Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
107 - 151
مقدمہ سوم: دونوں ولایتوں کے جو فرق بیان ہوئے ان کا ملاحظہ ہر عاقل پر دوامرواضح کرے گا ایک یہ کہ ہر سلطنت کو اسلامی ہو یا غیر اسلامی اپنے ملک پر ولایت قسم اول ہوتی ہے دوسرے یہ کہ یہی ولایت مطمح نظر سلاطین ہے، اسی میں منازعت ان کے نزدیک بادشاہ کی مخالفت قرار پاتی ہے، وہ یہی ولایت چاہتے ہیں کہ فوج و لشکر و تیغ و تبر کی لازم و ملزوم ہے نہ وہ کہ ہر فقیر مفلس بے زر بے پر کے لئے موسوم ہے، ولایت قسم دوم کسی نا مسلم سلطنت کو مقصود ہونا تو کوئی معنی ہی نہیں رکھتا کہ قصداً اتباع شرع سے ناشئی ہے نامسلم کو مذہب اسلام کی کب پیروی ہے صدہا سال سے خود مسلمان بادشاہوں کا مقصد اصلی وہی ولایت عرفی ہے وہ اپنے حکم کا نفاذ چاہتے ہیں اگرچہ حکم شرعی نہ ہو جیساکہ ہزاروں کارناموں سے واضح ہے تو کوئی نامسلم سلطنت کیونکر پابند ولایت شرعیہ ہوسکتی ہے ولایت قسم اول کہ مقصد سلاطین ہے بلا شبہہ ہندوستان میں گورنمنٹ انگلشیہ کو بلا نزاع حاصل ہے جس میں کسی فریق کو خلاف نہیں اور خود گورنمنٹ کو اس قدر منظور ہے اس نے کبھی نہ کہا کہ مجھے ہر فریق کے دین و مذہب میں مداخلت ہے بلکہ ا سکے خلاف ہمیشہ یہی اعلان کیا اور کرتی ہے کہ ہمیں کسی قوم کے دین و مذہب میں دست اندازی نہیں اور یقینا ہر ایسی گورنمنٹ جسے اﷲ تعالٰی عقل معاش بروجہ کمال اور ملک داری کا سلیقہ عنایت فرمائے اسے یہی شایان ہے، حکام ورعایا سب جانتے ہیں کہ گورنمنٹ والی ملک ہے اس کا حکم یہاں نافذ ہے جو چیز وہ جسے دلائے مل جاتی ہے منع کردے رک جاتی ہے رعیت اس کا حکم مانتی اور اس کا خلاف مضر جانتی ہے ، یہ وہی وجود و عدم شیئ کے ثمرات ہوئے کہ نتائج ولایت عرفیہ ہیں مگر ہر گز نہ حکام کا دعوی غیر موجودہ موجود کردیتی یا کرنا چاہتی ہے۔ اب یہی دیکھئے کہ گورنمنٹ روزانہ سود کی ڈگریاں دیتی ہے اس کا صرف یہ مطلب ہے کہ مدعا علیہ اتنی رقم مدعی کو دے یہ ہر گز نہیں کہتی کہ مسلمان سود لینے دینے کو شرعاً حلال جانیں یا ڈگری کے سبب اس لینے والے کے لئے سود کو ازروئے شریعت اسلامی مباح جانیں ، اسی طرح تمام احکام میں اسے اپنے ملک میں تعمیل حکم سے کام ہے اور اسی میں اس کی اطاعت ہے نہ یہ کہ ان احکام کو آخرت میں بھی بکار آمد سمجھو، جو کام ولایت شرعیہ کا ہے اور قانون کو عین شریعت اسلامیہ مانو اس پر نہ وہ کسی کو مجبور کرتی ہے نہ اس سے اسے اصلاً بحث، تو بلا شبہہ گورنمنٹ والی ملک ہی بننا چاہتی ہے اور وہ ضروروالی ملک باختیارہے مگر کسی مذہب وملت کی والی دین بننا نہیں چاہتی نہ اس سے اسے سروکار ہے تو اس کے خلاف ٹھہرانا خود گورنمنٹ کے بارے میں غلط بیانی اور اس کے خلاف منشا واظہار ہے۔
