Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
112 - 151
ھشتم : کافی لیاقت سے اگر مراد مطلق قضاء کی لیاقت تو صحیح ہے کہ نامسلم کو نامسلم پر ولایت شرعیہ مل سکتی ہے جیسے اپنے نابالغ بچوں پر۔ 

درمختار میں ہے:
للکافر ولایۃ علی کافر مثلہ اتفاقا۲؎۔
    کافر کو اپنے جیسے کافر پر ولایت بالاتفاق حاصل ہوگی۔(ت)
(۲؎ درمختار    کتاب النکاح     باب الولی     مطبع مجتبائی دہلی     ۱ /۱۹۳)
اسی میں ہے:
الکافر یجوز تقلیدہ القضاء لیحکم بین اھل الذمۃ ۳؎۔
اہل ذمہ میں فیصلے کےلئے کافر کو قاضی مقرر کرنا جائز ہے۔(ت)
(۳؎ درمختار    کتاب القضاء    مطبع مجتبائی دہلی    ۲ /۷۱)
مگر اس سے مسلمانوں کے دینی امور میں ان پر ولایت شرعیہ کیونکر لازم ، اور اگر عام مراد تو محض باطل اور نصوص قطعیہ قرآن عظیم وتصریحات جملہ ائمہ وکتب کے خلاف ہے جس کا بیان مقدمہ چہارم میں گزرا ۔ غرض ثبوت کی یہ حالت تھی کہ گیارہ میں دس بیگانہ و بیکار اور ایک سراپا مخالف وضار، استنباط کا حال اسی سے آشکار کہ
الشجرۃ تنبئ عن الثمرۃ
 (درخت اپنے پھل کی اطلاع دیتا ہے۔ت)
نہم : روایت ۱ ، ۳، ۸ سے یہ نتیجہ نکالا کہ قاضی کا فرض منصبی یہی ہے کہ حقدار کی حق رسی اور مظلوم سے رفع ظلم کردے جس کے لئے نہ عالم کی ضرورت نہ پرہیز گار کی۔ اس سے مراد اگرصرف تنفیذ بمعنی اول ہے تو حصر باطل، بلکہ اس کا فرض منصبی یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کے لئے احکام شرعیہ ناحاصلہ حاصل کر دے قیامت کو ان کے لئے مواخذہ الٰہیہ سے نجات کی صورت کردے ائمہ مجتہدین کے اختلاف اٹھاکر مختلف فیہ کو مجمع علیہ کردے۔ اور اگر مراد عام ہے تو یہ قسم دوم ہر گز صرف دنیوی طاقت کاکام نہیں اس کےلئے مولی و مولی دونوں کا اسلام لازم اگرچہ عالم و متقی ہونا ضرور نہ ہوجیسا کہ مقدمہ ششم میں گزرا ۔

دہم: روایت ۲ ، ۵ ، ۶ ،۸  سے یہ لیا کہ قاضی میں علم و اتقا کی شرط اس لئے چھوڑدی کہ ایسے قاضی کا ملنا سخت مشکل ہے ، علم واتقا کی شرط مان لی جائے تو فیصلوں کا دروازہ ہی بند ہوا، اور اس پر یہ قیاس کیا کہ ہندوستان میں اسلام کی شرط ماننے سے بھی فیصلوں کا دروازہ ہی بند ہوجائے گا لہذا اسلام کی قید بھی اڑادی۔ خود اس فتوٰی کی روایت، ۱، ۳ ،۴ میں تصریح ہے کہ علم شرط اولویت ہے نہ شرط صحت۔ یہی حال اتقا کا ہے، 

