فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
11 - 151
مسئلہ:۲۱: ازریاست رامپور کوچہ لنگر خانہ مرسلہ سراج الدین صاحب آہنگر۱۰/رجب مرجب۱۳۳۳ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع مبین اہل اسلام بیچ اس مسئلہ میں کہ ایک عورت نے جو بذات خود اپنے شوہر سے ناراض نہیں ہے اس کا باپ اس کے شوہر سے ناراض ہے اور اس کاباپ چاہتا ہے کہ شوہر اول سے چھڑاکر بجائے دیگر مالدار اس کا عقد کرادے۔ عورت اپنے باپ کے پاس اور اس کے قبضہ میں ہے اس کے باپ نے اس عورت کی طرف سے وکالتاً دعوی باطلہ اثبات طلاق کا عدالت میں دائر کردیا، اس مقدمہ میں بذات خود عورت کا بیان یا اظہار نہیں ہواہے، شوہر کو دینے طلاق سے قطعا انکار ہے وہ کہتا ہے کہ میں نے اپنی زوجہ کو ہر گز ہر گز طلاق نہیں دی ہے ، عورت کی طرف سے جو گواہان مسموع ہوئے ہیں وہ سب غیر ثقہ اور رشتہ دار اس کے باپ کے ہیں ان کی شہادت مصنوعی اورتعلیمی معلوم ہوتی ہے جس کے بابت عدالت نے جس کے روبرو ان کے اظہارات ہوئے ہیں تحریر کیا ہے کہ ان کے بیان میں وہم صدق بھی نہیں بلکہ گمان غالب کذب ہے، شوہر کے طرف سے جو گواہان بطلان دعوٰی طلاق میں پیش ہوئے ہیں وہ آدمی نیک ونمازی اور حاجی اور معززین اپنی قوم کے چودھری ہیں انہوں نے جو بیانات گفتگوئے صلح باہمی عورت اور اس کے پدر کی زبان کا بہت عرصہ بعد طلاق مبینہ کے لکھ لیا ہے اس سے وقوعہ طلاق غلط اور بے وجود ثابت ہوتا ہے اس لحاظ سے حاکم عدالت نے وقوعہ طلاق کو غیر ثابت قرار دیا ہے اب زوجہ کی طرف سے بناراضی اس حکم کے مرافعہ کیا گیا ہے___________چونکہ یہ معاملہ نہایت نازک حلت وحرمت کاہے لہذا حاکم عدالت کو بحال رکھنا فیصلہ حاکم عدالت اول کا اولٰی ہے یا واقعہ طلاق کو حسب پیروکاران عورت ثابت قرار دینا اولٰی ہے شرعاً اولویت ہر دو امر سے کس میں ہے ؟بینواتوجروا۔
الجواب
اس مقدمہ میں نقول تجویزات ابتدائی واپیل نظر سے گزری جلیل القدر مفتی ذی علم مجوز اول نے اس بنا پر کہ گواہان طلاق عادل نہیں اور حاکم کو ان کی تحری صدق نہ ہوئی بلکہ وہم صدق بھی نہ ہوا اور ان کے کذب کاظن غالب ہوا اور ایسے گواہوں میں تاوقتیکہ تحری صدق نہ ہو ان کی شہادت پر عمل حرام ہے اگر قاضی عمل کرے خود آثم و فاسق ومستحق عزل ہوگا دعوی طلاق باطل فرمادیا، محکمہ اپیل نے وہ حکم اس بنا پر منسوخ کیا کہ شہادتیں حلفیہ تھیں اور روبکار ریاست سے ثا بت ہے کہ محض اس وجہ پر کہ گواہ مستور ہیں ان کی شہادت کو مسترد نہ کیا جائے گاکہ گواہ کا تزکیہ صرف بذریعہ حلف کافی ہے نیز اس کی یہ تائید پیش کی کہ پدر مدعیہ نے قسم ایسی بحوالہ قرآن شریف لرز کر کھائی کہ مدعا علیہ کچھ بول نہ سکا، یہ دونوں تجویزوں کا خلاصہ ہے، دارالافتاء شریعت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی خدمت گار ہے حکم اﷲ ورسول کے لئے ہے
ان الحکم الاﷲ۱؎
(نہیں ہے حکم مگر اﷲ کے لئے۔ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۱۲ /۴۰)
