Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
114 - 151
مسئلہ ۱۱۵: ازریاست رامپور محلہ لال قبر مرسلہ سید احمد حسن صاحب ۲۷شوال المکرم ۱۳۳۳ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین ا س مسئلہ میں کہ ہندہ نے ۱۵/ نومبر ۱۹۱۴ء کو ایک مکان خریدا، ۱۷/جنوری؁ ۱۹۱۵ء کو زید نے اس پر دعوی شفعہ کیا اور ۸/ جنوری کو علم بیع ہونا اور اسی وقت طلب مواثبات واشہاد بجالانابیان کیا اور اس پر پانچ گواہ دئیے ہندہ نے سات گواہ تسلیم شفعہ کے پیش کئے حاکم نے ان گواہوں پر اعتماد فرماکر دعوٰی رد کردیا مدعی نے اپیل کی اور گواہان ہندہ پر بہت سی جرحیں نکالیں اور ان کے متعلق دو فتوے داخل کئے، سائل نے بریلی دارالافتاء سے فتوٰی چاہا اس پر فیصلہ واظہارات جملہ گواہان فریقین کی نقول باضابطہ لانے کا حکم ہوا، سائل نے نقول حاصل کیں اور حسب الحکم مع نقل ہر دو فتوائے مدخلہ مدعی حاضر دارالافتاء ہیں امید کہ بعد ملاحظہ حکم شرعی سے خالصاً لوجہ اﷲاطلاع عطا ہو۔بینواتوجروا۔
الجواب

اللھم ھدایۃ الحق والصواب نقول مذکورہ مطلوبہ دارالافتاء مدخلہ سائل ملاحظہ ہوئیں باضابطہ نقلیں اس لئے طلب کی تھیں کہ تجربہ سے سائلوں کا خلاف روداد اظہار کرکے فتوٰی لینا ثابت ہولیا تھا جس میں سراسر اضاعت وقت دارالافتاء تھی، فیصلہ و اظہارات کا ملاحظہ بنگاہ اولین بتاتا ہے کہ مدعی اپنے دعوٰی شفعہ کو بروجہ شرعی ثابت کرنے میں محض ناکام رہا، عندالشرع دعوٰی واجب الرد ہے جیسا کہ ذی علم فاضل مفتی نے کیا۔ تمام ابحاث کہ دونوں فتووں میں ظاہر کی گئیں ان پر فرداً فرداً نظر اور ہر باطل کا ابطال مستقل ایک وقت چاہتا تھا مگر ہر دو فتوے مدخلہ مدعی خود ہی رد دعوٰی کوکافی و وافی ہیں ان سے زیادہ ثبوت کی حاجت نہیں کہ وہ خود مسلمہ مدعی ہیں لہذا انہیں وجوہ مقبولہ مدعی ومفتیان مدعی سے بطلان دعوٰی ثابت کرکے صرف ایک وجہ شرعی اور اضافہ کریں جس کی طرف فیصلہ میں بھی توجہ مبذول نہ ہوئی۔

وجہ اول: پہلے فتوے میں گواہ ہندہ سید ابو القاسم پر یہ اعتراض ہے کہ اس کے بیان میں مدعی بہا کا تعین نہیں، مدعی بہا(عہ) یہاں مکان ہے اس کی تعیین کے دو طریقے ہیں: ایک نشان دہی،دوسرے بیان حدود ۔ دونوں اس کے بیان میں نہیں، ایسی حالت میں گواہی کیونکر مقبول ہوسکتی ہے، اورا س پر قاضی خاں کی تین عبارتیں پیش کیں، سید ابو القاسم کے بیان میں وعدہ نشان دہی ہے کہ مکان کو موقع پربتادوں گا۔ پانچوں گواہان مدعی نے بھی صرف وعدہ نشان دہی کیا ہے ، جب وہ کافی نہیں تو مدعی کی پانچوں گواہیاں مدعا بہا سے خالی اور واجب الرد و نا مقبول ہوئیں کہ ان میں نہ بیان حدود ہے نہ نشاندہی، بلکہ رحمت علی خاں نے صراحۃً کہا ہے مظہر حدیں مکان متنازعہ کی نہیں بتاسکتا،مظہر حدیں دیکھنے نہیں گیا تھا، گواہیوں میں وقت طلب شفعہ جانب مکان اشارہ  مدعی کا بیان نہ گواہ کا اشارہ ہوا نہ بیان حدود۔ مدعی نے اس وقت اشارہ کیا ہو گواہ تو نہیں بتاتے کہ وہ کون سا مکان ہے جس کی طرف اشارہ کرکے طلب مواثبت کی تھی فتوی مدعی کو تسلیم ہے کہ اسکی تعیین کے دو ہی طریقے تھے: نشاندہی یا بیان حدود، اور وہ دونوں یہاں مفقود ، لہذا پانچوں گواہیاں مردود۔
عہ :  فتوے میں ہر جگہ یہ لفظ متدعویہ ہے کہ محض مہمل و بے معنٰی ہے۱۲۔
وجہ دوم: عجب یہ کہ گواہی ہندہ میں مکان خود مدعی بہ نہیں بلکہ اس کا دعوی تسلیم شفعہ کا ہے مکان صرف متعلقات دعوی سے ہے تو جہاں وعدہ نشاندہی کافی ہو کر صرف ایک شے متعلق دعوٰی کی تعیین نہ ہونے سے فتوائے مدعی نے شہادتوں کو ناممکن القبول بنایا تو یہاں کہ خود مکان ہی مدعی بہ ہے وعدہ نشان دہی ناکافی ہو کر بیان گواہان میں اس کا عدم تعیین کیوں نہ ان تمام شہادات کو واجب الرد کرے گا۔

