Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
110 - 151
مقدمہ ششم:  جس طرح بعض حجر محتاج حکم حاکم ہیں، پھر حکم سے کبھی حجر حسی حاصل ہوتا ہے کبھی شرعی جس کا بیان گزرا، یوں ہی تقلید قضاکہ فک حجر ہے دست نگر حکم والی ہے اور اس میں تقسیم حسی و شرعی یا دنیوی و دینی ہے قضائے دنیوی کے لئے توصرف منجانب والی تقرر بس ہے اگرچہ نہ وہ والی مسلم ہو نہ یہ مولی ، کہ جس ملک میں جس مذہب و ملت کے احکام جسے حاکم مقرر کریں گے ضرور وہ حکم پر قادر اور اس کا حکم وہاں نافذ ، اور وہاں کی رعایا پر بحکم والیان ملک، لازم القبول ہوگا، یہ وہی ولایت قسم اول ہے اور تمام مقدمات قسم اول کے لئے کافی و وافی ہے لیکن قضائے دینی شرعی کہ ولایت قسم دوم ہے اور مقدمات قسم دوم یعنی مسلمان کے حق میں احداث حکم جدید شرعی نافع آخرت کیلئے درکار ہے اس کےلئے جس طرح مولٰی یا مقلد بالفتح یعنی اس قاضی کا مسلم ہونا شرع مطہر نے لازم مانا جس کا روشن ثبوت گزرا، یونہی مولی یا مقلد بالکسر یعنی وہ والی شہر حاکم ذی اختیار صاحب فوج و خزانہ جس کے حکم کی طرف اس کا نصب وعزل منتہی ہو اس کا اسلام بھی لازم ہے کہ قضاء ولایت مستقلہ نہیں بلکہ ولایت مقلد سے مستفاد، اور عدم مفید وجود نہیں ہوسکتا۔

فتح القدیر میں ہے :
اذالم یکن سلطان ولامن یجوز التقلد منہ کما فی بعض بلاد المسلمین غلب علیہم الکفار، یجب علیہم ان یتفقواعلی واحد منھم یجعلو نہ والیا، فیولی قاضیا ویکون ھوالذی یقضی بینھم وکذا ینصبو الھم اماما یصلی بھم الجمعۃ۱؎۔
جب کوئی سلطان نہ ہو اور نہ ہی کوئی ایسا حاکم جس کی طرف سے قاضی کی تقرری ہوسکے جیسا کہ مسلمانوں کے وہ علاقے جہاں کفار نے غلبہ پایا ہے تو وہاں کے مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے کسی ایک پر اتفاق کرکے اس کو والی قراردیں تو وہ کسی کو قاضی مقرر کردے اور وہ لوگوں میں فیصلے کرے اور یونہی وہ مسلمان کسی کو جمعہ کا امام مقرر کریں جو جمعہ کی نماز پڑھائے۔(ت)
(۱؎ فتح القدیر     کتاب ادب القاضی  مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر  ۶ /۳۶۵)
جامع الفصولین میں ہے:
کل مصرفیہ وال مسلم من جہۃ الکفار تجوز فیہ اقامۃ الجمع والاعیاد واخذالخراج وتقلید القضاء وتزویج الایامی لاستیلاء المسلم علیہم، واما فی بلاد علیہا ولاۃ کفار فیجوز للمسلمین اقامۃ الجمع والاعیاد ویصیر القاضی قاضیا بتراضی المسلمین ویجب علیہم طلب وال مسلم۲؎۔