کسی شخص کو جب کہ مسلمان ہو، رعیت ہو خواہ حاکم وافسر، والی ملک ہو خواہ سلطان ہفت کشور، حکم خدا ورسول کے حضور اصلاً مجال دم زدن نہیں،
الاسلام گردن نہادن نہ کہ گردن کشیدن
(اسلام گردن جھکانے کا نام ہے نہ کہ گردن کھینچنے کا۔ت)
اﷲ عزوجل فرماتا ہے:
وما کان لمؤمن ولامؤمنۃ اذاقضی اﷲ ورسولہ امرا ان یکون لھم الخیرۃ من امرھم ومن یعص اﷲ ورسولہ فقد ضل ضلٰلاً مبینا۲؎۔
کسی مسلمان مرد یا عورت کو نہیں پہنچتا کہ جب اﷲ ورسول کوئی حکم فرمادیں تو انہیں اپنا ذاتی کوئی اختیار باقی رہے اور جس نے اﷲ ورسول کی نافرمانی کی وہ کھلی گمراہی میں پڑا۔
(۲؎القرآن الکریم ۳۳/ ۳۶)
شریعت محمدیہ علٰی صاحبہا وآلہ افضل الصلوٰۃ والتحیۃ شریعت ابدیہ غیر منسوخہ ہے قیامت تک جس کا کوئی حکم بدلا نہیں جاسکتا، سلطان بلکہ سلطان سے بھی بڑھ کر خلیفہ روئے زمین کو اصلاً اختیار نہیں کہ روبکار یا دستور العمل اس کے کسی حکم کے خلاف نافذ کریں، نہ ہرگز حکام کو حلال ہے کہ ایسے روبکار وغیرہ پرعمل کریں، نہ ہرگز حاکمان مرافعہ کو جائز ہوسکتا ہے کہ ایسے کسی حکم کو برقرار رکھیں، مسلمان حاکم یا رئیس یا سلطان کیونکر ان سخت جانگزا وعیدوں کو سہوومحو کرسکتے ہیں، جو واحد قہار عزجلالہ نے قرآن عظیم میں
من لم یحکم بما انزل اﷲ۱؎
(جو اﷲ تعالٰی کے نازل کئے ہوئے پر فیصلہ نہ کرے۔ت) پر فرمائی ہیں،
(۱؎ القرآن الکریم ۵ /۴۴)
شریعت مطہرہ کے حکم سے اولا مفتی محکمہ ابتدائی کا وہ حکم سرے سے قابل اپیل ہی نہ تھا محکمہ ججی پر لازم تھا اپیل سنتا ہی نہیں کہ وہ حکم ایک عام حاکم عالم عادل نے کیا تھا اور ایسے حکم کا مرافعہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب اس سے یقینا حکم میں خطائے بین واضح ظاہر واقع ہوئی ہو جس میں اصلاً جائے تردد نہیں یہاں تک کہ اگر اس کا حکم خطا ہونا محتمل ومشکوک ہو جب بھی اپیل مسموع نہیں کہ احتمال خطا ظہور خطا نہیں نہ کہ حکم صاف صواب مطابق شرع واقع ہو پھر اپیل کی جائے ایسی اپیل زنہار قابل سماعت نہیں،
معین الحکام میں ہے :
القاضی نظرہ فی احکام غیرہ مختلف، فاما العالم العدل فلا یعترض لاحکامہ بوجہ قال ابوحامد علی القاضی ان لایتعرض لقضیۃ امضاھا الاول الاعلی وجہ التجویز لہا ان عرض فیہا عارض بوجہ خصومۃ، فاما علی وجہ الکشف لہا والتعقیب فلا وان سألہ الخصم ذٰلک، وھذا فیما جہل حالہ من احکامہ ھل وافق الحق اوخالفہ فہذا الوجہ الذی نفی عنہ الکشف والتعقیب الا ان یظہر لہ خطابین ظاھر لم یختلف فیہ وثبت ذٰلک عندہ فیردہ ویفسخہ عن المحکوم بہ علیہ۲؎۔