وجہ سوم: فتوے نے گواہان ہندہ محمد صدیق خاں ، محمد سعید خاں، محمد علی خاں پر بھی یہی عدم تعیین مدعی بہ کا اعتراض کرکے فرمایا اس لئے شہادت ان کی بالمجہول شرعاً لغو و باطل ہے اور اس پر قاضی خاں اور عالمگیریہ کی عبارتیں پیش کیں۔ یہ سب سے عجیب تر ہے ان تینوں کے اظہار خود موقع پر ہوئے اور نقول میں ہر ایک کے ساتھ صاف تصریح ہے کہ نشاندہی کردی تو اولاً ان کی شہادت کو بالمجہول کہنا کیسا صریح لغو وباطل ہے۔

ثانیاً جب بالفعل نشاندہی بھی تعیین کو کافی نہ ہوئی تو پانچوں گواہان مدعی کے بیان میں کہ نشاندہی کا صرف وعدہ ہے سودرجہ زائد ان کی شہادت بالمجہول و لغو و باطل کرے گا۔

وجہ چہارم: وہی کہ گواہی مدعا علیہا میں مکان مدعی بہ نہیں جب یہاں نشاندہی کافی نہ ہوئی شہادات مدعی میں کہ خود مکان مدعی بہ ہے وعدہ کس درجہ باطل و ناکام ہوگا۔

تنبیہ: ان افادوں کے بعد دارالافتاء کو اس بحث کی طرف توجہ کی اصلاً حاجت نہیں کہ اس عدم تعیین کا جواب فیصلہ میں یہ فرمایا کہ تسلیم اسقاط ہے اس میں تعیین کی ضرورت نہیں اور فتوے نے اس پر رد کیا کہ اس حالت میں ہے کہ اسقاط بالفاظ صریحہ ہوا ہو ورنہ تسلیم لغو بعد تسلیم اختیار دعوٰی حاصل ، اور اس پرعالمگیری کی عبارت پیش کی ، اگرچہ یہ جواب ہر گز صحیح نہیں۔

اولاً وہ عبارت عالمگیری تسلیم دلالۃً میں ہے مثلاً خبر بیع سن کرخاموش رہنا اٹھ جانا یا مشتری سے مبیعہ کی خریداری یا ہبہ یا اجارہ کی خواہش ، اور یہاں تسلیم ان لفظوں میں بیان ہوئی ہے کہ اچھی بیگم نے مکان خرید لیا میں بہت خوش ہوا، اس کے لینے سے میں خوش ہوں، مناسب ہے، اچھا کیا، یہ دلالۃً تسلیم کی شق میں کیونکر جاسکتے ہیں۔

ثانیاً دلالۃً تسلیم میں بھی صرف علم شفیع بالبیع درکار ہے نہ کہ تسلیم میں تعیین حدود جس پر  یہاں بحث ہے، خود اسی عبارت عالمگیری میں تسلیم صریح اما یجری مجراہ میں فرمایا:
سواء علم بالبیع اولم یعلم ان کان بعد البیع۱؎۔ اور دلالۃً میں فرمایا: لایسقط حقہ ثمہ الابعد العلم۲؎۔
بیع کے بعد ہو تو بیع کا علم ہو یا نہ ہو برابر ہے۔ وہاں حق ساقط نہ ہوگا مگر علم کے بعد۔ (ت)
 (۱؎ فتاوٰی ہندیہ     کتاب الشفعہ    الباب التاسع        نورانی کتب خانہ پشاور    ۵ /۱۸۲)

