Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
111 - 151
مقدمہ ہفتم: ایک صورت ضرور پیش آتی ہے کہ والی بھی مسلمان نہ ہو اوپر واضح ہوا کہ عام احکام جن کی روزانہ حاجت پڑتی ہے ان میں توصرف ولایت قسم اول درکار ہے ولایت شرعیہ پر توقف نہیں مگر مسلمانوں کو دینی ضرورتیں وہ بھی آتی ہیں جن کے لئے بغیر ولایت شرعیہ سلطان اسلام بھی کافی نہیں ان میں خاص خاص حاجتوں کے لئے فریقین راضی ہوں تو حکم مقرر کرسکتے ہیں مگر بعض جگہ حکم کافی نہیں یا ایک فریق تحکیم پرراضی نہیں ، وہاں کیا کیجئے کہ دینی حکم کےلئے دنیوی طریقہ کافی نہیں، اس طریقہ پر ہو جو باجازت شرع احکام شرعیہ کا احداث کرسکے اور آخرت میں کام دے اس کےلئے تمام کتب مذکورہ اور خود محرر مذہب امام محمد رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے یہ حکم دیا کہ مسلمان اپنی ایسی دینی حاجتوں کےلئے اپنی تراضی سے ان امور کا قاضی شرع مقرر کرلیں اور ایک لفظ یہ فرمایا کہ کوئی مسلمان والی تلاش کریں کہ وہ قضائے شرعی کاافادہ کرے اس صورت دوم کا وجوب تو یہاں حسب نص قرآن عظیم ساقط ہے،
قال اﷲ تعالٰی
فاتقوااﷲمااستطعتم۲؎ وقال اﷲ تعالٰی لایکلف اﷲ نفسا الاوسعھا۱؎۔
اﷲ تعالٰی نے فرمایا: تو اپنی استطاعت کے مطابق اﷲ تعالٰی سے ڈرو۔اور فرمایا: اﷲتعالٰی صرف وسعت کے مطابق کسی کو تکلیف دیتا ہے۔(ت)
(۲؎ القرآن الکریم     ۶۴ /۱۶)     (۱؎ القرآن الکریم    ۲/ ۲۸۶)
بلکہ وجوب درکنار، یہاں اس کا جواز بھی نہ ہونا چاہئے کہ اس میں اثارث فتنہ ہے اور فتنہ جائز نہیں اس میں اسلام و مسلمین کا ذلت پر پیش کرنا اور یہ روا نہیں، مگر صورت اولٰی یعنی ان دینی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے اپنی تراضی سے ان امورکا قاضی مقر ر کرلینا اور نصب امام وخطیب جمعہ وامام عیدین و تفریق لعان وعنین وتزویج قاصرین و قاصرات بلا ولی وفسخ نکاح بخیار بلوغ وامثال ذلک امور جن میں کوئی مزاحمت قانونی نہیں اس کے ذمہ رکھنا بلا شبہہ میسر ہے، گورنمنٹ نے کبھی اس سے ممانعت نہ کی جن قوموں نے اپنی جماعتیں مقرر کرلیں اور اپنے معاملات مالی ودیوانی قسم اول بھی باہم طے کرلیتے ہیں گورنمنٹ کو ان سے بھی کچھ تعرض نہیں اور ایسے مقدمات جو عاقل لوگ مصارف ودا دوش سے بچنے کے لئے باہمی پنچایت سے فیصل کرلیتے ہیں گورنمنٹ ان کو کب مانع آتی ہے، مگر یہ کہئے کہ خود مسلمان کو اپنے دینی امور دینی طور پر ہونے منظور نہ ہوں تو گورنمنٹ کو اس سے کیا بحث ۔ تم مسلمان ہو، دین تمہارا ہے ، تم جانو تمہارا کام۔ پھر اگر ان خاص امور کے لئے شرعی قاضی بہ تراضی مقرر کئے ہوئے کا حکم نفاذ بمعنی اول ہوتا نہ دیکھئے تکمیل حکم شرع یوں کرلیجئے، اس کے بعد مقدمات قسم دوم بھی قسم اول کی طرف عائد ہوجائیں گے، تکمیل نفاذ حسی کےلئے گورنمنٹ نے لاکھوں روپے ماہوار کے صرف سے کچہریاں کھول رکھی ہیں تنفیذ وہاں سے ہوجائے گی، یوں دونوں مقصد دین ودنیا حاصل ہیں اور بفضلہ تعالٰی تمام حاجتیں روا اور ضرورتیں زائل ہیں وﷲ الحمد  ،بلکہ مسلمان اگر اپنے دین کو دین سمجھیں اور امور شرعیہ بطریقہ شرعیہ انجام دینا چاہیں تو تلاش کی بھی حاجت نہیں ہر قطر وضلع میں جو عالم سنی صحیح العقیدہ متدین ہوحکم شرعی کی تکمیل اس کے یہاں کرلیں اور تنفیذ کےلئے گورنمنٹی محکمے کھلے ہوئے ہیں،
فتاوٰی امام عتابی پھر حدیقہ ندیہ امام عبدالغنی نابلسی رحمہما اﷲ تعالٰی میں اسی ولایت شرعیہ کی نسبت ہے :
اذاخلا الزمان من سلطان ذی کفایۃ فالامور مؤکلۃ الی العلماء ویلزم الامۃ الرجوع الیہم ویصیرون ولاۃ، فاذا عسرجمعھم علی واحد استقل کل قطر باتباع علمائہ فان کثروا فالمتبع اعلمھم ۱؎۔
جب زمانہ باکفایت سلطان سےخالی ہو تو معاملات علماء کے سپرد ہوتے ہیں اور امت پر ان کی طرف رجوع لازم ہوتا ہے اور علماء والی بن جاتے ہیں، تو جب لوگوں کو ایک عالم کی طرف رجوع دشوار ہو تو ہر علاقہ اپنے اپنے عالم کی طرف رجوع میں مستقل ہوگا، تو اگر علماء علاقہ میں کثیر ہوں تو بڑا عالم قابل اتباع ہوگا۔(ت)
 (۱؎ الحدیقۃ الندیہ     الخلق الخامس من الاخلاق الستین الخ    المکتبۃ النوریۃ الرضویہ فیصل آباد     ۱/ ۳۵۱)
بحمد اﷲ تعالٰی ان مقدمات جلیلہ نے ان فتووں کے حرف حرف کا بطلان آفتاب سے زیادہ روشن کر دیا جس کے بعد کسی ذی فہم کو کوئی حالت منتظرہ باقی نہ رہی پھر بھی زیادت ایضاح للقاصرین کےلئے ہر جگہ  رد کا مردود سے تعلق بتادینا اور بعض افاضات تازہ کا اضافہ کرنا انسب  واولٰی۔
فاقول: وباﷲ التوفیق
 (تومیں کہتا ہوں اور اﷲ تعالٰی سے توفیق ہے۔ت) :
اول : کلام حاکم نامسلم کی ولایت شرعیہ میں تھا جسے بادشاہ نامسلم نے مقرر کیا سائل نے اسی سے سوال کیا تھا مجیب نے اسی سے جواب دیا اور ثبوت کی سرخی دے کر جو گیارہ عبارتیں گنائیں ان میں پہلی نو مقلد بالفتح اور اخیر کی دو مقلد بالکسر سے متعلق ہیں۔ ان دو کا بیان شافی مقدمہ ششم میں گزرا کہ انہیں یہاں سے متعلق سمجھنا محض نادانی و بے فہمی ہے وہ صرف اس صورت سے متعلق ہیں کہ ریاست اسلامی کا والی مولی ہو اور بادشاہ نامسلم۔

دوم : بفرض باطل اگر یہ دو عام ہوتیں ہر گز تام نہ ہوتیں کہ کلام تو قاضی نا مسلم میں ہے ان دو نے اگر بفرض غلط بادشاہ سے تقلد قضائے شرعی مسلم کے لئے مطلقاً جائز رکھا تو نامسلم کےلئے جواز کیونکر ہوگیا، کیا قاضی مسلم و نامسلم کا شرعاً ایک حکم ہے،
قال اﷲتعالٰی
افنجعل المسلمین کالمجرمین مالکم کیف تحکمون۲؎۔
اﷲ تعالٰی نے فرمایا: کیا ہم مسلمانوں کو مجرموں کی طرح کردیں، تمہیں کیا ہوا کیسا فیصلہ کرتے ہو۔(ت)
(۲؎القرآن الکریم    ۶۸/ ۳۵)
