Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
108 - 151
مقدم پنجم: اوپرمعلوم ہوا کہ مقصود کبھی وجود شیئ ہوتا ہے کبھی حدوث حکم شرعی ، قاضی کے یہاں جو مقدمات دائر ہوتے ہیں دونوں قسم کے ہیں اکثر قسم اول کے ان کی تنفیذ بمعنی اول و منع موانع ثمرات حسیہ مقصود ہے، مثلاً:

(۱) زید نے عمرو کی جائداد دبالی۔

(۲) قرض لیا اور ادا نہیں کرتا۔

(۳) چیز بیچی اور قبضہ نہیں دیتا۔

(۴) مول لی اور قیمت نہیں دیتا۔

(۵) ترکہ میں حق ہے اور قابض نہیں ہونے دیتا۔

(۶) مورث نے وصیت کی تھی وارث نہیں مانتا۔

(۷) شوہر رخصت کرالایا اور نان نفقہ نہیں دیتا۔

(۸) طلاق بائن دے دی ہے اور نہیں چھوڑتا۔

(۹) چیز عاریت لی تھی اور واپس نہیں کرتا۔

(۱۰) وقف میں ناجائز تصرف کررہا ہے وغیرہ وغیرہ۔

ان عام صورتوں میں کہ روازنہ جن کی حاجت پڑتی اور جن کے مقدمات دائر ہوتے رہتے ہیں حقدار کی حق رسی اور مظلوم سے دفع ظلم صرف تنفیذ بمعنی اول مانگتی ہے کہ معانی شرعیہ تو خود موجود ہیں۔

اوپر معلوم ہوا کہ اس تنفیذ کےلئے ولایت قسم دوم کی حاجت نہیں، نہ صرف وہ اس کےلئے کافی ، بلکہ ولایت قسم اول کی حاجت ، اور تنہاوہی یہاں دادرسی کےلئے بس ہے۔ دوسرے وہ جن میں مسلمانوں کے کسی کام میں معنی شرعی غیر موجود کا اپنی ولایت و نیابت حضرت رسالت علی افضل الصلٰوۃ والتحیۃ سے پیدا کرنا ہو مثلاً:

(۱) جمعہ وعیدین میں کسی کو امام بنانا۔

(۲) کسی کو خطیب جمعہ مقرر کرنا کہ ہر مسلمان صالح امامت نماز پنجگانہ ، جمعہ وعیدین کی امامت نہیں کرسکتا نہ جمعہ کا خطبہ پڑھ سکتا ہے نہ اس کے پڑھنے پڑھانے سے نماز صحیح ہوجب تک ماذون من جہۃ السلطان نہ ہو جہاں اذن سلطان ناممکن ہو بضرورت نصب عامہ مسلمین معتبر ہے کما نص علیہ فی تنویر الابصار والدرالمختار وعامۃ الاسفار(جیسا کہ اس پر تنویر الابصار، درمختار اور عام کتب میں تصریح ہے۔ت) تولیاقت خطبہ وامامت مذکورہ ایک معنی شرعی دینی ہے اور پیش از اذن سلطان مثلاً زید کو حاصل نہیں، اذن دیتے ہی ثابت و محقق ہوجائے گی اس کےلئے قطعاً ولایت قسم دوم درکار۔

(۳) زن و شو لعان کریں۔

(۴) عنین بعد مرافعہ و تاجیل یکسال و انقضائے اجل و طلب زن طلاق نہ دے تو دونوں صورتوں میں بہ نیابت ولی مطلق صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ان میں تفریق کرنا یعنی خود منکوحہ غیر کو طلاق بائن دے دینا اور شوہر مانے یا نہ مانے نکاح ثابت کا اس کے قول سے قطع ہوکر شرعاً زوج کا زوجہ زوجہ کا زوج پر ہمیشہ کےلئے حرام ہوجانا ایسا کہ اگر اس کے بعد قربت کریں تو نہ فقط دنیا میں بلکہ اﷲ عزوجل کے نزدیک بھی حرام کارٹھہریں جب تک از سر نو نکاح نہ کریں،اور صورت لعان میں تو نکاح بھی نہیں کرسکتے جب تک مرد وزن دونوں اہلیت لعان پر باقی رہیں اور شوہر خود اپنی تکذیب نہ کرے۔