مقدمہ چہارم :  شریعت مطہرہ اسلامیہ علی صاحبہا وآلہ افضل الصلٰوۃ والتحیۃ نے ولایت عرفیہ کو جس سے آدمی والی ملک اور حاکم کو بادشاہ وقت ہوجاتا ہے اور عایا کو اس کی پابندی لازم ہوتی ہے اس کے حال پر چھوڑا ہے، اسے مسلم نا مسلم کسی سے خاص نہ فرمایاجس طرح وہ عرف میں کسی سے خاص نہیں اس لئے کہ وہ زیر اثر احکام تکوینیہ ہے جسے خدادے اسے ملے اور شریعت کی بحث صرف احکام تشریعیہ سے ہے :
قال اﷲ تعالٰی
قل اللھم مٰلک الملک تؤتی الملک من تشاء وتنزع الملک ممن تشاء۱؎۔
اﷲ تعالٰی نے فرمایا: آپ فرمادیجئے اے ملک کے مالک تو جسے چاہے ملک عطا فرمائے اور جس سے چاہے واپس لے لے۔(ت)
(۱؎ القرآن الکریم    ۳/ ۲۶)
اس من تشاء میں  کوئی خصوصیت اسلام کی نہیں، ولہذا قرآن مجید نے زمانہ یوسف علیہ الصلٰوۃ والسلام میں بادشاہ مصر کو جابجا بلفظ ملک تعبیر فرمایا:
وقال الملک انی اری۲؎وقال الملک ائتونی بہ۳؎ماکان لیا خذاخاہ فی دین الملک۴؎۔
بادشاہ نے فرمایا میں دیکھ رہا ہوں ، بادشاہ نے کہا اسے میرے پاس لاؤ، بادشاہ کے دین میں بھائی کو پکڑناجائز نہیں۔(ت)
( ۲؎ القرآن الکریم    ۱۲ /۴۳)   (۳؎  القرآن الکریم   ۱۲ /۵۴)   (۴؎ القرآن الکریم     ۱۲ /۷۶)
اور وہ غلط تعبیر سے پاک و منزہ ہے ، یوں ہی حضرت بلقیس کو ان کے اسلام سے پہلے قول ہدہد میں بلفظ
انی وجدت امرأۃ تملکھم۵؎
 (میں نے ایک عورت کو ان کا بادشاہ پایا۔ت) ذکر فرمایا اور وہ تقریر علی الغلط سے طاہر و مبرا ہے ،
 (۵؎ القرآن الکریم  ۲۷ /۲۳)
تو ثابت ہوا کہ بادشاہ اگرچہ نامسلم ہو ضرور والی ملک اور ولایت قسم اول رکھتا ہے مگر مسلمان بر ولایت قسم دوم دینیہ شرعیہ جس سے مسلمان کے حق میں حکم غیر موجود شرعی مذہباً موجود ہوجائے اور دینی حیثیت سے آخرت میں اس کے کام آئے صرف مسلمان کے ساتھ خاص فرمائی ہے اور کلمہ حصر و تصریح نفی دونوں طور پر اسے صاف فرمادیا ہے کہ کسی کا مجال تاویل وابدائے احتمال نہ رہے اول اس آیہ کریمہ میں
انما ولیکم اﷲورسولہ والذین اٰمنوا۶؎
 (تمہارا ولی اﷲ تعالٰی اور اس کے رسول صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اور وہ لوگ جو ایمان لائے۔ت) اور اس آیہ کریمہ میں
ولن یجعل اﷲ للکٰفرین علی المؤمنین سبیلا۱؎
 (اور اﷲ تعالٰی نے کافروں کو مومنوں پر ہر گز اختیار نہیں دیا۔ت)
( ۶؎القرآن الکریم   ۵  /۵۵)	 (۱؎ القرآن الکریم ۴/ ۱۴۱ )