ہر ایسا شہر جس میں کفار کی طرف سے کوئی مسلمان والی مقرر ہو اس شہر میں جمعہ و عیدین کا قیام خراج وصول کرنا ، قاضی کی تقرری اور یتیم بچیوں کا نکاح جائز ہوگا کیونکہ اس طرح مسلمانوں کا ان پر غلبہ ثابت ہے اور لیکن وہ علاقے جہاں کفار ہی والی ہوں وہاں مسلمانوں کی رضامندی سے مقرر شدہ قاضی ہی بااختیار قاضی ہوگا تو وہاں مسلمانوں کو جمعہ وعیدین کا قیام جائز ہوگا اور مسلم والی کےلئے جدوجہد ان پر واجب ہوگی۔(ت)
 (۲؎ جامع الفصولین     الفصل الاول        اسلامی کتب خانہ کراچی    ۱ /۱۴)
درمختار میں ہے:
لو فقد وال لغلبۃ کفار وجب علی المسلمین تعیین وال وامام للجمعۃ، فتح۳؎۔
اگر غلبہ کفار کی بناپر مسلمان والی مفقود ہو تو مسلمانوں پر اپنے طور کسی قاضی اور جمعہ و عیدین کے امام کا تقرر واجب ہوگا، فتح(ت)
(۳؎ درمختار    کتاب القضاء     مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۷۳)
بعینہٖ اسی طرح معراج الدرایہ وتاتارخانیہ وردالمحتار وغیرہا میں ہے کہ ان کی عبارات بعونہ تعالٰی عنقریب آتی ہیں،

 نہر الفائق میں عبارت فتح القدیر نقل کرکے فرمایا:
ھذاھوالذی تطمئن النفس الیہ فالیعتمد۱؎۔
یہی وجہ ہے جس پر نفس مطمئن ہوتا ہے تو اس پر اعتماد چاہئے۔(ت)
 (۱؎ ردالمحتار    بحوالہ النھر    کتاب القضاء     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴ /۳۰۸)
ابن عابدین نے اسے نقل کرکے فرمایا:
الاشارۃ بقولہ ھذاالی ماافادہ کلام الفتح من عدم صحۃ تقلدالقضاء من کافر۲؎۔
اس کے قول ''ھذا'' سے فتح کےکلام سے جو فائدہ حاصل ہوا کہ کافر کی طرف سے قاضی کی تقرری صحیح نہیں ہے، کی طرف اشارہ ہے(ت)
(۲؎ردالمحتار      کتاب القضاء     داراحیاء التراث العربی بیروت   ۴ /۳۰۸)
اور یہ خود نص محررالمذہب سید نا امام محمد رضی اﷲ تعالٰی عنہ کتاب الاصل میں ہے
کما سیأتی ان شاء اﷲ تعالٰی
 (جیساکہ ان شاء اﷲ تعالٰی آگے آئے گا۔ت) یہ تمام نصوص صریحہ واضحہ قاطعہ ہیں کہ قضائے شرعی بمعنی مذکور کےلئے مولی و مولٰی دونوں کا اسلام ضرور ہے
اقول: وباﷲ التوفیق
 (میں کہتا ہوں اور توفیق اللہ تعالی سے ہے ۔ت)ہاں اس کے لیے بادشاہ ملک کا مسلمان ہونا ضرور نہیں جیسے بادشاہ نامسلم کے زیر حکم کوئی اسلامی ریاست کا والی جس کی مسند نشینی بحکم ومنظوری بادشاہ نا مسلم ہوتی ہو کسی مسلمان کو اپنی رعایا پر عہدہ  قضادے قاضی شرعی ہوجائے گا اگرچہ بالواسطہ اس کی قضا بادشاہ نامسلم کی طرف مستند ہوئی کہ اسے والی شہر نواب مسلمان نے مقرر کیا اور وہ نواب بادشاہ نامسلم کا مقرر کیا ہوا ہے اور مقلد مقلد مقلد ہے بلکہ وہ نواب مسلمان والی شہر صاحب فوج وخزانہ خود ایک اعلٰی درجہ کا قاضی ہے۔

درمختارمیں ہے:
ثم الوالی بالطریق الاولٰی۳؎۔
پھر والی بطریق اولٰی ۔(ت)