فصول امام استروشنی پھر غایۃ البیان امام اتقانی میں ہے :
کون القاضی عدلا لیس بشرط ایضا حتی قال اصحابنا رضی اﷲ تعالٰی عنہم ان الفاسق یصلح ان یکون قاضیا والعدالۃ شرط الاولویۃ فی ظاہر الروایۃ۔۱؎
قاضی کا عادل ہونا بھی شرط نہیں ہے حتی کہ ہمارے اصحاب رضی اﷲ تعالٰی عنہم نے فرمایا بے شک فاسق قاضی بننے کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ عدالت اولٰی ہونے کی شرط ہے ظاہرالروایۃ میں ۔(ت)
(۱؎ غایۃ البیان )
ہدایہ میں ہے:
الفاسق اھل للقضاء حتی لو قلد یصح الاانہ لاینبغی ان یقلد ھذا ھو ظاہر المذہب وعلیہ مشایخنا رحمہم اﷲ تعالٰی وقال الشافعی رحمۃ اﷲتعالٰی علیہ الفاسق لایجوز قضائہ ۲؎۔
فاسق قاضی بنے کی صلاحیت رکھتا ہے حتی کہ اگر وہ ہوجائے تو صحیح ہے مگر یہ مناسب نہیں کہ اس کی تقرری کی جائے، یہی ظاہر مذہب اور ہمارے مشائخ رحمہم اﷲ تعالٰی اس پر اعتماد کرتے ہیں البتہ امام شافعی رحمہم اﷲ تعالٰی نے فرمایا کہ فاسق کی قضاء درست نہیں ہے۔(ت)
(۲؎ الہدایۃ    کتاب ادب القاضی مطبع یوسفی لکھنؤ ۳ /۱۳۲)
بدائع ملک العلماء میں ہے:
کذاالعدالۃ عندنا لیست بشرط لجواز التقلید لکنھا شرط الکمال فیجوز تقلید الفاسق وتنفذ قضایاہ اذالم یجاوز فیہا حدالشرط وعند الشافعی رحمہ اﷲ تعالٰی شرط الجواز۱؎۔
یونہی تقرری کے لئے عدالت شرط نہیں لیکن کمال کےلئے یہ شرط ہے لہذا فاسق کی تقرری اور اس کی قضاء کا نفاذ جائز ہے جب اپنے فیصلوں میں اس نے شرع سے تجاوز نہ کیاہو، اور امام شافعی رحمہ اﷲتعالٰی کے ہاں عدالت جواز قضاکےلئے شرط ہے۔(ت)
(۱؎ بدائع الصنائع    کتاب ادب القاضی     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۷ /۳)
اور اسلام قطعاً شرط صحت ہے جس کا ثبوت قرآن عظیم و نصوص ائمہ سے گزرا اولویت کی شرطوں سے اگر درگزر کی گئی تو اس سے شرط صحت کو بھی اڑادینے کا جواز کیونکر لازم آیا یعنی علماء نے غیر اولٰی کو صحیح مانا ہے لہذا ہم باطل کو حق مانے لیتے ہیں کیونکہ جیسا خلاف اولٰی ویسا ہی باطل ایک ہی بات ہے۔
یازدہم : نماز فاسق کے پیچھے مکروہ ہے پھر بھی جمعہ میں جہاں ایک ہی جگہ جمعہ ہوتا ہو علماء نے بضرورت اس کراہت سے در گزر کی ہے، 

فتح القدیر میں ہے:
فی الدرایۃ قال اصحابنا لاینبغی ان یقتدی بالفاسق الافی الجمعۃ لان فی غیرہا یجداماما غیرہ اھ یعنی انہ فی غیر الجمعۃ بسبیل من ان یتحول الی مسجد اٰخر ولایأثم فی ذٰلک ، ذکرہ فی الخلاصۃ وعلی ھذافیکرہ فی الجمعۃ اذا تعددت اقامتھا فی المصر علی قول محمد وھو المفتی بہ لانہ بسبیل من التحول حینئذ۔۲؎
درایہ میں ہے کہ ہمارے اصحاب رحمہم اﷲ تعالٰی نے فرمایا کہ فاسق کی اقتداء جمعہ کے بغیر مناسب نہیں کیونکہ جمعہ کے ماسوانمازوں کے لئے امام دوسرا مل جاتا ہے یعنی غیر جمعہ میں گنجائش ہے کہ وہ دوسری مسجد میں چلا جائے تو گنہگار نہ ہوگا۔ اس کو خلاصہ میں بیان کیا تو اس وجہ کی بنا پر جمعہ میں بھی ایسے امام کی اقتداء مکروہ ہوگی جب جمعہ شہر میں متعدد جگہ ہوتا ہو جیسا کہ امام محمد رحمہم اﷲ تعالٰی کا قول ہے اور وہی مفتٰی بہ قول ہے کیونکہ اس صورت میں بھی اسے دوسرے امام جمعہ کے لئے گنجائش ہے(ت)
(۲؎ فتح القدیر کتاب الصلٰوۃ     باب الامامۃ     مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۱ /۳۰۴)
لہذا اگر کہیں صرف جاہل مسلمان ہوں جن کو سورۃ فاتحہ بھی صحیح یاد نہیں، جیسے دیہات بلکہ قصبات بلکہ ہندوستان کے شہروں میں لاکھوں آدمی اسی طرح کے ہیں اور کوئی پادری صاحب شوقیہ طور پر فاتحہ اور چند سورتیں ٹھیک یاد کرچکے ہوں تو اس فتوے کی رائے میں بضرورت ان پادر ی صاحب کوامام کرکے جمعہ پڑھ لیں گے کہ علماء نے بضرورت شرط اولویت سے در گزر کی تھی، یہ بضرورت شرط اسلام اڑادیں گے
انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔
دوازدہم: فاقد الطہورین میں اختلاف ہے کہ تاخیر کرے یا تشبہ، 

