Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
113 - 151
شانزدہم: یہ بھی غلط ہے کہ فیصلہ مذکورہ رشوت میں قول متقدمین بطلان ہے اور متاخرین نے نفاذ مانا، بلکہ قول بطلان اختیار امام شمس الائمہ سرخسی ہے اور قول نفاذ اختیار امام فخر الاسلام بزدوی کہ ان کے معاصر بلکہ ان سے وفات میں مقدم ہیں، امام بزدوی کی وفات شریف ۴۸۲ھ میں ہے اور امام سرخسی کی حدود ۵۰۰ھ یا حدود ۴۹۰ھ میں۔

ہفدہم: یہ بھی غلط ہے کہ قائلان نفاذنے نفاذ اس ضرورت سے مانا ہو کہ اب سب حکام رشوت خوار ہیں نہ مانیں تو فیصلہ کا دروازہ بند ہوگا، یہ امر صرف علامہ شامی نے اپنے زمانے کی نسبت لکھا جو اسی تیرھویں صدی میں تھے جن کے انتقال کو ابھی اسی ۸۰سال ہوئے ہیں ۱۲۵۲ھ میں وصال فرمایا۔ قائلان نفاذ کے دلائل واضحہ وہ ہیں کہ گزرے۔

ہجدہم: یہ ضرورت زمانہ امام فخر الاسلام میں کیونکر ہوتی حالانکہ درمختار میں معروضات مفتی ابوسعود سے ہے:
لما وقع التساوی فی قضاۃ زماننا فی وجود العدالۃ ظاہرا وردالامر بتقدیم الافضل فی العلم والدیانۃ والعدالۃ۱؎۔
جب ہمارے زمانے کے قاضی حضرات ظاہراً عدالت میں مساوی ہوں تو حکم ہے کہ علم ، دیانت اور عدالت میں جو افضل ہو اس کو ترجیح دی جائے۔(ت)
(۲؎ درمختار    کتاب القضاء    مطبع مجتبائی دہلی     ۲ /۷۱)
اس پر اسی ردالمحتار میں ہے:
ھذا کان فی زمنہ وقد وجد التساوی فی عدمھا الآن فلینظر من یقدم۲؎۔
یہ ان کے زمانہ میں تھا حالانکہ اب عدم عدالت میں سب مساوی ہیں تو اب ترجیح میں غور کرنا ہوگا۔۰ت)
 (۲؎ ردالمحتار   کتاب القضاء   داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴ /۳۰۰)
مفتی ابو السعود دسویں صدی ہجری کے آخر میں تھے ۹۸۲ھ میں انتقال فرمایا، جب ان کے زمانہ تک تمام قاضی ظاہر العدالۃ تھے تو زمانہ امام اجل بزدوی میں کہ ان سے پورے پانسو برس پہلے تھا سب رشوت خوار کیسے ہوئے۔
نوزدہم: اپنے زمانے تیرھویں صدی کی نسبت جو علامہ شامی نے لکھا وہ بھی محل نظر ہے قضاۃ اگر محصول سلطنت کے لئے لیتے تھے جیسے یہاں کورٹ فیس لی جاتی ہے تو وہ رشوت قاضی کیونکر ہوسکتی ہے اور اگر اپنے ہی لئے لیتے تھے جب بھی حدرشوت میں اس کا آنا مشکل کہ یہ محصول عام طور پر لیا جاتا ہے نہ کہ خاص اس فریق سے جس کے موافق فیصلہ دینا ہےاور رشوت کسی کاکام بنانے کےلئے لی جاتی ہے نہ کہ مطلق، یوں ہی اجرت،  تو وہ لینا محض ایک غصب ہوگا جو فسق ہے اور فسق مانع نفاذ نہیں۔
بستم: فتوے میں یہ عبارت علامہ شامی
فکذا یقال ھنا۳؎
 (یہاں بھی یوں کہا جائے گا۔ت) تک نقل کی اس کے متصل انہوں نے فرمایا: وانظر ما سنذکرہ فی اول باب التحکیم۴؎اسے دیکھو جو ہم شروع باب تحکیم میں ذکر کریں گے، اسے چھوڑ دیا،