سوم : رہیں وہ نو، ان میں سے آٹھ میں نامسلم کا نام تک نہیں، پہلی تیسری ، چوتھی، نویں میں جاہل کا ذکر ہے اور چھٹی آٹھویں میں فاسق اور دوسری ، پانچویں میں جاہل وفاسق دونوں کا۔ کیا جاہل و فاسق مسلمان نہیں یا مسلم یا نامسلم شرعاً یکساں ہیں، جو حکم ان کےلئے شرع نے مانا ہوان پر قیاس کرکے نامسلم کے لیے بھی ثابت ہوجائے گا، کیا ایسا تعدیہ شرع پر تعدی نہیں۔
ومن یتعد حدود اﷲ۳؎
 (جو اﷲ تعالٰی کی حدودسے تجاوز کرے۔ت) کا کیاحکم ہے۔
 (۳؎القرآ ن الکریم   ۲ /۲۲۹)
چہارم : طرفہ یہ کہ یہاں جاہل سے مراد ہر غیر مجتہد ہے کہ اسے مجتہد کے مقابل اطلاق کیا ہے خود عبارت ہدایہ منقولہ فتوی میں ہے:
الصحیح ان اھلیۃ الاجتہاد شرط الاولویۃ فاما تقلید الجاہل فصحیح عندنا۱؎۔
صحیح یہ ہے کہ اجتہاد اولٰی ہونے کی شرط ہے تو لیکن جاہل کی تقرری (قضاء کےلئے) توہمارے نزدیک صحیح ہے۔(ت)
(۱؎ الہدایۃ     کتاب ادب القاضی   مطبع یوسفی لکھنؤ    ۳/ ۱۳۲)
بایں معنی آج تمام دنیا کے عالم اور خود یہ مفتی اور ان کے اساتذہ اور اساتذہ اساتذہ صد ہا سال سے سب جاہل ہیں کہ کوئی مجتہد نہیں اور ان کے طور پر ان کا اور مجوس و ہنود ونصارٰی ویہود سب کا ایک حکم ہے کیا یہ قابل تسلیم عقل سلیم ہے۔
پنجم: گیارہ میں یہ دس تو محض بے علاقہ و بیگانہ تھیں مگر سب میں لطیف تروہ ایک باقیماندہ عبارت ردالمحتار یعنی ساتویں ہے جو اول تاآخر سراسر مزعوم فتوٰی کا رد و ابطال ہے اور مفتی کو اس سے استناد کا خیال ہے مفیدونامفید میں فرق نہ کرنا ایسا دشوار نہ تھا جیسا خود کو مفید سمجھنے میں اشکال ہے، بحرالرائق میں تو یہ فرمایا کہ اگر سلطان اسلام کسی نامسلم کو اپنے حکم سے قاضی کردے جب بھی تاوقتیکہ وہ مسلمان نہ ہوجائے، مسلمان پر اس کی قضا صحیح نہیں کہ فرمایا:
لم یصح قضاؤہ علی المسلم حال کفرہ۲؎۔
کافر کی قضاء حالت کفر میں مسلم پر صحیح نہیں ہے(ت)
 (۲؎ بحرالرائق     کتاب القضاء    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۶ /۲۵۹)

(ردالمحتار بحوالہ البحر    کتاب القضاء   داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴ /۹۹۔۲۹۸)
اور اس سے استناد اس پر ہوتا ہے کہ اگر بادشاہ نامسلم بھی نامسلم کو قاضی کردے اور وہ نامسلم ہی رہے جب بھی مسلمانوں پر اس کی قضاء قضائے شرعی ہے ، صحت تقلید کے معنی یہ تھے کہ اگر بعد تقلید مسلمان ہوجائے گا تقلید جدید کی حاجت نہ ہوگی، نیز قبل اسلام غیر مسلمین پر اس کی قضاء صحیح ہوجائے گی نہ یہ کہ مسلمین پر قضائے شرعی ہو، اسی ردالمحتار کے اسی صفحہ میں ہے۔