 (۳؎ درمختار کتاب الماذون  مطبع مجتبائی دہلی  ۲ /۲۰۳)
شامی میں ہے:
ای ثبوت الولایۃ للوالی اولی لان القاضی یستمدھا منہ ۴؎۔
یعنی والی کے لئے ثبوت ولایت بطریق اولٰی ہوگی کیونکہ قاضی اس سے تقرر پاتا ہے(ت)
 (۴؎ ردالمحتار    کتاب الماذون   داراحیاء التراث العربی بیروت     ۵ /۱۱۱)
اور پر ظاہر کہ اس کا تقرر بلا واسطہ بمنظوری بادشاہ نامسلم ہوا تو نظربہ استفادہ وسبب وقضاتقلد قضامن سلطان غیر مسلم کہہ سکتے ہیں، اگرچہ یہاں حقیقت امر یہ ہے کہ ولایت نواب والی ملک اپنی ولایت عرفیہ یعنی غلبہ واستیلا سے مستفاد ہے کہ شرع مطہر نے والی مسلم کے لئے صرف اسے بھی سبب حصول ولایت معتبرہ عندالشرع مانا ہے ۔
فتاوٰی امام قاضی خاں پھر بحرالرائق پھر ردالمحتار میں ہے :
السلطان یصیر سلطانا بامرین بالمبایعۃ معہ من الاشراف والاعیان وبان ینفذ حکمہ علی رعیتہ خوفا من قھرہ فان بویع ولم ینفذ فیہم حکمہ لعجزہ عن قھرھم لایصیر سلطانا، فاذاصار سلطانا بالمبایعۃ فجار ان کان لہ قھر وغلبۃ لاینعزل۱؎۔
سلطان کی تقرری  دو چیزوں سے حاصل ہوتی ہے ایک اشراف اور اعیان حکومت کی بیعت ، اور دوسرا رعیت پر اس کے دبدبے کی بناپر اس کے حکم کا نافذ ہونا، تو اس کی بیعت ہوئی لیکن رعیت پر دبدبہ قائم نہ ہونے کی وجہ سے اس کا حکم نافذ نہ ہوسکا تو سلطان نہ بن سکے گا تو جب سلطان بن گیا اور اپنے دبدبے اور غلبہ کی بنا پر ظلم کیا تو معزول نہ قرار پائے گا۔(ت)
(۱؎ ردالمحتار    کتاب القضاء    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴ /۳۰۵)
فصول عمادیہ پھر ہندیہ میں ہے:
ذکر فی الفتاوی ایضا تجوز صلٰوۃ الجمعۃ خلف المتغلب الذی لامنشورلہ من الخلیفۃ اذاکانت سیرتہ فی رعیتہ سیرۃ الامراء یحکم فیما بین رعیتہ بحکم الولایۃ لان بھذا تثبت السلطنۃ فیتحقق الشرط۲؎۔
فتاوٰی میں یہ بھی مذکور کہ ایسے سلطان کی اقتدا میں جمعہ جائز ہوگا جو خود غلبہ پاکر خلیفہ کی منظوری کے بغیر اقتدار پر فائز ہوگیا بشرطیکہ رعیت میں امراء کی سی سیرت قائم کرچکا ہو وہ اپنی ولایت کی بنا پر رعیت میں حکم نافذ کرچکا ہو کیونکہ اس سے سلطنت قائم ہوگئی تو شرط متحقق ہوگئی۔(ت)
 (۲؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب ادب القاضی     الباب الاول         نورانی کتب خانہ پشاور     ۳ /۳۰۷)
خلاصہ پھر بحرالرائق پھر طحطاوی پھر ابن عابدین میں ہے:
المتغلب الذی لاعھدلہ ای لامنشور لہ ان کان سیرتہ فیما بین الرعیۃ سیرۃ الامراء ویحکم بینھم بحکم الولاۃ تجوز الجمعۃ بحضرتہ۱؎۔
