Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
109 - 151
 (۹) بعض حجر تو خود بحکم شرع ثابت ہیں جیسے مجنون اور ناسمجھ بچے کا ہر تصرف قولی، اور معتدہ وصبی عاقل کا دائربین النفع والضرر سے محجور ہونا کہ وہ اس کی اہلیت ہی نہیں رکھتے اور بعض وہ ہیں کہ بحکم حاکم ثابت ہوتے ہیں جیسے صاحبین رحمہمااﷲتعالی کے نزدیک مدیون کو بوجہ دین ، اور امام ابویوسف رحمہ اﷲ تعالٰی کے قول صحیح مفتی بہ پر سفیہ کو بوجہ سفہ ممنوع التصرف کردینا، یہ حجر بحکم حاکم بھی تنفیذ کی طرح دو قسم ہے:

اول حسی کہ ایک آدمی ایک فعل سے حکماً باز رکھاجائے بغیر اس کے کہ کوئی معنی جدید شرعی حادث ہو۔

دوم شرعی کہ اس کے سبب تصرف کا حکم شرعی مسدود ہوجائے، انسان کی اہلیت کہ عطائے رب العزت ہے باطل و بے اثر ہو کر بہائم سے ملحق ہوجائے۔

اور نتیجہ ولایت قسم اول کا ہے اور دو م علی الاختلاف ولایت قسم دوم کا۔اس دوم کی ولایت شرعیہ ہمارے امام اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے نزدیک تو اصلاً سلطان اسلام کو بھی نہیں۔ 

ہدایہ میں اسی کو ترجیح دی کہ فرماتے ہیں :
قال ابوحنیفۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ لایحجر علی الحرالعاقل البالغ السفیہ وتصرفہ فی مالہ جائز وان کان مبذرا مفسدا یتلف مالہ وقال ابویوسف ومحمد رحمھما اﷲ تعالٰی یحجر علی السفیہ ویمنع من التصرف فی مالہ، لابی حنیفۃ رضی اﷲتعالٰی عنہ ان فی سلب ولایتہ اھدار آدمیتہ والحاقۃ بالبھائم وھو اشد ضررامن التبذیر فلا یتحمل الاعلی لدفع الادنی ۱؎اھ مختصرا وقد قدم قول الامام واخر دلیلہ واجاب عن دلیلہما وکذٰلک فعل فی الحجر بسبب الدین۔
امام ابوحنیفہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ حرعاقل بالغ بیوقوف کو محجور( یعنی تصرفات سے روکنا) جائز نہیں ہے اور اس کا اپنے مال میں تصرف کرنا جائز ہے اگرچہ وہ فضول خرچی اور فاسد کرتے ہوئے مال کو تلف کردے اور امام ابویوسف اور امام محمد رحمہما اﷲ تعالٰی نے فرمایا ایسے بیوقوف کو محجور قرار دینا اور مال تصرف کرنے سے روکنا جائز ہے ، امام ابوحنیفہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی دلیل یہ ہے کہ اس کی ولایت کو ختم کرنا، اس کی آدمیت کو معطل کرنا اور حیوانوں سے لاحق کرنا ہے اور یہ چیز اس کے لئے مال کی فضول خرچی سے زیادہ مضر ہے لہذا اس کے ادنی ضرر کو ختم کرنے کے لئے بڑے ضرر کو نہ اپنایا جائے گا اھ مختصراً، انہوں نے امام اعظم رضی اﷲتعالٰی عنہ کے قول کو مقدم ذکر کیا اور ان کی دلیل کو آخر میں لاکر صاحبین رحمہما اﷲ تعالٰی کی دلیل کا جواب دیا ور مصنف نے دین کے سبب محجوری کے عمل میں بھی یہی طریقہ اختیار فرمایا۔(ت)
(۱؎ الہدایہ     کتاب الحجر    باب الحجر للفساد    مطبع مجتبائی دہلی     ۳ /۵۲۔۳۵۱)
اور صاحبین رحمہما اﷲ تعالٰی کے طور پر بھی بہت مواقع میں سلطان اسلام کا حجر بھی صرف حسی ہوتا ہے نہ کہ شرعی ، مثلاً مفتی ماجن و طبیب جاہل و مکاری مفلس پر حجر کہ بحکم سلطان بھی صرف صورۃًہوگا شرعاً ان کے تصرفات صحیحہ باطل نہ ہوجائیں گے۔