یہاں قطعاً وہی سبیل دینی شرعی مراد ہے کہ سبیل دنیوی کا انتفاع خلاف مشاہدہ و اشہاد ہے، قرآن عظیم اس معنی کی آیات سے مشحون ہے۔ 

حلبی علی الدر پھر شامی میں ہے :
  الکافر لایلی علی ولدہ المسلم لقولہ تعالٰی
ولن یجعل اﷲ للکفرین علی المؤمنین سبیلا۲؎۔
کافر اپنے مسلم بیٹے کا ولی نہیں کیونکہ اﷲ تعالٰی نے فرمایا: اور اﷲ تعالٰی نے کافروں کو مومنوں پر ہر گز اختیار نہیں دیا(ت)
(۲؎ ردالمحتار     کتاب النکاح     باب الولی     داراحیاء الترا ث العربی بیروت    ۲ /۳۱۲)
نہایہ پھر عالمگیریہ پھر طحطاوی پھر ابن عابدین میں ہے :
تقلید الذمی لیحکم بین اھل الذمۃ صحیح لابین المسلمین وکذلک التحکیم۳؎۔
ذمی کا تقر ر ذمیوں میں فیصلہ کرنے کے لئے صحیح ہے مسلمانوں میں فیصلہ کرنے کےلئے نہیں اور ثالثی کا بھی یہی حکم ہے۔(ت)
 (۳؎ ردالمحتار     بحوالہ الھندیۃ عن النہایۃ     کتاب القضاء     باب التحکیم    داراحیاء الترا ث العربی بیروت   ۴ /۳۴۸)

(حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار     کتاب القضاء     باب التحکیم     دارالمعرفۃ بیروت    ۳ /۲۰۷)
تنویر الابصار میں ہے :
لو حکما عبدافاعتق اوصبیا فبلغ اوذمیا فاسلم ثم حکم لاینفذ۴؎۔
   اگر فریقین نے کسی غلام کو ثالث بنایااب وہ آزاد ہوگیا نابالغ کو بنایا تو وہ بالغ ہوگیا، یا ذمی کو بنایا تو وہ مسلمان ہوگیا، پھر اس کے بعد وہ فیصلہ کریں تو نافذ نہ ہوگا۔(ت)
(۴؎درمختار شرح تنویر الابصارکتاب القضاء   باب التحکیم  مطبع مجتبائی دہلی   ۲ /۸۲)
درمختار کتاب الشہادات میں ہے :
شرطھا الولایۃ فیشترط الاسلام لو المدعی علیہ مسلما۵؎۔
شہادت کی شرط ولایت ہے اگرمدعا علیہ مسلمان ہو تو گواہ کا مسلمان ہونا شرط ہوگا۔(ت)
 (۵؎ درمختار    کتاب الشہادات   مطبع مجتبائی دہلی    ۲ /۹۰)
اور کتاب القضایا میں ہے :
اھلہ اھل الشہادۃ وشرط اھلیتھا شرط اھلیتہ فان کلامنھما من باب الولایۃ۱؎۔
قاضی کی اہلیت وہی ہے جو شہادت کی اہلیت ہے اور شہادت کی اہلیت وہی ہوگی جو مدعا علیہ کی اہلیت ہوگی کیونکہ یہ دونوں امرولایت سے متعلق ہیں۔(ت)
(۱؎ درمختار    کتاب القضاء     مطبع مجتبائی دہلی     ۲ /۷۱)
ہدایہ میں ہے :
لاولایۃ لکافر علی مسلم لقولہ تعالٰی ولن یجعل اﷲ للکفرین علی المؤمنین سبیلا۲؎۔
کافر کو مسلمان پر ولایت نہیں کیونکہ اﷲ تعالٰی کا ارشاد ہے: اﷲ تعالٰی نے کافرو ں کو مومنوں پر ہر گزاختیار نہیں دیا۔(ت)
(۲؎ الہدایۃ     کتاب النکاح     باب الاولیاء والاکفاء    مطبع یوسفی لکھنؤ    ۲ /۲۹۸)
اسی کی شہادات میں ہے :