خلیفہ کی منظوری کے بغیر غلبہ پانے والے نے رعیت میں امراء کی سی سیرت قائم کرلی اور اپنی ولایت کی بناء پرحکم تسلیم کرو اچکا ہو اس کی موجودگی میں جمعہ قائم ہوسکے گا۔(ت)
 (۱؎ ردالمحتار    کتاب الصلٰوۃ     باب الجمعہ    داراحیا ء التراث العربی بیروت    ۱ /۳۸۔۵۳۷)
غایت یہ کہ اس کی ولایت عرفیہ طریقہ شرعیہ سے مستفادیعنی بحکم امیر المومنین نہیں تو یہ ایک نواب کیا آج صدہا سال سے تمام روئے زمین کے سلاطین اسلام ایسے ہی ہیں ، اپنے استیلاہی کے باعث سلطان اسلام ہیں وہ اسے بھی حاصل اور منظوری بادشاہ اس کی معین ہے نہ کہ مخل، رہا بوجہ منظوری سبب، اس کی قضاء کو تقلید بادشاہ غیر مسلم کی طرف منسوب کرسکتے ہیں یہی دونوں صورتیں عبارت مسکین:
یجوز تقلد القضاء من السلطان العادل اوالجائرسواء کان کافرا اومسلما کذافی الاصل۲؎۔
قضاء کی تقرری سلطان عادل خواہ ظالم سے ہوگی اس کا مسلمان ہونا اور کافر ہونا برابر ہے اصل(مبسوط)میں یونہی ہے(ت)
(۲؎ شرح الکنز     لملامسکین علٰی ہامش فتح المعین     کتاب القضاء     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۳ /۲۶)
اور عبارت ہندیہ :
ذکر فی الملتقط والاسلام لیس بشرط فیہ ای فی السلطان الذی یقلد کذافی التاتارخانیۃ ۳؎۔
ملتقط میں ذکرکیاکہ سلطان میں اسلام شرط نہیں ہے یعنی جو سلطان قاضی کی تقرری کرے۔ تاتارخانیہ میں یونہی ہے(ت) میں مراد ہیں اور اس پردلیل قاطع یہ کہ مسکین نے اسے اصل سے نقل کیا،
 (۳؎ فتاوی ہندیہ     کتاب ادب القاضی    الباب الاول     نورانی کتب خانہ پشاور    ۳ /۳۰۷)
اصل مبسوط امام محمد رضی اﷲتعالٰی عنہ کا نام ہے، مبسوط کی عبارت یہ ہے جو ردالمحتار کتاب الصلٰوۃ میں بحوالہ معراج الدرایہ منقول:
البلاد التی فی ایدی الکفار بلاد الاسلام لابلاد الحرب لانھم لم یظھروا فیہا حکم الکفر بل القضاۃ والولاۃ مسلمون یطیعونھم عن ضرورۃ او بدونھا وکل مصرفیہ وال من جھتھم یجوزلہ اقامۃ الجمع والاعیاد والحدوتقلیدالقضاء لاستیلاء المسلم علیہم فلوالولاۃ کفارایجوز للمسلمین اقامۃ الجمعۃ ویصیر القاضی قاضیا بتراضی المسلمین ویجب علیہم ان یلتمسو اوالیا مسلما۱؎۔
وہ بلاد جوکفار کے قبضے میں آئے ہیں وہ بلاد اسلام ہیں بلاد کفر نہیں ہیں کیونکہ کافر وہاں کفر کے احکام کو مسلط نہیں کر پائے بلکہ وہاں قاضی اور والی حضرات مسلمان ہیں وہ ایک ضرورت کے تحت یا ضرورت کے بغیر کفار کے ماتحت ہیں، وہ شہر جس میں کفار کی طرف سے مقرر کردہ والی ہو تو جمعہ، عیدین اور حد کا قیام اور قاضیوں کا تقرر اسے جائز ہے کیونکہ مسلمانوں کا کفار پر غلبہ ہے ، تو اگر والی کفار ہوں تو مسلمانوں کو جمعہ کا قیام جائز ہوگا اور مسلمان کی رضامندی سے قاضی ہو تو وہ باختیار قاضی ہوگا اور مسلمانوں پر مسلمان والی کےلئے کوشش لازم ہے۔(ت)