درمختار میں ہے :
فان التعنابانت بتفریق الحاکم فیتوارثان قبل تفریقہ۱؎۔
اگر دونوں نے لعان کرلیا تو حاکم کی تفریق سے بائنہ ہوجائیگی اور قاضی کی تفریق سے قبل مرد و عورت ایک دوسرے کے وارث ہوں گے۔(ت)
(۱؎ درمختار    کتاب الطلاق    باب اللعان         مطبع مجتبائی دہلی     ۱ /۲۵۲)
ردالمحتار میں ہے:
تکون الفرقۃ تطلیقۃ بائنۃ عندھما وقال ابویوسف ھو تحریم مؤبد ۱؎۔
طرفین کے نزدیک قاضی کی تفریق طلاق بائن ہوگی جبکہ امام ابویوسف رحمہ اﷲ تعالٰی نے فرمایا کہ یہ ابدی تحریم ہے۔(ت)
(۱؎ ردالمحتار     کتاب الطلاق        باب اللعان     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۲ /۵۸۹)
ہدایہ میں ہے:
سیأتی فی بابہ انھا حرمۃ مؤبد ماداما اھلا للعان فاذاخرجا عن اھلیۃ اللعان اواحد ھما لہ ان ینکحھا وکذالو اکذب نفسہ حد ودلہ ان ینکحھا۲؎۔
عنقریب متعلقہ باب میں آئے گا کہ یہ ابدی حرمت ہے جب تک مرد عورت لعان کے اہل ہیں اور جب دونوں یا ایک کی اہلیت لعان نہ رہے تو دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں، اور یونہی اگر مرد نے اپنے آپ کو جھوٹا قرار دیا حد لگائی جائیگی اور اس کو جائز ہوگا کہ وہ عورت سے دوبارہ نکاح کرلے۔(ت)
(۲؎ الہدایہ )
درمختا رباب العنین میں ہے :
بانت بالتفریق من القاضی ان ابی طلاقھا بطلبھا۳؎۔
قاضی کی تفریق سے عورت بائنہ ہوجائے گی اگر مرد طلاق دینے سے انکار کرے یہ تفریق بیوی کے مطالبہ پر ہوگی۔(ت)
(۳؎ درمختار    کتاب الطلاق    باب العنین         مطبع مجتبائی دہلی     ۱ /۲۵۳)
(۵) قاصرہ نے بفور بلوغ اپنے نفس کو اختیارکیا  نکاح سے نہ نکلی، شوہر کو اب بھی اس سے وطی حلال ہے، ایک مرجائے گا دوسراترکہ پائیگا مگر بعد مرافعہ و تفریق قاضی عند اﷲ حرام ہوجائے گی اور بے تجدید نکاح حلف نہ رہے گی اب ایک مرے گا دوسرے کو ترکہ نہ ملے گا، 