درمختار میں ہے :
لایحجر علی حرمکلف بسفہ وفسق ودین وغفلۃ بل یمنع مفتٍ ماجن یعلم الحیل الباطلۃ کتعلیم الردۃ لتبین من زوجھا او تسقط عنہا الزکاۃ وطبیب جاہل ومکار مفلس۲؎۔
حر مکلف کو بیوقوفی ، فسق، دین اور غفلت کی وجہ سے محجور نہ کیا جائے گا بلکہ ماجن مفتی جو لوگوں کو باطل حیلے سکھاتا ہو مثلاً بیوی کو خاوند سے علیحدگی اختیار کرنے کے لئے مرتد ہونے اور اس سے زکوٰۃ ساقط کی تعلیم دینا،نیز جاہل طبیب اور مکار مفلس کو روک دیا جائیگا۔(ت)
(۲؎ درمختار    کتاب الحجر     مطبع مجتبائی دہلی     ۲ /۱۹۸)
ردالمحتار میں ہے:
قولہ بل یمنع اشاربہ الی انہ لیس المراد بہ حقیقۃ الحجر وھو المنع الشرعی الذی یمنع نفوذ التصرف لان المفتی لوافتی بعد الحجر واصاب جاز وکذاالطبیب لو باع الادویۃ نفذ فدل ان المراد المنع الحسی کما فی الدرر عن البدائع۱؎۔
ماتن کا قول''بلکہ منع کیا جائے''اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ ممانعت حقیقی پابندی نہیں بلکہ اس سے مراد شرعی ممانعت ہے جو تصرف کے نفاذ کو روکتی ہے کیونکہ اگر وہ مفتی حجر والی کارروائی کے بعد فتوٰی درست دے تو جائز ہےاور یونہی وہ طبیب اگر دوافروخت کرے تو یہ کارروائی نافذ ہوگی تو اس سے معلوم ہوا کہ یہ منع محض حسی کارروائی ہے جیسا کہ درر میں بدائع سے نقل کیا گیا ہے(ت)
 (۱؎ ردالمحتار    کتاب الحجر    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۵ /۹۳)
اسی قبیل سے ہے سلطان کا ایام گرانی میں، یافوج کے لئے اشیاء کا بھاؤ کاٹ دینا کہ اگر بائع برضائے مشتری زیادہ کو پہنچے شرعاً جائز و نافذ رہے گا آخرت میں مستحق عذاب نہ ہوگا اگرچہ دنیا میں سلطان اسے سزادے اور اگر اس سلطانی مقرر کردہ بھاؤ پر محض بخوف سلطان بیچے تو وہ شے مشتری کیلئے عنداﷲ حلال نہ ہوگی۔  درمختار میں ہے  :
 لایسعر حاکم لقولہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم لاتسعر وا فان اﷲ ھوالمسعر القابض الباسط الرازق الااذا تعدی الارباب عن القیمۃ تعدیا فاحشا فیعسر بمشورۃ اھل الرأی ، وفی الاختیار ثم اذا سعر و خاف البائع ضرب الامام لو نقص لایحل للمشتری۲؎ اھ ای اذا باع للخوف کما عبر للقہستانی فسقط نظر الشامی وتحقیقہ فی جدالممتار۔
حاکم بھاؤ مقرر نہ کر ے کیونکہ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کا فرمان ہے بھاؤ مقرر نہ کرو کیونکہ اﷲ تعالٰی ہی بھاؤ بنانے والا ہے وہی تنگی ، وہی وسعت وہی رزق دینے والا ہے مگر جب تجار قیمت میں فحش گرانی کریں تو پھر حاکم اہل الرائے سے مشورہ کے بعد بھاؤ مقرر کرے تو جائز ہے، اور اختیار میں ہے پھر جب حاکم بھاؤ مقرر کردے اور بائع کو حاکم کی سزا کا خوف ہواگر اس نے مال کم بھاؤ پر دیا تو مشتری کو اس بھاؤ خرید نا جائز نہیں اھ یعنی جب بائع محض خوف کی وجہ سے (بغیر رضا)فروخت کرے تو مشتری کو جائزنہیں جیسا کہ قہستانی نے یہ تعبیر کی ہے، تو اب علامہ شامی کا اعتبار ساقط ہوگیا اور اس کی تحقیق جدالممتار میں ہے(ت)
(۲؎ درمختار    کتاب الحظر والاباحۃ    باب البیع    مطبع مجتبائی دہلی     ۲ /۴۹۔۲۴۸)
(۱۰) بے اذن و رضائے مدیون اس کی جائداد زر ڈگری میں نیلام کر دینا ضرور حسابحکم سلطنت موجود ہوجائے گا ، کلام اس میں ہے کہ شرعاً بھی وہ بیع صحیح ونافذ اور شیئ مبیع مشتری کے لئے عنداﷲ حلال ہوجائے گی اس پر خواہ اس کے ورثہ پر کہ اس کے بعد اسے اپنی ملک صحیح شرعی جانیں آخرت میں کچھ مواخذہ نہ ہوگا یہ مختلف فیہ ہے ہمارے امام اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ تو اسے سلطان اسلام کیلئے بھی جائز نہیں مانتے،