 (۳؎ و ۴؎ ردالمحتار   کتاب القضاء   داراحیاء التراث العربی بیروت     ۴ /۳۰۴)
شروع باب تحکیم میں یہ فرمایا ہے :
تنبیہ: فی البحر عن البزازیۃ قال بعض علمائنا اکثر قضاۃ عھدنا فی بلادنا مصالحون لانھم تقلدو القضاء بالرشوۃ ویجوز ان یجعل حاکما بترافع القضیۃ واعترض بان الرفع لیس علی وجہ التحکیم بل علی اعتقاد انہ ماضی الحکم وحضور المدعی علیہ قد یکون بالاشخاص والجبر فلا یکون حکما، الاتری ان البیع قد ینعقد ابتداء بالتعاطی لکن اذا تقدمہ بیع باطل او فاسد و ترتب علیہ التعاطی لاینعقد البیع لکونہ ترتب علی سبب آخر فکذاھنا، ولہذا قال السلف القاضی النافذ حکمہ اعزمن الکبریت الاحمراھ قال ط و بعض الشافعیۃ یعبرعنہ لانہ قاضی ضرورۃ اذ لایوجد قاض فیما علمناہ  من البلاد الاوھو راش و مرتش اھ وانظر ماقدمناہ اول القضاء۱؎۔
تنبیہ: بزازیہ سے بحر میں فرمایا، بعض علماء نے فرمایا ہے کہ ہمارے علاقہ کے اکثر قاضی حضرات اس زمانہ میں ثالث ہیں کیونکہ انہوں نے رشوت کے ذریعہ تقرری حاصل کی ہے ان کے ہاں مقدمہ پیش کرنے پر ان کا ثالثی فیصلہ قرارپائے گا اور یہ اعتراض کہ ان کے ہاں دعوٰی ثالثی کی بناپر نہیں ہوتا بلکہ اس اعتقاد پر کیا جاتا ہے کہ یہ فیصلہ لازم ہوگا اور ان کے ہاں مدعا علیہ کی حاضری عملہ کے ذریعہ اور جبراً ہوتی ہے تو ثالث نہ ہوئے۔آپ دیکھتے نہیں کہ دستی تبادلہ سے ابتداءً بیع ہوجاتی لیکن جب پہلے یہ بیع باطل یا فاسد ہوچکی ہو تو اس کے بعد یہ دستی تبادلہ بیع نہیں بن سکتی کیونکہ اب یہ ایک ا ور سبب پر مرتب ہے تو یہاں بھی معاملہ ایسا ہے اور اسی وجہ سے سلف نے فرمایا کہ ایسا قاضی جس کا حکم نافذ ہوتا ہو بہت کم ہے اھ طحطاوی نے کہا اور بعض شافعی حضرات نے اس کو یوں تعبیر کیا ہے کہ یہ ضرورت کی بناء پر قاضی ہیں اس لئے کہ ہمارے معلومات میں تمام بلاد کے قاضی رشوت لینے اور دینے والے ہیں اھ ، جو ہم نے قضاء کے باب کی ابتداء میں بیان کیا ہے اسے دیکھو۔(ت)
 (۱؎ ردالمحتار    کتاب القضاء     باب التحکیم    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴ /۴۸ ۔ ۳۴۷)
بست ویکم : بلکہ یہیں اس کے متصل یہ عبارت تھی:
وفی الحامدیۃ عن جواھر الفتاوٰی قال شیخنا واما منا جمال الدین البزدوی انا متحیر فی ھذہ المسألۃ لااقدران اقول تنفذ احکامھم لما اری من التخلیط والجھل والجرائۃ فیہم، ولااقدران اقول لاتنفذ لان اھل زماننا کذٰلک فلو افتیت بالبطلان ادی الٰی ابطال الاحکام جمیعا یحکم اﷲ بیننا وبین قضاۃ زماننا افسدوا علینا دیننا وشریعۃ نبینا صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم لم یبق منھم الاالاسم والرسم اھ ۱؎۔