درمختار میں ہے:
یوخر ھا عندہ وقالا یتشبہ بالمصلین وجوبا ثم یعیدبہ یفتی والیہ صح رجوعہ۱؎۔
امام اعظم رحمہ اﷲ تعالی کے نزدیک مؤ خر کرے اور صاحبین رحمہما اﷲ تعالٰی کے نزدیک نمازیوں سے تشبہ کرنا واجب ہے پھر بعد میں اعادہ کرے، اسی پر فتوٰی ہے، اور امام صاحب کا اس طرف رجوع صحیح ثابت ہے۔(ت)
 (۱؎ درمختار     کتاب الطہارۃ    مطبع مجتبائی دہلی   ۱ /۴۴)
بالجملہ اس پر اجماع ہے کہ نماز نہیں پڑھ سکتا مگر اس فتوے کے طور پر بے وضو ہی نمازیں پڑھاکرے کہ اس سے زائد ضرورت کس کی ہوگی ا ور ضرورت سے اس فتوے نے شرائط صحت بھی ساقط مان لی ہیں ۔
سیزدہم: روایت ۸ سے یہ واضح بتانا کہ رشوت لے کر فیصلہ بالاجماع باطل سخت عجیب ہے حالانکہ خود اس روایت کی عبارت منقولہ فتوٰی میں اس کا رد موجود ہے کہ اجماع کیسے ہوسکتا ہے حالانکہ امام فخر الاسلام بزدوی کا مختاریہ ہے کہ وہ فیصلہ نافذ ہے، اور اسی کو امام محقق علی الاطلاق نے فتح میں ترجیح دی۔

چاردہم: مختلف فیہ مسئلہ میں بالفرض ایک طرف ترجیح نہ بھی ہوتی محل ضرورت میں اسے اختیار کرنے سے کیونکر لازم آتا کہ اسے سند بناکر دوسری جگہ بزعم ضرورت اپنی رائے سے نصوص قطعیہ قرآن عظیم و اجماع جمیع ائمہ کے خلاف چلئے، نہ کہ وہ مسئلہ  جس میں فتوائے ائمہ مختلف ہوں ا س میں ایک جانب کو ضرور ت کے باعث بالخصوص معتمد کرلینے کو رد قرآن واجماع کی حجت بنالیجئے
ولا حول ولاقوۃ الا باﷲ العلی العظیم۔
پانزدہم: بفرض باطل بطلان فیصلہ رشوت پر اجماع ہی ہوتا تو فیصلہ قطعاً اہل سے محل میں صادر ہوا تھا امر خارج وجہ بطلان ہوتا جو انتہائی کوشش کے بعد یہ بتایاگیا ہے کہ قضا عمل لوجہ اﷲ ہے اور جب رشوت لے کر قضا کی، عمل اپنے لئے ہوا نہ کہ اﷲعزوجل کے لئے۔ 