 (۲؎فتاوٰی ہندیہ     کتاب الشفعہ    الباب التاسع        نورانی کتب خانہ پشاور    ۵ /۱۸۲)
وجہ پنجم: فتوے نے گواہ ہندہ سید اچھے میاں کی شہادت پر یہ اعتراض کیا کہ تعیین و تعریف مدعی و مدعا علیہ کی کرنا گواہ پر ضروری ہے بلا اس کے گواہی نامعقول ہے اور تعریف و تعیین بصورت موجودگی مدعی و مدعا علیہ وقت ادائے شہادت اشارہ سے چاہئے یہ یہاں مقصود ہے اور اس پر عالمگیری کی عبارت پیش کی۔ گواہ کے لفظ یہ ہیں:''اس میں پیارے میاں صاحب مدعی حاضر عدالت نے فرمایا یہ مکان تم نے اچھی بیگم کے نام خریدا ہے مناسب ہے'' ۔ اگر مدعی کا نام اور یہ صفت کہ مدعی اور یہ وصف کہ حاضر عدالت ان تینوں کا اجتماع تعیین و تعریف کے لئے کافی نہیں بلکہ بوجہ حضور مدعی خاص اشارہ ہی لازم تھا تو مدعی کے پانچوں گواہوں میں بعینہ یہی حالت ہے ایک نے بھی مدعی کی طرف اشارہ نہ کیا سب نے پیارے میاں مدعی حاضر عدالت ہی کہا ہے یا برادر مدعی سید وزیر علی نے اتنا اور بڑھایا جن کو شجاعت علی کہتے ہیں تو ثابت ہوا کہ بحکم فتوائے مدخلہ مدعی پانچوں گواہان مدعی کی گواہیاں مردود ہیں۔