لاتقبل شہادۃ الذمی علی المسلم لانہ لا ولایۃ لہ بالاضافۃ الیہ۳؎۔
مسلم کے خلاف ذمی کی شہادت قبول نہ ہوگی کیونکہ اس کو مسلمان پر ولایت نہیں ہے۔(ت)
 (۳؎ الہدایۃ     کتاب الشہادت     باب من یقبل شہادتہ الخ   مطبع یوسفی لکھنؤ    ۳ /۱۶۲)
مختصر امام قدوری میں ہے :
لاتصح ولایۃ القاضی حتی یجتمع فی المولّٰی شرائط الشہادۃ ۴؎۔
قاضی کی ولایت اس وقت تک صحیح نہ ہوگی جب تک کہ مولی میں شہادت کی شرائط پائی جائیں۔(ت)
 (۴؎ المختصر للقدوری     کتاب آداب القاضی     مطبع مجید کانپور    ص۲۸۳)
ہدایہ میں ہے :
لان حکم القضاء یستقی من حکم الشہادۃ لان کل واحد منھما من باب الولایۃ فکل من کان اھلا للشہادۃ یکون اھلا للقضاء وما یشترط لاھلیۃ الشہادۃ یشترط لاھلیۃ القضاء۱؎۔
کیونکہ قاضی کا فیصلہ شہادت کے حکم سے مستفاد ہوتا ہے کیونکہ یہ دونوں امر از قبیل ولایت ہیں تو جو شہادت کا اہل ہوگا وہی قضاء کا اہل ہوگا تو جو چیز شہادت کی اہلیت میں شرط ہے وہ قضاء کی اہلیت میں شرط ہوگی (ت)
(۱؎ الہدایہ     کتاب ادب القاضی     مطبع یوسفی لکھنؤ    ۳ /۱۳۲)
فتاوٰی امام قاضی خاں میں ہے :
لاولایۃ للصبی والمجنون ولا المملوک ولاالکافر علی المسلم ۲؎۔
  نابالغ، مجنون ، غلام اور کافر کو مسلمان پر ولایت نہیں۔(ت)
 (۲؎ فتاوٰی قاضی خان  کتاب النکاح   فصل فی الاولیاء  نولکشور لکھنؤ  ۱/ ۱۶۳)
بدائع ملک ا لعلماء مسعود کاشانی میں ہے :
لاشہادۃ للکافر علی المسلم اصلا۳؎۔
مسلم کےخلاف کافرکی شہادت معتبر نہیں(ت)
(۳؎ بدائع الصنائع  کتاب الشہادت  فصل واما الشرائط فی الاصل ایچ ایم سعید کمپنی کراچی         ۶ /۲۶۶)
اسی میں ہے :
لاولایۃ للکافر علی المسلم لانہ لا میراث بینھما،ولان الکافر لیس من اھل الولایۃ علی المسلم لان الشرع قطع ولایۃ الکافر علی المسلمین قال اﷲ تعالٰی ولن یجعل اﷲ للکفرین علی المؤمنین سبیلا، وقال صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم الاسلام یعلو ولا یعلی۴؎۔الخ
کافر کو مسلمان پر ولایت نہیں کیونکہ دونوں میں میراث نہیں ، اور اس لئے کہ کافر کومسلمان پر ولایت کی اہلیت نہیں ہے کیونکہ شریعت نے مسلمانوں پر کافر کی ولایت کوختم کردیا ہے، اﷲ تعالٰی نے فرمایا اﷲ تعالٰی نے کافروں کو مومنوں پر ہر گز اختیار نہیں دیا۔ اور حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا اسلام غالب ہوگا مغلوب نہیں الخ۔(ت)
 (۴؎بدائع الصنائع    کتاب النکاح     فصل واما بیان شرائط الجواز   ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۲ /۲۳۹)
اسی میں ہے :