فتح القدیر میں ہے :
حاصل امر الرشوۃ فیما اذا قضی بحق ایجابھا فسقہ وقد فرض ان الفسق لایوجب العزل فولایتہ قائمۃ وقضاؤہ بحق فلم لاینفذ وخصوص ھذا الفسق غیر مؤثر و غایۃ ماوجہ بہ انہ اذاارتشی عامل لنفسہ یعنی والقضاء عمل ﷲ تعالٰی۱؎۔
رشوت کی بحث کا حاصل یہ ہے کہ حق فیصلہ میں رشوت لی تو اس کا حکم فسق ہے اورمفروض یہ ہے کہ وہ معزولی کا موجب نہیں تو اس کی ولایت قائم ہے تو اس کا حق فیصلہ کیوں نہ نافذ ہوگا اور یہ خاص فسق فیصلہ کے لئے مؤثر نہیں ہوگا ، اور انتہائی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ جب قاضی رشوت لے گا تو گویا وہ اپنی ذات کے لئے عامل ہوا جبکہ قضاء کا عمل اﷲ تعالٰی کی رضا کے لئے ہوتا ہے۔(ت)
(۱؎ فتح القدیر     کتاب ادب القاضی    مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۶ /۳۵۸)
ردالمحتار میں ہے:
قال فی النہر تبعا للبحر وانت خبیر بان کون خصوص ھذا الفسق غیر مؤثر ممنوع بل یؤثر بملاحظۃ کونہ عملا لنفسہ وبھذا یترجح مااختارہ السرخسی۲؎اھ۔
بحر کی اتباع میں نہر میں کہا تجھے علم ہے کہ اس خاص فسق کا غیر مؤثر ہونا ممنوع ہے بلکہ اپنے لئے عامل ہوجانے کے پیش نظریہ موثر ہوگا، اس اعتبار سے امام سرخسی کے مختار کو ترجیح حاصل ہوجائیگی اھ(ت)۔
 (۲؎ ردالمحتار     کتاب القضاء    داراحیاء التراث العربی بیروت     ۴ /۳۰۴)
اقول: یہ کہ محقق علی الاطلاق نے نکالا اور اس پرا عتماد نہ فرمایا، واقعی اصلاً لائق اعتماد نہیں کہ عمل لوجہ اﷲ تعالٰی نہ ہونے سے اخلاص گیا، اور عدم اخلاص نفی ثواب کرتا ہے نہ کہ نفی صحت۔
ردالمحتار میں ہے :
الاخلاص شرط للثواب لاللصحۃ۳؎۔
 اخلاص ثواب کے لئے شرط ہے صحت عمل کےلئے نہیں۔(ت)
 (۳؎ رد المحتار    کتاب الصلٰوۃ     باب شروط الصلٰوۃ    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۱ /۲۷۸)
یہاں تک کہ اگر کسی سے کہا جائے اس وقت کی نماز پڑھ تجھے ایک اشرفی دیں گے وہ اسی نیت سے نماز پڑھے  فرض ساقط ہوجائے گا اگرچہ ثواب نہ پائے گا، نہ اشرفی کا مستحق ہوگا۔ 

درمختا رمیں ہے:
قیل لشخص صل الظہر ولک دینار فصلی بھذہ النیۃ ینبغی ان تجزئہ ولا یستحق الدینار۱؎
ایک شخص کو کسی نے کہا تو ظہر کی نماز پڑھے تو تجھے دینار ملے گا ،تو اس نے اس نیت سے نماز پڑھی تو مناسب حکم یہ ہے کہ اس کی نماز جائز قرار پائیگی اور دینار کا مستحق نہ ہوگا۔ (ت)
(۱؎ درمختار     کتاب الصلٰوۃ    باب شروط الصلٰوۃ    مطبع مجتبائی دہلی     ۱ /۷۰)
اشباہ میں ہے:
اما الاجزاء فلما قدمنا ان الریاء لایدخل الفرائض فی حق سقوط الواجب واما عدم استحقاق الدینار فلان اداء الفرض لایدخل تحت عقد الاجارۃ۲؎۔
نماز کو جائز کہنا اس لئے جیسا کہ ہم پہلے بتاچکے ہیں کہ ریا کاری واجب کے سقوط میں فرائض پر اثر انداز نہیں ہوتی، باقی رہا استحقاق دینار کا معاملہ تو وہ اس لئے کہ فرض کی ادائیگی عقد اجارہ کے تحت داخل نہیں ہوتی۔(ت)
 (۲؎الاشباہ والنظائر    الفن الاول     القاعدۃ الثانیۃ    ادارۃ القرآن کرا چی    ۱ /۶۴)
بلکہ اب فتوٰی جواز اجرت امامت پر ہے اور شک نہیں کہ اجیر عامل لنفسہ ہے نہ کہ عامل ﷲ تعالٰی حالانکہ اس کی نماز قطعاً صحیح ہے، بہر حال قضاء بہ رشوت میں جو کچھ خلل ہے امر خارج میں ہے اہلیت برقرار ہے تو جہاں اہلیت شرعاً منتفی ہے اس کا اس پر قیاس کیونکر ممکن۔
Flag Counter