Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
106 - 151
الجواب
بسم اﷲ الرحمن الرحیم، الحمدﷲ لاولی سواہ والصلٰوۃ والسلام عدد العلم والکلم علی الاولی بالمومنین من انفسھم وعلٰی اٰلہ وصحبہ واولیائہ وحزبہ اجمعین اٰمین!
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم، سب تعریفیں اﷲ تعالٰی کے لئے جس کے سوا کوئی مدد گار نہیں، اور کلمات کی تعداد برابر صلٰوۃ وسلام ہو اس ذات گرامی پر جو مومنوں کی جانوں سے بھی ان کے قریب ہے اور آپ کی آل واصحاب واولیاء اور جماعت سب پر ، آمین !(ت)مولٰنا! وعلیکم السلام ورحمۃ اﷲ۔ فقیران فتووں کی نسبت اس سے بہترکیا کہہ سکتا ہے جو حضور اقدس سید المرسلین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے حدیث ذیل میں ارشاد فرمایا:
  اذاوسد الامر الٰی غیر اھلہ فانتظر الساعۃ۱؎۔ رواہ البخاری عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
جس وقت امور نااہلوں کے حوالے کئے جانے لگیں گے تو قیامت کا انتظار کرو۔ اس کو بخاری نے حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔(ت)
(۱؎ صحیح البخاری   کتاب العلم   باب من سئل علماء الخ    قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱ /۱۴)
یہ فتوے محض اجتہاد پر مبنی ہیں اور اجتہاد بھی وہ جو آج تک ابوحنیفہ و شافعی درکنار ابوبکر صدیق و عمر فاروق کو بھی میسر نہ ہوا نہ ہوسکتا تھا رضی اﷲ تعالٰی عنہم اجمعین یعنی نص قطعی قرآن عظیم کے مقابل بے اصل و محض جامع قیاس بے اساس،
نسال اﷲ العفو والعافیۃ
 (ہم اﷲ تعالٰی سے معافی اور عافیت کا سوال کرتے ہیں۔ت) تحقیق حق کے لئے تمہید چند مقامات سود مند،
فاقول:  وباﷲالتوفیق
 (میں کہتا ہوں اور توفیق اﷲ تعالٰی سے ہے۔ت)
مقدمہ اولٰی: حقیقت امر یہ ہے کہ ولایت مجبرہ جس کی تعریف ہے تنفیذ القول علی غیرہ شاء اوابٰی(دوسرے پر اپنا قول نافذ کرناوہ مانے یا نہ مانے۔ت) دو قسم ہے عرفیہ ودنیویہ کہ بادشاہ کو رعایا حکام کو محکومین پر ہوتی ہے اسی کے سبب سلاطین کو والیان ملک کہا جاتا ہے، اور شرعیہ دینیہ کو حقیقۃً اﷲ عزوجل پھر اس کی عطا سے اس کے رسول اکرم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو ہے وبس ، جس کی حقیقت ذاتیہ کا بیان اس آیہ کریمہ میں ہے:
مالھم من دونہ من ولی۱؎
 (اﷲ تعالٰی کے سوا ان کا کوئی ولی نہیں۔ت)
(۱؎ القرآن الکریم    ۱۸/ ۲۶ )
اورحقیقت عطائیہ کا بیان اس آیہ کریمہ میں
النبی اولٰی بالمومنین من انفسھم۲؎
 (نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم مومنوں کی جانوں سے بھی ان کے قریب ہیں۔ت)
(۲؎ القرآن الکریم   ۳۳ /۶)
اور دونوں کا جمع اس آیہ کریمہ میں :
وما کان لمؤمن ولامؤمنۃ اذا قضی اﷲ ورسولہ امراان یکون لھم الخیرۃ من امرھم ومن یعص اﷲ ورسولہ فقد ضل ضلٰلا مبینا۳؎۔
مومن مرد یا عورت کسی کو اپنا اختیار نہیں ہے جب اﷲ تعالٰی اور اس کے رسول صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کسی معاملہ کا فیصلہ فرمادیں اور جو اﷲ تعالٰی اور اس کے رسول صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی نافرمانی کرے گا وہ کھلی گمراہی کا مرتکب ہوگا۔(ت)
(۳؎ القرآن الکریم   ۳۳ /۳۶)
پھر رسول اﷲصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی تشریح و تفویض وانابت سے اسے ہے جسے انہوں نے جتنی بات میں اپنی ولایت اصلیہ سے اختیار ظلی عطا فرمایا، ماذون مطلق کو مطلق اور ماذون امر خاص کو اس امر خاص میں جس کا بیان کریمہ
الذی بیدہ عقدۃ النکاح۴؎
 (وہ جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے۔ت)
( ۴؎ القرآن الکریم۲ /۲۳۷)
اور کریمہ
واسمعو واطیعوا۵؎
 (سنو اور اطاعت کرو۔ت) میں ہے
 (۵؎ القرآن الکریم   ۶۴ /۱۶)
اور ان انواع ثلثہ یعنی ذاتیہ و عطائیہ و ظلیہ کا اجتماع اس کریمہ میں
اطیعوااﷲ واطیعو الرسول واولی الامر منکم۶؎۔
  (اﷲ تعالٰی کی اطاعت کرو اور اس کے رسول صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اور اولی الامر کی۔ت)
(۶؎ القرآن الکریم۴/ ۵۹)
اقول: یہی سرہے کہ نوع دوم پر اطیعوامکر ر آیا کہ ذاتیہ و عطائیہ دو حقیقتیں ہیں اور نوع سوم کو اسی اطیعوا دوم کے نیچے مندرج فرمایا کہ ظل، اصل سے جد اکوئی حقیقت نہیں رکھتا۔
مقدمہ دوم: دونوں ولایتوں میں بحسب مناشی و نتائج ولوازم و مقاصد جو فرق ہیں ان کی بہت تعبیرات ہیں:

