ۲۰/ مارچ کو گزریں کہ اکہتر دن یا دو مہینے گیارہ دن کا فاصلہ ہے، لیکن سید گوہر علی کے بیان میں ہے کہ کوئی مہینہ سے کم کم ہوا ہوگا لہذا شہادت مخالف دعوٰی ومردود، رحمت علی خاں بالتعیین بلاتخمین کہتا ہے عرصہ دوڈھائی ماہ کا ہواجس کے پچھتر دن ہوئے، بیان مدعی سے چار دن زیادہ، احسان خان اگرچہ تخمینہ کرتا ہے مگر زائد کا، اور اس سے بھی زیادہ کی طرف بڑھتا ہے، وہ زائد دن میں تردد کرتا ہے کہ کوئی عرصہ تخمیناً ڈھائی پونے تین مہینے کا ہو یعنی پچھتر یا بیاسی یا تراسی دن ہوئے اور مدعی کے قول سے اکہتر ہی ہیں تو دو گواہ وجوہ خاصہ سے فتوائے اولٰی نے رد کئے تھے تین فتوائے ثانیہ نے رد کئے، پانچوں رد ہوگئے بلکہ عند التحقیق خود یہ فتوائے ثانیہ ہی پانچوں کو رد کردے گا، سید وزیر علی اور ننھے مرزا نے اگرچہ عرصہ تخمینا ڈھائی ماہ کا کہا جو بیان مدعی سے موافقت کو بھی متحمل ہے مگر امر محتمل شہادت میں نہیں لیا جاتا کہ احتمال جانب مخالفت کا بھی رہا اور موافقت دعوٰی کی شرط قبول شہادت تھی ثابت نہ ہوئی ولہذا اگر گواہ زمانہ مرور بیان کرے بوجہ جہالت مردود ہے، جہالت تخمینہ میں بھی موجود ہے، یہ متحقق نہ ہوا کہ یہ واقعہ آٹھ ہی جنوری کا ہے، ممکن ہے کہ قبل کا ہو، تو دعوٰی سے مطابقت کب ہوئی۔ 

عالمگیری میں ہے:
شھد الشھودان لہذا المدعی علی ھذاالمدعی علیہ دہ دوازدہ درم لاتقبل لمکان الجہالۃ ، وکذٰلک اذاادعی دہ دوازدہ درہم لاتسمع دعواہ وکذٰلک اذاذکر التاریخ فی الدعوی علی ھذاالوجہ بان قال ایں عین ملک من ست ازدہ دوازدہ سال فانہ لا تسمع دعواہ، وکذٰلک اذاذکر الشہود التاریخ فی شہادتھم علی ھذاالوجہ لاتقبل شہادتھم کذافی الذخیرۃ۱؎۔
گواہوں نے گواہی دی کہ اس مدعی کے فلاں مدعا علیہ پر دس بارہ درہم ہیں، شہادت قبول نہ ہوگی اور یونہی جب مدعی نے اپنے دعوٰی میں دس بارہ درم کہا تو دعوٰی قابل سماعت نہ ہوگا، اور یوں جب تاریخ کو دعوٰی میں ا س انداز سے بیان کرتے ہوئے کہا دس بارہ سال سے اس چیز کا مالک ہوں تو سماعت نہ ہوگی اور یونہی گواہوں نے اگر تاریخ کو اسی انداز سے بیان کیا تو ان کی شہادت مقبول نہ ہوگی۔ ذخیرہ میں ایسے ہی ہے۔
 (۱؎ فتاوٰی ہندیہ     کتاب الشہادۃ     الباب الثالث    نورانی کتب خانہ پشاور    ۳ /۴۶۲)
Flag Counter