قاضی کا دوسرے قاضی کے فیصلوں پر نظر کرنا مختلف فیہ ہے لیکن عالم عادل قاضی کے فیصلوں میں کسی طرح تعرض نہیں کیا جائیگا۔ ابوحامد نے کہا قاضی پر واجب ہے کہ وہ کسی ایسے فیصلہ کا تعرض نہ کرے جسے قاضی اول نافذ کرچکا ہے، ہاں اس فیصلہ کو جائز قرار دینے کے لئے تعرض کرے گا جبکہ بطور خصومت اس فیصلہ کو کوئی عارضہ لاحق ہو، لیکن بطور تفتیش ومواخذہ اس کا تعرض نہیں کرسکتا اگرچہ فریق مخالف اس کا مطالبہ کرے، اور یہ اس صورت میں ہے جب قاضی اول کے فیصلے کا حال مجہول ہو کہ وہ حق کے موافق ہے یا مخالف اور تفتیش ومواخذہ کی نفی کاتعلق بھی اسی صورت کے ساتھ ہے مگر جب قاضی اول کے فیصلہ میں کھلم کھلا خطا ہو جس میں کسی کو اختلاف نہ ہو اور قاضی ثانی کے ہاں وہ پایہ ثبوت کو پہنچ جائے تو وہ قاضی اول کے فیصلہ کو منسوخ اور محکوم بہ سے اسے رد کرسکتا ہے۔(ت)
(۲؎ معین الحکام کتاب القضاۃ فصل فی نقض القاضی احکام غیرہ مصطفی البابی مصر ص۳۰)
اسی میں ہے:
قیام المحکوم علیہ بطلب الحکم عنہ ان کان قیامہ علی القاضی العالم العادل لم تسمع دعواہ۱؎۔
محکوم علیہ اگر اپنے خلاف فیصلہ کی منسوخی کا مطالبہ کرے تو عالم عادل قاضی کے خلاف اس کا دعوٰی مسموع نہ ہوگا۔(ت)
(۱؎ معین الحکام کتاب القضاۃ فصل فی قیام المحکوم علیہ بطلب فسخ الحکم عنہ مصطفی البابی مصر ص۳۴)
فواکہ بدریہ پھر غمز العیون قاعدہ اولٰی نوع ثانی میں ہے:
قضاء القاضی العدل لایتعقب ویحمل حالہ علی السداد بخلاف غیرہ۲؎۔
عادل قاضی کے فیصلہ پر مواخذہ نہیں کیا جائے گا اور اس کے حال کو درستگی پر محمول کیا جائے گا بخلاف غیر عادل قاضی کے۔(ت)
(۲؎ غمز عیون البصائر مع الاشباہ والنظائر الفن الاول ادارۃ القرآن کراچی ۱/ ۱۴۲)
ثانیاً گواہوں پر حلف رکھنا اول تو خود ہی باطل ہے یہاں تک کہ ہمارے علمائے کرام نے فرمایا اگر سلطان قاضیوں کو گواہوں سے حلف لینے کا حکم دے علماء پر فرض ہے کہ اسے نصیحت کریں کہ اے بادشاہ ! وہ حکم نہ دے کہ نہ مانیں تو تیرا غضب ہو اور مانیں تو اﷲ عزوجل کا غضب۔
اشباہ والنظائر ودرمختار میں ہے :
وھذا نظم الدر، امرالسلطان انما ینفذ اذا وافق الشرع والافلا، اشباہ من القاعدۃ الخامسۃ وفوائد شتی، فلو امرقضاتہ بتحلیف الشہود وجب علی العلماء ان ینصحوہ یقولوالہ لاتکلف قضاتک الی امر یلزم منہ سخطک او سخط الخالق تعالٰی۳؎۔
یہ در کی عبارت ہے کہ امر سلطان اسی وقت نافذ ہوگا جب موافق شرع ہو ورنہ نہیں، اشباہ کے پانچویں قاعدے اور فوائدمتفرقہ میں ہے کہ اگر سلطان اپنے قاضیوں کو گواہوں سے حلف لینے کا حکم دے تو علماء پر واجب ہے کہ اس کو نصیحت کریں اور کہیں کہ تو اپنے قاضیوں کو ایسی چیز کا مکلف مت بنا جس سے تیری (بصورت ترک) یا اﷲ تعالٰی کی (بصورت عمل) ناراضگی لازم آئے۔(ت)
(۳؎ درمختار کتاب القضاء فصل فی الحبس مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۸۱)
ولہذا علامہ محقق علی مقدسی نے تہذیب کا کلام آئندہ نقل کرکے رد فرمایا۔
منحۃ الخالق میں ہے:
قال العلامۃ المقدسی بعد ذکر مافی التہذیب لایخفی انہ مخالف لما فی الکتب المعتمدۃ۱؎۔
علامہ مقدسی نے تہذیب کی عبارت نقل کرنے کے بعد فرمایا مخفی نہ رہے کہ یہ کتب معتمدہ کی تصریحات کے مخالف ہے۔(ت)
(۱ منحۃ الخالق علی البحرالرائق کتاب الشہادات ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۷ /۶۳)