اور حامدیہ میں جواہر الفتاوٰی سے منقول ہے کہ ہمارے شیخ اور امام جمال الدین بزدوی نے فرمایا میں اس مسئلہ میں حیران ہوں، نہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ان کے حکم نافذ ہیں کیونکہ فیصلوں میں انکی جہالت، جرأت اور خلط دیکھ رہا ہوں اور نہ ہی یہ کہہ سکتا ہوں کہ نافذ نہیں ہیں کیونکہ ہمارے اہل زمانہ اسی طرح ہیں اگر میں باطل ہونے کا فتوٰی دوں تو اس سے تمام فیصلوں کا باطل ہونا لازم آتا ہے، اﷲ تعالٰی ہی ہمارے اور زمانہ کے قاضیوں کے درمیان فیصلہ فرمائیگا انہوں نے ہمارا دین اور ہمارے نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی شریعت کو فاسد کیا اب ان میں دین و شریعت کا صرف نام ورسم باقی ہے اھ ۔(ت)
 (۱؎ ردالمحتار  کتاب القضاء  داراحیاء التراث العربی بیروت ۴ /۳۰۴)
سبحان اﷲ ! ائمہ کرام وعلمائے اعلام تو اسلامی سلطنتوں میں مسلمان سلاطین کے مسلمان قضاۃ میں یوں فرمائیں، بعض حیران ہوں کہ ان کو کیونکر قاضی شرعی مانا جائے بعض تصریح فرمائیں کہ وہ قاضی نہیں پنچ ہیں پھر اسے بھی رد فرمادیں کہ پنچ کہنا بھی ٹھیک نہیں انہیں قاضی ضرورت ماننا جیسا کہ علامہ شامی کا اس عبارت میں خیال تھا بعض شافعیہ کا قول کہیں سلف صالح سے نقل کریں کہ قاضی شرعی کبریت احمر سے بھی زیادہ نادر ہے یہاں یہ حکم بالجزم ہے کہ اگرچہ نامسلم سلطنت ہواگرچہ نامسلم حکام ہوں سب قاضی شرعی ہیں
فسبحن مقلب القلوب والابصار۔
بست ودوم:  اس ضرورت سے ائمہ غافل نہ تھے، مقدمہ ہفتم دیکھو کہ خود محرر مذہب امام محمد رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے اس صورت ضرورت کو ذکرفرمایا اور اس کا علاج بتایا جسے ہم نے موافق قانون وقت کر دکھایا، پھر زعم ضرورت کی کیا گنجائش رہی اور محض باتباع ہوا مخالفت قرآن و تبدیل شریعت واقع ہوئی والعیاذ باﷲ رب العٰلمین۔

بست وسوم : جب خاص جزئیہ کتب مذہب اور خود ارشادات محرر مذہب رضی اﷲ تعالٰی عنہ میں صاف صاف بالتصریح موجود تھا تو اس کے خلاف اور تمام نصوص کے خلاف اورخود قرآن عظیم کے خلاف مفتی کو اجتہاد لایعنی و قیاس بے معنی کے کیا معنی، اور ایسی جگہ
ھذا مااستقرعلیہ رائی
 ( میری رائے اسی پر قائم ہوئی ہے۔ت) کی صدا لگانی کس نے مانی۔
بست وچہارم: بالفرض تصریح جزئیہ نہ بھی ہوتی تو اجتہاد کی لیاقت کس گھر سے آئی۔

بست و پنجم: اینہم بر علم تو نص قرآنی کے مقابل اجتہاد کیسا۔

بست و ششم: بفرض باطل کوئی جزئیہ نادرہ شاذہ ہوتا بھی تو ظاہر الروایۃ و نصوص متواترہ تصریحات متظافرہ اور خود آیات متکاثرہ کے مقابل مردود ہوتا اور اس پر فتوی دینا حسب تصریح علماء کرام جہل و خرق کااجماع ہوتا،   