ہدایہ میں اسی کوترجیح دی اور اس پر دلیل قاطع ارشاد کی فرماتے ہیں :
قال ابو حنیفۃ رضی اﷲتعالٰی عنہ لااحجر فی الدین لان فی الحجر اھدار اھلیتہ فلا یجوز لدفع ضرر خاص فان کان لہ مال لم یتصرف فیہ الحاکم لانہ تجارۃ لاعن تراض فیکون باطلا بالنص، وقالا اذا طلب غرماء المفلس، حجر القاضی علیہ وباع مالہ ان امتنع من بیعہ، قلنا المستحق قضاء الدین والبیع لیس بطریق متعین لذٰلک کیف وان صح البیع کان الحبس اضرارا بھما بتاخیر حق الدائن وتعذیب المدیون فلا یکون مشروعا۱؎اھ مختصراً۔
امام ابوحنیفہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے فرمایا میں دین میں کسی کو محجور نہ کروں گا کیونکہ حجر میں آدمی کی اہلیت معطل ہوتی ہے لہذا کسی ضرر خاص کو ختم کرنے کے لئے اہلیت کو ختم کرنا جائز نہیں ہے ، اگر ایسے شخص کا مال ہوتو حاکم اس میں تصرف نہ کرے کیونکہ یہ اس کی رضا کے بغیر تجارت قرار پائیگی جو ناجائز اور بذریعہ نص باطل ہے ، اور صاحبین رحمہما اﷲتعالٰی فرماتے ہیں کہ اگر مطالبہ والے حضرات قاضی سے مطالبہ کریں کہ اس پر حجر (مالی تصرف میں پابندی) لگادے اور اس کے مال کو جبراً فروخت کردے تو قاضی ایساکرے ، ہم امام صاحب رحمہ اﷲ تعالٰی کی طرف سے کہتے ہیں مطالبہ والوں کا حق صرف دین کی ادائیگی ہے اور مطلوب کے مال کو فروخت کرنا یہ واحد طریقہ نہیں ہے یہ کیسے ہوسکتا ہے جبکہ اگر اس کے مال کی فروخت جائز ہو تو اس کو قید کرنا دوہرا ضرر ہوگا، ایک حق والوں کے حق میں تاخیراور دوسرا مدیون کو سزا دینا، تویہ ناجائز ہے اھ مختصراً(ت)
 (۱؎ الہدایہ     کتاب الحجر     باب الحجر بسبب الدین     مطبع یوسفی لکھنؤ    ۳ /۵۷۔۳۵۶)
عنایہ میں ہے:
لکنہ (ای الحبس) مشروع بالاجماع فلم یصح البیع۲؎۔
لیکن وہ یعنی قیدکرنا بالاجماع مشروع ہے تو مال کا فروخت کرنا جائز نہ ہوگا۔(ت)
 (۲؎ العنایہ علی ہامش فتح القدیر   کتاب الحجر    باب الحجر بسبب الدین    مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۸ /۲۰۷)
صاحبین رحمہما اﷲ تعالٰی کے مفتی بہ قول پر کہ بشرائط اجازت ہے صریح احداث حکم جدید شرعی وتبدیل توقف بنفاذ و حرمت بحلت کی حاجت ہے۔ یہ دس مثالیں مقدمات قسم دوم کی ہیں ان میں تنفیذ بمعنی دوم درکار ہے اور نیا حکم شرعی کہ اب تک حاصل نہ تھا حاصل کرنے کی ضرورت ہے تو اس کے عنداﷲ صحیح و مقبول اور آخرت میں بکار آمد ہونے کے لئے ولایت قسم اول کافی نہیں بلکہ قطعاً ولایت قسم دوم کی حاجت ہے اور وہ بھی باختلاف صور مختلف کہ ہر امر محتاج ولایت شرعیہ میں ہر ولی شرعی حتی کہ سلطان اسلام کے احکام سے بھی حکم موجود شرعی نہیں بدلتا، نہ حکم جدید شرعی حادث ہو جس کے نظائر بیان ہوئے ،تو قسم دوم میں مطلقاً والیان ملک مراد لینا درکنار مطلقاً والیان شرع بھی مراد نہیں بلکہ خصوصی مواضع میں شرع مطہر سے ثابت ہونا درکنار کہ شرع نے اس امر میں فلاں کو حکم جدید شرعی پیدا کرنے کا اختیار بخشا ہے بغیر اس کے شریعت پر اجترا، اور وہ پہلے تو سیع قطعاً شرع مطہر پر افترا ہے۔ والعیاذ باﷲتعالٰی۔
تنبیہ: ان تمام تقریرات ومسائل سے روشن ہوگیا کہ کسی امر میں کسی کے لئے ولایت شرعیہ ہونا ہم مسلمانوں کا ایک دینی مذہبی مسئلہ ہے جو خاص لحاظ سے شرع پر مبنی ہے، کہیں ہر فقیر مفلس کےلئے ہے اور کہیں سلاطین اسلام کو بھی نہیں ، تو اس کے انکار کو انکار سلطنت سے کوئی علاقہ نہیں ، آخر نہ دیکھا کہ صدہا جگہ حکم شریعت نے خود سلطان اسلام بلکہ خلیفۃ المسلمین کے لئے بھی ولایت شرعیہ نہ مانی اس سے ان کے سلطان و بادشاہ وحاکم وقت ووالی ملک ہونے کا انکار نہ ہوا
کما لایخفی
 (جیساکہ پوشیدہ نہیں۔ت)
وباﷲ التوفیق۔
Flag Counter