الصلاحیۃ للقضاء لھا شرائط منھا العقل والبلوغ والاسلام فلایجوز تقلید المجنون والصبی والکافر، لان القضاء من باب الولایۃ بل ھو اعظم الولایات وھٰؤلاء لیست لھم اھلیۃ ادنی الولایات وھی الشہادۃ فلان لایکون لھم اھلیۃ اعلاھا اولٰی۱؎ ومن لایصلح قاضیا لایجوز قضاؤہ ضرورۃ۲؎اھ ملتقطا۔
قضاء کی صلاحیت کے لئے چند شرائط ہیں ان میں سے عقل، بلوغ ، اسلام ہے تو مجنون ، نابالغ اور کافر کی تقرری جائز نہ ہوگی کیونکہ قضاء ازقبیل ولایت ہے بلکہ اعظم ولایا ت میں سے ہے جبکہ ان لوگوں کو ولایت میں سے ادنٰی ولایت جو شہادت میں ہے وہ بھی نہیں تو لازماً اعلٰی ولایت کے وہ اہل بطریق اولٰی نہ ہوں گے اور جو قاضی کی صلاحیت نہیں رکھتا اس کی قضاء لازماً جائز نہ ہوگی اھ ملتقطاً(ت)
 (۱؎ بدائع الصنائع    کتاب آداب القاضی     فصل واما بیان من یصلح للقضاء  ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی    ۷/ ۳و۴)

(۲؂بدائع الصنائع    کتاب آداب القاضی    فصل اما بیان من یفترض علیہ القبول الخ     ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی   ۷/ ۴)
یہ گیارہ کتابوں کی عبارات ہیں مختصرامام قدوری ، فتاوٰی امام قاضی خاں، بدائع امام ملک العلماء، ہدایہ امام برہان الدین، نہایہ امام سغناقی، تنویر الابصار، درمختار، حلبی، طحطاوی ، شامی ، فتاوٰی عٰلمگیریہ ۔ اور خود کثرت عبارات کی کیا حاجت بلا مبالغہ صدہا ہیں بلکہ شریعت نے ان مسلمانوں پر سلطان اسلام کو بھی ولایت نہ دی جو دارالحرب میں اسلام لائے اور ہنوز ہجرت کرکے ہمارے دار میں نہ آئے
قال اﷲ تعالٰی
والذین اٰمنوا ولم یھا جروا مالکم من ولایتھم من شیئ حتی یھاجروا۳؎۔
اﷲ تعالٰی نے فرمایا: جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت نہ کی تمہیں ان سے کوئی ولایت نہیں حتی کہ وہ ہجرت کرلیں۔(ت)
(۳؎ القرآن الکریم     ۸ /۷۲)
کتب فقہ میں مسائل کثیرہ اس اصل پر مبنی ہیں کہ بحالت اختلاف دار سلطان اسلام کو ولایت نہیں راجع ابواب نکاح
الکافر والمستامن وغیر ذٰلک
 (نکاح کافر و مستامن وغیرہما کے ابواب کی طرف رجوع کرو۔ت)
ہدایہ میں ہے :
اختلاف الدارین یقطع الولایۃ ولھذا یمنع التوارث۴؎۔
دارالاسلام و دار الحرب کا اختلاف ولایت کو ختم کردیتا ہے اس لئے آپس کا وارث ہونا ممنوع ہے ۔(ت)
 (۴؎ الہدایہ     کتاب الشہادات     باب من یقبل شہادتہ ومن لایقبل    مطبع یوسفی لکھنؤ    ۳ /۱۶۲)