تصحیح القدوری پھر درمختار میں ہے:
الحکم والفتیابالقول المرجوح جھل وخرق للاجماع۱؎۔
مرجوح قول پر فیصلہ اور فتوٰی جہالت ہے اور اجماع کے خلاف ہے۔(ت)
(۱؎ درمختار     مقدمۃ الکتاب    رسم المفتی مطبع مجتبائی دہلی     ۱ /۱۵)
جہاں کہ وہ بھی ہاتھ میں نہیں اس کی سخت شناعت کس درجہ مہین۔
بست وہفتم: بفرض محال اگرمرجوح نہیں کوئی قول مساوی بھی گھڑلیاجاتا جب بھی اس کے سبب ابطال وقف روانہ ہوتا کہ مسائل مختلف فیہا میں فتوٰی اس پر واجب ہے جو وقف کےلئے انفع ہو، نہ اس پر کہ وقف کا انفی ہو
کما نصواعلیہ فی غیرماکتاب
 (جیسے کہ کثیر کتب میں فقہاء کرام نے تصریح فرمائی۔ت)
بست و ہشتم: مفتی و مصدقین و مستفتی واہل معاملہ سب صاحبوں سے خیر خواہانہ معروض اﷲ عزوجل فرماتا ہے:
فبشرعبادالذین یستمعون القول فیتبعون احسنہ اولٰئک الذین ھدھٰم اﷲ واولٰئک ھم اولوالالباب۲؎۔
اے نبی! خوشی کی خبردے میرے بندوں کو جو کان لگاکر بات سنیں پھر بہتر کی پیروی کریں وہی ہیں جن کو اﷲ نے ہدایت دی اور وہی عقلمند ہیں۔
 (۲؎ القرآن الکریم     ۳۹  /۱۸ ،۱۷)
اور فرماتا ہے:
والذین اذا فعلوا فاحشۃ اوظلمواانفسھم ذکروااﷲ فاستغفروالذنوبھم ومن یغفر الذنوب الااﷲ ولم یصروا علی مافعلواوھم یعلمونoاولٰئک جزاؤھم مغفرۃ من ربھم وجنت تجری من تحتھا الانھر خٰلدین فیہا ونعم اجر العٰملین۳؎۔o
اور جنت ان کے لئے تیار کی گئی ہے کہ جب کوئی بدی یا گناہ کر بیٹھیں اﷲ کویاد کرکے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں اور اﷲ کے سوا کون گناہ بخشے اور اپنے کئے پر دانستہ ہٹ نہ کریں ان کا بدلہ ان کے رب کی طرف سے معافی ہے اور باغ جن کے نیچے نہریں ہیں ہمیشہ ان میں رہیں اورکام والوں کاکیا اچھانیگ۔
 (۳؎القرآن الکریم ۳ /۳۶۔۱۳۵)
ابوداؤد، ترمذی نے صدیق اکبر رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
مااصرمن استغفر۱؎
جس نے معانی مانگ لی اس نے ہٹ نہ کی۔
 (۱؎ جامع الترمذی    ابواب الدعوات    احادیث شتی من ابواب الدعوات    امین کمپنی دہلی         ۲ /۱۹۵)
امیر المومنین عمر فاروق اعظم رضی اﷲتعالٰی عنہ فرماتے ہیں:
 ان الحق قدیم ولا یبطل الحق شیئ و مراجعۃ الحق خیر من التمادی فی الباطل۲؎۔ رواہ الدار قطنی والبیہقی و ابن عساکر عن ابی العوام البصری۔
بیشک حق قدیم ہے حق کوکوئی چیز باطل نہیں کرتی حق کی طرف رجوع باطل پر قائم رہنے سے بہتر ہے ( اس کو دار قطنی، بیہقی اور ابن عساکر نے ابو العوام البصری سے روایت کیا ہے۔ت)
 (۲؎ سنن الدار قطنی     کتاب الاقضیہ والاحکام    نشر السنۃ ملتان    ۴ /۲۰۷)