(۱؎ ردالمحتار    کتاب الصلٰوۃ     باب الجمعہ    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۱ /۴۱۔۵۴۰)
اور ہندیہ نے اسے تاتارخانیہ سے نقل کیا، تاتارخانیہ کی پوری عبارت یہ ہے جو ردالمحتار کتاب القضاء میں منقول ہے:
الاسلام لیس بشرط فیہ ای فی السلطان الذی یقلد وبلاد الاسلام التی فی ایدی الکفرۃ لاشک انھا بلاد الاسلام لابلاد الحرب لانھم لم یظہروافیہا حکم الکفر، والقضاۃ مسلمون والملوک الذین یطیعونھم عن ضرورۃ مسلمون ولو کانت عن غیر ضرورۃ منھم ففساق وکل مصرفیہ وال من جھتھم تجوز فیہ اقامۃ الجمع والاعیاد واخذ الخراج و تقلید القضاۃ وتزویج الایامی لاستیلاء المسلم علیہ، واما بلاد علیہاولاۃ کفار فیجوز للمسلمین اقامۃ الجمع والاعیاد ویصیر القاضی قاضیا بتراضی المسلمین فیجب علیہم ان یلتمسواوالیا مسلما منھم۱؎۔
اسلام اس میں شرط نہیں یعنی اس سلطان میں جو قاضی کی تقرری کرتاہے اور جو مسلمانوں کے علاقے کفار کے قبضے میں ہیں بیشک وہ بلاد اسلام ہیں نہ کہ بلاد حرب ، کیونکہ کفار  وہاں احکام کفر غالب نہیں کر پائے جبکہ وہاں قاضی مسلمان ہیں اوروہاں کے ملوک اگر کفار کے ماتحت ضرورت کی وجہ سے ہیں تو وہ مسلمان ہیں، اور اگر بغیر ضروت ماتحت بنے ہوئے ہیں تو وہ فاسق ہیں اور وہ تمام شہر جن میں کفار کی طرف سے مسلمان والی مقرر ہیں وہاں جمعہ وعیدین کا قیام اور خراج کی وصولی اور قاضیوں کا تقرر اور یتیم بچوں کا نکاح جائز ہے کیونکہ یہاں مسلمان کو ولایت حاصل ہے لیکن وہ بلا د جہاں کفار والی ہوں تو وہاں مسلمانوں کو جمعہ و عیدین کا قیام جائز ہے اور وہاں مسلمانوں کی باہمی رضامندی سے مقرر شدہ قاضی باختیار قاضی ہوجائے گا تو مسلمانوں کو لازم ہوگا کہ وہ کوئی اپنا مسلمان والی بنانے کے لئے کوشاں رہیں۔(ت)
(۱؎ ردالمحتار    کتاب القضاء     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴/ ۳۰۸)
ان نفیس وجلیل عبارات نے صاف صاف ایسے شہروں کی تین قسمیں فرمائیں:ایک وہ ملک جس میں بادشاہ مسلمان ہے مگرنا مسلمان حکومت کے زیر اثر ہوگیا ہے جیسے آج کل بخاراشریف۔اس کا بیان کتاب الاصل میں''اوبدونھا''اور تاتارخانیہ میں''ففساق''تک ہے۔ دوسرے وہ کہ ریاست بااختیار صاحب فوج وخزانہ اسلامی ہے اور بادشاہ غیر مسلم ، اس کا بیان دونوں عبارتوں میں
''وکل مصر''
سے
''لاستیلا المسلم علیہم''