تنبیہ  ، ظھر من کلامھم حکم القاضی المنصوب فی بلاد الدروز فی القطر الشامی ویکون در زیا ویکون نصرانیا فکل منھما لایصح حکمہ علی المسلمین فان الدرزی لاملۃ لہ کالمنافق والزندیق وان سمی نفسہ مسلماوھذاکلہ بعد کونہ منصوبا من طرف السلطان اومامورہ بذلک والافالواقع انہ ینصبہ امیر تلک الناحیۃ ولاادری انہ ماذون لہ بذلک ام لاولاحول ولاقوۃ الاباﷲالعلی العظیم۱؎۔
تنبیہ،فقہاء کے کلام سے شام کے علاقہ بلا د دروز میں مقرر قاضی کا حکم واضح ہوا کہ دروز یانصرانی ہو تو اس کی قضاء مسلمانوں پر جائز نہیں کیونکہ دروزی کی کوئی ملت نہیں ہے جیسا کہ منافق اور زندیق کی ملت نہیں ہے اگرچہ وہ اپنے آپ کو مسلمان کہلائے، یہ تمام اس صورت میں ہے جب اس کو سلطان کی طرف سے مقرر کیا گیا ہو یا ایسے کو مقرر کرنے کا مامور ہو، اور اگر واقع یہ ہو کہ اس علاقہ کے کسی امیر کی طرف سے دروزی قاضی مقرر شدہ ہو اور معلوم نہیں کہ وہ امیر اس بات کا ماذون ہے یانہیں، لاحول ولاقوۃ الا باﷲالعلی العظیم(ت)
 (۱؎ ردالمحتار    کتاب القضاء    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴ /۲۹۹)
ششم : یہ اول عبارت تھا آخریہ ہے کہ فتح نے فرمایا کافر و غلام اگرچہ ایک نوع ولایت رکھتے ہیں مگر ان میں صحت ونفاذ سے مانع موجود ہے جب تک یہ آزاد اور وہ مسلمان نہ ہوگا انکی قضاء صحیح ونافذ نہ ہوگی یعنی اس کی مطلقاً اور اس کی مسلمان پر کہ فرمایا:
لہ ولایۃ وبہ مانع وبالعتق والاسلام یرتفع۲؎۔
اس کو ولایت ہوئی اور غلامی اور کفر اس کو مانع تھا اب عتق اور اسلام حاصل ہوجانے پر مانع ختم ہوگیا۔(ت)
 (۲؎ فتح القدیر     کتاب ادب القاضی    مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۶ /۳۵۷)
اور اس سے استناد اس پر کیا جاتا ہے کہ اس کی قضاء مطلقاً قضائے شرعی ہے صحت تقلید کے وہ معنی بھی اس میں واضح فرمادئے تھے کہ:
لو قلد کافر القضاء فاسلم قال محمد ھو علی قضائہ فصار الکافر کالعبد۳؎۔
اگر کفر کی حالت میں قاضی مقرر ہو ا تو مسلما ن ہوگیا، امام محمد رحمہ اﷲتعالٰی نے فرمایا وہ پہلی تقرری پر قاضی ہے تو یہ کافر غلام کی طرح ہوا۔(ت)
(۳؎فتح القدیر     کتاب ادب القاضی    مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۶ /۳۵۷)
اور عبد (غلام) میں فرمایا:
قلد عبد فعتق جازان یقضی بتلک الولایۃمن غیر حاجۃ الٰی تجدید۱؎۔
عبد تھا جو قاضی مقرر ہوا اب وہ آزاد ہوگیا تو اس پہلی تقرری ولایت پر اس کی قضاء جائز ہوجائیگی نئی تقرری کی ضرورت نہ ہوگی۔(ت)
(۱؎ فتح القدیر    کتاب ادب القاضی    مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۶ /۳۵۷)
ہفتم : طرفہ تر یہ کہ اس روایت ہفتم کا خود حاصل یہ بتایا کہ غیر مسلم میں قاضی ہونے کی کافی لیاقت ہے اگرچہ مسلمانوں پر اس کے احکام نافذ نہیں ہوتے مگر اگر یہ ٹھہرے کہ ع
خود گفتہ و خود نداندکہ چیست
 (اپنے کہے ہوئے کو خود نہیں جانتا کہ کیا ہے۔ت) تو اس کی بات جدا ہے ۔
Flag Counter