یہ فرمان امیر المومنیں نے اپنے قاضی ابو موسٰی اشعری رضی اﷲ تعالٰی عنہ کو ارسال فرمایا: خوشی و شادمانی ہے انہیں جو سنیں اورگردن رکھیں انسان سے خطا مستبعد نہیں مگر
خیر الخطائین التوابون۳؎
خطا کی خیر اس میں ہے کہ توبہ کرے رواہ احمد والترمذی وابن ماجۃ والحاکم وصححہ انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم (اس کو احمد، ترمذی، ابن ماجہ اور حاکم نے صحیح کہہ کر انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے انہوں نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔ت)
(۳؎ جامع الترمذی    ابواب صفۃ القیامۃ    امین کمپنی دہلی         ۲ /۷۳)
حق کی طرف رجوع سے عار وسوسہ ابلیس ہے اس کا ساتھ بہتر یا اس کے ارشاد کی اطاعت جو قرآن مجید میں فرماچکا کہ خطا پر اصرار نہ کیا تو میں نے تمہارے لئے جنت تیار کر رکھی ہے، شیطان سمجھتا ہے کہ رجوع کی تو علم و عقل کو بٹالگے گا۔ دشمن جھوٹا ہے اور اﷲ سچا کہ اچھی بات سن کر ماننے والے ہی ہدایت پر ہیں اور وہی عقل والے ہیں اﷲ توفیق دے۔
بست و نہم : یہ فتوے چھپ کر شائع ہوئے ان کا ضرر متعدی ہوا، کہاں دہلی کرنال کہاں راولپنڈی گولڑہ جہاں سے یہاں آیا، اس کا ازالہ مفتی و مصدقین سب پر فرض ہے ، جیسے یہ فتوے شائع ہوئے یوں ہی ان کا بطلان ، ان سے رجوع ملک میں شائع کریں، اس میں اﷲ کی رضا ہے اﷲ کے رسول کی رضا ہے، خلق کے نزدیک عزت و وقعت ہے ، حق پسند کا لقب ملنا بڑی دولت ہے، 

رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
اذاعلمت سیئۃ فاحدث عندھا توبۃ السربالسر والعلانیۃبالعلانیۃ  ۱؎ ۔ رواہ الامام احمد فی الزہدوالطبرانی فی الکبیر عن معاذ بن جبل رضی اﷲ تعالٰی عنہ بسند حسن۔
جب تو گناہ کرے تو فوراً توبہ کر، خفیہ کی خفیہ اور علانیہ کی علانیہ۔ ( اس کو امام احمد نے زہد میں اور طبرانی نے کبیر میں حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے بسند حسن روایت کیا۔ت)
 (۱؎ الزہد     للامام احمدبن حنبل    ترجمہ الامام احمد بن حنبل    الدیان للتراث قاہرہ مصر    ص۳۵)
افسوس کہ چھاپنے والے صاحب نے تمہید میں لکھا تھا ''بغرض اطلاع عام مسلمان اور علمائے حنفیہ ہندوستان عرض کیا جاتا ہے'' اور آخر میں لکھا تھا ''یہ مضمون اہل اسلام ہند اور علمائے حنفیہ کے روبروپیش کرنا ہے'' ممکن کہ قریب مواضع دیوبند تھانہ بھون بھیجا اور جواب موافق ملایا سکوت رہا ہو ، یہاں اب تین برس کے بعد ایک بندہ خدا نے بھیجا اور اس کی صحت وبطلان سے استفتاء کیا اول ہی آجاتا تو مفتی و مصدقین پر حق جلد کھل جاتا ۔ ماننا نہ ماننا جب بھی تو فیق پر تھا اب بھی توفیق پر ہے،
وحسبنا اﷲ ونعم الوکیل واﷲ یھدی من یشاء الی صراط مستقیم۔