مبسوط پھر عالمگیریہ میں ہے:
یحل للزوج ان یطأھا مالم یفرق القاضی بینھما۴؎۔
قاضی جب تک دونوں میں تفریق نہ کرے خاوند کو وطی کرنا حلال ہوگا۔(ت)
 (۴؎ فتاوٰی ہندیہ بحوالہ المبسوط     کتاب النکاح     الباب الرابع    نورانی کتب خانہ پشاور    ۱ /۸۶۔۲۸۵)
ردالمحتا رمیں ہے:
یتوار ثان فی ھذا النکاح قبل ثبوت فسخہ۵؎۔
اس نکاح کے فسخ ہونے سے قبل دونوں ایک دوسرے کے وارث بنیں گے۔(ت)
(۵؎ ردالمحتار    کتاب النکاح    باب الولی     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۲ /۳۰۷)
 (۶) اپنے حکم سے اختلافی مسئلہ کو اتفاقی کردینا ائمہ مجتہدین کا اختلاف اٹھا کر متفق کرلینا مثلاً مرد و عورت دونوں شافعی المذہب ہیں مرد نے پیش از نکاح حلف کیا کہ تجھ سے نکاح کروں تو تجھ پر طلاق، پھر نکاح کرلیا، زوجین کے مذہب میں طلاق نہ ہوئی کہ امام شافعی رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے نزدیک یمین مضافہ باطل ہے انہیں باہم قربت حلال ہے، بعدہ عورت نے دعوٰی کردیا، حاکم حنفی المذہب نے صحت یمین و وقوع طلاق وبینونت زن کا حکم کیا اب عنداﷲ ان میں حرمت ثابت ہوگئی ایسی کہ امام شافعی رضی اﷲ تعالٰی عنہ بھی یہی فرمائیں گے کہ دونوں اجنبیہ و اجنبیہ ہیں بے نکاح جدید اسے ہاتھ لگانا ہمیشہ ہمیشہ کو حرام ہے، اور اگر زوجین حنفی ہوں نکاح ہوتے ہی عورت پر طلاق بائن ہوگئی
لو قوعۃ قبل الخلوۃ
 (کیونکہ یہ طلا ق قبل از دخول ہے۔ت) ان دونوں کے مذہب میں حرمت ثابت ہوگئی کہ اضافت یمین ہمارے نزدیک صحیح ہے اب مثلاً عورت نے قاضی شافعی کے یہاں دعوٰی کردیا قاضی نے بطلان یمین وعدم طلاق کا حکم دیا اب عنداﷲ ان میں حلت ثابت ہوگئی ایسی کہ ہمارے ائمہ رضی اﷲ تعالٰی عنہم بھی یہی فرمائیں گے کہ یہ دونوں زوج وزوجہ ہیں یہاں تک کہ اس کے حکم سے پہلے جو وطی کرچکا تھا اب اس پر بھی حکم حلت ہوگیا۔ 