تک ہے۔ تیسرے وہ کہ ان پر والی بھی مسلمان نہیں عام ازیں کہ بادشاہ نامسلم نے تنہا اپناقبضہ رکھا ہو یا کوئی غیر اسلامی ریاست قبول کی ہو، جیسے رجواڑے۔ اس کا بیان دونوں عبارات کے بقیہ میں ہے جواز تقلید قضائے شرعی دو صورت پیشیں سے خاص فرمایا، اور سوم میں بعینہ وہی جو فتح القدیر وجامع الفصولین سے گزرا،ارشاد کیا کہ اب قضائے شرعی تراضی مسلمین پر رہے گی اب بھی اگر تقلد قضاء شرعی صحیح ہو تو اس تخصیص اور اس تفریق حکم کے کیا معنے تھے اور عبارت امام محقق علی الطلاق نے تو اس مفاد صریح کو اور بھی اوضح واصرح فرمادیا کہ:
اذالم یکن من یجوز التقلید منہ۲؎الخ۔
جب کوئی ایسا نہ ہو جس کی طرف سے قاضی کی تقرری ہوسکے الخ۔(ت)
 (۲؎ فتح القدیر     کتاب ادب القاضی     مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر     ۶ /۳۶۵)
تو روشن ہوا کہ نامسلم سے تقلد قضاء شرعی انہیں دوصورت وساطت مولی مسلم میں ہے کہ پہلی صورت میں بادشاہ مسلم اور دوسری میں نواب مسلم ہے، صورت سوم میں یہ حکم ہر گز نہ رکھا اور صراحۃً اس کا عدم جواز ظاہر فرمادیا تو مسکین و ہندیہ کہ انہیں اصل وتاتارخانیہ کا حوالہ دے رہے ہیں قطعاً ان کی یہی مراد لازم ورنہ حوالہ باطل اور نقل خلاف اصل ہوجائے گی، ہاں ان دونوں کے اختصار شدید نے اثارت وہم کی جس کے سبب بحرالرائق نے قول مسکین نقل کرکے عبارت مذکورہ فتح القدیر وجامع الفصولین سے اس کا رد فرمایا:
فی فتح القدیر مایخالفہ (واثر ما اسلفنا ثم قال ) ویؤیدہ مافی جامع الفصولین (ونقل ماقدمنا)۱؎۔
فتح القدیر وہ ہے جو اسکے مخالف ہے (اور جو ہم نے پہلے بیان کیا اسکو نقل کیا پھر کہا جامع الفصولین کا بیان اس کی تائید کرتا ہے(اور ہمارے پہلے بیان کو نقل کیا)(ت)
 (۱؎ بحرالرائق    کتاب القضاۃ    فصل یجوز التقلید من شاء الخ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۶ /۲۷۴)
یوں ہی درمختار نے قول مسکین ذکر کرکے کلام فتح سے اس کا تعقب کیا اور نہر الفائق نے کلام فتح نقل فرما کر اسی پر اعتماد لازم بتایا، یہ سب کچھ کلام مسکین میں حوالہ کتاب الاصل دیکھنے پر ہوا جو محرر المذہب رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی کتب ظاہر الروایۃ سے ہے، اس درجہ قوت عظیمہ کے تخیل پر بھی ان اکابرمحققین نے اس پر اعتماد نہ فرمایا مگر بحمد اﷲ تعالٰی عبارت اصل یونہی ہندیہ کی منقول عنہا تاتارخانیہ کی اصل عبارت دیکھنے سے تمام سحاب شبہات واوہام کا پردہ چاک کرکے حق کا چاند چمکادیا ،
والحمدﷲ رب العٰلمین ھکذا ینبغی التحقیق واﷲ تعالٰی ولی التوفیق۔
      تمام تعریفیں اﷲ تعالٰی کےلئے جو سب جہانوں کا پالنے والا ہے۔ تحقیق یوں چاہئے اور اﷲ تعالٰی زیادہ علم والا توفیق کا مالک ہے(ت)
Flag Counter