ہمیں اﷲ تعالٰی کافی ہے اور وہ اچھا وکیل ہے اور اﷲ تعالٰی ہی جسے چاہتا ہدایت فرماتا ہے۔(ت)
سیم: اشاعت فتوے میں لکھا ہے کہ جائداد کرنال کے واقف حکماً محجور و ممنوع التصرف کردئے گئے تھے اور حکام رجسٹری کو ممانعت کی گئی تھی کہ ان کی کسی دستاویز انتقال پر رجسٹری نہ کریں اس کے احکام امتناعی کرنال ، مظفر نگر، الہ آباد تین محکموں سے ۲۴/اگست لغایت ۷/ ستمبر؁ ۱۹۰۸ء  صادر ہوچکے تھے، پھر بھی یہ لکھا ہے کہ انہوں نے ۲۵ /اگست؁ ۱۹۰۸ ء کو اپنی جائداد کا وقف نامہ لکھا اور ۲۵/ستمبر؁۱۹۰۸ء کو اس پر رجسٹری ہوئی۔ احکام امتناعی کے بعد رجسٹری کیونکر ہوئی تو وہ بھی حکم ہے جس سے فک حجر متصور ہو یا بطور خود کسی اہلکار کی حکم عدولی ، بہر حال یہ قانونی بحث ہے، شریعت مطہرہ کے حکم میں بلا شبہہ وہ وقف صحیح ہو کرتام و نافذ و لازم ہے جائداد ملک واقف سے خارج ہوکر خالص ملک الٰہی عزوجل ہوگئی، اور اب ان فتووں کی روسے ورثا وقف کو باطل کرکے اس پر مالکانہ قابض ہوگئے اس کا وبال عنداﷲ مفتی و مصدقین کے سر ہے بقائے جائداد تک اس مال خدا میں جتنے تصرفات مالکانہ نسلاً بعد نسلٍ ہوا کرینگے ہمیشہ ان کا وبال مفتی و مصدقین کی زندگی میں اور بعد موت قبر میں پہنچتا رہے گا خود فتوے نے تسلیم کیاہے کہ احکام قانونی شرعاً وہی مفید ہیں جو مطابق شرع ہوں نامسلم تو نامسلم خود قاضیان اسلام بلکہ سلاطین اسلام اگر کوئی چیز زید کو برخلاف حکم شرع دلادیں وہ ہر گز اس کے لئے حلال نہ ہوجائے گی احکام سلاطین دنیا تک ہیں آخرت میں کام نہیں آسکتے، 

سلاطین درکنار خود صاحب شریعت صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
انکم تختصمون الی فلعل بعضکم ان یکون الحن بحجتہ من بعض فاقضی لہ علی نحومما اسمع فمن قضیت لہ بحق مسلم فانما ھی قطعۃ عن النار فلیأخذھا او لیترکھا۱؎۔ رواہ الائمۃ مالک واحمد والستۃ عن ام سلمۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہا۔
صاف ارشاد فرمایا کہ ایک اگر اپنی چرب زبانی کے باعث حجت میں بازی لے جائے اور ہم اسے ڈگری دے دیں اور واقع میں اس کاحق نہ ہو تو ہماراڈگری فرمانا اسے مفید نہ ہوگا وہ مال نہیں اس کے حق میں جہنم کی آگ کا گڑھا ہے چاہے اسے لے یا چھوڑ دے (اسکو امام مالک، احمد اور ائمہ صحاح ستہ نے ام سلمہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا سے روایت کیا ہے۔ت)
 (۱؎ صحیح مسلم     کتاب الاقضیہ    قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲ /۷۴)

(صحیح البخاری     کتاب الحیل و کتاب الاحکام    قدیمی کتب خانہ کراچی   ۲ /۱۰۳۰ و ۱۰۶۲)

(مؤطاامام مالک     کتاب الاقضیہ     میر محمد کتب خانہ کراچی    ص۶۳۲)