وجہ ششم: دوسرااعتراض اسی گواہ پر عدم تعیین مدعا علیہا سے کیا کہ بصورت عدم موجودگی عام آدمی کی تعیین ولدیت وغیرہ سے چاہئے تھی وہ بھی متحقق ان کے بیان میں نہیں ہے لہذا شہادت ان کی شرعا ہرگز قابل قبول نہیں اس پر بھی وہی عبارت عالمگیری سند ہے یہاں اتنا فرق ضرور ہے کہ سید اچھے میاں نے صرف اچھی بیگم کہا اور گواہان مدعی سوائے سید وزیر علی کے بیان میں بھی اگرچہ اچھی  بیگم کی ولدیت مذکور نہیں مگر خبر وطلب یعنی شاہ علی حیدر کےاخبار اور مدعی کے طلب شفعہ میں بیان زوجیت ہے مخبر نے کہا مکان مدن میاں کی بی بی اچھی بیگم نے مول لیا الخ مدعی نے کہا جس قیمت کو یہ مکان مدن میاں کی بیوی اچھی بیگم نے مول لیا،  فتوٰی میں یہ عبارت عالمگیری اس لفظ تک نقل فرمائی:
یحتاج الٰی تسمیۃ الشہود اسم المیت واسم الغائب واسم ابیہما۱؎۔
گواہوں کے نام اور میت اور غیر حاضر اور ان کی ولدیت کے نام ضروری ہیں۔(ت)
 (۱؎ فتاوٰی ہندیہ     کتاب الشہادۃ    الباب الثالث    نورانی کتب خانہ پشاور  ۳/ ۴۵۹)
اس کا ظاہر یہ ہے کہ بیان ولدیت ضرور ہے جس سے چاروں گواہان مذکورہ مدعی کے بیان بھی خالی ہیں مگر یہاں کارروائی اور ہے فتوے نے ناقص عبارت نقل کی اور اس کا تتمہ کہ مضر جملہ شاہدان مذکور مدعی تھا چھوڑ دیا اس کے بعد عبارت عالمگیری یوں ہے :
واسم جد ھما شرط الخصاف ذکر الجد للتعریف وھکذا ذکر فی الشروط، ومن مشائخنا من قال ھذا قول ابی حنیفۃ ومحمد رحمہمااﷲ تعالٰی اما علی قول ابی یوسف رحمہ اﷲ تعالٰی فذکر الاب یکفی کذافی الذخیرۃ، والصحیح ان النسبۃ الی الجد لابد منھا کذافی البحر الرائق۲؎ ۔
یعنی غیر مشہور شخص کہ حاضر نہیں ضرور ہے کہ اس کا نام اس کے باپ کا نام اس کے دادا کا نام گواہ لیں امام خصاف نے تعریف کیلئے دادا کاذکر شرط فرمایاہے کہ ایسا ہی کتاب الشروط میں ہے اور ہمارے بعض مشائخ نے کہا کہ دادا کا نام لینا ضروری ہونا حضرت سیدناامام اعظم وامام محمد رحمہما اﷲ تعالٰی کا قول ہے، امام ابویوسف رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ کے نزدیک باپ کا نام کافی ہے ایسا ہی ذخیرہ میں ہے اور صحیح یہ ہے کہ دادا کا نام لئے بغیر چارہ نہیں ایسا ہی بحرا لرائق میں ہے۔
 (۲؎فتاوٰی ہندیہ     کتاب الشہادۃ    الباب الثالث    نورانی کتب خانہ پشاور  ۳/ ۴۵۹)
یہاں تک عالمگیری کی پوری عبارت تھی جس میں صرف باپ کے نام تک نقل فرماکر باقی چھوڑی اب اگر ولدیت کی حاجت نہ بھی ہو تو عبارت مذکورہ کا صاف ارشاد ہے کہ ایک تقیید کافی نہیں دو ضرور ہیں یہی ہمارے امام مذہب کا مذہب ہے اور یہی صحیح ہے تو ان گواہان مدعی نے کہ فقط مدن میاں کی بی بی اچھی بیگم نے کہا ایک ہی تقیید ہوئی اور تعیین کے لئے ناکافی ہو کر صحیح مذہب امام اعظم میں شہادتیں مردود ہوئیں جب آدمی اور اس کے باپ کا نام کافی نہیں کہ دو تک شرکت نادر نہیں ، ممکن کہ اور شخص بھی اس نام کا ہو جس کا باپ بھی اس کے باپ کا ہمنام ہو لہذا نام جد ضرور ی ہے عورت اور اس کے شوہر کا نام کیوں کافی ہونے لگا ، یہاں بھی ممکن کہ اور عورت بھی اس نام کی ہو جس کا شوہر بھی اس کے شوہر کے ہمنام ہو، لہذا تقیید دیگر بھی ضروری ہے رہے سید وزیر علی، انہوں نے ضرور دو نام لئے شوہر کے ساتھ اچھی بیگم کے باپ کا نام ایوب شاہ بھی بتایامگر افسوس کہ شوہر کا نام ودن میاں لیا اور شاہ حیدر علی کے بیان میں بھی یونہی کہا کہ مکان اچھی بیگم  ودن میاں کی بی بی نے خرید لیا، یہ نام لینا نہ لینے سے بدرجہا بدتر ہوا، نہ لیا جاتا تو مدعا علیہا میں ایک نوع جہالت رہی اور نام بدل دیا تو مدعا علیہا خود بدل گئی کہ وہ اچھی بیگم بنت ایوب شاہ جو مدن میاں کی بی بی ہے یقینا اس اچھی بیگم بنت ایوب شاہ کی غیر ہے جو اسی وقت میں ودن میاں کی بی بی ہو، اس کے بیان کو بھی یہی فتوائے مدخلہ مدعی کافی ہے، مدعا علیہا کے گواہ محمد شاہ خاں کے بیان میں یہ جملہ واقع ہوا مظہر اچھی بیگم مدعا علیہا کو جانتا ہے اس کے باپ کا نام ایوب علی ہے، اس پر فتوے نے اعتراض فرمایا کہ ان کے بیان میں ایک نقصان یہ بھی ہے کہ انہوں نے ولدیت مدعا علیہا کی غلط بیان کی ہے کہ جس کا یہ شاہد ہے اس کو خود تسلیم ہے لہذا اس کی گواہی کیونکر قابل قبول ہوسکتی ہے اورا س پر عالمگیری کی سند دی، یونہی یہاں بھی سید وزیر علی کی نسبت کہا جائے گا کہ ان کے بیان میں ایک نقصان یہ بھی ہے کہ انہوں نے زوجیت مدعا علیہا کی غلط بیان کی ہے کہ جس کا یہ شاہد ہے اس کو خود تسلیم ہے لہذا اس کی گواہی کیونکر قبول ہوسکتی ہے ، بلکہ انصافاً ایوب شاہ وایوب علی میں وہ تباین نہیں جو مدن میاں و ودن میاں میں ہے ممکن کہ نام ایوب علی شاہ ہواور اختصاراً کسی نے ایوب شاہ کہا کسی نے اخیر کا کلمہ تعظیمی کم کرکے ایوب علی بخلاف مدن وودن کہ قطعاً دو متغائر نام ہیں بہر حال اسی وجہ ششم پر بھی پانچوں شہادات مدعی رد ہیں۔
Flag Counter