توبحالت اختلاف دین غیر مسلم کو مسلم کے دینی احکام میں مداخلت کیونکر حکم شرعی ہوسکتی ہے بلکہ ولایت شرعیہ کا دائرہ اس سے بھی تنگ تر ہے، خود سلطان اسلام کو، خود اس کی ملک میں خود اسکی مسلمان رعایا پر صدہا باتوں میں شریعت مطہرہ نے ولایت شرعیہ نہ دی اس کی نظیر وہی تزویج قاصرہ گزری کہ سلطان یا قاضی اسلام کا کیا ہوا نکاح نافذ نہیں اور باپ بھائی یا چچا یاکسی عصبہ بلکہ عصبہ نہ ہو توذوی الارحام ، اور وہ بھی نہ ہوں تو مولی الموالاۃ کا کیا ہوا نافذ۔

 تنویر الابصار میں ہے :
الولی فی النکاح العصبیۃ بنفسہ بشرط اسلام فی حق مسلمۃ فان لم تکن عصبۃ فالولایۃ للام ثم للاخت ثم لو لدالام ثم لذوی الارحام (ثم مولی الموالاۃ اھ در) ثم للسلطان ثم القاضی نص علیہ فی منشورۃ ۱؎۔ (ملخصاً)
مسلمان لڑکی کے نکاح کی ولایت اس کے عصبہ بنفسہ کو حاصل ہوگی بشرطیکہ یہ مسلمان ہو، اور اگر عصبہ نہ ہو تو ولایت ماں کو پھر حقیقی بہن کو اور پھر ماں کی طرف سے اولادکواس کےبعد پھر ذوی الارحام پھر مولٰی موالات کو حاصل ہوگی(مولٰی موالات اسکو کہتے ہیں جس کے ہاتھ پر کوئی کافر مسلمان ہو)اھ در، پھر سلطان پھر قاضی جس کی سند قضاء میں تصریح کردی گئی ہو نکاح صغار کی ولایت پر، اس کو ولایت حاصل ہوگی (ملخصاً) ۔ (ت)
 (۱؎ درمختار شرح تنویر الابصار    کتاب النکاح    باب الولی     مطبع مجتبائی دہلی     ۱/ ۹۴۔۱۹۳)
اشباہ میں ہے:
ولھذا قالوا ان القاضی لویزوج الیتیم والیتیمۃ الاعند عدم ولی لھمافی النکاح ولوذارحم محرم(عہ) او اما او معتقا۲؎۔
اسی لئے انہوں نے فرمایا کہ قاضی یتیم لڑکے اور لڑکی کا نکاح نہیں کرسکتا مگر جب ان کا کوئی ولی نکاح موجود نہ ہواگرچہ یہ ولی ذو محرم یا ماں یا آزاد کرنے والا ہو۔(ت)
عہ اقول: قید المحرم لامفہوم لہ وکان ینبغی عکس الترتیب فان المعتق مقدم علی الام والام علی ذی رحم۱۲منہ غفرلہ۔
اقول: (میں کہتاہوں) یہاں محرم کی قید فہم سے بالاتر ہے، اور مناسب تھا کہ ترتیب میں یوں عکس ہوتا کہ آزاد کرنےوالا ماں سے اور ماں ذی محرم سے مقدم کرتے ، کیونکہ ترتیب یوں ہے۱۲منہ غفرلہ۔(ت)
 (۲ ؎ الاشباہ والنظائر الفن الاول     القاعدۃ السادسۃ عشر    ادارۃ القرآن کراچی    ۱/ ۱۹۱)
درمختار میں ہے :
فلو زوج الابعد قیام الاقرب توقف علی اجازتہ۳؎۔
اگر بعید شخص نے اقرب کی شہر میں موجودگی کے باوجود نکاح کردیا تو اقرب کی اجازت پر نکاح موقوف رہے گا۔(ت)
 (۳؎ درمختار         کتاب النکاح     باب الولی     مطبع مجتبائی دہلی     ۱ /۱۹۴)
دوسری نظیر اوقاف ہیں وقف میں متولی شرعی کا تصرف معتبر اور اسکے ہوتے سلطان اسلام قاضی کا تصر ف بے اثر۔ فتاوٰی امام رشید الدین پھر اشباہ میں ہے:
لایملک القاضی التصرف فی الوقف مع وجود ناظرہ ولو من قبلہ۱؎۔