(مسند احمد بن حنبل    المکتب الاسلامی بیروت    ۲ /۲۰۲ و ۲۹۰ و ۳۰۸)
مفتی و مصدقین پر فرض ہے کہ جس طرح اپنے غلط فتوے سے یہ آتش دوزخ کاٹکڑا ورثہ کو دلایا یونہی اپنی صحیح ولوجہ اﷲ کوششوں سے انہیں اس سے بچانے کی فکر کریں ورنہ
انما علیک اثم الاریسیین
 (کاشتکاروں کا گناہ تجھی پر ہے۔ت) اﷲ واحد قہار سے ڈریں اور
ولیحملن اثقالھم واثقالا مع اثقالھم ولیسئلن یوم القٰیمۃ عما کانو ایفترون۲؎
 ( اور وہ اپنا بوجھ اور اپنے بوجھ کے ساتھ مزید بوجھ اٹھائیں گے ، اور ضرور ان سے قیامت کے روز ان کی افتراء بازی پر سوال ہوگا۔ت) کی جانگزا آفت سے پرہیز کریں۔ یہ ضرور ہے کہ بہت ابنائے دنیا کو ملا ہوا مال چھوڑنا سخت دشوار بلکہ ناممکن ہوتا ہے مگر زمانہ اللہ  کے ڈر والے بندوں سے خالی نہیں اور نصیحت نفع دیتی ہے
وذکر فان الذکری تنفع المؤمنین۳؎
 (آپ یاد دہانی کرائیں تو بیشک یاد دہانی مومنوں کو نفع دے گی۔ت)
(۲؎ القرآن الکریم      ۲۹/ ۱۳)   (۳؎ القرآن الکریم      ۵۱/ ۵۵)
ابلیس کہ دشمن راہ خدا ہے دوسروں کے بتانے میں آپ کے باطل فتووں کا حیلہ سکھائے گا کہ اتنے مولوی حلال کررہے ہیں عذاب ہے تو ان کی گردن پر، مگر جب آپ حضرات خود ہی خوف خدا کرکے حق حکم ان پر ظاہر کریں گے تو کیا عجب کہ اﷲ عزوجل اپنے بندوں کو حرام مال سے بچنے اور وقف خدا پر تصرف نہ کرنے کی توفیق بخشے اور جب وہ رئیس جاگیر دار ہیں تو شائد اسی پر ان کا ذریعہ رزق منحصر نہ ہو اور ہو تو رزق اﷲ عزوجل کے ذمہ کرم پر ہے حرام کھانے سے فاقہ لاکھ جگہ بہتر ہے اور اس میں حکام کی کچھ مخالفت نہیں جس پر ڈگری ہو وہ مجبور کیا جاتاہے جس کی ڈگری ہو اگر خدا سے ڈرے اور اس مال کو چھوڑدے حکام کو ہر گز اس سے تعرض نہ ہوگا۔ کیا اچھاہو کہ روز قیامت اﷲ واحد وقہار کے حضور کھڑے ہونے سے ڈریں اور قلیل وذلیل و فانی مال چھوڑ کر جلیل و جزیل و باقی ثواب لیں ۔ بہر حال مفتی و مصدقین پر اپنے فرض سے ادا ہونا فرض ہے یہ محض خالص اسلامی عرض ہے ۔ دیکھیں کون بندہ خدا سبقت کرتا اور رضائے الٰہی و ثواب عقبٰی و ثنائے دنیا کا مستحق ٹھہرتا ہے، اﷲ عزوجل توفیق دے،
فستذکرون ما اقول لکم وافوض امری الی اﷲ ان اﷲ بصیر با لعباد۱؎ وحسبنا اﷲ ونعم الوکیل۔
    تو عنقریب یاد کروگے جو تمہیں کہہ رہا ہوں، میں اپنا معاملہ اﷲ تعالٰی کے سپرد کرتا ہوں۔ تحقیق اﷲ تعالٰی بندوں کو دیکھتا ہے، ہم کو اﷲ تعالٰی کافی ہے۔(ت)
 (۱؎ القرآن الکریم   ۴۰ /۴۴)
وصلی اﷲ تعالٰی وبارک وسلم علٰی سیدنا ومولانا محمد واٰلہ وصحبہ وابنہ وحزبہ اجمعین اٰمین والحمدﷲ رب العالمین، واﷲ سبحنہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم وحکمہ عزشانہ احکم۔
Flag Counter