 (۱) ولایت عرفیہ غلبہ واستیلا سے حاصل ہوتی ہے اور شرعیہ بعطائے شرع۔

(۲) عرفیہ ملکی مسئلہ ہے اور شرعیہ مذہبی و دینی ۔

(۳) عرفیہ مقصد سلاطین ہے اور شرعیہ مقصود خاص دین۔

(۴) عرفیہ عالم اسباب میں احکام تکوینیہ الٰہیہ کا آلہ ہے یعنی کن لاتکن یہ امر واقع ہو، یہ نہ ہو، اور شرعیہ احکام تشریعیہ الٰہیہ کا ،
مثلاً کن مکن
(یہ کرو یہ نہ کرو۔)
 (۵) عرفیہ، تصرفات کے ثمرات حسیہ کی مثمر ہوتی ہے اور شرعیہ ، معانی دینیہ کی۔

(۶) عرفیہ سے شیئ غیرموجود موجود ہوجاتی ہے اور شرعیہ سے حکم شرعی غیر حاصل حاصل۔

(۷) عرفیہ دنیا میں مؤثر ہے اور شرعیہ عقبٰی میں معتبر۔

(۸) عرفیہ کی نافرمانی قوانین سلاطین کی خلاف ورزی ہے اور شرعیہ کی ناحفاظی اﷲ عزوجل کی معصیت۔

(۹) عرفیہ کا لحاظ عام ہے کہ بادشاہ کی ہر رعیت پر ہے مسلم ہو یا کافر، اور شرعیہ کا لحاظ خاص کہ اس سے صرف مسلمانوں کو کام ہے۔

(۱۰) عرفیہ کا عمل خاص ہے کہ ہر بادشاہ کی قلمر وتک محدود اور شرعیہ کا عمل دنیائے اسلام پر عام ہے شرق میں ہویا غرب میں۔