بحرالرائق پھر ردالمحتار میں ہے :
قال ان تزوجت فلانۃ فھی طالق ثلثا فتزوجھا فخاصمتہ الی قاض شافعی وادعت الطلاق فحکم بانھا امرأتہ وان الطلاق لیس بشیئ حل لہ ذٰلک، ولو وطئھا الزوج بعد النکاح قبل الفسخ ثم فسخ یکون الوطی حلالا اذا فسخ واذافسخ لایحتاج الی تجدید العقد۱؎۔
اگرکسی نے کہا میں فلاں عورت سے نکاح کروں تو اس کو تین طلاق ہیں، تو اب اس سے نکاح کیا تو عورت نے کسی شافعی قاضی کے ہاں طلاق کا دعوٰی کیا تو اس قاضی نے (اپنے مذہب پر) فیصلہ دیا کہ یہ اس کی بیو ی ہے اور یہ طلاق کچھ نہیں تو ایسی صورت میں وہ عورت خاوند کے لئے حلال ہوگی اور اگر خاوند نے اس عورت سے فسخ سے قبل وطی کرلی تو حلال ہوگی اور جب یمین و تعلیق فسخ ہوگئی تو اب تجدید نکاح کی حاجت نہیں۔(ت)
 (۱؎ ردالمحتار    کتاب النکاح    باب التعلیق     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۲ /۴۹۶)
وجہ یہ کہ قضائے شرعی نے کہ حقیقۃً حکم رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ہے سلطان وقاضی حضور کے نائب وحکم رساں ہیں اختلاف مجتہدین کو اٹھادیا اور ہر امام و مجتہد پر اس واقعہ میں اسی کو حکم الٰہی جاننا لازم ہوگیا۔
 (۷) قاصر وقاصرہ جن کے لئے کوئی ولی نہیں اپنی ولایت یعنی ولی
النبی اولٰی با لمومنین من انفسھم۱؎
 (نبی مومنوں کی جانوں سے زیادہ تر ولی ہیں صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم۔ت) کی نیابت سے ان میں نکاح کرکے تمام دینی احکام مثلاً قربت کی حلت کہ پہلے حرام تھی نفقہ کا وجوب کہ پہلے لازم نہ تھا وراثت کا اثبات کہ پہلے ثابت نہ تھی عنداﷲ موجود و متحقق کردینا
و قد تقدم نقلہ
 (اس کی نقل گزر چکی ہے۔ت)
(۱؎ القرآن الکریم    ۳۳/ ۶)
 (۸) زید نے اپنی ملک خاص بحالت صحت نفس و ثبات عقل وقف صحیح شرعی کی اور متولی شرعی مقرر کرکے ا س کے قبضہ میں دے دی تمام مفتی بہ مذاہب پر وقف صحیح و لازم ہوگیا اور زید کا اس میں کوئی حق ملک نہ رہا اس کے بعد وارثوں نے دعوٰی کیا یا خود زید ہی نے درخواست فسخ دی اور حاکم نے اس کے فسخ کا حکم دیا بشرطیکہ وقف پر رجسٹری نہ ہوچکی تھی اور قاضی مذہب مفتی بہ پر قضا سے مقید نہ تھا جس طرح قضاء زمانہ مقید ہے بلکہ خود امام مجتھد تھا جو اب صدہا سال سے کوئی نہیں یا سلطان نے اسے مذہب خاص امام اعظم پر قضاء کےلئے مقرر کیا تھا اگرچہ فتوٰی اس کے خلاف پر ہو یا اسے مذہب امام پر مطلقا قضایا خلاف میں جسے چاہے اختیار کی اجازت دی تھی جو اس زمانہ میں نہیں تو ان شرائط کے ساتھ ایسے قاضی کے حکم سے اس وقت بے رجسٹری کے زائل اور ملک زائل عنداﷲ حاصل ہو جانا۔ 

درمختار میں ہے :
اطلق القاضی بیع الوقف غیر المسجل لوارث الوقف فباع صح، وکان حکما ببطلان الوقف لعدم تسجیلہ حتی لو باعہ الواقف او بعضہ اورجع عنہ ووقفہ لجھۃ اخری وحکم بالثانی قبل الحکم بلزوم الاول صح الثانی لوقوعہ فی محل الاجتہاد کما حققہ المصنف وافتی بہ تبعا لشیخہ و قاری الھدایۃ والملاابی السعود لکن حملہ فی النھر علی القاضی المجتہداھ۱؎وکتبت علیہ مانصہ اقول: وکذٰلک القاضی المقلد المقلَد لیقضی بمذہب ابی حنفیۃ مطلقا وکذاالماذون لہ ان یقضی بہ مطلقا او بماشاء فی الخلافیات وھذا ظاہر جدا لانعدام المائع وھو کونہ معزولا بالنسبۃ الی القول الضعیف ۲؎۔
اگر قاضی نے بے رجسٹری وقف کو اس کے وارث کے لئے فروخت کی اجازت دے دی اور فروخت کردیا تو یہ بیع صحیح ہوگی اور قاضی کا یہ حکم اس وقف بے رجسٹری کو باطل کرنا قرار پائے گا حتی کہ واقف نے خود اس کو یا اس کے بعض کو فروخت کردیا یا پہلے وقف سے رجوع کرکے کسی دوسرے عنوان سے دوبارہ وقف کردیا اور قاضی نے دوسرے عنوان کے وقف کو پہلے وقف سے قبل لازم کردیا تو دوسرے وقف کا حکم صحیح ہوگا کیونکہ قاضی کا یہ حکم محل اجتہاد میں واقع ہوا جیسا کہ مصنف نے اس کی تحقیق فرمائی اور اس پر اپنے شیخ کی اتباع اور قاری  الہدایہ اور ملامسکین کی اتباع میں فتوٰی دیا، لیکن نہر میں اس کو انہوں نے مجتہد قاضی کی رائے پر محمول کیا اھ۔ میں نے اس پر حاشیہ لکھا جس کی عبارت یہ ہے ، میں کہتا ہوں کہ کسی بااختیار قاضی کا مقرر کردہ مقلد قاضی کہ وہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کے مذہب پر مطلقاً فیصلہ دے اور وہ قاضی جس کو مطلقاً اجازت ہے کہ خلافیات میں اپنی صوابدید پر فیصلہ دے، ان کا فیصلہ بھی ایسا ہی نافذ ہوگا، یہ بالکل ظاہر ہے کہ کیونکہ قاضی کے معزول ہونے والا ضعیف قول بھی یہاں نہیں ہے جو مانع بنے۔(ت)
(۱؎ درمختار     کتاب الوقف    مطبع مجتبائی دہلی     ۱ /۳۸۵)