قاضی وقف میں تصرف کا مالک نہیں ہوگا جبکہ اس کا متولی موجود ہو اگرچہ متولی اسی قاضی کا مقرر کردہ ہو۔(ت)
(۱؎ الاشباہ والنظائر     بحوالہ فتاوٰی رشید الدین     الفن الاول     قاعدہ ۱۶    ادارۃ القرآن کراچی    ۱ /۱۹۲)
فتاوٰی وبری پھر فتوٰی علامہ قاسم قطلو بغا پھر لسان الحکام میں ہے :
لاتد خل ولایۃ السلطان علی ولایۃ المتولی فی الوقف۲؎۔
وقف میں متولی کی ولایت کے خلاف سلطان کی ولایت مؤثر نہ ہوگی۔(ت)
(۲؎ لسان الحکام مع معین الحکام     الفصل العاشر فی الوقف    مصطفی البابی مصر    ص۲۹۶)
تیسری نظیر اموال قاصرین ہیں کہ اولیائے اموال پھر اس کے ولی شرعی مقدم ہیں اورسلطان و قاضی ساتویں درجہ ہیں۔ قنیہ پھر اشباہ میں ہے :
لایملک القاضی التصرف فی مال الیتیم مع وجود وصیہ ولو کان منصوبہ ۳؎۔
وصی کی موجودگی میں یتیم کے مال میں قاضی تصرف کا مالک نہیں ہے اگرچہ یہ وصی اس نے ہی مقرر کیا ہو۔(ت)
(۳؎ الاشباہ والنظائر         الفن الثانی     کتاب الوصایا     ادارۃ القرآن کراچی    ۲ /۱۲۵)
درمختار میں  ہے :
ولیہ ابوہ ثم وصیہ ثم وصی وصیہ ثم جدہ الصحیح ثم وصیہ ثم وصی وصیہ ثم الوالی ثم القاضی(عہ)۴؎
اس کا ولی باپ پھر وصی پھر وصی کا وصی پھر حقیقی دادا پھر اس کا وصی پھر اس کے وصی کا وصی، پھر والی پھر قاضی ۔(ت)
عہ: کان علیہ ان یقول والقاضی بالواؤ لانہ والوالی فی مرتبۃ واحدۃ ایھما تصرف جاز ۱۲منہ غفرلہ۔
یوں کہنا لازم تھا، والقاضی، یعنی واؤ کے ساتھ ، کیونکہ قاضی اور والی کا مرتبہ یہاں مساوی ہے دونوں میں سے جو بھی تصرف کرے جائز ہے۱۲منہ غفرلہ(ت)
 (۴؎ درمختار    کتاب الماذون     مطبع مجتبائی دہلی     ۲ /۲۰۳)
لہذا حدیث میں ارشاد ہوا:
السلطان ولی من لاولی لہ۱؎۔
سلطان اس شخص کا ولی ہوگا جس کا کوئی ولی نہ ہو۔(ت)
 (۱؎ سنن ابوداؤد    کتاب النکاح  باب الولی   آفتاب عالم پریس لاہور    ۱ /۲۸۴)

(جامع الترمذی ابواب النکاح    باب ماجاء لانکاح الابولی  امین کمپنی دہلی  ۱/ ۱۳۰)
شریعت مطہرہ نے جس حکم کو اس قدر محدود فرمایا ہو اسے اتنا وسیع کردینا شریعت جدیدہ قائم کرنا ہوگا۔ ان دونوں مقدمات سے واضح ہوا کہ جو ولایت گورنمنٹ کی مقصود و مدعا ہے شرع مطہر اس کا انکار نہیں فرماتی اور جو ولایت شرع مطہر مسلمان پر مسلمان کے لئے خاص فرماتی ہے گورنمنٹ کو نہ اس سے بحث نہ اس کا دعوٰی، تو کیا نہ کہا جائے گا کہ اس کی مخالفت شرع اور گورنمنٹ دونوں پر تہمت ،
نسألُ اللہَ السَّلامۃَ
 (ہم اﷲ تعالٰی سے سلامتی کی دعا کرتے ہیں۔ت)
Flag Counter