(۱۱) عرفیہ فوج وسپاہ وتیغ وسلاح کے سایہ میں ہے اور شرعیہ فقیر و محتاج کو بھی بقدر عطا حضور سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا ظلی عطیہ ، یہ تمام مضامین اور ان دونوں ولایتوں میں عموم و خصوص من وجہ ہونا اس مثال سے روشن ، سلطان نے زید کی قاصرہ کا اپنے پسر سے نکاح کرلیا اور زید راضی نہیں اس نے انکار کردیا اس تصرف کے تمام ثمرات حسیہ دنیا میں مرتب ہوجائیں گے ، شیئ غیر موجود موجود ہوجائے گی یعنی عورت کہ پہلے قبضہ میں نہ تھی اب آجائے گی دوسرا شخص مزاحمت پر قدرت نہ پائے گا مزاحمت کرے گا مستوجب غضب سلطانی وسزا ئے نافرمانی ہوگا، عورت مرجائیگی تو یہ بزعم زوجیت اس کا ترکہ لے گا، پھر اگر بادشاہ نو مسلم ہے تو اسے واقع میں بھی نکاح و مباح جانے گا اور اپنے تصرف کو صحیح وصاف مانےگا ،یہ تمام امور احکام تکوینیہ الہیہ سے صادر ہو جائیں گے مگر احکام تشریعیہ کہ نکاح شرعی بولایت شرعی سے پید اہوتے اصلاً متحقق نہ ہونگے نہ وہ عورت اس کے لئے شرعاً حلال ہوگی نہ بعد مرگ ایک کو دوسرے کا مال وراثۃً جائز ہوگا کہ باپ کے سامنے سلطان کو دربارہ نکاح ولایت شرعیہ نہ تھی تو نکاح نکاح فضولی ہو ااور ولی شرعی کے رد سے باطل ہوگیا،
لان الولایۃ الخاصۃ اقوی من الولایۃ العامۃ۱؎کمافی الاشباہ وغیرھا ،
کیونکہ خاص ولایت عام ولایت سے اقوی ہےجیسا کہ الاشباہ وغیرہ میں ہے ،
 (۱؂ الاشباہ والنظائر    الفن الاول    القاعدۃ السادسۃ عشر       ادارۃ القرآن کراچی      ۱/ ۱۹۱)
اقول: یعنی الظلیۃ اما الاصلیۃ فما کان لظل ان یقاوم الاصل بل یضمحل دونہ ولذالو زوج النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قاصرۃ رجل من قاصر رجل تم النکاح و لزم ولم یکن لابویھما خیرۃ اصلا بل کذٰلک لو زوج صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم رجلا عاقلا بالغامن امرأۃ کذابدون رضاھما لزم النکاح ولم یکن لھما الخیرۃ من انفسھما کما نصواعلیہ وقد نطق بہ القرآن العزیز۔
اقول:(میں کہتا ہوں) ولایت ظلیہ ایسے ہے لیکن ولایت اصلیہ، تو ظلیہ اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی بلکہ وہ اصلیہ کے مقابلہ میں کمزور ہوتی ہے اور اسی لئے اگر نبی صلی اﷲ تعالی علیہ وسلم کسی قاصرہ(نابالغہ و مجنونہ و لونڈی) کا نکاح کسی قاصر مرد سے کردیں تو ان کے والدین کو قطعاً کوئی اختیار نہ رہے گا، اور حضورعلیہ الصلٰوۃ والسلام کا یہ نکاح لازم و نافذ ہوگا بلکہ آ پ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کسی عاقل بالغ مرد کا کسی عورت سے نکاح کردیں تو ایسے ہی لازم و نافذ ہوگا اور اس پر مرد و عورت کواپنے بارے میں کوئی اختیار نہ ہوگا جیساکہ فقہاء کرام نے تصریح فرمائی ہے اور قرآن پاک نے اسکوبیان کیاہے(ت)
اور اگر زید نے اپنی قاصرہ کا نکاح عمرو سے کردیا اور سلطان کی ناراضی ہے اس نے حکماً اس نکاح کو ناجائز رکھا اور رخصت سے روک دیا، عنداﷲ اس تصرف کے تمام معانی شرعیہ ترتیب پائیں گے عورت کہ اس کے لیے حلال نہ تھی حلال ہوگئی حکم غیر موجود شرعی ہوگیا، دوسرا اگر بے افتراق بموت وطلاق اس سے نکاح کرے گا مستحق غضب جبار و سزائے نار ہوگا، عورت مرجائے گی تو عمرو بحکم زوجیت اس کے ترکہ کا شرعاً بقدر حصہ مالک ہوگا، یہ تمام باتیں احکام تشریعیہ الٰہیہ سے ثابت ہوجائیں گی مگر احکام تکوینیہ کہ ولایت عرفیہ سے آتے اصلا حاصل نہ ہوں گے نہ وہ عورت اس کے قبضہ میں آئے گی نہ یہ دعوی ارث کرسکے گا کہ سلطان کے سامنے باپ کو کیا اختیار، اور یہ نکاح کہ رائے سلطانی میں خلاف قانون تھا قانوناً باطل ہوچکا۔
لان الولایۃ العامۃ املک من الولایۃ الخاصۃ فی الدنیا۔
کیونکہ ولایت عامہ دنیا میں ولایت خاصہ سے زیادہ قوی ہے۔(ت)
اسی قیاس پر صدہا صورتیں ہیں ، اور یہیں سے ظاہر ہوا کہ ولایت عرفیہ میں تنفیذ سے مراد تحصیل ثمرات حسیہ دنیویہ ہے اگرچہ احکام شرعیہ حاصل نہ ہوں اور ولایت شرعیہ میں مراد اثبات معانی شرعیہ ودینیہ ہے اگرچہ

موانع صوریہ زائل نہ ہوں۔
Flag Counter