(۲؎ جدالممتار علی ردالمحتار )
ردالمحتا رمیں ہے :
لو قضی الحنفی بصحۃ بیعہ فحکمہ باطل لانہ لایصح الابالصحیح المفتی بہ فھو معزول بالنسبۃ الی القول الضعیف وماافتی بہ قاری الھدایۃ من صحۃ الحکم ببیعہ قبل الحکم بوقفہ فمحمول علی ان القاضی مجتہد۳؎۔
اگر حنفی قاضی نے اس وقت کی بیع کی صحت کا حکم دیا تو اس کا حکم باطل ہوگا کیونکہ اس کے حکم کی صحت صرف صحیح مفتی بہ قول پر ہوگی، تو یہ قاضی ایک ضعیف قول کی بناء پر معزول قرار پائے گا اور جو قاری الہدایہ نے وقف کے حکم نامہ سے قبل بیع کے حکم کی صحت پر فتوی دیا ہے تو وہ اس بات پر محمول ہے کہ وہ قاضی مجتہد ہو۔(ت)
(۳؎ردالمحتار    کتاب الوقف    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۳/ ۳۹۴)
حلبی علی الدر پھر ابن عابدین میں ہے:
ومثل القاضی المجتہدمن قلد مجتہدا ایراہ۴؎اھ اقول :ای اذالم یکن مقیدابالقضاء بالمفتی بہ فی المذہب الحنفی کقضاۃ زماننا وھوظاہر والا کان رجوعا الی ماوقع الضرار منہ فانہ اذالم یصح القضاء بالمرجوح کیف یصح بتقلید مذہب اٰخر فرجع حاصلہ الی ما کتبت وباﷲ التوفیق۔
مجتہد قاضی کی طرح ہے وہ قاضی جس کو اپنی رائے میں کوشاں کے طور پر مقرر کیا گیا ہے اھ اقول:(میں کہتاہوں) یعنی جب وہ مذہب حنفی میں مفتی بہ قول پر قضاء کا پابند نہ بنا یا گیا ہو جیسا کہ ہمارے زمانہ کے قاضی ۔ اور یہ ظاہر بات ہے ورنہ ضرر والی چیز کی طرف رجوع کرنا لازم آئے گا، کیونکہ مرجوح قول پر قضاء صحیح نہ ہو تو دوسرے مذہب کی تقلید کیسے صحیح ہوگی ، لہذا حاصل وہی ہے جو میں نے لکھا ہے، اور توفیق صرف اﷲ تعالٰی سے ہے۔(ت)
(۴؎ ردالمحتار    کتاب الوقف    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۳ /۳۹۴)
Flag Counter